عرضِ مُرتّب

نحمدہٗ و نصلی علٰی رسولہ الکریم اما بعد! 

سیرتِ نبویہؐ مطہرہ وہ ایمان افروز موضوع ہے،جس کے بیان کرنے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں اور مضامین لکھنے کا مبارک سلسلہ ابتدائے اسلام سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا. یہ آپؐ کی شانِ ’’وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ‘‘ ہی کا ایک مظہر ہے. سیرت کیا ہے؟ آپؐ کے فرمودات عالیہ، روشن کردار ‘اعلیٰ اخلاق، عظیم الشان مشن اور اُس کی تکمیل کے لئے کی گئی بے مثال جدوجہد کا دلنشین تذکرہ. سیرت اللہ کے پیغام کا عملی پر تو ہے جو محمد رسول اللہ  نے انسانی جمعیت کے سامنے پیش کیا اور جس کے ذریعے آپؐ قعرمذلت میں پڑے انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں اور بندوں کی غلامی سے رہائی دلا کر اللہ وحدۂ لا شریک کی غلامی میں لائے. بلاشبہ آپ ؐ محسن انسانیت  ہیں. آپؐ کی سب سے بڑی عطا اور دنیا پر باقی رہنے والا احسان شعور بندگی اور وحدت انسانی کے تصورات ہیں جو اس سے پہلے خواب و خیال بن چکے تھے. آپؐ نے صدیوں کی چھائی ہوئی تیرگی میں وحدت ربوبیت اور وحدت بشریت کا انقلابی اعلان فرمایا:’’ اے لوگو، تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا مورث اعلیٰ بھی ایک ہے. خبردار کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو سُرخ(گورے) پر اور کسی سُرخ کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ،مگر تقویٰ کی بنیاد پر‘‘. آپؐ کی آمد سے پہلے انسانیت فسادِ عقیدہ اور فسادِ معاشرت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی. کہیں دورِ وحشت چل رہا تھا تو کہیں شرک و بت پرستی کی لعنتوں نے مدنیت کا ستیاناس کر رکھا تھا. جنگ وجدل اورقتل وغارت کے قہر آ لود ماحول میں انسان درندوں اور چوپایوں کی سی زندگی بسر کر رہا تھا. آپؐ کے پیغام جانفزا کے عام اور غالب ہونے سے زندگی کا نقشہ ہی بدل گیا. صنم خانوں میں پڑے بت اوندھے منہ گر گئے، کلیاں چٹکنے لگیں، غم ٹھکانے لگے، آنسو تھم گئے. بے حسی نے اپنی راہ لی، احساس نے انگڑائی لی اور انسان کی انسانیت بیدار ہو گئی. یوں شعور بندگی اور شعور آدمیت سے آراستہ ایک بالکل نئے انسان اور نئے سماج نے جنم لیا، جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ عاجزہے.

حضور ؐ آئے تو سرِّ آفرینش پا گئی دنیا
اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آ گئی دنیا
بُجھے چہروں کا رنگ اُترا، ستے چہروں پہ نور آیا
حضورؐ آئے تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا 

آپؐ نے جو عظیم الشان انقلاب برپا کیا اُس کے لئے آپؐ نے تئیس سال تک جاں گسل جدوجہد فرمائی. اس دوران آپؐ کو کفار مکہ کی سختیوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا. طائف کے اوباشوں کے ہاتھوں لہولہان ہوئے. مکہ سے مدینہ ہجرت پر مجبور ہوئے. کفار کے اکیلے یا متحدہ جتھوں سے معرکہ آرائی کی نوبت آئی. منافقین اور یہود کی خطر ناک سازشوں کا مقابلہ اور قلع قمع کرنا پڑا، تاآ نکہ مکہ فتح ہوا اور اسلامی انقلاب جزیرۂ نما عرب کی حد تک تکمیل کو پہنچ گیا. ’’وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾‘‘ سیرت طیبہ ان تمام مراحل انقلاب اور اُن میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب اور اُن میں آپؐ کے صبر و ثبات اور ثابت قدمی کا تذکرہ ہے. سیرت کا یہ واقعاتی پروگرام درحقیقت وہ لائحہ عمل ہے جس پرہردور کے مسلمانوں کو اپنے اخلاق و کردار کی تعمیر اور صالح معاشرہ کی تشکیل کرنی ہے. یہی وہ راہ انقلاب ہے جسے اختیار کرکے حیات اجتماعی کے بگاڑ کا خاتمہ کیا جا سکتا اور اسلامی انقلاب برپا کر کے ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے.

’’ سیرت خیر الانام  ‘‘کے نام سے زیر نظر کتاب بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم و مغفور کے سیرت طیبہ پر پانچ مفصل خطابات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے ربیع الاوّل اور ربیع الثانی۱۴۳۱ ھ(۲۰۱۰ ء) کے دوران میں قرآن آڈیٹوریم لاہو رمیں ارشاد فرمائے. ان خطابات کو کیسٹ سے اتار کر اور ترتیب و تسوید کے مراحل سے گزار کر قبل ازیں ہفت روزہ ندائے خلافت میں قسط وار شائع کیا گیا، اور اب افادۂ عام کے لیے کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے. ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر مدرس و مفسرقرآن تھے. اس کے ساتھ ساتھ سیرت طیبہ بھی اُن کا خاص موضوع تھا. سیرت اور اُس کے متنوع گوشوں پر انہوں نے ملک اور بیرون ملک سینکڑوں فکرانگیز لیکچر دئیے. جن میں بعض کتابی صورت میں بھی شائع ہو کر منظر عام پر آئے، جیسے منہج انقلاب نبویؐ ، عظمت مصطفی ؐ ، رسول کامل ، نبی اکرم کا مقصد بعثت، رسول انقلاب کا طریق انقلاب، نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی بنیادیں،حبِّ رسولؐ 
اور اُس کے تقاضے اور اسوۂ رسولؐ . لیکن اس مجموعہ میں شامل خطابات تین اعتبارات سے انفرادیت کے حامل ہیں. ایک یہ کہ ان میں ڈاکٹر صاحب نے فلسفۂ انقلاب کے زاویۂ نگاہ سے سیرت کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ فلسفۂ نبوت و رسالت، عقیدۂ ختم نبوت اور بعض دیگر مباحث کو بھی بڑی عمدگی کے ساتھ اور نہایت مدلل انداز میں بیان کیا ہے. دوسرے یہ کہ اس سے پہلے محترم ڈاکٹر صاحبؒ نے جہاں بھی منہج انقلاب نبویؐ پر گفتگو کی ‘نبی اکرم کی مبارک جدوجہد کو سات مراحل انقلاب کی صورت میں بیان کیا ہے. یعنی دعوت، تنظیم، تربیت، صبر محض، اقدام (اور چیلنج)، مسلح تصادم اور انقلاب کی توسیع. لیکن اِن خطابات میں انہوں نے اختصار کی غرض سے مراحل انقلاب کو سات کی بجائے تین مرحلوں کی صورت میں بیان کیا ہے. پہلا مرحلہ جماعت سازی ہے، جو دعوت، تنظیم اور تربیت کے پہلے تین مراحل کا جامع عنوان ہے. دوسرا مرحلہ تصادم ہے، جو صبر محض، اقدام اور مسلح تصادم پر محیط ہے اور تیسرا مرحلہ انقلاب کی توسیع ہے. تیسرے اس پہلو سے بھی ان خطابات کو خصوصی اہمیت اور انفرادیت حاصل ہے کہ یہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے آخری عوامی خطابات تھے. اس کے بعد زندگی نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی اوراس سلسلہ کے آخری خطبہ( جو۱۴ مارچ۲۰۱۰ء کو ہوا) کے ٹھیک ایک ماہ بعد آپؒ ۱۴ اپریل ۲۰۱۰ ء کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے. بنابریں کہا جا سکتا ہے کہ یہ خطابات سیرت مطہرہ کے موضوع پر ڈاکٹر صاحب کے فکر کا نچوڑ ہیں. اس مجموعہ میں جو خطابات شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں:

٭ فلسفۂ دین میں نبوت و رسالت کا مقام ٭ آنحضور پر نبوت و رسالت کی تکمیل
٭ حزب اللہ کی تیاری کا نبوی طریق ٭ باطل سے تصادم کے ابتدائی مراحل
٭ باطل سے تصادم کے تکمیلی مراحل

خطابات کی ترتیب وتسوید کے دوران میں مرتب نے حزم واحتیاط کو پورے طورپرملحوظ رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بزم سیرت میں جو کہا وہ صفحۂ قرطاس پر پورے طور پر منتقل ہو کر قارئین تک پہنچے. مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسانی کاوش خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتی. لہذا اظہار بیان میں اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی دکھائی دے تو اسے مرتب کی طرف محمول کیا جائے. پھر یہ حقیقت بھی ہر خاص و عام پر آشکارا ہے کہ سیرت مطہرہ جس عظیم الشان، رفیع الدرجات ہستی کا تذکرہ ہے، وہ مجسمۂ پاکیزگی اور جامع کمالات تھی. 
سمندروں کے قطروں کو شمار کیا جا سکتا ہے. ریت کے ذروں کو گنتی کی زنجیر پہنائی جا سکتی ہے. مگر محمد رسول اللہ کے اوصاف وکمالات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا،بلکہ دائرہ گمان میں بھی نہیں لایا جا سکتا ہے. بولناچاہیں تو فکر ونطق دم بخود اور اظہار بیان کی تمام تر رعنائیاں عاجز محسوس ہوتی ہیں. اس جامع، اکمل، وسیع، مقدس موضوع کے بیان کا حق کماحقہ ادا ہو ہی نہیں ہو سکتا ؎ 

زندگی ختم ہوئی اور قلم ٹوٹ گئے
پر تیرے اوصاف کا احاطہ نہ ہوا

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اس کتاب کے مؤلف، مرتب، ناشر اورہر اُس شخص کے لئے جس نے کسی بھی طرح اس کام میں حصہ ڈالا، توشۂ آخرت اور حضور نبی کریم کی شفاعت کا وسیلہ بنائے اور اس کے ذریعے ہم سب مسلمانوں کے دلوں میں رسول اللہ  کی سچی محبت، اتباع اور آپؐ کے مقصد بعثت کی عالمی سطح پر تکمیل کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دینے کی سچی تڑپ اور آرزو پیدا فرمائے کہ یہی آپؐ سے وفاداری کا تقاضا ہے، اور یہی زندگی کا ثبوت . 

دامنش از دست دادن مردن است
چوں گل از بادِخزاں افسردن است
زندگی قوم از دم ا ویافت است
ایں سحر از آفتابش تافت است
فرد از حق ،ملت از دے زندہ است
از شعاعِ مہر او تابندہ است

(ترجمہ: آپؐ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا اصل موت ہے. یہ ایسے ہی ہے جیسے پھول بادخزاں میں مرجھا جاتا ہے. ملت نے زندگی آپؐ کے دم سے پائی. ملت کی صبح آپؐ کی ذات کے آفتاب سے روشن ہے، فرد کی زندگی کا دارو مدار تعلق باللہ پر ہے اور ملت آپؐ سے تعلق کی بنا پر وجود اور زندگی پاتی ہے. آپؐ آفتاب ہیں اور آپؐ کی شعاعوں اور کرنوں سے ملت روشن و تابندہ ہوتی ہے.)

خاکپائے رسول اللہ 
محبوب الحق عاجز
نائب مدیر شعبہ مطبوعات