اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا… (سبا:۲۸)

خاتم النبیین اور آخر المرسلین ہونے کی حیثیت سے آنحضور پر نبوت و رسالت کا صرف اختتام ہی نہیں ہوا بلکہ اتمام و اِکمال بھی ہوا ہے. نبی اکرم دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث ہوئے. ایک بعثت خصوصی اہل ِعرب کی جانب اور ایک بعثت ِعمومی پوری نوعِ انسانی کی طرف .اگرچہ نظری طور پر تو یہ بھی ممکن تھا کہ آنحضور اپنی ان دونوں بعثتوں کے ضمن میں اپنے فرائض ِمنصبی کی ادائیگی کا آغاز بیک وقت فرما دیتے‘ یعنی جیسے ہی آپ نے مکہ مکرمہ میں اپنی رسالت کا دعویٰ ظاہر فرمایا اُسی وقت آپؐ امراء و سلاطین کے نام بھی خطوط ارسال فرما دیتے ‘لیکن آپؐنے اپنی دعوت و تبلیغ میں جس حکمت اور جس تدریج کو پیش نظر رکھا اُس کا یہ نتیجہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ ۶ ھ تک جبکہ صلح حدیبیہ واقع ہوئی اور گویا اہل عرب نے نبی اکرم کی قوت کو تسلیم کر لیا‘ آنحضور نے اپنی تمام تر توجہات اندرونِ ملک عرب مرتکز رکھیں اور بیرونِ ملک ِ عرب اپنی کسی دعوتی کوشش کا آغاز نہیں فرمایا. البتہ صلح حدیبیہ کے بعد آپؐ نے دعوتی نامہ ہائے مبارک ارسال فرمائے قیصر روم کے نام بھی‘ کسریٰ فارس کے نام بھی اور آس پاس کی دوسری چھوٹی حکومتوں جیسے مقوقس شاہِ مصر‘ نجاشی شاہِ حبشہ‘ رؤسائے یمامہ اور رؤسائے شام کے نام بھی. 

یہ بات واضح رہے کہ روم اور فارس کو اُس وقت کی دو سپر پاورز کی حیثیت 
حاصل تھی آنحضور کی اصل اہم سفارتیں انہی دو سلطنتوں کی طرف ارسال ہوئیں. حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ قیصر روم کے دربار میں اور حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کسریٰ کے دربار میں بھیجے گئے .قیصر اور کسریٰ کا طرزِ عمل ایک دوسرے سے بالکل متضاد سامنے آیا. قیصر عیسائی تھا‘ صاحب علم تھا ‘وہ جانتا تھا کہ نبی آخر الزماں کے ظہور کاو قت قریب ہے. اُس نے نامۂ مبارک کی بھی قدر کی اور آپ کے سفیر کی بھی عزت افزائی کی. بلکہ ہمیں تاریخ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایک بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح پوری سلطنت اُسی طرح اسلام کو قبول کر لے جیسے ماضی میں پوری سلطنت روما نے عیسائیت کو اختیار کیا تھا‘ تاکہ اُس کی بادشاہت اور حکومت کو کوئی گزند نہ پہنچے‘ لیکن افسوس وہ اس میں ناکام رہا اور یہی بادشاہت ‘ سیادت اور دنیوی اقتدار اُس کے پاؤ ں کی بیڑی ثابت ہوا اور وہ دولت ِایمان سے محروم رہ گیا. اس کے برعکس رویہ سامنے آیا کسریٰ کا‘ اُس نے نامۂ مبارک چاک کر دیا اور نہایت غیظ و غضب کے َعالم میں اپنے یمن کے گورنر بازان کو یہ حکم بھیجا کہ محمد( ) کو گرفتار کر کے ہمارے دربار میں پیش کیا جائے. حضور نے اس پر تبصرہ فرمایاکہ :’’ کسریٰ نے میر ا خط چاک نہیں کیا بلکہ اپنی سلطنت کے پرزے کر دیے ہیں‘‘. چنانچہ خلافت راشدہ کے دور میں یہ پیشین گوئی فی الواقع پوری ہوئی. اسی طرح مقوقس شاہِ مصر کی طرف سے بھی ہرقل قیصر روم ہی کاسا طرزِ عمل سامنے آیا‘ بلکہ اُس نے حضور کے نامۂ مبارک کی تکریم بھی کی اور حضور کی خدمت میں ہدایا بھی ارسال کیے. نجاشی والی ٔ حبشہ پہلے ہی ایمان لا چکے تھے. الغرض اس طرح نبی اکرم کی دعوت و تبلیغ کا دائرہ ملک سے نکل کر اطراف و جوانب کی طرف وسعت اختیار کر گیا.

اسی ضمن میں یہ واقعہ پیش آ گیا کہ رؤسائے شام میں سے ایک شخص شرحبیل بن عمرو غسانی نے نبی اکرم کے سفیر حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا. یہ تھا وہ واقعہ جس کے نتیجے میں قصاص کے لیے نبی اکرم نے ایک جیش 
روانہ فرمایا اور یہی بات تمہید ہو گئی سلطنت روما کے ساتھ ایک مسلح تصادم کی. چنانچہ نبی اکرم نے تین ہزار کا ایک لشکرحضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں اس قتل کے قصاص کے لیے روانہ کیا‘ ادھر سے شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر چلا. جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے مجلس مشاورت منعقد کی. تین ہزاراور ایک لاکھ کے مابین ظاہر ہے کہ کسی مقابلے کا کوئی سوال نہیں تھا! لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس بات کو سامنے رکھا کہ ہم تو اصل میں شہادت کے طلب گار ہیں ‘ہمارے لیے فتح یا شکست بے معنی ہے‘ ہمیں تو جامِ شہادت نوش کرنا ہے. چنانچہ موتہ کے مقام پر مقابلہ ہوا. حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے. حضورکے حکم کے مطابق اُن کے بعد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے عَلم سنبھالا. وہ بھی شہید ہوئے اور اُن کے جسم پر زخموں کو گنا گیا تو ۹۰ زخم تھے. اُن کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عَلم سنبھالا ‘وہ بھی شہید ہوئے. ان کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی جنہیں حضور نے اس معرکے میں صحابہؓ ‘کو کامیابی سے دشمن کے نرغے سے بچا لانے پر سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہ کا خطاب عطا فرمایا.اگرچہ مقابلہ تو بہرحال نہیں ہو سکتا تھا اور عام معنی میں فتح حاصل ہونی عقلاً محال تھی ‘لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کمالِ تدبیر کے ساتھ اپنے لشکر کو غنیم کے نرغے سے نکال لیا اور واپس تشریف لے آئے. جنگ موتہ جو جمادی الاولیٰ۸ھ میں ہوئی ‘یہ گویا نبی اکرم کی قائم کردہ اسلامی ریاست کا وقت کی ایک عظیم مملکت ’سلطنت روما‘ کے ساتھ پہلا مسلح تصادم تھا.

اس کے بعد کچھ خبریں ملنی شروع ہوئیں کہ رومی فوجیں جمع کر رہے ہیں اور حملے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ غسان کے تمام قبائل مجتمع ہو کر مدینہ منورہ کی طرف پیش قدمی کے نقشے بنا رہے ہیں‘ تو نبی اکرم نے خود اپنی طر ف سے اقدام فرمانے کے لیے تمام مسلمانوںمیں ایک نفیر عام کا اعلان کروا دیا. یہ وقت بڑا ہی نازک تھا. سلطنت روما کے ساتھ ٹکراؤ کا آغاز ہو چکا تھا. وہ سلطنت کہ جس کے پاس لاکھوں کی standing armies موجود تھیں‘جن کی فوجیں پوری طرح تربیت یافتہ اور قواعد حرب سے پورے طور پر آگاہ اور ہر طرح کے اسلحہ سے پورے طور پر مسلح تھیں ‘ اُن کے ساتھ مسلح تصادم کا مرحلہ درپیش تھا. چنانچہ نفیر عام ہوئی کہ ہر صاحب ایمان کو اس معرکے میں شرکت کے لیے نکلنا ضروری ہے. حضور کی حیاتِ طیبہ میں صرف اسی ایک موقع پر نفیر عام ہوئی ہے جسے غزوۂ تبوک یا سفر تبوک کا نام دیا گیا ہے جو ۹ھ میں پیش آیا. یہ وہ وقت ہے جب کہ شدید گرمی کا موسم تھا‘ایک طویل مسافت طے کرنی تھی‘ سلطنت روما سے ٹکراؤ تھا‘ قحط کی کیفیت تھی‘ اجناس کی کمی تھی‘ رسد ساتھ لے جانے کے لیے موجود نہ تھی. اُس وقت اہل ِ نفاق کا نفاق پوری طرح نمایاں ہو کر سامنے آیا. چنانچہ سورۃ التوبۃ میں جہاں اس وقت کے حالات پر بڑا بھرپور تبصرہ ہے‘ منافقین کی طرف سے اس ضمن میں جوجو کچھ کہا گیا اس کا پورا ذکر موجود ہے. 

الغرض اہل ایمان نے پورے صبر اور ثبات کے ساتھ نبی اکرم کی پکار پر لبیک کہا. تیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا لشکر لے کر نبی اکرم نے تبوک کی طرف کوچ کیا جس میں دس ہزار کا رسالہ بھی شامل تھا. حضور سرحد شام پر پہنچ کر تبوک کے مقام پر قیام پذیر ہوئے اور بیس دن تک وہاں قیام فرما رہے. ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہرقل قیصر ِ روم نے مقابلے سے پہلوتہی اختیار کی ‘اور اُس کا سبب بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ صاحب ِ علم تھا اور حضرت مسیح علیہ السلام کا نام لیوا‘ آسمانی کتابوں کو جاننے والا تھا. وہ پہچان چکا تھا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں. چنانچہ یہ بات اس کے سامنے بالکل واضح تھی کہ اللہ و رسول( ) سے مقابلے کرنے کے معنی یقینی شکست کے ہیں‘ لہذا وہ پہلوتہی کرتا رہا‘ طرح دیتا رہا‘ مقابلے میں نہ آیا‘ حالانکہ اُس کے پاس لاکھوں کی تعداد میں مسلح فوج موجود تھی. 

تبوک میں بیس دن قیام کے دوران آس پاس کے قبائل کے سردار اور رئیس آ کر حضور کے ساتھ اطاعت کا عہد و پیمان کرتے رہے. اس طرح عرب کی جو ایک اسلامی ریاست قائم ہوئی اسے جزیرۂ نمائے عرب میں پورا استحکام حاصل ہو گیا‘ اس کا رعب پورے عرب پر چھا گیا اوراس کی دھاک اطراف و جوانب پر بیٹھ گئی اور نبی اکرم  بغیر کسی مسلح تصادم کے مدینہ تشریف لے آئے.

اس کے بعد اپنے مرضِ وفات میں نبی اکرم نے پھر ایک جیش تیار کر رکھا تھا جس کی سرکردگی حضرت زیدؓ بن حارثہ کے فرزند حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہماکو دی گئی تھی. یہ ہے درحقیقت تمہید اُس تصادم کی جس کا آغاز نبی اکرم کی حیاتِ دنیوی کے آخری دور میں وقت کی دو عظیم ترین سلطنتوں کے ساتھ ہو گیا تھا اور یہی بعد میں خلافت راشدہ کے دوران اسلامی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا.

۹ھ میں نبی اکرم نے حج کے موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج کی حیثیت سے متعین فرما کر روانہ کیا. لیکن جبکہ حضرت ابوبکر ؓ روانہ ہو چکے تھے‘ سورۃ التوبۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور حضور کو حکم دے دیا گیا کہ اعلانِ عام کر دیا جائے اس حج کے موقع پر تمام مشرکین کے لیے کہ عرب کے تمام وہ لوگ جو شرک پر کاربند رہنا چاہیں‘ وہ کان کھول کر سن لیں کہ اب ان کے ساتھ اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے کوئی معاہدہ نہیں ہے اور ان سے کامل براء ت ہے: 

بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾فَسِیۡحُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُخۡزِی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲﴾وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیۡٓءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ۬ۙ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ (التوبۃ)

اعلانِ براء ت ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے. پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو ‘اور یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے. اعلانِ عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری ٔالذمہ ہے اور اس کا رسول بھی.‘‘

اب اُن کو آخری الٹی میٹم دیا جا رہا ہے کہ چار مہینوں کی مدت کے ختم ہونے کے فوراً بعد اُن کے خلاف عام اقدام شروع کر دیا جائے گا . اب یا وہ اسلام قبول کرلیں اور اگر کفر اور شرک پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو جزیرہ نمائے عرب کو خیرباد کہہ کر جہاں سینگ سمائیں چلے جائیں.

نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ اعلانِ عام کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور ۹ھ کے حج کے موقع پر یہ اعلانِ عام ان قبائل کے وفود کے سامنے کر دیا گیا جو حج کے لیے آئے ہوئے تھے.

۱۰ ھ میں اب محمدرسول اللہ حجۃ الوداع کے لیے بنفس ِنفیس تشریف لے جاتے ہیں.معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حج کے موقع پر عرب کے کونے کونے سے سوا لاکھ کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جمع ہوئے. گویا محمد رسول اللہ کی تئیس برس کی محنت شاقہ کا حاصل میدانِ عرفات میں جمع ہو گیا. اس موقع پر حضور نے عرفات میں بھی خطبہ دیااور منیٰ میں بھی خطبے ارشا د فرمائے .اور ان ہی خطبات کو یکجا کر کے خطبۂ حجۃ الوداع کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے .اس میں ایک جانب تو حضور نے ابتدا ہی میں اپنے وصال کی خبر دے دی کہ:

’’لوگو! شاید کہ دوبارہ اس مقام پر ملنا نصیب نہ ہو!‘‘
اُس کے بعد آپ نے اپنی تعلیمات کو 
finishing touches دیے اور اہم چیزوں کا دوبارہ اعادہ کیا. اسی کے ضمن میں آپؐ نے فرمایا:

’’پوری نوعِ انسانی سماجی اعتبار سے بالکل برابر ہے. کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی فضیلت نہیں. کسی عربی کوکسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر‘ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں.‘‘ 
یہ ہے وہ چیز جس کا بالخصوص ذکر کرتا ہے ایچ جی ویلز اور اعتراف کرتا ہے کہ یہ اصول جو محمد ِعربی( ) نے بیان فرمایا‘ یہ محض ایک وعظ نہیں تھا‘ واقعتا محمد( ) نے ان ہی اصولوں پر ایک معاشرہ بالفعل قائم کر دیا .
خطبے کے آخر میں اب حضور نے لوگوں سے ایک سوال کیا:

اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ 
’’لوگو! میں نے پہنچادیا یا نہیں؟‘‘

اور مجمع عام نے بیک زبان یہ جواب دیا: 

اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ 
’’ہاں حضورؐ ! ہم گواہ ہیں کہ آپ نے حق تبلیغ ادا کر دیا‘ حق امانت ادا کر دیا‘ حق نصیحت ادا کر دیا.‘‘

حضور نے تین مرتبہ سوال کیا اور تین ہی مرتبہ پورے مجمع نے یہی جواب دیا. اس کے بعد آپ نے تین مرتبہ انگشت شہادت سے پہلے آسمان کی طرف اور پھر لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:

اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ، اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ، اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ 
’’اے اللہ تو بھی گواہ رہ‘ اے اللہ تو بھی گواہ رہ‘ اے اللہ تو بھی گواہ رہ!‘‘

یہ گویا عملی تفسیر ہے سورۃ الفتح کی اس آیت کے آخری حصہ کی کہ:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸
’’وہ (اللہ) ہی ہے جس نے اپنے رسول( ) کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘تاکہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے ‘اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے.‘‘

اس کے بعد آپ نے آخری بات فرمائی کہ مسلمانو! میرا کام ابھی مکمل نہیں ہوا بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

پورے عالم انسانیت تک اس پیغام کو پہنچانا اب تمہارے ذمے ہے:

فَلْیُبَـلِّـغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ 
’’اب چاہیے کہ پہنچائیں وہ جو یہاں موجود ہیں ان کو جو یہاں موجود نہیں ہیں.‘‘ 

فَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا