اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ٪﴿۳﴾ (النصر)
ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ نبی اکرم کی حیاتِ دُنیوی کے آخری چار سال کے دوران ‘یعنی صلح حدیبیہ کے بعد آنحضور کی جدوجہد نے واضح طو رپر دو رخ اختیار کرلیے یعنی ایک طرف آپ کی بعثت ِخصوصی ’’اِلٰی اَہْلِ الْعَرَبِ‘‘ کے مقاصد کی تکمیل کے ضمن میں پورے جزیرہ نمائے عرب پر اللہ کے دین کا بالفعل قیام اور نفاذ اور دوسری طرف آپ کی بعثت ِعمومی ’’اِلٰی کَافَّـۃِ النَّاسِ‘‘ کے مقاصد کی تکمیل کے ضمن میں پیغامِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی تمام اقوام و ملل ِعالم کو تبلیغ اور پورے کرۂ ارضی پر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے سعی و جہد کا آغاز.

حجۃ الوداع کو اس ضمن میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے. اس موقع پر ایک طرف یہ بات بالکل ظاہر ہو گئی کہ اب پورے جزیرہ نمائے عرب پر اللہ کا دین فیصلہ کن طور پر غالب ہو چکا ہے اور دوسری جانب نبی اکرم نے اپنی بعثت ِعامہ کے فرائض کی تکمیل کے لیے ساری ذمہ داری اُمت کے حوالے فرما دی یہ حکم دے کر کہ: فَلْیُبَـلِّـغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (متفق علیہ)

’’اب پہنچائیں اس پیغام کو وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں اُن سب لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں.‘‘

حجۃ الوداع سے واپسی کے فوراً بعد ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نبی اکرم کی روحِ مبارک اس عالم ِناسوت میں مزید قیام کے لیے بالکل تیار نہ ہو اور اُس پر رفیق اعلیٰ کی جانب مراجعت کا جذبہ شد ت سے غالب آ چکا ہو. چنانچہ حج کے بعد آپ کی حیاتِ دُنیوی کے کل اسّی (۸۰) یا نوے (۹۰) دن ہیں. اس لیے کہ مختلف روایات کی رو سے ۱۸یا ۱۹ یا ۲۸ یا ۲۹ صفر المظفر ۱۳ھ کو نبی اکرم کے مرضِ وفات کا آغاز ہو گیا اور ۲ یا ۳‘ یا ۱۲ یا ۱۳ ربیع الاول کو نبی اکرم کی روحِ مبارک نے آپؐ کے جسد عنصری سے پرواز کر لی. آخری ایام میں بالکل ایسے محسوس ہوتا تھا کہ آپؐ پر اب اس دنیا میں جو بھی لمحہ گزر رہا ہے‘ بڑا شاق گزر رہا ہے. چنانچہ اپنے مرضِ وفات کے دوران آپ نے خطبہ بھی ارشاد فرمایا .جب ذرا افاقہ ہوا اور آپؐ اپنے حجرے سے برآمد ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپؐ کے حکم کے مطابق امامت فرما رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اُن کی امامت میں نماز ادا فرما رہے تھے. حضور تشریف لائے ‘حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنا چاہا ‘لیکن حضور نے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ نماز جاری رکھیں ‘اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد آپؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا:

’’اللہ نے اپنے ایک بندے کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا کی نعمتیں قبول کرلے اور چاہے تو جو کچھ اُس کے پاس ہے ‘یعنی عالم اُخروی کی نعمتیں ‘انہیں اختیار کر لے ‘تو بندے نے جو کچھ رب کے پاس ہے‘ اسے قبول کر لیا.‘‘

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ سن کر رو پڑے. اس لیے کہ انہیں اندازہ ہو گیا کہ درحقیقت نبی اکرم یہ خو داپنی بات فرما رہے ہیں اور آپؐ نے ہم سے جدائی اور رفیق اعلیٰ کی طرف مراجعت کا فیصلہ کر لیا ہے. نبی اکرم کا وصال یقینا اُمت مسلمہ کے لیے اور بالخصوص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے لیے ایک انتہائی رنج و غم‘ اندوہ اور صدمے کی بات تھی ‘لیکن ظاہر ہے کہ نبی اکرم جو مشن اُمت کے حوالے کر کے گئے تھے اس کی تکمیل نہایت اہمیت کی حامل تھی. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضور نے جو نظم جماعت قائم فرمایا تھا‘ اب اس کا ظہور ہوتا ہے. وہ کتنا پختہ نظم جماعت تھا کہ فوراً ہی مشوروں سے تمام مراحل طے پا گئے اور نبی اکرم نے جنہیں نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھایا تھا اور جنہوں نے حضور کی حیات کے دوران امام بن کر مسلمانوں کو ۱۷ نمازیں پڑھائی تھیں انہی کی خلافت پر اُمت کا اجماع ہو گیا. حضرت ابوبکر ؓ بلاشبہ صدیق اکبرہیں رضی اللہ عنہ. اوریہ جان لینا چاہیے کہ مقامِ صدیقیت ‘مقامِ نبوت سے بہت قرب رکھتا ہے ‘بلکہ شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ کا قول تو یہ ہے کہ ’’حقیقت ِصدیقی ظل ّحقیقت ِمحمد ی است‘‘.یعنی مقام صدیقی درحقیقت مقامِ نبوت کا ظل اور سایہ ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم جزیرہ نمائے عرب میں جس انقلاب کی تکمیل فرما گئے تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کل اڑھائی سالہ خلافت کے دوران اس کے ازسر نو استحکام کا عمل بتمام و کمال پورا ہوا. 

تاریخ ِعالم میں جتنے انقلابات آئے ہیں ان سب میں آپ کو ایک بات قدرِ مشترک کے طور پر ملے گی کہ انقلاب جب اپنے آخری مراحل میں ہوتا ہے تو اُس وقت انقلاب دشمن طاقتیں کونوں اور کھدروں میں دبک جایا کرتی ہیں اور منتظر رہتی ہیں کہ پھر جب بھی موقع ہو ‘وہ سر اٹھائیں اور انقلاب پر حملہ آور ہوں اور اسے ناکام کرنے کی کوشش کریں. چنانچہ یہی عمل ہے جو نبی اکرم کے وصال کے فوراً بعد ہمیں جزیرہ نمائے عرب میں ہر چہار طرف نظرآتا ہے. ایک سماں یہ تھا کہ فرمایا گیا: وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ (النصر) ’’(اے نبی !) آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ داخل ہو رہے ہیں اللہ کے دین میں فوج در فوج‘‘ .لیکن حضور کے انتقال کے بعد عارضی طور پر منظر یہ سامنے آیا کہ : ’’ یَخْرُجُوْنَ مِنْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا‘‘ کا سا معاملہ ہو گیا.لوگ فوج در فوج اللہ کے دین سے نکلنے لگے .ایک جانب نبوتِ کاذبہ کے دعوے دار‘ جھوٹے مدعیانِ نبوت کھڑے ہو گئے اور اُن کی دعوت پر بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے لبیک کہا. دوسری طرف ایک کثیر تعداد میں لوگ زکوٰۃ سے انکار کر کے کھڑے ہو گئے کہ ہم توحید کی گواہی دیں گے‘ ہم رسالت کی گواہی دیں گے‘ نماز بھی قائم کریں گے‘ لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے.

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بظاہر بہت ہی رقیق القلب انسان تھے. آپؓ کا جسم بھی بہت ہی نحیف و نزار تھا‘لیکن اس موقع پر یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس بظاہر کمزور شخصیت کے اندر ہمت ‘ صبر و استقامت اور ثبات کا ایک کوہ ہمالیہ مضمر ہے. چنانچہ آپؓ نے بیک وقت ان تمام فتنوں سے مقابلہ فرمایا .حالانکہ بہت سے حضرات نے آپؓ کو مشورہ دیا کہ کم سے کم مانعین زکو ٰۃ کے معاملے میں حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الوقت کسی قدر نرمی سے کام لیا جائے. لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اللہ کے رسولؐ کا جانشین ہوں. اَنَا خَلِیْفَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ . اور اللہ کے رسول ہمیں جو دین دے کر گئے ہیں اس میں اگر سرمو بھی فرق کرنے کی کوشش کی گئی تو اور کوئی میرا ساتھ دے یا نہ دے ابوبکر( رضی اللہ عنہ) تن تنہا سب کا مقابلہ کرے گا. یہاں تک کہ آپؓنے فرمایا کہ’’یہ تو زکوٰۃ کا انکار کر رہے ہیں‘ اگر ایسا بھی ہو کہ حضور کے زمانے میں زکوٰۃ کے اونٹوں کے ساتھ اُن کی رسیاں بھی آتی ہوں اور اب لوگ اونٹ دینا چاہیں لیکن رسیاں نہ دینا چاہیں تو بھی میں اُن سے قتال کروں گا.‘‘

یہ ہے وہ عزیمت اور صبر و ثبات کہ جس کا مظاہرہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہوا. واقعہ یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا قیام ابھی اس عالم ناسوت میں کچھ عرصہ مزید رہتا تو بہت اچھا ہوتا. آپ اپنے انقلاب کے خلاف اٹھنے والی ان تمام مخالفانہ قوتوں (reactionary forces) کا بھی بنفس نفیس خود اپنے دست مبارک سے استیصال فرماجاتے اور انقلاب کو از خود استحکام بخش کر پھر رفیق اعلیٰ کی جانب مراجعت فرماتے. لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حکمت خداوندی میں کچھ اور ہی پیش نظر تھا. چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اس مقام و مرتبہ کا اظہار ہرگز نہ ہو پاتا اگر یہ پوری صورت حال اس طرح پیش نہ آتی جیسی کہ فی الواقع پیش آئی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان تمام فتنوں کا استیصال فرماتے اور ان تمام انقلاب دشمنوں کا سرکچل کر انقلابِ محمدی کو از سر نو مستحکم فرماتے. کل اڑھائی برس میں آپؓ نے اپنے رفیق غار کے انقلاب کو مستحکم کیا اور پھر اللہ کی طرف مراجعت اور اپنے رفیق غار ‘اپنے محبوب ‘اپنے رسول  کے پہلو میں تاقیامِ قیامت استراحت فرمائی.

دوسری جانب چونکہ خلافت ِراشدہ درحقیقت نبوی مشن کی تکمیل کا ذریعہ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ کہنا شروع کیا کہ آپ خلیفۃ اللہ ہیں یا خلیفۃ المسلمین ہیں ‘تو انہوں نے فرمایا : نہیں! مَیں تو خَلِیْفَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ہوں. خلافت ِ راشدہ کو اسی وجہ سے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہا گیا ہے‘ نبوت کے نقش قدم پر خلافت. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم کی بعثت عامہ یعنی آپؐ کی رسالت کے مقاصد میں سے جس مقصد کا تعلق پورے عالم ِارضی سے تھا اس کی تکمیل کے لیے جس عمل کا آغاز نبی اکرم نے بنفس نفیس فرمایا تھا اس کو بھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا.

جیش اسامہؓ کا معاملہ اس حوالے سے بہت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے. اُن کے بارے میں بھی بہت سے حضرات نے پرخلوص مشورہ دیا کہ فی الوقت اندرونِ ملک عرب اتنے فتنے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ اگر آپؓ صرف ان سے نبرد آزما ہو جائیں تو بہت کافی ہے‘ سردست اس لشکر کی روانگی ملتوی فرما دیجیے. لیکن یہاں بھی وہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اُسی عزیمت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ جس لشکر کی روانگی کا فیصلہ محمد رسول اللہ نے کیا تھا اُس کی روانگی کو مؤخر کرنے والا میں کون ہوں؟ یہ تو پھر خلافت کا تقاضا نہ ہوا‘ یہ تو حضور کے کیے ہوئے فیصلوں کا ایک reversal ہے‘ ان میں ترمیم ہو جائے گی. چنانچہ جیش اُسامہؓ کو روانہ کیا گیا . اور اس فیصلہ کو بھی قائم رکھا گیا کہ اس کی امارت حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ ہی کو دی گئی ‘حالانکہ وہ بالکل نوجوان تھے. اس پر بھی جب یہ کہا گیا کہ ذرا اس فیصلے میں ترمیم کر لیجیے تو پھر اس جانشین ِرسولؐ کا وہی قول سامنے آیا کہ جس کو علم سنبھلوایا ہومحمد رسول اللہ نے ‘ مَیں اُس کے ہاتھ سے علم لینے والا کون ہوتا ہوں؟

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ جب لشکر لے کر چلے تو اُن کے ساتھ ساتھ خلیفہ ٔوقت پیدل چلے اور جب حضرت اسامہؓ احتراماً سواری سے اترنے لگے تو منع فرما دیا. یہ ہے شان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اور یہ ہے درحقیقت مقام اور مرتبہ خلافت ِصدیقی کا!

ایک اور بہت بڑا احسان جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُمت مسلمہ پر فرمایا‘وہ ہے قرآن مجید کا جمع کرنا جو نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ تک معروف معنی میں ایک کتاب کی شکل میں جمع نہ تھا‘ یعنی ’’مَابَیْنَ الدُّفَّـتَـیْنِ‘‘ جیسے ایک کتاب ہوتی ہے‘ جلد کے دو گتوں کے مابین‘ صفحات میں مرتب صورت میں لکھی ہوئی‘ ایسے نہ تھا. اگرچہ ترتیب کا حکم حضور نے دے دیا تھا. ترتیب آپؐنے قائم بھی فرما دی تھی. آیات کو جمع کرکے سورتوں کی شکل دینا اور سورتوں کا باہمی نظم اور ربط ‘یہ آنحضور نے خود کر دیا تھا. لیکن ابھی کسی کے پاس لکھی ہوئی کچھ سورتیں تھیں‘ کسی کے پاس کچھ اور دوسری سورتیں تھیں‘ کہیں کپڑے پر لکھی ہوئی ‘کہیں ہڈیوں پر لکھی ہوئی‘ کہیں کاغذوں پر لکھی ہوئی‘ اور سب سے بڑھ کر لوگوں کے سینوں میں قرآن مجید محفوظ تھا. لیکن جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بہت سی جنگیں ہوئیں اور ان میں بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جامِ شہادت نوش فرمایا ‘خصوصاً جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ شہید ہو گئے‘ تب یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن ایک مصحف کی صورت میں محفوظ کیا جائے. اس خیال کو سب سے پہلے ظاہر کرنے ولے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں کہ قرآن مجید کو ایک مصحف کی شکل میں جمع کر لیا جائے‘ ایسا نہ ہو کہ حفاظ کی کثیر تعداد شہید ہو جائے اور کہیں قرآن مجید کا کوئی حصہ ضائع ہو جائے . چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کہ: 

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) 
’’ہم نے ہی اس ذکر کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت فرمانے والے ہیں.‘‘

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اس ارادۂ خداوندی کی تعمیل ہوئی. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جو حضور کے زمانے میں کاتب وحی رہے تھے‘ حکم دیا کہ وہ قرآن مجید کو جمع کریں. وہ یہ فرماتے ہیں کہ مجھے اگر کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی خدمت سپرد کی گئی ہوتی تو وہ بھی مجھ پر اتنی بھاری نہ ہوتی جتنا بوجھ میں نے اس ذمہ داری کا محسوس کیا. 

بہرحال نبی اکرم نے اپنے حجۃ الوداع میں تو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ:

وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ: کِتَابُ اللہِ (صحیح مسلم‘ کتاب الحج) 
’’اور یقینا میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ ے جا رہا ہوں جس کا سرشتہ اگر مضبوطی سے تھامے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوسکو گے ‘اور وہ چیز ہے کتاب اللہ!‘‘

یعنی اے میری اُمت! میں جا رہا ہوں ‘لیکن تمہیں بے سہارا اور بے یارو مددگار نہیں چھوڑ کر جا رہا ‘بلکہ تمہارے مابین وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ جسے اگر مضبوطی سے تھام لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے‘ اور وہ اللہ کی کتاب ہے. تو یہ بھی مقامِ صدیقیت اور مقامِ نبوت کے باہمی اتصال کا ایک مظہر ہے کہ اس کتاب کو بین الدُّفَّتین کی شکل دی حضرت ابوبکر صدیق نے‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ. 

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کتاب الٰہی سے صحیح تمتع کی توفیق عطا فرمائے.

فَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ الْاَمِیْن وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ o
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَoo