اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ (المدثر) 

اس سے قبل یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ نبی اکرم کی بعثت کی امتیازی شان غلبہ ٔدین حق ہے ‘یعنی اُس دین حق کو بالفعل قائم‘ غالب اور نافذ کرنا جو آپ ؐ دے کر بھیجے گئے ہیں .اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے ایک مکمل انقلابی جدوجہد درکار ہے. چنانچہ آپ کی سیرتِ مطہرہ میں ہمیں وہ تمام مراحل نظر آتے ہیں جو کسی بھی انقلابی جدوجہد میں پیش آنے لازمی ہیں. یہی بات ہے جو سورۃ المدثر میں نہایت سادہ الفاظ میں فرمائی گئی ہے : وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ ’’اور(اے محمد !) اپنے ربّ کی کبریائی کا اعلان کرو (اور اسے بالفعل قائم اور نافذ کرو)‘‘.

اس انقلابی جدوجہد کا پہلا مرحلہ جو ہمیں آپ  کی حیاتِ طیبہ کے مکی دور میں نظر آتا ہے وہ دعوت وتبلیغ ‘تزکیہ اور تنظیم پر مشتمل ہے جہاں تک تنظیم کا تعلق ہے اس کی بنیاد تھی لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد ٌرسول اللہ کی رسالت پر ایمان اور آپؐ کی بے چون و چرا اطاعت اور آپ  سے بہ دل و جان محبت. یہی وہ چیز ہے جس نے آپ پر ایمان لانے والوں کو ایک بنیانِ مرصوص بنا دیا. ایک ایسی طاقت اور ایک ایسی قوت کہ جو حضور کے اشاروں پر حرکت کرتی تھی.آپؐ کے چشم و اَبرو کے اشارے پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے ہر دم آمادہ رہتے تھے.

جہاں تک دعوت یا تبلیغ کا تعلق ہے اُس کے ضمن میں سب سے پہلے تو یہ بات 
پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس کا مرکز و محور‘ اس کا منبع اور اس کا مدار قرآن حکیم ہے. دعوت ہو یا تبلیغ‘ انذار ہو یا تبشیر‘ نصیحت ہو یا موعظت‘ یہاں تک کہ تربیت ہو یا تزکیہ‘ ان سب کی اساس اور بنیاد قرآن مجید پر ہے. یہ بات قرآن حکیم میں چار مقامات پر آئی ہے. نبی اکرم کا جو منہج عمل اور طریق کار ہے اس کی بنیاد ان عناصر چہارگانہ پر ہے: 

یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ (آل عمران:۱۶۴)
’’(یہ رسول ) اُن پر اُس (یعنی اللہ) کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب یعنی احکامِ الٰہی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے.‘‘

اسی حقیقت کو مولانا حالی نے نہایت سادہ الفاظ میں یوں ادا فرمایا: ؎
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ ٔکیمیا ساتھ لایا!

پس یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ اگرچہ اس دعوت کا ہدف اور مقصود‘ تکبیر ربّ یا اعلائے کلمۃ اللہ یا اظہارِ دین حق ہے‘ ازروئے نص قرآنی: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ (الفتح:۲۸
’’وہی (اللہ) ہے جس نے بھیجا اپنا رسول‘ الہدیٰ اور دین حق دے کر تاکہ وہ (رسول) اس کو کل جنس دین پر پورے کا پورا غالب کر دے.‘‘

لیکن اس کا نقطہ آغاز ہے ’’اِنذار‘‘ یعنی خبردار کرنا‘ آگاہ کرنا.وقوعِ قیامت سے خبردار کرنا‘ جزاء و سزا ئے اُخروی سے خبردار کرنا. یہ خبردار 
(warn) کرنا ‘یعنی ’انذار‘ دعوتِ نبوی کا نقطہ آغاز ہے .اور یہ بات جان لینی چاہیے کہ نبی اکرم کے نقش ِقدم پر اگر کبھی کوئی دعوت اٹھانی اور برپا کرنی مقصود ہو تو اُس کا نقطہ آغاز بھی ’انذار‘ ہی ہو گا. پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس دعوت کے ضمن میں ہمیں نبی اکرم کی سیرتِ مطہرہ میں ایک نہایت فطری اور حکیمانہ تدریج نظر آتی ہے. یہ دعوت ’’الأقرب فالأقرب‘‘ کے اصول پر آگے بڑھتی ہے . چنانچہ اس کا آغاز خود آپ کے گھر سے ہوا. آپ پر ایمان لانے والوں میں سب سے پہلے آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہاہیں. اُن کے بعد آپؐ کے چچا زاد بھائی ہیں جو آپؐ کے زیر کفالت بھی ہیں اور زیر تربیت بھی ‘یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ. پھر آپؐ کے انتہائی گہرے دوست ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پھر آپؐ کے وہ غلام ہیں کہ جنہیں آپ نے آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا‘ یعنی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ.یہاں سے دعوت آگے بڑھی کنبے اور قبیلے کی طرف. پھر جب تک کہ آپؐ اہل مکہ سے مایوس نہیں ہوگئے آپؐ نے اپنی پوری دعوتی سرگرمی مکہ تک ہی محدود رکھی. مکہ والوں سے مایوس ہو کر ۱۰ نبوی میں آپؐ نے طائف کا سفر کیا ‘لیکن اہل طائف بھی اسلام کی دعوت سے محروم رہے. 

پھر جب مکہ والوں کی مخالفت کی بنا پر آپؐ کو ہجرت کرنا پڑی تب بھی چھ سال کے عرصہ تک‘ جب تک کہ اہل ِعرب نے صلح حدیبیہ کی شکل میں آپؐ کی حیثیت کو تسلیم نہ کرلیا‘ آپ نے اپنی تمام تر توجہات اندرونِ ملک عرب ہی مرتکز رکھیں. صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے بیرونِ ملک دعوت کا آغاز فرمایا. یہ ہے تدریج جو بالکل فطری اور نہایت حکیمانہ ہے .

آخری بات اس ضمن میں یہ بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ دعوت و تبلیغ کے ضمن میں نبی اکرم نے وہ تمام وسائل اختیار فرمائے جو اُس وقت موجود تھے . چنانچہ جب آپ کو حکم ہوا کہ:

وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ (الشعراء)
’’اور (اے نبی !) خبردار کیجیے اپنے قبیلے اور قرابت داروں کو.‘‘

تو آپ نے دو دفعہ دعوتِ طعام کا اہتمام فرمایا ‘اور وہاں اپنی دعوت پیش کی‘ 
اگرچہ بظاہر احوال اور ہمارے دنیوی معیارات کے اعتبار سے یہ دونوں کوششیں ناکام رہیں. بعد میں جب بذریعہ ٔ ‘ وحی آپ کو یہ حکم ہوا:

فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ… (الحجر:۹۴
’’پس (اے نبی !) آپ علی الاعلان دعوت دیجیے اس بات کی جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے…‘‘

یعنی اب ڈنکے کی چوٹ وہ بات کہیے جس کے لیے آپؐ مامور ہوئے ہیں ‘تو آپؐ نے کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر وہی نعرہ بلند کیا جس کا عرب میں رواج تھا :واصباحا! ’’ہائے وہ صبح جو آنے والی ہے‘‘. جس پر لوگ جمع ہو گئے. اور آپ نے جب انہیں عذابِ آخرت سے خبردار کیا تو آپؐ کا سگا چچاابولہب مجمع میں سے بول اٹھا: 
تَــبًّا لَکَ ‘ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟ معاذ اللہ‘ نقل کفر‘ کفر نباشد. ’’(اے محمدؐ !) تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں ‘کیا تم نے ہمیں اس کام کے لیے جمع کیا تھا؟‘‘ اس پر سورۃ اللہب نازل ہوئی جس کی پہلی آیت ہے: 

تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ﴿۱
’’(اصل میں تو) ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور ہلاک و برباد ہو گیا وہ خود.‘‘

یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہدعوت و تبلیغ کے میدان میں ابتدا تو اگرچہ آنحضور نے خود فرمائی ‘لیکن جو لوگ آپؐ پر ایمان لائے اُن میں سے ہر شخص اپنی جگہ پر ایک داعی ٔ حق بن گیا.ان میں نمایاں ترین مقام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے. آپ پر ایمان لانے کے بعد وہ خود مجسم داعی بن گئے‘ خود مبلغ بن گئے.چنانچہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جو چوٹی کے دس صحابہؓ ہیں ‘جنہیں ہم عشرۂ مبشرہ ّ کے نام سے جانتے ہیں‘ اُن میں سے چھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایمان لائے. اُن میں حضرت عثمان بھی ہیں‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی ہیں‘ حضرت طلحہ بھی ہیں‘ حضرت زبیر بھی ہیں اور حضرت سعد بن ابی وقاص بھی ہیں ‘رضی اللہ تعالیٰ عنہم وارضاھم.دعوت کے اس 
عمل پر جو ردِّعمل کفار کی طرف سے اور سردارانِ قریش کی جانب سے ظاہر ہوا‘ اُس میں بھی ہمیں ایک عجیب ترتیب نظر آتی ہے‘ وہی ترتیب جو ہمیشہ کسی انقلابی دعوت کے خلاف ردِّعمل میں ظاہر ہونی ضروری ہے. چنانچہ فوری ردِّعمل جو ابتدا میں ظاہر ہو ا وہ استہزا اور تمسخر کا تھا. گویا کہ چٹکیوں میں بات اڑانے کی کوشش کی گئی. حضور کو مجنون قرار دیا گیا ‘ آپؐ پر ‘معاذ اللہ‘ پاگل پن کی پھبتی کسی گئی. کہا گیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خلل دماغی کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے‘ یا شاید کسی آسیب کا اثر ہو گیا ہے‘ یہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں ‘اچھے بھلے آدمی تھے نہ معلوم کیا ہوا. (نفل کفر ‘کفر نہ باشد) نبی اکرم جب یہ باتیں سنتے تھے اور آپؐ کے قلب ِمبارک پر رنج و اندوہ کی کیفیت طاری ہوتی تھی تو تسلی و تشفی و دلجوئی کے لیے وحی الٰہی نازل ہوتی تھی:

نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾وَ اِنَّ لَکَ لَاَجۡرًا غَیۡرَ مَمۡنُوۡنٍ ۚ﴿۳﴾وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ﴿۴﴾ (القلم ۱-۴
’’ن . قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں. (اے نبی ) آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں‘ اور یقینا آپ کے لیے نہ ختم ہونے والا اجر ہے. اور بے شک آپ اعلیٰ اخلاق کے مرتبے پر فائز ہیں.‘‘

اس کے بعد جب بات آگے بڑھی ‘ قریش نے یہ دیکھا کہ جسے ہم ایک مشت ِغبار سمجھے تھے وہ تو ایک بہت بڑی آندھی کی صورت اختیار کر رہی ہے. ہمارے اقتدار‘ ہماری سیادت‘ ہماری دیرینہ روایات‘ ہمارے تہذیب و تمدن اور ہمارے عقائد و مذہب کے خلاف ایک بہت بڑی انقلابی جدوجہد کا آغاز ہو چکا ہے‘ گویا انہوں نے دیکھا کہ ؏ 
نظامِ کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے!!‘‘

تو اب پھر وہی ردعمل ظاہر ہوا جو ہمیشہ ظاہر ہوتا ہے‘ یعنی بہیمانہ تشدد. شدید اذیت 
(persecution) اور ظاہر بات ہے کہ اس کا سب سے بڑا حصہ انہی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حصے میں آیا جو کہ غلاموں کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے. جن کا کوئی حمایتی نہیں تھا‘ جن کی طرف سے کوئی بولنے والا نہیں تھا‘جیسے حضرت بلال‘ حضرت خباب بن الارت‘ حضرت سمیہ اور آلِ یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہم. ان سب پر جو کچھ بیتی وہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کے بڑے اَنمٹ نقوش ہیں‘ اور انہوں نے جس طرح صبر و استقامت اورجس پامردی کے ساتھ ان تمام مصائب کو جھیلا ہے اور ایمان پر ثابت قدم رہے ہیں وہ تاریخ دعوت و عزیمت کے نہایت اہم نشاناتِ راہ ہیں. 

جب یہ محسوس کر لیا گیا کہ ہمارے یہ تمام حربے ناکام ہوچکے‘ کسی ایک شخص کو بھی ہم ایمان سے کفر میں نہیں لا سکے‘ ہمارا یہ سارا تشدد ناکام ہو چکا‘ تو پھر تیسرا ردعمل سامنے آیا. چنانچہ تیسرا حربہ آزمایا گیا. یہ حربہ ہے مصالحانہ پیشکشوں کا‘ یہ جال ہے لالچ کا. چنانچہ ابن ربیعہ قریش کی طرف سے نمائندہ بن کر حضور کی خدمت میں آتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے محمد( !) اگر تم بادشاہت کے خواب دیکھ رہے ہو تو اگرچہ ہم اُس مزاج کے نہیں ہیں کہ کسی کو بادشاہ مان سکیں ‘لیکن تمہیں ہم اپنا بادشاہ بھی تسلیم کر لیں گے. اگر تمہیں دولت چاہیے تو ذرا اشارہ کرو‘ قدموں میں دولت کے انبار لگا دیے جائیں گے. کہیں شادی کرنے کی خواہش ہو تو صرف اشارہ کرنے کی ضرورت ہو گی‘جس گھرانے میں کہو تمہاری شادی کرا دی جائے گی‘ لیکن بہرحال تم اس کام سے باز آ جاؤ جس نے قریش کے اندر تفرقہ برپا کر دیا ہے. اس کا جو جواب دیا محمد ٌرسول اللہ نے وہ تاریخ عزیمت میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے فرمایا:
’’اگر تم لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور ایک ہاتھ میں چاند رکھ دو تب بھی میں اُس کام سے باز نہیں آ سکتا جس پر میں اپنے ربّ کی جانب سے مامور ہوا ہوں.‘‘

نتیجہ یہ نکلا کہ وہ وقت بھی آیا کہ آخری الٹی میٹم دیا گیا . ایک وفد ابوطالب کے پاس 
آتا ہے جو حضور کی پشت پناہی کیے چلے جا رہے ہیں اور انہی کی وساطت سے بنو ہاشم کا پورا خاندان گویا نبی اکرم کی پشت پر تھا. قریش کی طرف سے انہیں الٹی میٹم ملتا ہے کہ اے ابوطالب! ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے‘ اب دو ہی راستے ہیں‘ یا محمد( ) کی حمایت سے دست کش ہو جاؤ اوریا پھر میدان میں آؤ اور مقابلہ کرو. یہ وہ وقت ہے جبکہ ابوطالب کی ہمت بھی جواب دے گئی. انہوں نے حضور کو بلایا اور یہ کہا کہ بھتیجے مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ جسے میں برداشت نہ کر سکوں. اور یہی وہ واحد موقع نظر آتا ہے جب حضور کی آنکھوں میں نمی آ گئی . تاہم آپؐ نے بات وہی کہی جو عزیمت کا تقاضا تھا فرمایا:

’’چچا جان! اب یا تو یہ کام پورا ہو کر رہے گا جو میرے ربّ کی طرف سے میرے حوالے کیا گیا ہے‘ اور یا مَیں اسی میں اپنے آپ کو ہلاک کر دوں گا.‘‘

نبی اکرم پر ذاتی اعتبار سے بھی ایذاء و آزمائش کے بہت سے مراحل آئے. آپؐ پر دست درازی بھی ہوئی‘ کا شانۂ مبارک میں راکھ اور غلاظت بھی پھینکی گئی‘ آپؐ کے راستے میں کانٹے بھی بچھائے گئے‘ آپؐ کی گردن میں ایک چادر پھندے کی صورت میں ڈال کر ‘اس کو بل دے کر اُس کے دونوں سروں کو کھینچا گیا کہ آپؐ کی آنکھیں اُبل آئیں. ایسا بھی ہوا کہ آپؐ اپنے خالق کے سامنے عین کعبے کی دیوار کے سائے میں سربسجود تھے اور وہاں عقبہ بن ابی معیط نے ابوجہل کی شہ پر ایک اونٹ کی نجاست بھری اوجھڑی لا کر حضور کے شانۂ مبارک پر رکھ دی .پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب یہ تعدی‘یہ تشدد ‘یہ ظلم و ستم انتہائی شدت کی صورت اختیار کرتا ہے اور پورے خاندان بنی ہاشم کو نبی اکرم کے ساتھ تین سال تک ایک گھاٹی میں محصور ہو کر گویا ایک طرح کی نظربندی کی صورت میں بسر کرنے پڑتے ہیں ‘جس کے دوران شدید ترین مقاطعہ ہے اورکھانے پینے کی کوئی چیز گھاٹی میں داخل نہیں ہونے دی جا رہی.

اس دوران وہ وقت بھی آیا کہ بنی ہاشم کے بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کے حلق میں ڈالنے کے لیے اس کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا کہ چمڑے کے سوکھے جوتوں کو ابال کر اُن کا پانی ٹپکا دیا جائے. لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے ذاتی ابتلا کا ابھی نقطہ عروج باقی تھا جو ۱۰ نبوی میں سامنے آ گیا.اس سال اگرچہ شعب بنی ہاشم کی اس نظربندی سے تو رہائی مل گئی لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان و ابتلاء اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئے کہ ایک ہی سال میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہاکا بھی انتقال ہو گیا اور ابوطالب کا بھی. گھر میں ایک دلجوئی کرنے والی رفیقہ ٔحیات تھی وہ بھی نہ رہی ‘اور خاندان کی پشت پناہی کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ابوطالب تھے وہ بھی اٹھ گئے. یہ وہ سال ہے جسے نبی اکرم ’’عام الحزن‘‘ سے تعبیر فرماتے ہیں. یہ رنج و غم اور اندوہ کا سال ہے.

وآخر دعوانا ان الحمدُ للّٰہ ربّ العالمین