اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم . بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۴﴾فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا ﴿۵﴾ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ جَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا ﴿۶﴾اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ اِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا ﴿۷﴾عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا ﴿۸﴾ (بنی اسراء یل) 

’’اور ہم نے (اُن کی) کتاب (تورات و دیگر صحف) میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے. آخر کار جب ان دومیں سے پہلی سرکشی کا موقع آیا تو (اے بنی اسرائیل!) ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے. یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا. اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی. دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائیتھی اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی. پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے تمہارے دشمنوں کو تم پر مسلط کر دیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اس طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کر کے رکھ دیں. ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا ربّ تم پر رحم کرے ‘لیکن اگر تم نے اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے .اور کفرانِ نعمت کرنے والے لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنارکھا ہے.‘‘

قرآن حکیم کے بالکل وسط میں سورۂ بنی اسرائیل واقع ہے. اس کے پہلے رکوع میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چار ادوار کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فیصلے کا‘ جس کا اعلان ان کی کتاب (تورات و دیگر صحف)میں کر دیا گیا تھا‘ اظہار فرمایا ہے کہ ان پر اپنی تاریخ کے دوران دو مرتبہ عذابِ الٰہی کے کوڑے برسے ہیں. ترمذی شریف کی ایک حدیث میں آنحضور کا یہ فرمان نقل ہوا ہے :

لَـیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَا النَّعْلِ بِالنَّعْلِ
’’میری اُمت پر بھی وہ تمام احوال وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر ہوئے تھے‘ بالکل ایسے جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے.‘‘

اس حدیث کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ بھی چار ادوار میں منقسم نظر آتی ہے‘ جیسے چار ادوار بنی اسرائیل کی تاریخ میں نظر آتے ہیں. دو عروج اور دو زوال ان کے عروجِ اوّل کا نقطہ کمال 
(climax) حضرت طالوت‘ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا عہد حکومت ہے. اس کے بعد زوالِ اوّل آتا ہے‘ جو ۵۸۷ء قبل مسیح میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے. بخت نصر (Nebukadnazar) کے حملے کے وقت بیت المقدس تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے ‘ ہیکل ِسلیمانی مسمار کر دیا جاتا ہے ‘ لاکھوں یہودی قتل ہوتے ہیں اورچھ لاکھ یہودیوں کو وہ اسیر بنا کر بابل(Babilonia) لے جاتا ہے.اس کے بعد پھر ان کے عروج کا ایک دور آتا ہے‘ جس کا سب سے بڑا مظہر سلطنت مکاوی کا ظہور ہے.پھر وہ اپنے دوسرے زوال سے دوچار ہوتے ہیں. اس کا آغاز ۸۰ء میں رومی جنرل ِطیطس (Titus) کے حملے سے ہوتا ہے ‘جس نے پھر بیت المقدس کو تاخت و تاراج کیا. اس کے بعد سے اب تک بنی اسرائیل پستی و زوال اور اضمحلال کا شکار ہیں. وقفے وقفے سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے کوڑے ان کی پیٹھ پر برس رہے ہیں. ماضی قریب میں سلطنت اسرائیل کی شکل میں انہوں نے ذرا سا سانس لیا ہے‘ لیکن یہ معلوم ہے کہ وہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ امریکہ کی شہ پر اور اسی کے سہارے سے .

اس نقشے کو پس منظر میں رکھیے اور اب آیئے اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ کی جانب. ہمارا عروج ِ اوّل تقریباً ۴۰۰ سو سال پر پھیلا ہوا ہے. یہ عروج ساتویں‘ آٹھویں‘ نویں اور دسویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے. یہ عروج عربوں کے زیر قیادت ہوا. یہ چار سو سال ایسے گزرے ہیں کہ زمین پر عظیم ترین مملکت‘ اسلامی مملکت تھی. اور یہ اسلامی مملکت صرف ایک عسکری اور سیاسی قوت نہ تھی بلکہ اس میں تہذیب و تمدن اور علوم و فنون اپنے پورے نقطہ عروج کو پہنچے ہوئے تھے. یہ ہمارا پہلا عروج ہے. واقعہ یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں اس سے پہلے اتنی عظیم الشان مملکت کی کوئی مثال موجود نہیں تھی. لیکن پھر ہمارا زوال آیا. اس زوال کا اصل سبب جان لینا چاہیے کہ قرآن مجید میں بطور تنبیہہ 
(warning) ارشاد فرمایا گیا تھا: 

وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ (محمد:۳۸

یعنی اے محمد کے ماننے والو! اگر تم نے پیٹھ موڑ لی‘ اُن مقاصد کی تکمیل کے بجائے جو محمد کے اُمتی ہونے کی حیثیت سے تمہارے سپرد کیے گئے ہیں‘ اگر تم نے اپنی ذاتی منفعت اور ذاتی اقتدار کو ہی مطلوب و مقصود بنا لیا اور تم بھی دنیا کے عیش میں پڑ گئے تو جان لو کہ ہماری سنت کا ظہور ہو گا . ہم تمہیں ہٹائیں گے‘ کسی اور کو لے آئیں گے.

ظاہری اعتبار سے اسبابِ زوال کا خلاصہ مطلوب ہو تو وہ علامہ اقبال کے اس شعر میں موجود ہے ؎ 
مَیں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر ِاُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل ‘ طاؤس و رباب آخر! 

چنانچہ جب ہمارا حال بھی ’’طاؤ س و رباب آخر‘‘ کی تصویر بن گیا تو ہم زوال سے دوچار ہوئے. عذابِ الٰہی کے کوڑے ہماری پیٹھ پر برسے‘ پہلے صلیبیوں کی شکل میں اور پھر فتنہ ٔ تاتار کی صورت میں. پھر ۱۲۵۸ء میں وہ اپنے پورے نقطہ عروج کو پہنچ گئے جب سلطنت یا خلافت بنی عباس کا چراغ گل ہو گیا اور عالم اسلام پورے کا پورا ایسے ضعف و اضمحلال کا شکار ہوا کہ بظاہر احوال کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اسے دوبارہ بھی اٹھنا نصیب ہو گا. لیکن پھر اُسی سنت الٰہی کا ظہور ایک عجیب شان کے ساتھ ہوا. بقول علامہ اقبال مرحوم ؎ 

ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے! 

اللہ نے جن کو عذاب کا کوڑا بنا کر مسلمانوں کی پیٹھ پر برسایا تھا‘ انہی کو ایمان و اسلام کی توفیق عطا فرما دی‘ انہی کے ہاتھ میں اپنے دین کا عَلم تھما دیا. چنانچہ یہ تین ترک قبیلے ہی ہیں کہ جن کی زیر سیادت و قیادت پھر اسلام کو اپنے دوسرے عروج کا دور دیکھنا نصیب ہوا .ترکانِ تیموری نے ہندوستان میں ایک عظیم مملکت قائم کی. صفوی حکومت جو ایران میں قائم ہوئی‘ اصلاً وہ بھی ایک ترک حکومت تھی. پھر سلطنت عثمانیہ (ترکی) قائم ہوئی اور پوراعالم ِعرب اور پورا شمالی افریقہ اس کے زیرنگیں آیا .انہی کے ہاں پھر خلافت کا احیاء ہوا. چوتھی بنو امیہ کی وہ سلطنت جو اندلس میں تھی. ان چار عظیم مملکتوں کی صورت میں دنیا میں پھر مسلمانوں کی سطوت کا ڈنکا بجا.

لیکن اس عروج کے بعد پھر زوالِ ثانی آیا. یہ درحقیقت یورپی استعمار کے ہاتھوں آیا. اس کا نقطۂ آغاز پندرہویں صدی عیسوی کے اختتام پر سلطنت اندلس (ہسپانیہ) کا زوال ہے. ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد یوں سمجھئے کہ وہ سلطنت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گئی جس کا مرثیہ علامہ اقبال نے اس طرح کہا ہے : ؎ 

غلغلوں سے جس کی لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟ 

اس کے بعد ۱۵۴۸ء میں واسکوڈے گاما نے وہ راستہ تلاش کر لیا جس سے مغربی استعمار کا سیلاب عالم اسلام کے دائیں بازو یعنی مشرقِ بعید (Far East) پر حملہ آور ہوا. ملایا اور انڈونیشیا کی مملکتیں اور اس کے بعد ہندوستان کی عظیم سلطنت مغربی استعمار کا نوالہ بن گئیں. ہماری بڑی بڑی سلطنتیں اور مملکتیں کچے گھروندوں کے مانند مغربی استعمار کے سیلاب میں بہتی چلی گئیں. یہ عمل بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچا جب پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کا یہ نقشہ سامنے آیا کہ سلطنت ِعثمانیہ ختم ہو گئی اور ترکی کے نام سے ایک چھوٹا سا ملک باقی رہ گیا. پورا عالم عرب مغلوب ہو گیا‘ اس کے حصے بخرے کر لیے گئے. اس کی خبر دی تھی نبی اکرم نے ان الفاظ میں:

یُوْشِکُ الْاُمَمُ اَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْاَکَلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھَا 

یعنی ’’مسلمانو! اندیشہ ہے کہ تم پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اقوامِ عالم تم پر ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گی جیسے دعوتِ طعام کا اہتمام کرنے والا دستر خوان چنے جانے کے بعد مہمانوں کو بلایا کرتا ہے کہ آیئے اب کھانا تناول فرمایئے. اس طرح تم اقوامِ عالم کے لیے لقمۂ تر ہو جاؤ گے.‘‘
صحابہ نے بڑے تعجب کے ساتھ سوال کیا: 
مِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟

’’حضور! کیا یہ اس لیے ہو گا کہ اس روز ہماری تعداد بہت کم ہو جائے گی؟‘‘ حضور نے فرمایا:

بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْـرٌ، وَلٰـکِنَّـکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاء السَّیْلِ ، وَلَـیَنْزِعَنَّ اللہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ‘ وَلَـیَقْذِفَنَّ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ

یعنی ’’نام کے مسلمان تو بہت ہوں گے‘ تمہاری تعداد تو بہت ہو گی لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے اوپر کے جھاگ کے مانند ہو کر رہ جائے گی. اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت نکال باہر کرے گا اور خود تمہارے دلوں میں وہن (کی بیماری) ڈال دے گا.‘‘ 

اس پر سوال ہوا :

مَا الْوَھْنُ یَارَسُوْلَ اللہِ ؟
’’اے اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟‘‘

تو آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا:

حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ 
’’دنیا کی محبت اور موت سے کراہت!‘‘

یہ حدیث سنن ابی داؤد‘ کتاب الملاحم میں وارد ہوئی ہے. یہ نقشہ جو ہمیں اس حدیث نبویؐ میں نظر آتا ہے‘ بیسویں صدی کے بالکل آغاز میں عالم اسلام میں بچشم سر دیکھا گیا ہے. وہ وقت تھا جب ایک دلِ درد مند کی صدا سننے میں آئی تھی. مولانا حالی نے مسدس کی پیشانی پر جو شعر لکھے ہیں وہ اسی صورتِ حال کے عکاس ہیں:

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مدّ ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے! 

اور خاتمے پر بحضور سرورِ عالم جو مناجات ہے‘ اس کا آغاز ان اشعار سے ہوا

؎
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دُعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

؎
جودین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے! 

یہ تھا نقشہ بیسویں صدی کے آغاز میں . البتہ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اس کے بعد سے اب تک ایک دوہرا عمل ہمارے سامنے آیا ہے. ایک طرف ہمارے انحطاط اور زوال و اضمحلال کے سائے مزید گہرے ہوتے چلے گئے‘ بیت المقدس دوسری مرتبہ ہمارے ہاتھ سے چھنا اور اب بھی وہ ایک مغضوب علیہم قوم کے قبضے میں ہے‘ سقوطِ ڈھاکہ اور عرب اسرائیل جنگوں میں جومسلمانوں کو شکستیں ہوئیں‘ یہ عذابِ الٰہی کے کوڑے ہیں جو ہماری پیٹھ پر برس رہے ہیں. لیکن دوسری طرف ایک احیاء و تجدید کی تحریک بھی شروع ہو چکی ہے اور ایک احیائی عمل کا آغاز بھی ہو چکا ہے. اس کے پہلے مرحلے (phase) سے بحمد اللہ اور بفضلہ تعالیٰ امت مسلمہ کسی حد تک گزر بھی چکی ہے. چنانچہ پورے عالم اسلام سے مغربی استعمار کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے. اس سیلاب کا رخ موڑا جا چکا ہے. سیاسی اعتبار سے تقریباً پورا عالم اسلام آزادی حاصل کر چکا ہے ‘اگرچہ ذہنی غلامی ابھی باقی ہے ‘تہذیبی وعلمی اور فنی غلامی ابھی برقرار ہے.

بایں ہمہ یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے کہ سیاسی طور پر عالم اسلام کی عظیم اکثریت آزادی سے ہمکنار ہو چکی ہے. تاہم اصل کام ابھی باقی ہے. بقول علامہ اقبال ؎
وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!

وہ کام جو محمد ٌرسول اللہ اُمت کے حوالے فرما کر گئے تھے ‘ آپؐ کی جو امانت ہمارے پاس ہے ‘ وہ فرضِ منصبی جو بحیثیت ِاُمت ہمارے کاندھوں پر ہے جب محمد رسول اللہ کے کاندھے پر آیاتھا تو وحی ٔ آسمانی نے پیشگی طو رپر فرما دیا تھا کہ: اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۵﴾ (المزمل)

’’(اے محمد !) ہم آپ پر ایک بڑی بات ڈالنے والے ہیں.‘‘
یہی بھاری بوجھ ہے جو اب اُمت مسلمہ کے کاندھے پر ہے. یہ امت پیغامِ محمدی ؐ کی امین ہے‘ یہ دین خداوندی کی علمبردار ہے. اس پیغام کو پوری نوعِ انسانی تک پہنچانااس کے ذمے ہے‘ اس دین کو قائم اور نافذ کرنا اور پھر نوعِ انسانی کو اس نظامِ عدلِ اجتماعی سے روشناس کرانا جو محمد ٌ رسول اللہ  اس دنیا میں لائے تھے‘ یہ ہے ہمارا فرض منصبی‘ یہ ہیں ہماری ذمہ داریاں. واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں ہمارا عروج اور ہماری عزت و وقار کا معاملہ دوسری قوموں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا. ہم دنیا میں معزز اور سربلند اُس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک ہم اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے محنت‘ سعی و کوشش اور جدوجہد نہ کریں ؎ 

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ !

گویا ہمارے عروج و زوال کا معاملہ دنیا کی عام قوموں کے عروج و زوال کے اسباب سے بالکل جدا ہے. ہمارے ذمے جو فرض منصبی ہے‘ اگر اس کو ادا کریں گے تو تائید خداوندی ہمارا ساتھ دے گی. بقول علامہ اقبال ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!


فَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَo
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo