اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 
وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (الانفال:۳۹)

’’اور ان (کافروں) سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے.‘‘
دار الہجرت یعنی مدینہ منورہ میں نبی اکرم کے ورودِ مسعود کی تاریخ ۸؍ربیع الاول سن ۱۳نبوی ہے‘ جو سن عیسوی کے مطابق ۲۰؍ستمبر۶۲۲ ء قرار پاتی ہے. یہ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے کہ ہجرت کے نتیجے میں نبی اکرم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کوئی گوشۂ عافیت میسر آ گیا تھا. واقعہ اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ ہجرت کے بعد سے نبی اکرم کی جدوجہد شدید تر مراحل میں داخل ہوئی. آپ کی حیاتِ طیبہ کے (ہجرت کے بعد کے) دس سال میں ایک بھرپور ‘ہمہ جہتی اور مکمل انقلابی جدوجہد اپنے تمام اطراف و جوانب اور تقاضوں کے ساتھ نظر آتی ہے. چنانچہ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد آپ کی جدوجہد کے تین اہم گوشے ہماری نگاہوں کے سامنے آتے ہیں.
سب سے پہلے یہ کہ آپ کا مثبت کام جو قرآن حکیم کی اس آیت میں واضح کیا گیا کہ: 

یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ 
اس کے حدود وسیع تر ہو گئے.چنانچہ ایک جانب ایک آزاد مسلمان معاشرہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرما دیا اس کی تطہیر افکار اور تعمیر کردار کا فریضہ ٔمنصبی ہے جو بجائے خود ایک سخت مشکل اور صبر آزما کام ہے. دوسری طرف آپؐ کی دعوت و تبلیغ کی حدود کی توسیع ہے جس کے نتیجے میں ایک نئی ضرورت سامنے آئی کہ ایسے لوگوں کی ایک جماعت تیار کی جائے جو نبی اکرم کی صحبت سے اس درجے فیض یافتہ ہوں اور تعلیم وتربیت ِنبویؐ سے اس درجہ حصہ پا چکے ہوں کہ پھر انہیں عرب کے اطراف و جوانب میں پیغامِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی نشر واشاعت کے لیے بھیجا جا سکے. چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کاموں کے لیے حضور نے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی سب سے پہلے قبا میں مسجد تعمیر فرمائی اور پھر مدینہ کے مرکز میں مسجد نبویؐ کی تعمیر کا آغاز فرمایا. یہ گویا عملی تفسیر ہے اس آیۂ مبارکہ کی جو سورۃ الحج میں اذنِ قتال والی آیت کے فوراً بعد آتی ہے کہ:

اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ (الحج:۴۱)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے ‘ زکو ٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے.‘‘

گویا یہ وہ فرضِ منصبی ہے کہ جس کی جانب محمد ٌرسول اللہ ہمہ تن متوجہ ہو گئے. 
دوسری جانب مدینہ منورہ میں جو ایک آزاد مسلمان حکومت قائم ہوئی جوابتداء ً تو ایک چھوٹی سی شہری ریاست تھی ‘لیکن جسے حضور کی حیاتِ طیبہ ہی کے دوران عرب کے اطراف و جوانب تک وسیع ہونا تھا اور جسے آئندہ ایک اسلامی ریاست کے لیے پیش خیمہ اور نمونہ بننا تھا ‘ اس کے ضمن میں واقعہ یہ ہے کہ نبی اکرم کے تدبر اور حسن تدبیر‘ معاملہ فہمی‘ پیش بینی اور آپؐ کے حسن انتظام کے جو مظاہر سامنے آتے ہیں‘ آنجناب کے تمام سیرت نگار خواہ وہ آپؐ کے ماننے والے ہوں یا آپؐ کی رسالت کے منکر ہوں اور یہ انکار دشمنی کی حدود تک پہنچ گیا ہو‘ سب نے اس کا اعتراف کیا ہے اور کھلے دل کے ساتھ کیا ہے.چنانچہ منٹگمری واٹ نبی اکرم کے حسن تدبیر کو جن شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین ادا کرتا ہے شاید ہی 
نسل آدم کے کسی اور شخص کے لیے ان الفاظ کو استعمال کیا گیا ہو. اس ضمن میں نبی اکرم نے کمال حسن ِتدبیر سے کام لیتے ہوئے سب سے پہلے یہود کے تینوں قبیلوں سے معاہدے کر لیے اور انہیں اس قول و قرار میں جکڑ لیا جس کی بنا پر وہ کبھی بھی نبی اکرم کی مخالفت سامنے آ کر نہ کر سکے.
ایک دوسرا عنصر جو مدینہ منورہ کی چھوٹی سی اسلامی ریاست اور چھوٹے سے اسلامی معاشرے میں یہود کے زیر اثر پروان چڑھ رہا تھا‘ وہ منافقین کا گروہ تھا‘جوریشہ دوانیوں میں مصروف رہتا. یہ مارِ آستین تھے جو اندر سے حملے کرتے تھے. نبی اکرم ایک طرف اپنے مثبت کام میں مصروف ہیں جو دعوت اور تعلیم و تزکیہ کا کام ہے‘دوسری طرف مدینہ ہی کے اندر یہود اور منافقین کی سازشوں سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں‘ اور تیسری طرف ہے آپ کا اصل محاذ جس کی جانب ارشاد ہوا سورۃ الانفال کی اس آیۂ مبارکہ میں: 

وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (آیت۳۹

جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کے دین کو عملاً نافذ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اب آنحضرت کی جانب سے بھی اقدام ہو. قتال کا مرحلہ شروع ہو رہا ہے‘ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش حملہ آور ہوتے ہیں اور ۲ھ میں ایک ہزار کا لشکر جرار آتا ہے. نبی اکرم مجلس مشاورت منعقد فرماتے ہیں کہ ایک طرف تو شام سے قافلہ آ رہا ہے جو مالِ تجارت سے لدا پھندا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے صرف ڈیڑھ سو اشخاص ہیں‘ دوسری طرف ایک لشکر ہے جو مکہ سے چلا آرہا ہے‘ اب لوگو مشورہ دو ہمیں کدھر کا قصد کرنا چاہیے! یہ اصل میں آپؐ نے ایک انتہائی ماہر سپہ سالار کی حیثیت سے اپنے ساتھیوں کے حوصلے (morale) کا اندازہ کرنے کی تدبیر فرمائی تھی.

بعض حضرات نے بربنائے طبع بشری اس خیال کا اظہار کیا کہ ہمیں پہلے قافلے کا رخ اختیار کرنا چاہیے ‘لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے وہ لوگ جو نبی اکرم کے مزاج شناس تھے انہوں نے یہ بھانپ لیا کہ حضور کا قصد کدھر ہے. چنانچہ جان نثاروں کی تقریریں ہوئیں. حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضورؐ ! ہمیں آپ اصحابِ موسٰی ؑ پر قیاس نہ فرمائیں جنہوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو کورا جواب دے دیا تھا کہ:

فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (المائدۃ)
’’پس آپ اور آپ کا رب جا کر جنگ کریں‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.‘‘

آپؐ اللہ کا نام لے کر جدھر بھی آپؐ کا قصد ہو ارشاد فرمائیں‘کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے ذریعے سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمادے. حضور کو خاص طو رپر انصار کی طرف سے رائے کا انتظار تھا. چنانچہ اس کو بھانپ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رئیس خزرج کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ حضور ! اِنَّا آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ ہم آپؐ پر ایمان لا چکے ہیں‘ہم نے آپؐ کی تصدیق کی ہے‘ اب ہمارے لیے کون سا اختیار رہ گیاہے! آپ کا جدھر کا بھی ارادہ ہو بسم اللہ کیجیے‘ اگر آپ ؐ برک الغماد تک جانے کا حکم دیں تو ہم جائیں گے اور ان شاء اللہ اس سے گریز نہ کریں گے. آپؐ ہمیں سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے فرمائیں تو ہم دریغ نہیں کریں گے. یہ تھے جاں نثارانِ محمد ‘ رضوان اللہ علیہم اجمعین.

بدر کے میدان میں جنگ ہوئی. ایک جانب ۳۱۳ افراد پر مشتمل بے سروسامان اسلامی لشکر تھا جس کے ساتھ صرف دو گھوڑوں پر مشتمل رسالہ تھا اور دوسری جانب ایک ہزار کا غرق آہن لشکر جرارتھا . لیکن اللہ نے لشکر اسلام کو فتح عطا فرمائی اور اس دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ بنا دیا. یعنی یہ فیصلے کا دن ہے! آج معلوم ہو گیا کہ صداقت کس کے ساتھ ہے‘ اللہ کی حمایت کسے حاصل ہے! لیکن یہ فتح جو بدر میں اللہ نے عطا فرمائی اگلے ہی سال ایک دوسرے امتحان کی تمہید بن گئی. ۳ھ میں قریش نے پھر حملہ کیا. اس مرتبہ تین ہزا رکا لشکر جرارآیا اور اس 
بار مسلمانوں کو اپنی جماعت کے متعلق پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اس میں سب ہی مؤمنین صادقین نہیں ہیں ‘بلکہ مارِ آستین بھی اب ایک اچھی خاصی تعداد میں شامل ہو چکے ہیں جنہیں منافقین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘جنہوں نے بروقت دغا دی اور عبداللہ بن اُبی کل ایک ہزار کے لشکر میں سے ۳۰۰ اشخاص کو لے کر واپس مدینے لوٹ گیا. یہ جنگ جو دامن اُحد میں لڑی گئی اللہ تعالیٰ نے اس کو اہل ایمان کے لیے ابتلاء و آزمائش اور اُن کی تربیت اور تزکیہ کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنا دیا. اس میں مسلمانوں کو اپنی ایک غلطی کی وجہ سے ابتداء ً کسی قدر شکست سے بھی دوچار ہونا پڑا‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے کمالِ فضل سے بالآخر مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی. 

دو سال بعد غزوۂ احزاب ہوتا ہے ‘جو غزوۂ خندق بھی کہلاتا ہے. اب بارہ ہزار کا لشکر جرار مدینہ منورہ پر حملہ آور ہے. بعض روایات میں تعداد اس سے بھی زائد آئی ہے. محاصرہ ہے. حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے حضور نے محصور ہو کر اور خندق کھود کر دفاع کرنے کی تجویز پر عمل کیا. یہ غزوہ اہل ایمان کے لیے بہت بڑا امتحان ثابت ہوا . اگرچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کفار کے لشکر کی صورت میں جو آندھیاں آئی تھیں وہ اللہ کی بھیجی ہوئی آندھیوں سے ختم بھی ہو گئیں‘ لیکن اس کے دوران اہل ایمان کا پورا امتحان ہو گیا اور اہل نفاق کا نفاق بھی پورے طو رپر عیاں اور ظاہر ہو گیا. غزوۂ خندق میں جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی تو حضور نے جن کا دست راست حالات کی نبض پر تھا‘ مسلمانوں کو یہ خبر دی تھی کہ یہ آخری بار ہے کہ قریش تم پر چڑھ آئے تھے . فرمایا:

لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِکُمْ ھٰذَا وَلٰـکِنَّـکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ
’’اس سال کے بعد قریش تم پر ہرگز حملہ آور نہیں ہوں گے‘ بلکہ تم ان پر حملہ آور ہو گے.‘‘

اب اقدام (initiative) تمہارے ہاتھوں ہو گا‘اب پیش قدمی تم کرو گے. چنانچہ ۶ھ میں اپنے ایک خواب سے بشارت پا کر‘ اور یہ معلوم رہے کہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے‘ نبی اکرم نے عمرے کی نیت سے مکہ مکرمہ کا سفر کیا جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ منعقد ہوئی. اگرچہ اُس سال حضور عمرہ نہ کر سکے‘ وہ دوسرے سال ہوا‘ لیکن اس صلح حدیبیہ کو اللہ تعالیٰ نے فتح عظیم قرار دیا: 
اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ (الفتح) 

حدیبیہ میں بظاہر احوال آنحضور نے کچھ دب کر صلح کی تھی‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ حضور کے تدبر کا شاہکار ہے جس کی توثیق وحی ٔ آسمانی نے کی کہ یہ فتح مبین ہے. اس لیے کہ اس کے بعد حضور کو دوسال کا عرصہ ایسا ملا کہ جس میں گویا قریش کے ہاتھ بندھ گئے تھے. اب میدان میں کوئی مزاحمت نہ تھی. ایک طرف تو اس صلح نے پورے عرب کے سامنے یہ بات روشن کر دی کہ قریش نے محمد اور اُن کے ساتھیوں کو تسلیم کر لیا ہے. یہ ایک طرح کی recognition تھی. گویا مان لیا گیا تھا کہ اب آنحضور اور مسلمان ایک طاقت ہیں (They are a power to reckon with) اب اُن کوتسلیم کرنا پڑے گا. چنانچہ پورے عرب میں آنحضور کی دھاک بیٹھ گئی. دوسرے قریش کے ہاتھ بندھ گئے اور حضور کے ہاتھ پوری طرح کھل گئے. آپؐ کا دعوتی اور تبلیغی سلسلہ پورے دوسال کے دوران اپنے عروج پر پہنچ گیا. اصحابِ صفہ کی وہ جماعت جو تعلیم و تربیت ِ نبویؐ سے تیار ہو رہی تھی اُس کو بکثرت وفود کی شکل میں تبلیغ کے لیے عرب کے کونے کونے میں بھیجا گیا. نتیجہ یہ ہوا کہ دعوتِ محمدی ؐ جنگل کی آگ کی طرح پورے عرب میں پھیل گئی. 

اس صورتِ حال کو دیکھ کر اور کچھ قریش نے خود اپنی غلطی کو محسوس کرتے ہوئے ایک عاجلانہ اقدام کے ذریعے صلح کو ختم کر دیا. اس کے بعد اُن کے مدبر رہنما ابوسفیان جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے‘ انہوں نے حالات کے رخ کو پہچان کر پوری کوشش کی کہ اس صلح کی تجدید ہو جائے‘ لیکن نبی اکرم کا دست ِمبارک جس طرح حالات کی نبض کو ٹٹول رہا تھا‘ اُس سے یہ بات آپؐ کے سامنے بالکل عیاں تھی کہ اب کسی صلح کا دوبارہ کرنا گویا کفر اور شرک کو ایک تازہ مہلت ِزندگی (fresh lease of existence) دینا ہے. لہذا آپؐ نے صلح کی اس کوشش کو قبول نہیں فرمایا اور آپؐ نے ۸ھ میں دس ہزار جان نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی معیت میں مکہ کی طرف پیش قدمی کی اور اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کو ایک فاتح کی حیثیت سے اُس شہر میں کل آٹھ سال کے اندر اندر داخل کردیا جہاں سے آٹھ سال قبل آنحضور اپنی جان بمشکل بچا کر نکل سکے تھے. ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ 

فتح مکہ کے فوراً بعد طائف کے قبائل کی طرف سے ایک آخری کوشش ہوئی. اس کو یہ سمجھاجانا چاہیے کہ عرب میں کفر اور شرک کی طرف سے یہ آخری ہچکی تھی. غزوۂ حنین کی شکل میں یہ مقابلہ ہوا. ابتداء ً وہاں مسلمانوں کو اپنی کثرتِ تعداد کے پیش نظر جو کچھ زعم ہو گیا تھا اُس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں کچھ سبق پڑھانے کے لیے شکست سے دوچار کیا ‘ لیکن بالآخر نبی اکرم کی شجاعت نے رخ پھیر دیا جو اُس وقت انتہائی شان کے ساتھ اس طرح ظاہر ہوئی کہ آپؐ اپنی سواری سے اترے‘ آپؐ نے َعلم اپنے ہاتھ میں لیا اور یہ رجز پڑھا:

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبَ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ
اللہ تعالیٰ نے پھر فتح عطا فرمائی . یہ پورے جزیرہ نمائے عرب پر نبی اکرم کی فیصلہ کن فتح تھی.چنانچہ یہی ہے وہ عمل کہ جس کے نتیجے میں اظہارِ دین حق جزیرہ نمائے عرب کی حد تک پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور محمد ٌرسول اللہ کی بعثت کا مقصد ملک عرب کی حد تک مکمل ہو گیا.

فَصَلَّی اللّٰہُ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلَّمَ تسلیماً کثیرًا کثیرًاoo