فلسفہ ٔدین میں نبوت و رسالت کا مقام خطبہ ٔمسنونہ‘ تلاوت ِآیات قرآنی ٭ ‘ احادیث ِنبویؐ اور ادعیہ ٔماثورہ کے بعد!
معزز حاضرین اور محترم خواتین! آج ہم اللہ کا نام لے کر پانچ خطبات سیرت کا سلسلہ شروع کررہے ہیں. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حالات کو سازگار بنائے رکھے‘ اور ہمیں ان کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے. اِس ضمن میں ہمارے پہلے خطبہ کا عنوان ہے:
’’فلسفۂ دین میں نبوت و رسالت کا مقام‘‘ 

فلسفہ اور دین

لفظ ’’فلسفہ‘‘ قابل غور ہے. کیا فلسفہ کا دین کے ساتھ کوئی تعلق ہے؟ عام طور پر یہ لفظ دینی حوالے سے استعمال نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کے لیے ہم حکمت قرآن اور حکمت ِ دین کے الفاظ استعمال کرتے ہیں. ’’حکمت‘‘ قرآن حکیم کی اصطلاح ہے جبکہ فلسفہ غیر قرآنی اصطلاح ہے. اسی طرح یہ اصطلاح حدیث میں بھی نہیں آئی. فلسفہ اور حکمت میں فرق یہ ہے کہ فلسفہ خالص منطق کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے اور جہاں کوئی چیز منطقی طو رپر ثابت نہ ہو وہاں یہ رک جاتا ہے اور آگے نہیں بڑھتا. جبکہ حکمت منطق سے بھی سروکار رکھتی ہے اور مبادیاتِ فطرت سے بھی. مبادیات فطرت وہ چیزیں ہیں جو انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہیں. اِن چیزوں کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں. دلیل کے ذریعے انہیں ثابت کیا ہی نہیں جاسکتا. جب عقل منطق اور فطرت میں ودیعت کردہ چیزوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے فطرت سلیمہ کی رہنمائی میں اپنا سفر طے کرتی ہے تو اس کا نتیجہ حکمت کی صورت میں نکلتا ہے. قرآن مجید میں ایک حکیم انسان کے طور پر حضرت لقمان کی مثال دی گئی ہے.

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ ( لقمان:۱۲)
’’اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی کہ اللہ کا شکر کرو.‘‘ 

ایک بات اور بھی جان لیجیے. فلسفے کی بہت سی شاخیں ہیں. منطق بھی فلسفے کی شاخ شمار ہوتی ہے‘ اگرچہ یہ ایک فن ہے. ایک زمانے میں نفسیات بھی فلسفے کی شاخ شمار ہوتی تھی. لیکن اب فلسفے کے ہر شاخ کے لیے علیحدہ علیحدہ نام ہیں. ایک شاخ کا نام مابعد الطبیعیات 
(Metaphysics) ہے. اس کا براہِ راست تعلق دین کے ساتھ ہے. ایک تو مادی کائنات ٭ سورۃ البقرۃ آیات: ۱ تا ۵‘ ۱۷۷۲۸۵. سورۃ التغابن‘ آیات :۸ تا ۱۰(physical world) ہے. یہ فزکس کا موضوع ہے. اس کا تعلق حواس خمسہ سے ہے. اس کے برعکس میٹا فزکس اُن چیزوں سے بحث کرتی ہے جو حواس خمسہ کے دائرے سے باہر ہوں. فزکس اور میٹا فزکس میں یہی فرق ہے. 

زندگی کے اصل حقائق پردۂ غیب میں ہیں. یہ حقائق حواس خمسہ کے ذریعے منکشف ہو ہی نہیں سکتے. قرآن مجید ہدایت کاملہ ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے نازل کی گئی ہے. یہ کتاب مابعد الطبیعیات سے بحث کرتی ہے. قرآن مجید نے ابتدا ہی میں یہ بات واضح کردی کہ اس سے استفادے کی پہلی شرط غیب پر ایمان ہے. چنانچہ سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں فرمایا گیا ہے: 
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ غیب جیسا کہ کہا گیا وہ حقائق ہیں جو حواس کے دائرے میں نہیں آتے. چنانچہ ذات باری تعالیٰ ہمارے حواس‘ فہم‘ عقل اور وہم و خیال سے ماوراء‘ ثم وراء الوراء ہے. پھر یہ کہ ہم فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتے. اسی طرح ہم وحی کا مشاہدہ بھی نہیں کرسکتے. یہ سب میٹا فزکس کا میدان ہے. اور فزکس کا میدان وہ ہے جس میں ہم چیزوں کو دیکھ سکیں.

فزیکل سائنسز اور قرآن کی ہم آہنگی

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فزیکل سائنسز بہت آگے بڑھ چکی ہیں‘ جبکہ میٹا فزکس کی جانب سے آنکھیں بند ہیں حالانکہ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں. ضرورت اس امر کی تھی‘ اور ہے کہ جدید فزکس سے حاصل شدہ معلومات کو قرآن مجید کی میٹافزکس کے ساتھ جوڑ کر دیکھا اور پڑھا جائے. ان دونوں میں تضاد ہو ہی نہیں سکتا‘ یہ ناممکن ہے. ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے بہت عمدہ بات کہی ہے: 

".The Quran is the words of God and this universe is the work of God" 

قرآن مجید اللہ کا کلام ہے. یہ کائنات اللہ کی تخلیق ہے. یہاں کے طبعی قوانین اُسی نے بنائے ہیں. وہی اس کو چلا رہا ہے. لہذا ان دونوں میں تضاد ممکن نہیں. ذرا سوچئے‘ جب ایک معقول انسان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوسکتا‘ اگر ایسا ہوتو یہ بہت گھٹیا بات خیال کی جاتی ہے‘ تو اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کے قول و فعل میں تضاد کیسے ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ جدید سائنس کے تمام ثابت شدہ حقائق قرآن حکیم کی تائید کرتے ہیں. اللہ کی یہ کتاب آج سے چودہ سو برس پہلے نازل ہوئی ہے. اس وقت انسان کی مادی معلومات بہت کم تھیں. لہذا قرآن مجید میں جن physical phenomenon کا تذکرہ ہوا‘ ان کو صحیح طور پر سمجھا نہیں جاسکتا تھا. لیکن جیسے جیسے سائنس آگے بڑھتی گئی ان مظاہر کا سمجھنا آسان ہوتا چلا گیا. یہ بات قرآن حکیم نے پہلے ہی کہہ دی تھی: 

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ (حٰم السجدہ:۵۳
’’ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ (قرآن) حق ہے.‘‘

سائنس کے میدان میں اب تک جو بھی حقائق سامنے آئے ہیں انہوں نے قرآن کی حقانیت کو ثابت و مبرہن کیا ہے. مثال کے طور پر قرآن حکیم میں علم جنین 
(Embryology) کے جو حوالے آئے ہیں‘ انہوں نے ماہرین علم جنین کو حیرت زدہ کرکے رکھ دیا ہے. اس سلسلے میں کینیڈا کے دو ماہرین علم جنین کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا. یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کتھ ایل مور جن کی علم جنین پر دو تصانیف یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہیں اور ڈاکٹر رابرٹ ایڈورڈز جو ٹسٹ ٹیوب بے بی کے ضمن میں شہرت کے حامل ہیں‘ دونوں نے نہایت متحیرانہ انداز میں گواہی دی ہے کہ قرآن حکیم نے رحم مادر میں انسانی جنین کی درجہ بدرجہ پرورش کی جو نقشہ کشی کی ہے‘ وہ اُن معلومات کے ساتھ حیرتناک حد تک مطابقت رکھتی ہے جو خورد بین کی ایجاد کے بعد اب انسان کے علم میں آئی ہیں. آپ نے فرانسیسی سرجن ڈاکٹر مورس بوکائے کا نام تو سنا ہوگا. انہوں نے بھی رحم مادر میں بچے کی تخلیق کے مراحل کا مشاہدہ کیا. یہ جان کر اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ قرآن حکیم نے چودہ سو برس پہلے ہی تخلیق کے وہ تمام مراحل بیان کردیے ہیں جن تک سائنس برسوں کی تحقیق کے بعد پہنچی ہے. انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے: بائبل‘ قرآن اور سائنس. اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کیا‘ اور اس بات کا برملا اقرار کیا کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی شے نہیں جسے سائنس نے غلط ثابت کیا ہو. یہ تو ہوسکتا ہے کہ قرآن میں بیان کردہ بہت سی چیزوں کی حقیقت تک ابھی سائنس کی رسائی نہ ہوئی ہو‘ لیکن سائنس کی ثابت شدہ کوئی شے ایسی نہیں جس نے قرآن کے بیان کا رد کیا ہو. پس آج ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جو دو علوم علیحدہ علیحدہ چل رہے ہیں‘ ان کو باہم ملا کر پڑھا جائے. یہ دراصل انسان کی دو آنکھیں ہیں. ایک آنکھ فزکس کی ہے اور دوسری آنکھ وحی کی ہے. ان دونوں آنکھوں سے دیکھا جانا چاہیے. حقیقت کا علم قرآن سے لیا جائے اور کائنا ت کا علم حواس خمسہ اور عقل کے ذریعے حاصل کیا جائے. پھر یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجائے گی کہ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں. یہی بات درحقیقت میری آج کی گفتگو کی بنیاد ہے. یعنی دین کی میٹا فزکس اور فلسفہ و حکمت میں نبوت و رسالت کا مقام و مرتبہ کیا ہے.

قرآنی میٹافزکس

سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ قرآنی میٹافزکس ہے کیا؟ ہم اس کو ایمان سے تعبیر کرتے ہیں. ایمانیات کیا کیا ہیں؟ اللہ پر ایمان‘ یوم آخرت پر ایمان‘ وحی پر ایمان‘ فرشتوں پر ایمان‘ کتابوں پر ایمان‘ رسولوں پر ایمان‘ حضور کی رسالت اور ختم نبوت پر ایمان‘ قرآن حکیم کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے اور محفوظ ہونے پر ایمان‘ مرنے کے بعد زندہ ہونے پر‘ جنت دوزخ پر‘ حساب کتاب پر‘ وزن اعمال پر ایمان. یہ سب ایمانیات قرآن حکیم کی میٹافزکس ہیں اور یہ ہمارے حواس کے دائرے میں آنے والی چیزیں نہیں ہیں. ان ایمانیات کو تین بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کیا جاسکتا ہے. 

(۱) ایمان باللہ یا توحید 
(۲) ایمان بالآخرت‘ یا معاد (معاد اسم ظرف ہے یعنی لوٹنے کی جگہ) اور
(۳) ایمان بالرسالت

ایمان باللہ کیا ہے؟ ایمان باللہ سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات اور موجودات کا خالق و مالک ہے. وہی رب اور الٰہ ہے. اللہ کی ہستی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی. دوسری بات یہ ہے کہ یہ کائنات ایک وقت آئے گا‘ ختم ہوجائے گی. کائنات کے حوالے سے آج تو یہ بات پوری دنیا مان رہی ہے‘ مگر آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے تک یہ تسلیم نہیں کیا جاتا تھا‘ بلکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی. اُس وقت انسان نیوٹونین فزکس کے دور میں جی رہا تھا. لیکن آج سائنس کے ذریعے انسان پر یہ امر واضح ہوچکا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے نہیں ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہے گی. یہ ایک خاص وقت پر پیدا کی گئی ہے اور ایک خاص وقت پر ختم ہو جائے گی. محققین کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ کائنات کا آغاز اب سے لگ بھگ پندرہ سے بیس ارب سال قبل 
Big Bang سے ہوا تھا. یہ کائنات پھلجھڑی کی طرح اب بھی پھیل رہی ہے. کائنات میں مزید کہکشائیں وجود میں آرہی ہے. چنانچہ آپ اکثر اخبارات میں یہ پڑھتے رہتے ہیں کہ آج ایک اور کہکشاں دریافت ہوگئی ہے‘ اور وہ ہم سے اتنے ملین‘ ٹریلین میل دور ہے. سائنس تو یہاں تک اب پہنچی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے یہ فرمادیا تھا: یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ(الفاطر:۱’’وہ (اللہ تعالیٰ) اپنی تخلیق میں اضافہ کرتا رہتا ہے (یا کرتا رہے گا)‘‘ اسی بات کو اقبال نے یوں بیان کیا ؎

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون 

ابھی تو یہ کائنات پھیل رہی ہے‘ لیکن ایک وقت آئے گا جبکہ یہ سمٹنا شروع ہو جائے گی‘ اور سمٹتے سمٹتے ایک نقطے پر جاکر ختم ہوجائے گی. قرآن حکیم میں اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے. 

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ ﴿۱۰۴﴾ (الانبیاء)
’’جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں‘ جس طرح ہم نے پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کردیں گے (یہ) وعدہ (جس کا پورا کرنا لازم) ہے‘ ہم ایسا ضرور کرنے والے ہیں.‘‘

اللہ کی ہستی جو کائنات کی خالق ہے‘ کی معرفت اُس کے اسماء و صفات کے ذریعے ہوسکتی ہے اور جہاں تک ذات باری تعالیٰ کا تعلق ہے‘ تو یہ ہماری عقل و فہم اور ہمارے تخیل اور تصور سے ماوراء‘ وراء الورا ثم وراء الورا ہے. قرآن حکیم میں اللہ کا چہرہ‘ اللہ کے ہاتھ کا ذکر ہوا ہے‘ مگر ان کی حقیقت کیا ہے‘ ہم نہیں جانتے. ہماری مثال تو اُس اندھے کی سی ہے‘ جو ایک بہت بڑی دیوار کے پاس جائے اور ٹٹولے تو اُسے یہ تو معلوم ہوجائے گا کہ میرے سامنے دیوار ہے‘ مگر یہ دیوار کتنی اونچی ہے؟ یہ کتنی چوڑی ہے؟ یہ بات وہ معلوم نہ کرسکے گا. اللہ کی ذات کے بارے میں اصل علم یہی بات ہے کہ ہم اس کی ذات کو نہیں جان سکتے. اُس کی معرفت کا ذریعہ صرف اُس کی صفات ہیں. یہی بات ایمان مجمل میں کہی گئی ہے:

اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌبِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے حوالے سے بھی ہماری limitations ہیں. مثلاً اللہ بصیر ہے. وہ دیکھتا ہے‘ مگر کیسے دیکھتا ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے. کیا اس کی کوئی آنکھ ہے؟ کیا وہ بھی (معاذ اللہ) دیکھنے کے لیے روشنی کا محتاج ہے؟ اسی طرح اللہ سمیع ہے مگر کیسے سنتا ہے؟ کیا اُس کے بھی کان ہیں؟ کیا اُسے بھی صوتی لہروں (sound waves) کی ضرورت ہے جو کانوں سے ٹکرائیں. اسی طرح اللہ ہر شے پر قادر ہے. مگر کتنا قادر ہے‘ ہم اس کا تصور نہیں کرسکتے. بہر کیف ہمیں تو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اُس کی صفات کے حوالے سے پہچانیں. قرآن کہتا ہے کہ تمام اچھے نام اللہ کے ہیں. تم جس نام سے بھی چاہو اُسے پکارو‘ اُسے اللہ کے ساتھ پکار لو یا رحمن کے ساتھ‘ جس نام سے پکارو گے یہ جان لو کہ تمام اچھی صفات اسی کی ہیں‘ اور یہ صفات بتمام و کمال ہیں. اللہ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌہے. وہ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ہے. وہ ہر چیز کا دیکھنے والا ہے. اپنی ذات میں تنہا ہے. اُس کی ذات و صفات اور اختیارات میں اُس کا کوئی شریک نہیں. اُس کی کوئی مثل‘ مثال اور مثیل نہیں اور نہ اُس کا کوئی ند اور کفو ہے. یہ ہے اللہ کی ذات کے بارے میں ہمارے تصورات کا خلاصہ. 
اب آئیے‘ ایمان بالآخرت کی طرف. اللہ نے اس کائنات کو تخلیق فرمایا‘ اور اس کائنات میں اُس کی تخلیق کا نقطۂ کمال انسان ہے. (اس کی تفصیل میں بعد میں بیان کروں گا) انسان کی زندگی یہی چند روزہ نہیں‘ جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں. ہم تو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ حیاتِ انسانی یہی ۶۰ یا ۷۰ برس ہے. اگر کسی کی عمر اور زیادہ بھی ہوگئی تو وہ ۹۰ یا ۱۰۰ برس کا ہو جائے گا. یہ تصور درست نہیں.

دیکھئے‘ انسان اشرف المخلوقات ہے. اُسے مسجود ملائک بنایا گیا. اللہ نے فرمایا کہ میں نے آدم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا جیسا کہ سورۂ ص میں فرمایا: قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ (آیت:۷۵)’’فرمایا کہ اے ابلیس جس (آدم) کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا.‘‘ دونوں ہاتھ کون سے ہیں؟ ایک عالم امر ہے اور دوسرا عالم خلق ہے. یہ دونوں عالم اللہ کی ذات میں جمع ہیں یا پھر اشرف المخلوقات انسان کی ذات میں. انسان کے علاوہ پوری کائنات میں کوئی ایسی مخلوق نہیں جس میں عالم خلق اور عالم امر دونوں جمع ہوں. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: خَلَقَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ آدَمَ عَلَی صُوْرَتِہٖ (۱’’اللہ عزوجل نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا.‘‘اندازہ کیجیے‘ انسان کا اس سے اونچا مقام اور کیا ہوگا. کیا (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاستئذان‘ باب بدء الاسلام.وصحیح مسلم‘ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا‘ باب یدخل الجنۃ اقوام افئدتھم مثل افئدۃ الطیر. ایسی عظیم ہستی کی زندگی بس یہی ۶۰ یا ۷۰ برس ہوگی‘ جبکہ اس مختصر عرصۂ زندگی میں سے بھی کچھ عرصہ بچپن میں گزر جاتا ہے‘ جب کہ انسان کو ہوش ہی نہیں ہوتا. بعض لوگوں کے بڑھاپے میں حواس صحیح سلامت نہیں رہتے‘ اور یادداشت ختم ہوجاتی ہے. باقی شعور کی عمر کتنی رہ جاتی ہے. کیا یہ مختصر دورانیہ انسان کی زندگی ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے‘ ایسا ہرگز نہیں. انسان کی زندگی یہی ماہ و سال نہیں بلکہ یہ بہت طویل ہے. دنیا کی زندگی تو اس طویل زندگی کا ایک وقفہ ہے. علامہ اقبال کہتے ہیں ؎

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ 
جاوداں ‘ پیہم رواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی 

حیاتِ انسانی کے پانچ ادوار

انسان کی پانچ زندگیاں ہیں یا یوں کہیے کہ طویل زندگی کے پانچ ادوار ہیں‘ جن میں سے دو ادوار سوتے ہوئے گزرتے ہیں اور تین بیداری میں. 

پہلا دور : سب سے پہلا دور وہ ہے جب عالم ارواح میں انسان کی روح کو پیدا کیا گیا. اُس وقت صرف روح تھی‘ جسم نہیں تھا. اور وہی عالم امر ہے. وہاں صرف روحانی زندگی تھی. قرآن میں فرمایا: 
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ (بنی اسرائیل:۸۵’’یہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں. فرمادیجیے کہ روح میرے رب کا امر ہے.‘‘ اسی عالم امر کے دوران تمام ارواح انسانی سے بندگی کا عہد لیا گیا. اللہ نے پوچھا: اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ قَالُوۡا بَلٰی ’’(تمام ارواحِ انسانیہ نے) کہا‘ کیوں نہیں‘‘. اللہ تو ہی ہمارا رب ہے‘ حاکم ہے‘ پروردگار ہے‘ خالق ہے. 

دوسرادور:اِس پہلی زندگی کے بعد ہمیں سلا دیا گیا. یہ گویا دوسری زندگی ہے. یہ موت اور نیند کی کیفیت ہے. یادرہے کہ نیند او رموت میں زیادہ فرق نہیں ہے. موت بھی ایک طرح کی نیند ہے‘ اور نیند بھی ایک طرح کی موت ہے. چنانچہ سو کر اُٹھنے کے موقع پر جو مسنون دعا پڑھی جاتی ہے اُس کے الفاظ ہیں: 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَنِیْ وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (۱

’’تمام شکر اور تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے زندہ کیا ہے‘ اس کے بعد کہ مجھے مردہ کردیا تھا. اور اُسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے.‘‘ صحیح مسلم‘ کتاب الذکرو الدعا‘ باب الدعا‘ عندالنوم ح:۲۷۱۱ آدمی نیند میں بھی ایک طرح سے مردہ ہوجاتا ہے. اسے شعور نہیں رہتا. موت بھی معدوم ہوجانے کا نام نہیں‘ بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کو منتقل ہونے کا نام ہے. اسی لیے جب آپ لاہور سے کراچی جاکر وہاں رہائش اختیار کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ میں کراچی منتقل ہوگیا. 
تیسرادور:اس کے بعد ہمیں تیسری زندگی اِس دنیا میں ملی. اس زندگی کا آغاز رحم مادر سے ہوتا ہے‘ جب انسان کو مادی جسم عطا کیا جاتا ہے. رحم مادر میں انسانی جنین جب۱۲۰ دن کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اُس میں روح پھونکتا ہے. عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا:’’تم میں ہر ایک ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی حالت میں رہتا ہے. پھر چالیس دن کے بعد گاڑھا خون بن جاتا ہے. پھر چالیس دن میں گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے. پھر اللہ تعالی اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار چیزیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے. پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان بالشت بھر فاصلہ رہ جاتا ہے‘ پھر تقدیر الٰہی اس کی طرف سبقت کرتی ہے تو اس کا خاتمہ دوزخیوں کے اعمال پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک آدمی جہنمیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ تقدیر الٰہی اس کی طرف دوڑتی ہے اور اس کا خاتمہ جنتو ں کے اعمال پر ہوتا ہے پس وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے.‘‘

بدقسمتی سے ہم پر مادیت کا اتنا غلبہ ہے کہ جو چیزیں ہمارے مادیت زدہ ذہن سے ٹکراتی ہیں اور مادی قوانین اور ضابطوں کے تحت نہیں آتیں‘ ہم انہیں رد کردیتے ہیں. روح کا یہی معاملہ ہے. حالانکہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ روح عالم خلق کی شے ہے ہی نہیں. یہ عالم امر کی شے ہے جبکہ مادی قوانین عالم خلق سے متعلق ہیں. یہ عالم اور ہے اور وہ عالم اور. دنیا میں ہمیں جو زندگی ملی ہے‘ یہ روح اور جسم کی زندگی ہے‘ جبکہ اس سے پہلے دو زندگیاں صرف روح کی زندگیاں تھیں. 
چوتھادور:حیات دنیا کاستر اسّی سالہ عرصہ مکمل ہوتے ہی انسان کا انتقال ہوجاتا ہے. یہاں سے اُس کی چوتھی زندگی شروع ہوجاتی ہے. یہ عالم برزخ اور قبر کی زندگی ہے. قبر میں گناہوں کی پاداش میں انسان پر عذاب بھی ہوتا ہے. عذاب قبر برحق ہے. یہ احادیث ہی سے نہیں‘ قرآن سے بھی ثابت ہے. رہی برزخی زندگی کی کیفیت تو اِسے ہم نہیں جان سکتے. اِس خاص کیفیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا. ایک سوال یہ بھی ہے کہ حضور نبی کریم  کی بلند مرتبت ہستی کی 
برزخی زندگی کیسی ہوگی؟ کیا یہ ایسی ہی زندگی ہوگی جیسے دنیا میں تھی یا یہ اِس سے مختلف ہوگی. میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے شہداء کے متعلق فرمایا کہ انہیں مردہ مت کہو‘ وہ زندہ ہیں‘ اللہ انہیں کھلاتا پلاتا ہے‘ مگر تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں. جب شہداء کی یہ شان ہے تو شہداء سے اوپر کا درجہ صدیقین کا ہے. اُن سے اوپر انبیاء کا درجہ ہے. اُن سے اوپر رسولوں کا درجہ ہے اور اُن سے بھی اوپر سید المرسلین  کا مقام ہے. آپ کی عظیم المرتبت ہستی کی زندگی کس شان کی ہوگی‘ ہم اِس کا تصور بھی نہیں کرسکتے. 

پانچواں دور:پانچویں زندگی آخرت کی ہے. یہ اُس وقت شروع ہوگی جب صور پھونکا جائے گا. صور کے اثر سے سب مرے ہوئے لوگ جی اُٹھیں گے‘ اور اپنی قبروں سے نکل کر دی گئی خبروں کی سچائی کانظارہ کریں گے اور اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے. ہر مردہ اُ سی ہیئت اور حالت پر اُٹھے گا جس میں اُس کی موت واقع ہوئی تھی. انسان کو ایسا محسوس ہوگا کہ گویا اُس پر مدہوشی کی حالت ایک گھنٹہ یا چند گھنٹوں سے زیادہ طاری نہیں رہی. سب یہی محسوس کریں گے کہ جیسے ابھی دنیا ہی میں ہیں‘ مگر وقت کی نزاکت اور ہیبت کی وجہ سے اُن کے آپس کے پہلے تمام رشتے ٹوٹ چکے ہوں گے. لوگ اپنے پیاروں کو دیکھیں گے‘ مگر نہ مزاج پرسی کریں گے نہ اہمیت دیں گے. ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی.ایک طویل عرصہ اسی حالت میں گزر جائے گا. سب لوگ ایک ہی مقام پر کھڑے رہیں گے. بالآخر سب کو گھیر گھار کر یکبارگی میدان حشر کی طرف ہانک دیا جائے گا‘ اور حساب کتاب اور وزن اعمال ہوگا. حساب کتاب اور وزن اعمال کے نتیجے میں انسان کے دو ہی ممکنہ انجام ہوں گے ابدی جنت یا ابدی آگ.

دو موتوں کے درمیان زندگی

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہماری یہ حیات دنیوی دو موتوں کے درمیان ہے. ایک موت وہ جب ہماری ارواح کو پیدا کرنے اور اُن سے عہدالست لینے کے بعد انہیں کولڈ سٹوریج میں رکھ دیا گیا اور دوسری موت وہ جو اِس دنیا کی زندگی کے اختتام پر آتی ہے. یہ زندگی ایک طویل سفر حیات کا ایک مختصر سا حصہ ہے‘ اور یہ اس لیے عطا کی گئی ہے‘ تاکہ ہمیں آزمایا جائے‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں فرمایا گیا:

خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲
’’اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے.‘‘

یہ زندگی امتحان کے لیے ہے. ہم کمرۂ امتحان میں بیٹھے ہیں. ہم بالعموم جس امتحان سے واقف ہیں‘ وہ تین گھنٹے کا ہوتاہے مگر یہ امتحان زندگانی ساٹھ ستر سال کے عرصے پر محیط ہے. اس امتحان کا نتیجہ آخرت میں جنت یا جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا. علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایاہے ؎

قلزم ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی 

تخلیق کے دو مراحل

اب آئیے ’’تخلیق‘‘ کے بارے میں چند باتیں ہو جائیں. تخلیق کے بڑے دو مراحل ہیں:
(۱) تخلیق کا مرحلہ اول عالم امر ہے. یہ اللہ کے ایک کلمہ 
’’کُن‘‘ سے پیدا ہوا. اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ :

وَ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۱۱۷﴾ (البقرۃ) 
’’جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے.‘‘

کلمہ 
’’کُنْ‘‘ سے ایک نور پیدا ہوا. یہ نہایت لطیف و بسیط اور خنک و پرسکون نور تھا‘ جس میں نہ حرارت و تپش تھی نہ حرکت و تموج. اس نور سے ایک تو عام ملائکہ کی تخلیق کی گئی اور دوسرے روح محمدی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام‘ روح آدمؑ سمیت تمام انسانوں کی ارواح پیدا کی گئیں. یہ ارواح ’’جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ‘‘ کی شکل میں تھیں. ملائکہ کے بارے میں یہ صراحت حدیث نبویؐ میں بھی موجود ہے کہ اُن کی تخلیق نور سے ہوئی. (مسلم عن عائشہؓ ) یہ تخلیق کا مرحلہ اول تھا. اور یہ مابعدالطبیعیاتی عالم کی تخلیق ہے. مختصر طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عالم امر میں جو چیزیں تخلیق ہوئیں‘ وہ چار ہیں: نور بسیط‘ ملائکہ‘ روح محمدیؐ اور روح ِ آدم سمیت تمام ارواح انسانیہ‘ اور روح القدس یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام . 
(۲)تخلیق کا دوسرا مرحلہ طبیعیاتی اور مادی عالم کی تخلیق ہے. اللہ کے ایک اور امر 
’’کُنْ‘‘ سے نور بسیط کے ایک حصے میں ایک دھماکہ ہوا‘ جس سے یہ پوری کائنات وجود میں آئی. تخلیق کا پہلا مرحلہ یعنی عالم امر کی تخلیق چونکہ میٹافزکس سے متعلق ہے‘ لہذا یہ سائنس کے دائرے میں نہیں آتا. البتہ یہ مرحلہ ثانی (یعنی عالم مادی کی تخلیق) سائنس کے دائرہ کار میں آتا ہے. عالم مادی کی تخلیق کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اِس کا آغاز اب سے لگ بھگ پندرہ بیس ارب سال قبل "Big Bang" یعنی ایک بہت بڑے دھماکے سے ہوا‘ یہ دھماکہ جیسا کہ کہا گیا ذات باری تعالیٰ کے ایک دوسرے امر’’کُنْ‘‘ کے نتیجے میں نور بسیط کے ایک حصے میں ہوا. جس کے نتیجے میں اس نور نے ایک ایسی ’’نار‘‘ کی شکل اختیار کرلی جو ایسے نہایت چھوٹے ذرات الیکٹران‘ پروٹان اور نیوٹران پر مشتمل تھی. جن کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک بلند (One Hundred Thousand Million Degree Centigrade) تھا اور جو ناقابل تصور سرعت ِرفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے. جس کے نتیجے میں یہ آتشیں گولہ حجم میں تیزی سے بڑھتا چلا گیا اور مرور زمانہ کے ساتھ اِن ذرات کی حرارت اور اُن کی باہمی کشش ثقل کی قوت و شدت دونوں میں کمی آتی چلی گئی. اِن اساسی ذرات کے ایک دوسرے سے دور بھاگنے سے یہ ناری ہیولیٰ یا بگولہ مختلف حصوں میں بٹتا بھی چلا گیا‘ جس سے کہکشائیں وجود میں آئیں اور ہرکہکشاں میں ناری کُرّے پیدا ہوئے‘ جن میں متذکرہ بالا اساسی ذرات کی تالیف سے ایٹم اور پھر اس کے مرکبات وجود میں آتے چلے گئے. اس ناری مرحلے میں جو صاحب تشخص اور صاحب شعور و ارادہ مخلوق پیدا کی گئی وہ ’’جنات‘‘ تھے. جن کا مادۂ تخلیق قرآن کی جا بجا صراحت کی بنا پر آگ ہے‘ جیسا کہ فرمایا گیا: 

وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷﴾ (الحجر) 
’’اور ہم نے جنوں کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آ گ سے پیدا کیا تھا.‘‘

گویا جنات کی تخلیق حضرت آدم کی تخلیق سے بہت پہلے ہوئی. اور یہ مادۂ تخلیق کے اعتبار سے انسان سے لطیف تر ہیں. انسان مٹی سے بنا او رمٹی کثیف شے ہے جب کہ آگ لطیف شے ہے. اس میں حرکت اور حرارت ہے. ابلیس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اس کا عذر بھی یہی بیان کیا تھا کہ 
اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۱۲﴾ (الاعراف) ’’میں اس سے بہتر ہوں‘ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اِسے مٹی سے.‘‘ ابلیس کی نگاہ میں روح محمدیؐ اور روح آدم نہیں تھی‘ صرف جسد آدم تھا. ایک وقت آیا کہ بہت سے ناری کُرّے ٹھنڈے پڑنے شروع ہوگئے. ہماری زمین بھی انہی میں سے ایک ہے. ٹھنڈے ہونے کے اس عمل کے دو نتائج ظاہر ہوئے: ایک یہ کہ جیسے کوئی انگارہ ٹھنڈا ہونے لگے تو اس کی سطح پر راکھ کی تہہ جم جاتی ہے اسی طرح کرۂ ارضی پر بھی ’’خاک‘‘ کی ایک تہہ پیدا ہوگئی‘ جسے زمین کا چھلکا (crust of the earth) کہا جاتا ہے اور جو کل حیاتِ ارضی‘ نباتاتی و حیواناتی کا مادۂ تخلیق ہے اور دوسرے یہ کہ زمین سے کچھ بخارات نکل کر اس کے گرد جمع ہوگئے جن سے زمین کا غلاف یعنی ’’فضا‘‘ وجود میں آئی. اور پھر اسی فضا میں موجود ہائیڈروجن اور آکسیجن کے امتزاج سے پانی وجود میں آیا جو کل حیاتِ ارضی کے لیے ’’منبعِ حیات‘‘ ہے. 

بفحوائے: وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ (الانبیاء:۳۰’’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی‘‘.اور اس نے موسلا دھار بارش کی صورت میں واپس زمین ہی پر برسنا شروع کردیا. گویا اس سلسلۂ تخلیق کا ایک مرحلہ وہ بھی تھا جس میں زمین پر سوائے پانی کے کچھ اور نہ تھا. اور غالباً اسی کی جانب اشارہ ہے قرآن حکیم کے ان الفاظِ مبارکہ میں کہ وَ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ (ھود:۷’’اور اس کا عرش پانی پر تھا.‘‘اور ادھر چونکہ زمین کی چمڑی (crust) ٹھنڈی ہونے کے باعث سکڑ بھی گئی تھی‘ لہذا سطح زمین پر نشیب و فراز پیدا ہوگئے. چنانچہ ایک جانب پہاڑ اور ان سے ملحق سطح مرتفع کے مختلف مدارج و مراحل کی صورت میں خشکی پیدا ہوئی تو دوسری جانب نشیبی علاقوں میں بارش کے پانی کے جمع ہونے کے باعث سمندر وجود میں آگئے. پھر ساحلی علاقوں میں حیاتِ ارضی کے مادہ تخلیق یعنی مٹی اور اُس کے منبع حیات یعنی پانی کے مابین تعامل سے انسان کی تخلیق ہوئی.

عالم امر اور عالم خلق میں بنیادی فرق

عالم امر اور عالم خلق میں بنیادی فرق جان لیجیے. عالم امر میں اللہ کے کسی حکم کی تعمیل میں کوئی لمحہ صرف نہیں ہوتا. اس لیے کہ وہاں زمان جاری کا کوئی تصور ہی نہیں. یہی وجہ ہے کہ اُس عالم میں خلعت وجود سے مشرف ہونے والی ہستیاں یعنی ملائکہ اور ارواح انسانیہ بھی زمان و مکان کی محدودیتوں سے ماوراء ہیں اور اُن کے فرش سے عرش اور بالعکس فرش سے عرش تک اور مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق تک منتقل ہونے میں کوئی وقت صرف نہیں ہوتا بلکہ آن واحد میں مشرق سے مغرب اور فرش سے عرش تک کا سفر طے کرسکتی ہیں. اس کے برعکس عالم خلق میں وقت لگتا ہے. مثال کے طورپر آم کی گٹھلی سے آم کا پودایک دم نہیں نکلتا بلکہ کافی وقت کے بعد نکلتا ہے. یہی حال رحم مادر میں انسانی جنین کا ہے. اسے بھی پورا ہونے میں ۹مہینے لگتے ہیں. اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے. اس میں بھی وقت صرف ہوا ہے. قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا.

عالم خلق کی تخلیق کا نقطہ ٔ کمال انسان

عالم خلق کی تخلیق کا نقطۂ کمال انسان ہے. انسان کا مادہ تخلیق مٹی ہے‘ مگر اُس میں جو روح ڈالی گئی ہے یعنی روح ربانی اِس نے اُس کا مقام کچھ سے کچھ کردیا ہے. اپنے جسد حیوانی کے اعتبار سے تو ہم جنات سے بھی نیچے ہیں‘ مگر روح کی بنا پر اشرف المخلوقات ٹھہرے ہیں. اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ﴿۴﴾ ( التین) 
’’ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے.‘‘

انسان کو مقام بلند روح کی بنا پر ملا. روح ربانی کے بغیر اُس کا کوئی مقام نہ ہوتا. محض مادی اورجسمانی اعتبار سے تو وہ باقی جانوروں سے بھی کمزور ہے. انسان کے بچے ہی کو دیکھ لیجیے. پیدائش کے وقت حیوان کا بچہ اُس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے. مثلاً بکری کا بچہ پیدا ہونے کے کچھ ہی دیر بعد چلنا شروع کردیتا ہے. اس کا جسمانی نظام مکمل اور اعصابی نظام کامل ہوتاہے. یہی حال دیگر جانوروں کا ہے. انسان کا بچہ ایک عرصہ گزرنے کے بعد ہی چلنے کے قابل ہوتا ہے. 
بہر کیف انسان کی بنائے فضیلت روح ہے. اس میں دو عالم خلق اور امر جمع ہیں. اُس کا جسم عالم خلق کی شے ہے‘ اور روح عالم امر کی. انسان کے علاوہ کسی بھی مخلوق میں یہ دونوں عالم جمع نہیں. مثلاً جنات صرف علم خلق کی مخلوق ہے. ان کے برعکس فرشتے صرف عالم امر کی مخلوق ہے.

زندگی ایک امتحانی وقفہ

انسان کی یہ دنیا کی زندگی ایک امتحانی وقفہ ہے‘ جس کا نتیجہ آخرت میں نکلے گا جبکہ حساب کتاب ہوگا. یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ امتحان کچھ پڑھا سکھا کر لیا جاتا ہے. آپ ایک بچے کو سال بھر پڑھاتے ہیں. اس کے بعد کہیں جاکر اُس کا امتحان لیتے ہیں. اگر بچہ امتحان میں کامیاب ہو جائے تو اُسے اگلے درجے میں ترقی دے دیتے ہیں‘ ورنہ جس درجے میں تھا‘ وہیں رہتا ہے. اِسی طرح آپ کبھی بچے کو کوئی چیز دے کر آزماتے ہیں. آپ بچے کو سو روپے کا نوٹ دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کرتا ہے. اِس آزمائش سے مقصود اُس کا رجحان معلوم کرنا ہوتا ہے. پیسے ملنے کے بعد بچے کے حوالے سے کئی امکانات ہیں. ایک امکان یہ ہے کہ بچہ دوڑ کر کتابوں کی دوکان پر چلا جائے اور رسالے اور کتابیں خرید لائے. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کھلونوں کی دوکان کا رُخ کرے اور کھلونے لے آئے. اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ بچہ دوکان سے کھانے پینے کا سامان لے آئے. بچہ جو بھی چیز خریدے گا اُس سے اُس کے رجحان کا اندازہ ہوجائے گا. 
چونکہ یہ زندگی ایک امتحان ہے. لہذا یہاں امتحان کے فلسفے کے تحت معرکہ ٔخیر و شر برپاہے ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی

اس امتحان کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر میں تمیز بھی سکھائی ہے اور خیر و شر کی قوتیں بھی عطا کی ہیں. ان قوتوں کے درمیان معرکہ جاری رہتا ہے. خیر و شر کا اولین معرکہ انسان کے اندر برپا ہوتا ہے. انسان کے اندر روح خیر کی قوت ہے اور شر کی قوت اُس کا حیوانی وجود ہے. عربی کا مقولہ ہے: ’’کُلُّ شَیْئٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہٖ‘‘ یعنی ہر شے اپنی اصل کی طرف رجوع کرتی ہے. ہمارے حیوانی وجود کا تعلق زمین سے ہے. اس کی غذا بھی زمین ہی سے حاصل ہوتی ہے. اس لیے اس کے داعیات اور تقاضے انسان کو زمین کی طرف کھینچتے اور پستی کی طرف دھکیلتے ہیں. زمینی خواہشات‘ آرزوئیں‘ جنسی جذبہ‘ بھوک پیاس‘ دنیا کے بارے میں امنگیں‘ دولت کی حرص و ہوس اور غلبہ و اقتدار کی خواہش یہ سب حیوانی تقاضے ہیں. یہ تقاضے اندھے بہرے ہیں. ان کو صرف اپنی تسکین سے غرض ہے‘ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ تسکین حلال راستے سے ہو یا حرام سے‘ جائز ذریعے سے ہو یا ناجائز سے. اسی لیے تو قرآن نفس کے بارے میں کہتا ہے: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ’’بے شک نفس تو برائی ہی کی طرف بلاتا ہے.‘‘ حیوانی وجود کے برعکس معاملہ روح کا ہے. روح کا تعلق عالم بالا سے ہے. اس کی غذا بھی عالم بالا سے آتی ہے‘ اور یہ غذا اللہ کا کلام ہے. روح کی توجہ اوپر کی طرف ہے. وہ اپنے مرکز کی طرف مائل بہ پرواز رہتی ہے. وہ انسان کو بلندی کی طرف لے جانا چاہتی ہے اور ہر دم اللہ کے قرب کے لیے کوشاں رہتی ہے. معنوی طور پر تو روح کو قرب حاصل ہے ہی‘ مگر وہ عملاً بھی اللہ کے قریب ہونا چاہتی ہے. اس طرح خیر و شر کی کشمکش انسان کے اندر جاری رہتی ہے.

انسان کی معنوی شخصیت کی تین سطحیں

فرائیڈ اگر چہ سائیکالوجی میں انسان کو انتہائی غلط رخ پر لے گیا‘ لیکن اس نے انسان کی معنوی شخصیت کے جو تین لیول مقرر کیے ہیں‘ وہ اُس کے مشاہدے کی گہرائی کے عکاس ہیں. فرائیڈ کے نزدیک معنوی شخصیت کی ابتدائی اور سب سے نچلی سطح Libido (لاشعور) ہے. یہ دراصل حیوانی خواہشات ہیں جو انسان کو نیچے کی طرف کھینچتی ہیں. دوسری سطح Ego (شعور) ہے. تیسری اور بلند ترین سطحSuper Ego (فوق الشعور) ہے. سپر ایگو کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ یہ دراصل ہر معاشرے کے اندر پائے جانے والے وہ معیارات ہوتے ہیں جو انسان کو متنبہ کرتے ہیں کہ فلاں کام نہ کرنا‘ اس لیے کہ اِسے سماج میں اچھا خیال نہیں کیا جاتا.گویا سپرایگو ایگو پر اثر ڈالتی ہے. پھر اگر ایگو چاہے تو پورے وجود حیوانی کو کنٹرول کرتی ہے. بالفاظِ دیگر ’’سپر ایگو‘‘ ’’ایگو‘‘ کو کنٹرول کرتی ہے اور ’’ایگو ‘‘’’لبیڈو‘‘ کو کھینچ کر رکھتی ہے. قرآن حکیم کے نزدیک انسان کی معنوی شخصیت کے یہی تین لیول ہیں. پہلا لطیفۂ نفس ہے. یہ تقریباًوہی بات ہے جو فرائیڈ کہہ رہا ہے. اس میں کوئی شک اور اختلاف نہیں. اس سے اوپری سطح پر لطیفہ قلب ہے. تیسری اور بلند ترین سطح پر لطیفہ روح ہے. روح انسان کو اوپر کھینچنا چاہتی ہے اور اُس کا مادی وجود اُسے نیچے کھینچنا چاہتا ہے ؎

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے

خیر و شر کی اسی کشمکش میں ہماری زندگی گزر رہی ہے. جس طرح ہمارے جسمانی قلب کو چین نہیں ہے‘ بلکہ ہر وقت متحرک رہتا ہے‘ سکڑتا اور پھیلتا رہتا ہے‘ اِسی طرح کا معاملہ معنوی قلب کا ہے. اس کا بھی رُخ کبھی روح کی طرف ہوجاتا ہے. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا وجود روحانی ہوجاتا ہے. مبدائے ارادہ قلب ہے. قلب دراصل روح کا آئینہ ہے. یہ روح کی طرف ہوجائے تو روح کے اثرات اور انوار و برکات پورے وجود پرچھا جاتے ہیں. اور اگر قلب کا رُخ نفس امارہ کی طرف ہوجائے تو پوری انسانی شخصیت حیوانیت کا نقشہ پیش کرتی ہے‘ بلکہ ہوسکتا ہے کہ انسان ایسا گھٹیا کردار پیش کرے اور اُس سے اس قدر برے اعمال صادر ہوں کہ حیوانیت اور درندگی بھی شرما جائے. قلب کے اوپر جو شے حکمران ہے‘ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے. حضور نے فرمایا: ’’تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے مابین ہیں. وہ جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے.‘‘ (۱جو شخص خوش قسمت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو روح کی طرف موڑ دیتا ہے. وہ بھلائی‘ نیکی‘ ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کی طرف راغب ہوجاتا ہے. اور بدقسمت (۱) مسند احمد‘ مرویات عبد اللّٰہ بن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنھما . شخص کے قلب کا رُخ نفس امارہ کی طرف ہوجاتا ہے. اور وہ حیوانیت کے راستے پر چل پڑتا ہے. قرآن کے نزدیک اس طرح کے لوگ حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں.سورۃ الاعراف میں فرمایا: 

لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۷۹
’’ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں. یہ لوگ (بالکل) چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بھٹکے ہوئے. یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں.‘‘

یہ وہ لوگ ہیں کہ اِن کے دل ہیں‘ مگر سوچتے نہیں‘ آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں. یعنی ان کا دیکھنا حیوانوں کی طرح کا دیکھنا ہے. اگر آدمی دیکھے کہ سامنے سے گاڑی آرہی ہے تو وہ اپنی جان بچا لیتا ہے. اسی طرح ایک کتا بھی گاڑی کو آتے دیکھ کر اپنے آپ کو بچا لیتا ہے. بچنے کی صلاحیت اس میں ہے. اگر دیکھنا اِسی کا نام ہے تو پھر انسان اور جانور دونوں برابر ہوگئے. اصل دیکھنا یہ نہیں‘ کچھ اور ہے ؎ 

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا

شے کا ظاہر تو کتے کو بھی نظر آتا ہے. انسان تو وہ ہے جو اشیاء کی حقیقت کو سمجھے. چنانچہ حضور  دعاؤں میں سے ایک دعا کے الفاظ ہیں: اَللّٰہُمَّ اَرِنِی الْاَشْیَاءَ کَمَا ھِیَ (۱’’اے اللہ مجھے اشیاء (کی اصل حقیقت )دکھا دے جیسی کہ وہ ہیں.‘‘ یعنی میں صرف ظاہر پر مطمئن نہیں ہونا چاہتا. اُن کی حقیقت جاننا چاہتا ہوں. مجھے اشیاء کی حقیقت دکھا دے. حقیقت کو دیکھنے والی آنکھ ظاہر کی آنکھ نہیں‘ یہ دراصل دل کی آنکھ ہے. اسی طرح حقیقت کی طرف متوجہ ہو جانے والے کان بھی دل کے کان ہیں.

معرکہ ٔخیر و شر

خارج میں بھی خیر و شر کی کچھ طاقتیں ہیں‘ جن کے مابین خیر و شر کا معرکہ جاری رہتا ہے. شر کی سب سے بڑی طاقت شیطان (ابلیس لعین) ہے. اللہ تعالیٰ نے اُسے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں راندۂ درگاہ کیا تو وہ اپنی ابلیسیت اور شیطنت پر ڈٹ گیا. اُس نے (۱) صید الخاطر‘ لعبدالرحمن ابن الجوزی اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن تک مہلت مانگی اور کہا کہ اے اللہ میں ابن آدم کو اغوا کروں گا اور یہ ثابت کردوں گا کہ حضرت آدم اُس منصب خلافت کا اہل نہیں تھا‘ جو تو نے اُسے دیا اور میں اُس کی ذریت کو تباہ کرکے چھوڑوں گا. قرآن میں اُس کا یہ چیلنج بایں الفاظ نقل کیا گیا ہے:

قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿ۙ۱۶﴾ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ ﴿۱۷﴾ (الاعراف) 

’’ (پھر) شیطان نے کہا کہ مجھے تو تو نے ملعون کیا ہی ہے. میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کو (گمراہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا. پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا (اور ان کی راہ ماروں گا). تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا.‘‘

شیطان کا مادۂ تخلیق آگ ہے جو نہایت لطیف مادہ ہے. چنانچہ حدیث کے مطابق شیطان انسان کے خون میں دوڑتا ہے. 
(۱دنیا میں شیطان کے ایجنٹ بھی ہیں. یہ جنوں میں سے بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی. یہ شیطان کی باقاعدہ پارٹی کا حصہ ہیں‘ جسے قرآن حکیم میں ’’حزبُ الشیطان‘‘ کہا گیا ہے. ان کا کام حق کا راستہ روکنا اور شر اور باطل کو فروغ دینا ہے. دنیا بھر کے انسانوں میں شر کی سب سے بڑی قوت یہودی ہیں. یہودیوں کی ذہانت و فطانت اور سازشی ذہنیت تمام لوگوں سے بڑھ کر ہے. یہود کی طرف اللہ نے بہت سے نبی اور رسول بھیجے. انہوں نے اُن کی تکذیب کی اور بہت سے نبیوں کو قتل کردیا. وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی قتل کے درپے ہوگئے تھے بلکہ قتل کی سازش تیار کی اور اپنے تئیں انہیں سولی پر چڑھا بھی دیا‘ مگر اللہ نے اُ نہیں بچا لیا اور زندہ آسمان پر اُٹھا لیا. اللہ نے یہودی اسکریوتی کی شکل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بنا دی جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دھوکے سے گرفتار کروایا تھا‘ اور عیسیٰ علیہ السلام کی بجائے اُسے ہی سولی دے دی گئی.

یہودی اپنے جرائم کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ہاں مغضوب اور مردود قرار پائے ہیں‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑا مقام عطا کیا تھا. جیسا کہ سورۃ البقرہ کے چھٹے رکوع کی پہلی آیت سے ظاہر ہے:یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۷﴾ ’’اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتکاف‘ باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور یہ کہ میں نے تم کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی.‘‘ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ جس قوم کی طرف رسول بھیجے وہ بحیثیت مجموعی رسول کا انکار کردے اور اُس کی جان کے درپے ہوجائے تو اُس پر عذاب بھیجتا ہے. رسولوں کی تکذیب پر یہ عذاب پہلے بھی کئی اقوام پر آیا. یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت حق کو رد کرکے اور اُن کے قتل کے درپے ہوکر اللہ کے عذاب کے مستحق ہوگئے تھے‘ مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب استیصال سے دوچار نہیں کیا. (اُن کی بابت اللہ کی حکمت کچھ اور ہے‘ جو ایک علیحدہ ایشو ہے.) تاہم انہیں دنیا میں مردود‘ ملعون اور مغضوب علیھم بنا دیا. خارجی سطح پر جو خیر و شر کا معرکہ جاری ہے‘ اس میں یہودی شیطان کے سب سے بڑے ایجنٹ ہیں. اُن کی ذہانت اور سازشی صلاحیت مسلمہ ہے. آج کے اس دجالی دور میں اکثر بڑے سائنسدان یہودی ہوئے ہیں. اسی طرح بڑے بڑے لوگ جو دجالی فکر لے کر سامنے آئے ہیں اور اُسے آگے بڑھایا‘ جس نے انسان کو اللہ سے‘ اور اس کے دین اور روحانیت سے ہٹا دیا ہے‘ سب یہودی ہیں. مثلاً کارل مارکس یہودی تھا. لینن یہودی تھا.

سٹالن یہودی تھا. یہودیوں میں بہت صلاحیت ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ صلاحیت انسان کی تباہی اور گمراہی کے لیے استعمال ہو رہی ہے. یہودی جیسا کہ کہا گیا شیطان کے سب سے بڑے آلۂ کار اور ایجنٹ ہیں اور خود اِن کے آلۂ کار WASP White Anglo Saxon Protestants عیسائی برطانیہ اور امریکہ ہیں. چنانچہ برطانیہ نے یہودیوں کو طویل دورانتشار کے بعد بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے دوبارہ فلسطین میں آبادہ ہونے کی اجازت دی‘ اور امریکہ نے انہیں ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کی چھتری تلے فلسطین میں ریاست قائم کرنے میں مدد دی. یہ تو شر کی قوتیں ہیں. اِن کے مقابلے میں خیر کی طاقتیں ہیں. خیر کی قوتوں میں انبیاء و رسل اور اُن کے پیروکار شامل ہیں. انبیاء کرام کے سچے پیروکار اُن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لوگوں کو خیر کی طرف بلاتے‘ اُنہیں نیکی کی دعوت دیتے ہیں. یہ خیر کی مرئی طاقتیں ہیں جیسے یہودی شر کی مرئی طاقت ہیں. پھر جیسے شر کی غیر مرئی قوتوں میں ابلیس اور شیاطین جنّ ہیں‘ اسی طرح خیر کی غیر مرئی طاقتوں میں ملائکہ ہیں. یہ بھی اللہ کے حکم سے اہل ایمان کی نصرت و تائید کرتے اور اُن کے قدم جماتے ہیں. چنانچہ غزوۂ بدر میں فرشتے آئے ہیں. اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق غزوۂ احد میں بھی فرشتے نازل ہوئے‘ مگر جب امر کے معاملے میں تنازعہ ہوا اور حضور کے ایک حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو جنگ کا پانسا پلٹ گیا. اس کا ذکر سورۃ آل عمران میں بایں الفاظ میں آیا ہے: 

وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ (آیت ۱۵۲

’’ اور اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دیا (یعنی) اس وقت جب کہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے اللہ نے تم کو دکھا دیا. اس کے بعد تم نے ہمت ہار دی اور حکم (پیغمبر) میں جھگڑا کرنے لگے.‘‘

شیطان کو انسان پر اختیار حاصل نہیں!

ایک بات اور بھی واضح ہو جائے کہ داعیانِ شر ہوں یا داعیانِ خیر‘ اِن میں سے کسی کو بھی انسان پر اختیار حاصل نہیں. وہ صرف دعوت دے سکتے ہیں. اگر داعیان حق ہیں تو وہ بھی تبلیغ‘ تلقین‘ نصیحت اور تعلیم کے ذریعے سے لوگوں کو حق کی طرف راغب کرسکتے ہیں اور اگر داعیان شر ہیں تو وہ بھی بہلا پھسلا کر انہیں گناہ کی ترغیب دے سکتے ہیں. وہ گناہ اور منکرات کو مزین اور خوبصورت بنا کر پیش کریں گے. ابلیس کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ آپ کو غلط راستے پر لے جائے. اُس کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ آپ کے سامنے دنیا کو خوشنما بنائے گا‘ بدی کو خوشنما بنا کر پیش کرے گا. اس کے لیے بڑے اچھے اچھے الفاظ استعمال گھڑ کر دے گا. قرآن مجید میں ہے کہ ابلیس نے اللہ سے قیامت تک مہلت مانگی اور کہا :
رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾ (الحجر) 

’’پروردگار‘ جیسا تو نے مجھے راستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لئے (گناہوں کو) آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤ ں گا.‘‘
یعنی میں گناہوں کو خوبصورت پیرائے میں اُن کے سامنے لاؤں گا اور انہیں اِس طور سے بہکاؤں گا کہ وہ دنیا ہی کے عاشق بن جائیں گے. 

رخ ِروشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے 

اس کے جواب میں اللہ نے فرمادیا کہ 

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۴۲﴾ 
’’جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں (کہ ان کو گناہ میں ڈال سکے) ہاں بدراہوں میں سے جو تیرے پیچھے چل پڑے.‘‘

ٹھیک ہے‘ توانہیں بہلا‘ پھسلا‘ دھوکہ دے‘ سبز باغ دکھا‘ جتنا چاہے زور لگادے. مگر یاد رکھ‘ تجھے اُن پر اختیار حاصل نہیں ہوگا. جو بھی تیری طرف آئے گا اپنے اختیار سے آئے گا. اس کا اپنا قلب ہوگا جو نفس امارہ کی طرف مائل ہوگا اور اُس کا بیڑا غرق ہوجائے گا. اس دور میں گناہوں کو آراستہ کرنے کی سب سے نمایاں مثال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ طے کیا ہے کہ 
prostitute(طوائف)کو prostitute نہ کہا جائے بلکہ sex worker کا نام دیا جائے. اسی طرح عصمت فروشی کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ کوئی بُری بات ہے‘ یہ بھی ایک ذریعہ ٔمعاش ہے. ایک عالمی ادارے کی جانب سے ایسا فیصلہ اس لیے ہوا ہے کہ یہ ادارہ یہود کے شکنجے میں ہے‘ جو ساری دنیا میں پوری طرح شیطنت اور بے حیائی کو عام کردینا چاہتے ہیں.

انبیاء کرام کی بنیادی ذمہ داری : انذار و تبشیر

جس طرح شیطان اور اُس کی ذریت انسان کو جبراً غلط راستے پر نہیں ڈال سکتی‘ اسی طرح داعیان حق یہاں تک کہ انبیاء کرام کو بھی اختیار یہ نہیں کہ لوگوں کو راہ ہدایت پر لے آئیں. ان کا کام انذار و تبشیر اور تبلیغ و تلقین ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں کار نبوت کی ادائیگی کے حوالے سے انبیاء و رسل کے لیے بنیادی اصطلاحات مبشر اور منذر آئی ہیں. سورۃ النساء میں فرمایا: 

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵
’’(سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع نہ رہے. اور اللہ غالب حکمت والا ہے.‘‘

معلوم ہوا انبیاء خبردار کرنے والے اور بشارت دینے والے ہیں. وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ غلط راستے پر نہ چلو. یہ جہنم کا راستہ ہے. اگر اس راستہ پر چلو گے تو جہنم کی دہکتی آگ تمہارا مقدر ہوگی. دیکھو‘ ہم نے تمہیں برے انجام سے خبردار کردیا. اب اس سے بچنا تمہارا کام ہے. اِسی طرح وہ لوگو ںکو سیدھا راستہ بتاتے ہیں اور انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ اگر تم اس راستے پر چلو گے تو تمہارا ٹھکانہ جنت ہوگا. نبی ٔآخر الزماں  خیر کے سب سے بڑے اور عظیم ترین داعی ہیں. آپؐ سے بھی یہی فرمایا گیا: 
اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۵۶(القصص) 

’’(اے محمد ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے.‘‘

اس ضمن میں حضور کی حیات طیبہ میں ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال آپؐ کے چچا ابوطالب کی ہے. ابوطالب حضور کے محسن تھے اور اس اعتبار سے ہم سب کے محسن ہیں. انہوں نے حضور کو سپورٹ کیا‘ آپؐ کو اپنی پناہ میں رکھا. وہ جب تک زندہ رہے اس وقت تک قریش کو آپؐ کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی جرأت نہ ہوئی. اس لیے کہ اندیشہ تھا کہ اگر آپؐ کے خلاف اقدام کیا تو قریش میں پھوٹ پڑ جائے گی. اُن میں آپس میں تصادم ہو جائے گا. حضور کی بڑی آرزو تھی کہ آپؐ کے چچا ایمان لے آئیں‘ مگر معروف روایات کے مطابق ابوطالب کلمہ پڑھے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگئے. جب اُن کا آخری وقت آیا تو حضور نے فرمایا: چچا جان! میرے کان میں کلمہ پڑھ لیجیے‘ تاکہ میں اللہ کے ہاں گواہی دے سکوں. مگر عزت نفس اُن کے آڑے آگئی اور انہوں نے عرب مزاج کی بنا پر اسلام قبول نہ کیا. کہنے لگے بھتیجے‘ میں جانتا ہوں کہ تیرے دین سے بہتر کوئی دین نہیں‘ لیکن میں اس وقت کلمہ ٔشہادت نہیں پڑھنا چاہتا‘ مبادا عرب کی عورتیں یہ کہہ دیں کہ ابوطالب نے موت کے ڈر سے اپنا مذہب تبدیل کردیا. 

انبیاء و رسل بشیر‘ نذیر‘ داعی الی اللہ‘ مینارۂ نور معلم‘ مربی اور مزکی ہوتے ہیں اور جو لوگ نبیوں کے نقش قدم پر چل کر مخلوق کی خدمت کریں‘ لوگوں کو صحیح راستے پر بلائیں‘ ان کے لیے بھی یہی الفاظ ہوں گے. تمام انبیاء و رسل کے لیے مبشر و منذر اور نذیر کے الفاظ آئے ہیں. (البقرۃ:۲۱۳‘ الانعام:۸۴‘ الکہف:۵۶‘ فاطر:۲۴)لیکن انبیاء کرامؑ بھی اس پر قدرت نہیں رکھتے کہ لوگوں کو ہدایت دے دیں. انبیاء کرام کی متذکرہ حیثیتوں کے علاوہ ایک حیثیت شاہد کی ہے. سورۃ الاحزاب میں جہاں نبی اکرم  سے خطاب کرتے ہوئے آپؐ کی ان تمام حیثیتوں کو جمع کیا گیا ہے ’’شاہد‘‘ کی حیثیت کا ذکر سب سے پہلے ہوا ہے. 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶
’’ اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے. اور اللہ کی طرف بلانے والا اور چراغ روشن‘‘

ترتیب نزولی کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو آپؐ کی ’’شاہد‘‘ کی حیثیت کا تذکرہ سب سے پہلے آیا ہے‘ جبکہ دوسری اصطلاحات بعد میں آئی ہیں. چنانچہ سورۃ المزمل میں بھی جو ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں سے ہے آپ کو ’’شاہد‘‘ کہا گیا ہے. فرمایا:

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾ فَعَصٰی فِرۡعَوۡنُ الرَّسُوۡلَ فَاَخَذۡنٰہُ اَخۡذًا وَّبِیۡلًا ﴿۱۶﴾فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا ﴿٭ۖ۱۷﴾ السَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌۢ بِہٖ ؕ کَانَ وَعۡدُہٗ مَفۡعُوۡلًا ﴿۱۸﴾ 

’’(اے اہل مکہ) جس طرح ہم نے فرعون کے پاس (موسیٰ کو) پیغمبر (بناکر) بھیجا تھا (اسی طرح) تمہارے پاس (محمد  ) رسول بھیجے ہیں جو تمہارے مقابلے میں گواہ ہوں گے. سو فرعون نے (ہمارے) پیغمبر کا کہا نہ مانا تو ہم نے اس کو بڑے وبال میں پکڑ لیا. اگر تم بھی (ان پیغمبر کو) نہ مانو گے تو اس دن سے کیونکر بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا. (اور) جس سے آسمان پھٹ جائے گا. یہ اس کا وعدہ (ہے جو پورا) ہو کر رہے گا.‘‘

’’شاہد‘‘ کا لفظ غائب کا متضاد ہے. اس کے معنی حاضر و موجود کے ہیں. اس میں دو معانی اضافی طور پر پیدا ہوگئے ہیں. ایک گواہ اور دوسرا مددگار. ظاہر ہے کہ جو شخص کسی موقع پر موجود ہوگا وہی وقوعہ کا گواہ بھی ہوگا‘ اور وہی مدد بھی کرسکے گا. جو شخص موجود نہ ہو‘ اُس نے ایک واقعہ کو دیکھا ہی نہ ہو‘ وہ نہ تو گواہی دے سکتا ہے‘ اور نہ ہی مدد کرنے پر قادر ہوسکتا ہے. سورۃ الفتح میں مددگار کے معنی میں اللہ کے لیے ’’شہید‘‘ کا لفظ آیا ہے. فرمایا:

وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ 
’’اللہ کافی ہے (آپ کی) مدد کے لیے.‘‘ 

شہادت کے معنی

اب سوال یہ ہے کہ ’’شہادت‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ شہادت کے معنی گواہی ہیں. گواہی کے دورخ ہوتے ہیں. ایک مدعی کی طرف اور دوسرا مدعا علیہ کی طرف. گواہی یا تو کسی کے حق میں ہوگی اور یا پھر کسی کے خلاف ہوگی. اگر حق میں ہو تو ایسی صورت میں ’’شَھِدَ‘‘ کے ساتھ ’’ل‘‘ کا صلہ آتا ہے. اور اگر خلاف ہو تو پھر تو شَھِدَ کے ساتھ ’’علیٰ‘‘ کا صلہ آتا ہے. اِس ’’ل‘‘ اور ’’علیٰ‘‘ کے فرق کو ایک حدیث کے حوالے سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے. حضور نے فرمایا: اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ (۱’’ قرآن حجت ہے تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف‘‘ یعنی یہ تمہارے حق میں گواہی دے گا یا پھر تمہارے خلاف. اگر قرآن حکیم کے حقوق ادا کرو گے‘ اس کو پڑھو گے‘ اس کو سمجھو گے‘ اُس پر عمل کرو گے اور اسے اپنا امام بناؤ گے تو یہ تمہارے حق میں گواہی دے گا اور کہے گا‘ باری تعالیٰ! تیرا یہ بندہ مجھے پڑھتا تھا‘ مجھ پر غور کرتا تھا‘ مجھ پر عمل کرتا تھا‘ میری تبلیغ کرتا تھا. اس نے اپنے آپ کو میری (قرآن کی) تعلیم و تعلم کے لیے وقف کردیا تھا. تو اس کے حق میں میری گواہی قبول فرما. جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے. حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم  نے فرمایا: اَلصِّیَامُ وَالقُرْاٰنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَقُوْلُ الصِّیَامُ: أَیْ رَبِّ إِنِّیْ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھْوَاتَ بِالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِی فِیْہِ وَیَـقُوْلُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِالْلَیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ فَیُشَفَّعَانِ (۲’’روزہ اور قرآن دونوں بندہ کے لیے شفاعت کریں گے. روزہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار میں نے اس کو کھانے اور دوسری خواہشات (مثلاً پانی‘ جماع اور غیبت وغیرہ) سے دن میں روکے رکھا‘ لہذا میری طرف سے اس کے حق میں شفاعت قبول فرما. قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا‘ لہذا میری طرف سے بھی اس کے حق میں شفاعت قبول فرما. چنانچہ ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی.‘‘ قرآن مجید کے حقوق ادا کریں گے تو یہ ہمارے حق میں حجت بنے گا ورنہ یہ ہمارے خلاف حجت ہوگا اور ہمارے خلاف گواہی دے گا. ’’شہادت‘‘ قرآن مجید کی ایک اہم اصطلاح ہے. جس کا تعلق کارِ رسالت کی ادائیگی سے ہے. رسولوں کو اسی لیے بھیجا جاتا ہے‘ تاکہ شہادت علی الناس کا فریضہ انجام دیں‘ اور لوگوں پر حجت تمام ہوسکے‘ اور روز محشر اُن کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے.

محاسبۂ اُخروی کی پانچ بنیادیں

یہاں یہ بات واضح کردی جائے کہ اگر کوئی بھی نبی اور رسول نہ آتا‘ تب بھی ہر شخص کا محاسبہ ہونا تھا. یہی وجہ ہے کہ روز محشر اُس شخص سے بھی محاسبہ ہوگا کہ جس تک کسی نبی اور رسول کی دعوت نہیں پہنچی‘ (یہ الگ بات ہے کہ اُس کا محاسبہ توحید اور نیکی اور بدی کے عام معیار کے اعتبار سے ہوگا‘ اُس سے یہ محاسبہ نہیں ہوسکتا کہ تو نے نماز کیوں نہیں پڑھی. اس لیے کہ اس کے (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الطھارۃ‘ باب الوضو شطر الایمان.

(۲) الجامع الصغیر للسیوطی ‘ ح: ۵۲۰۳ الراوی: عبداللّٰہ بن عمروؓ . 
پاس یہ عذر ہے کہ الٰہی‘ مجھے تو تیرا پیغام پہنچا ہی نہیں). یقینا اُس سے بھی محاسبہ ہوگا. ایسا نہیں ہے کہ اُس سے کوئی باز پرس ہی نہ ہو. یہ محاسبہ اُن پانچ چیزوں کی بنیاد پر ہوگا جو اللہ نے انسان میں ودیعت کی ہیں. 

محاسبہ کی اوّلین بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت و بصارت عطا کی. دوسرے یہ کہ اسے عقل و خرد سے نوازا. قرآن حکیم میں فرمایا گیا: 

وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾ ( بنی اسرائیل) 
’’اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) کے بارے میں ضرور باز پرس ہوگی.‘‘

محاسبہ کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ نفس انسانی کے اندر نیکی و بدی کا شعور الہام کیا گیا. نیکی بدی کی پہچان فطرت انسانی میں رکھ دی گئی ہے. سورۃ الشمس میں فرمایا گیا: 

فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ 
’’پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی.‘‘
ہر شخص بنیادی طور پر یہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا برا ہے‘ اور سچ بولنا اچھا ہے. ہمدردی اچھی شے ہے اور ظلم بری شے ہے. یہ چیزیں بنیادی اخلاقیات میں سے ہیں جو انسان کی فطرت میں شامل ہیں. اس لیے قرآن نیکی کو معروف کہتا ہے یعنی یہ لوگوں کے نزدیک جانی پہچانی شے ہے. اور برائی اور گناہ کو منکر کا نام دیتا ہے. یعنی اس سے انسان کی طبیعت نفرت کرتی ہے. 

محاسبہ کی چوتھی بنیاد روح میں اللہ کی معرفت ہے. اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں تمام ارواح انسانی سے اپنی بندگی کا عہد لیا. اُن سے پوچھا: 
اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ قَالُوۡا بَلٰی (تمام ارواح نے) کہا کیوں نہیں‘ تو ہی ہمارا رب ہے. (ہم تیری ہی بندگی کریں گے) 

محاسبہ اخروی کی پانچویں بنیاد وہ جذبہ محبت ہے جو روح میں رکھا گیا ہے.یہ معرفت اور محبت خوابیدہ ہے. اس کو بیدار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام ربانی کی بارش ہوتی ہے. روح کو کلام ربانی کی غذا ملتی ہے تو اس کی صلاحیت ابھرتی ہے.

نبی اکرم  کی بعثت ‘اتمام ِحجت

ان پانچ چیزوں کی بنیاد پر ہر شخص روز محشر جوابدہ ہوگا‘ چاہے اُس کے پاس کسی نبی اور کسی رسول کا پیغام نہ بھی پہنچا ہو. لیکن اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کے ساتھ ساتھ نبوت و رسالت اور کتابوں کا سلسلہ بھی جاری کیا. نبی لوگوں کو خیر کی دعوت دیتے اور بدی سے روکتے ہیں اور نیکی اور بدی کی پہچان اور بڑھا دیتے ہیں. جس سے انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میرا اصل مقام کیا ہے. اُسے یہ بات یاد آجاتی ہے کہ میں کون ہوں‘ اور مجھے اللہ کو راضی کرنے کے لیے کیا کرنا ہے. میں اس امتحان زندگی میں کیسے سرخرو ہوسکتا ہوں. جب نبی آگئے‘ تو اخلاق کا پیکر‘ سیرت و کردار کا مجسمہ انسان کے سامنے آگیا. حق کی دعوت بھی سامنے آگئی اور نمونۂ عمل بھی . ہر نبی نے اپنے دور میں روح میں چھپی یا دبی ہوئی چیزوں کو اجاگر کیا. اس سے گویا دو کام ہوگئے. ایک یہ کہ لوگوں کے لیے حق کو پہچاننا اور اسلام پر چلنا آسان ہوگیا. دوسرے یہ کہ ان پر حجت تمام ہوگئی. چنانچہ اب آخرت میں یہی نبی اور رسول کھڑے ہوکر گواہی دیں گے کہ اے اللہ‘ ہم نے ان لوگوں تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا. اب یہ اپنے اعمال کے لیے خود جواب دہ ہیں. یہ آج یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم تک اللہ کا پیغام پہنچا ہی نہیں‘ ہم سے جواب طلبی کیوں ہورہی ہے. ہمارے نبی نے تو اتمام حجت کے معاملے کو کمال تک پہنچا دیا. آپؐ نے لوگوں سے اِس کی گواہی بھی لے لی. خطبہ حجۃ الوداع آپؐ کا آخری خطبہ ہے. اس موقع پر آپؐ نے اپنی دعوت کے اہم نکات خوب کھول کر بیان کیے. سوا لاکھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مجمع تھا. حضور ایک ایک لفظ تین تین مرتبہ بول رہے تھے. جب خطبہ ختم ہوگیا‘ تو آپؐ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا: اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ لوگو! بتاؤ‘ کیا میں نے تمہیں (پیغام حق) پہنچا دیا؟ توصحابہؓ نے آپؐ کے پوچھنے پر کہا یارسول اللہ ہم گواہ ہیں کہ آپؐ نے حق امانت ادا کردیا،آپؐ نے حق رسالت ادا کردیا(یعنی آپؐ کے ذمہ قرآن کی امانت پہنچانا تھا‘ آپؐنے پہنچا دیا)،آپؐ نے ہماری خیر خواہی کا حق ادا کردیا. پھر آپ ؐ نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ (۱’’اے اللہ تو بھی گواہ رہے (کہ میں نے پیغام حق پہنچا دیا).‘‘ 

آخرت میں جب امتوں کو کھڑا کیا جائے گا تو ہر امت کے رسول کھڑے ہوکر کہیں گے کہ اے اللہ‘ تیرا جو پیغام مجھ تک پہنچا تھا‘ میں نے اسے ان لوگوں تک پہنچادیا تھا. اب یہ اپنے عمل کے لیے خود جوابدہ ہیں. سورۃ النساء کی آیت۴۱میں اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے. فرمایا: 

(۱)صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘ باب خطبہ ایام منیٰ. فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿۴۱﴾ 


’’بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا (حال بتانے کو) گواہ طلب کریں گے.‘‘

روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور  نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھے کچھ قرآن سناؤ. انہوں نے عرض کی‘حضور آپ کوسناؤں؟ جبکہ آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے. آپؐ نے فرمایا‘ ہاں سناؤ‘ مجھے دوسروں سے سن کر اور لذت محسوس ہوتی ہے. تعمیل امر میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۃ النساء کی قراء ت شروع کردی. جب ۴۱ ویں آیت پر پہنچے تو حضور نے فرمایا: بس کرو بس کرو. انہوں نے دیکھا کہ آپؐ کے آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے. 
(۱یہ آنسو آخر کس بات پر بہہ رہے تھے؟ کس بات کی فکر آپؐ کو لاحق تھی. آپؐ کی یہ کیفیت اس وجہ سے ہوئی کہ آپؐ کو آخرت میں اپنی قوم کے خلاف گواہی دینی ہوگی. یہ ہے فریضہ شہادت حق. انبیاء کرام جب پیغام حق لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں تو اُن پر حجت تمام ہوجاتی ہے. اس کے بعد کسی کے پاس کوئی عذر نہیں رہ جاتا. چنانچہ سورۃ النساء میں اس معاملے کو اور بھی کھول کر بیان کیا گیا ہے. فرمایا:

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾ 
’’(سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع نہ رہے. اور اللہ غالب حکمت والا ہے.‘‘

شہادت علی الناس: اُمت مسلمہ کا فرض منصبی

حضور  پر نبوت و رسالت کا اتمام ہو چکا ہے‘ لیکن کار رسالت تو ابھی باقی ہے. پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ جب لوگ رسول کی دعوت بھلا دیتے تو اللہ تعالیٰ اور رسول بھیج دیتا جو اُن کی اصلاح کرتا تھا. سوال یہ ہے کہ تکمیل نبوت و رسالت کے بعد اب یہ کام کون کرے گا. اس کا جواب یہ ہے کہ حق کی گواہی اب ہماری ذمہ داری ہے. اب یہ ذمہ داری بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کے کندھوں پر آن پڑی ہے. یہ مضمون قرآن حکیم میں دو مرتبہ آیا ہے. ایک مقام (۱) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب قول المقری للقاری. سورۃ الحج کی آیت ۷۸ہے. فرمایا: 

وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ 

’’اور خدا (کی راہ) میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین (کی کسی بات) میں تنگی نہیں کی (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں.اور تم لوگوں پر گواہ ہو.‘‘

یہ گویا اُمت کا فریضۂ رسالت ہے. آپؐ کی جانب سے اور آپؐ کی ہدایت پر انجام دیا جارہا ہے. حضور کی زندگی میں بھی جہاں آپؐ خود تبلیغ کرتے تھے‘ صحابہؓ تبلیغ نہیں کرتے تھے. عشرۂ مبشرہ میں سے چوٹی کے چھ صحابہ ؓ ‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر ایمان لائے‘ مگر یہ دعوت و تبلیغ حضور کی اجازت سے ہورہی تھی. ایک مرتبہ حضور نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ عید کے اجتماع میں جاکر میری طرف سے خواتین کو فلاں فلاں باتیں بتادو. آپؓ تعمیل حکم میں وہاں گئے اور وہ باتیں بتانے سے پہلے فرمایا: 
أنی رسولُ رسولِ اللّٰہ  یعنی ’’میں اللہ کے رسول کا رسول ہوں.‘‘ میں رسول اللہ کا پیغامبر ہوں اور حضور کا پیغام پہنچانے آیا ہوں. یہی ’’رسول‘‘ کا لفظ نبی اکرم  نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے لیے استعمال فرمایا تھا جب آپؐ انہیں یمن کا گورنر بنا کر بھیج رہے تھے. آپؐ نے اُن سے بغرض امتحان پوچھا‘بتاؤ اگرکوئی معاملہ پیش آیاتوکیسے طے کروگے. انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں پہلے قرآن میں دیکھوں گا. اگر قرآن میں وہ بات نہ ملی تو میں آپؐ کی سنت و حدیث میں دیکھوں گا. وہاں بھی نہ ملی تو پھر میں کوشش کروں گا کہ صحیح رائے تک پہنچ جاؤں یعنی اجتہاد کروں گا. آپؐ بہت خوش ہوئے اور ان کی تصدیق کی اور فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ کے رسول کے ’’رسول‘‘ کو صحیح بات تک پہنچا دیا. 

سورۃ البقرہ میں بھی جہاں تحویل قبلہ کا حکم آیا‘ اُس کے بعد اُمت مسلمہ کو اُس کی ذمہ داری یہی بتائی گئی کہ وہ لوگوں پر حق کی گواہی دے: 

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (آیت ۱۴۳
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو اُمت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں  ) تم پر گواہ بنیں.‘‘

قرآن مجید میں اہم مضامین دو جگہ ضرور آئے ہیں. یہی بات یہاں بھی ہوئی ہے. سورۃ الحج میں رسولؐ کا ذکر پہلے کیا گیا اور اُمت کا بعد میں‘ جبکہ یہاں سورۃ البقرہ میں اُمت کا ذکر پہلے اور رسولؐ کا بعد میں آیا ہے. بہرکیف شہادت حق کی یہ ذمہ داری اُمت مسلمہ کے کاندھے پر ہے.

فرض منصبی سے غفلت کا انجام

فریضۂ شہادت علی الناس کی ادائیگی ہی پر اُمت کی سربلندی کا انحصار ہے. افسوس کہ آج اُمت اس کام سے غافل ہے. اسی لیے دنیا میں ہر جگہ ذلیل و خوار ہورہی ہے. 

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں 

ہر جگہ مسلمانوں پر ذلت و مسکنت کا عذاب مسلط ہے. وہ کمزوری اور کم ہمتی کا شکار ہیں. ہم اہل پاکستان کا حال یہ ہے کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتے ہیں‘ مگر اتنی جرأت نہیں کہ کبھی انڈیا سے یہ کہہ سکیں کہ آؤ‘ ہم سے میدان میں آکر مقابلہ کرو. ایک وہ دور تھا جب انڈیا کے دونوں اطراف پاکستان تھا. ایک طرف موجودہ پاکستان دوسری جانب مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) اور بھارت پاکستان سے ڈرتا تھا. اب حالات بہت بدل گئے ہیں. اب تو ہم انڈیا کے آگے بچھے جارہے ہیں. یہی معاملہ عرب مسلمانوں کا ہے. عربوں کی آبادی تیس چالیس کروڑ ہے‘ مگر ان کے سینے میں اسرائیل نے خنجر گھونپ دیا ہے. فلسطینی مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں‘ اُن سے کون آگاہ نہیں. صہیونیوں کا ظلم اور سفاکی ایسی ہے کہ درندگی بھی شرماجائے. مگر ہم مسلمان اس پر مہر بہ لب ہیں. فلسطین اور کشمیر میں تو ساٹھ سال سے خون مسلم کی ارزانی ہے ہی‘ اس کے علاوہ بھی دنیا میں کئی جگہ مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے. مسلمانوں کا خون مانند آب ارزاں ہو گیا ہے. وہ چاہے صومالیہ ہو‘ چیچنیا ہو‘ کوسوو ہو یا فلپائن ہو‘ مگر مسلمانوں کی زبانیں گنگ ہیں. وہ بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں. وہ مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بجائے دشمنوں کے ساتھ کھڑے ہیں.

صلیبی جنگ میں دشمنوں سے تعاون

نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق میں مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے‘ اور ہم مسلمان دشمنوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں. دشمن یہ بات ہمارے ذہنوں میں بٹھانا چاہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ ہے. اور اُس کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ اُس نے میڈیا کے زور سے عام لوگوں کو بہت حد تک یہ باور کرادیا ہے کہ ہاں یہ ہماری جنگ ہے. حالانکہ یہ بات سراسر خلاف حقیقت ہے. یہ جنگ جو ہم لڑرہے ہیں ہرگز ہماری جنگ نہیں. یہ اسلام دشمنوں کی جنگ ہے‘ جو ہم پر مسلط کردی گئی ہے. یہ بات کوئی اندھا ہی کہہ سکتا ہے کہ یہ ہماری جنگ ہے. اگر یہ ہماری جنگ تھی تو پھر اس کا آغاز نائن الیون کے بعد ہی کیوں ہوا‘ پہلے کیوں نہیں ہو گیا؟ اگر یہ ہماری جنگ ہوتی تو ہم امریکہ سے مدد مانگتے نہ کہ امریکہ ہم سے مدد مانگتا. مگر یہاں تو صورت یہ ہے کہ امریکہ نے ہم سے مدد مانگی. اُس نے ہمیں یہ دھمکی کیوں دی کہ .You are with us or against us یعنی دو ہی صورتیں ہیں. یا تو تم ہمارے ساتھ ہو‘ اور اس صورت میں تمہیں بہر صورت ہمارا ساتھ دینا ہوگا‘ ہم جو بھی مطالبہ کریں گے اُسے ماننا ہوگا. دوسری صورت یہ ہے کہ تم ہمارے ساتھ نہیں ہو اور ساتھ نہ ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ تم ہمارے خلاف ہو اور خلاف ہونے کا انجام تمہیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے. پھر ہم تمہیں پتھر کے دور میں لے جائیں گے. اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ نام نہاد دہشت گردی کی آڑ میں امریکی ایک "Crusade" شروع کررہے تھے. یہی بات اُس وقت کے صدر امریکہ بش کے منہ سے نکل گئی. اُس نے اس جنگ کو "Crusade" قرار دیا تھا ؎ 

نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں 
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا 

پھر اس کا ایک اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے. امریکہ میں پروٹسٹنٹس عیسائیوں میں سے وہ جو زیادہ فعّال اور بائبل کی نشرواشاعت اور تشریح و توضیح کرنے والے ہیں Evengelists کہلاتے ہیں. اُن کا ایک ماہنامہ رسالہ فلاڈلفیا سے نکلتا ہے جس کا نام The Philadelphia Trumpet ہے. نائن الیون سے ایک ماہ قبل اُس کے اگست۲۰۰۱ء کے شمارے کے ٹائٹل پر لکھا ہے: The Last Crusade : Most people think the crusades are a thing of the past-over forever. But they are wrong.Preparations are being made for a final crusade" 
".and it will be the bloodiest of all 

(آخری صلیبی جنگ. بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صلیبی جنگیں ماضی کی بات تھی‘ اب یہ ختم ہو چکی ہیں. لیکن اُن کا یہ خیال غلط ہے. آخری صلیبی جنگ کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور یہ جنگ تمام جنگوں سے زیادہ خوں ریز ہو گی.)
اسی صلیبی جنگ کے بارے میں معروف کالم نگار اور محقق عابد اللہ جان کی کتاب: 
AFGHANISTAN: The Genesis of the Final Crusade کافی چشم کشاہے. 

ماضی کی صلیبی جنگیں پونے دو سو برس تک جاری رہیں. ان جنگوں میں کئی ادوار آئے. ۸۸برس تک بیت المقدس عیسائیوں کے زیر قبضہ رہا. پھر اُن سے صلاح الدین ایوبی نے واپس لیا. لیکن ان طویل جنگوں میں اتنے آدمی نہیں مرے جتنے لوگ افغانستان اور عراق میں مرچکے ہیں.

اسلامی نظام سے روگردانی

مسلمانوں کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے. ہم کیوں عذاب الٰہی کی گرفت میں ہیں؟ جواب بالکل واضح ہے. ہم بحیثیت اُمت اپنا مشن بھلا بیٹھے ہیں. شہادت علی الناس کا تقاضا یہ تھا کہ ہم دنیا میں اللہ کا دین قائم کرتے اور دنیا کو دعوت دیتے کہ آؤ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو‘ یہ ہے اللہ کا دین‘ یہ ہے اسلام کا نظام عدل اجتماعی. ہم اسلام قائم کرنے اور اُس کا عملی نمونہ دکھانے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اسلام ہے کہاں جو ہم نافذ کریں. وہ تو صرف کتابوں میں لکھا ہوا ہے. افسوس کہ ہم نے دنیا کے نقشے پر موجودہ ۵۸مسلم ممالک میں سے کسی ایک میں بھی اسلام نافذ نہیں کیا. آج اسلام بطور دین کہیں بھی نافذ نہیں ہے. یہ جہاں بھی موجود ہے مذہب کے طور پر ہے. مراسم عبودیت کی حد تک ہے. نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی. دشمنوں کو پریشانی اُس وقت ہوتی ہے جب اسلامی نظام کی بات کی جاتی ہے‘ جب خلافت کا نعرہ لگایا جاتا ہے. کیونکہ خلافت کا اُن کے استحصالی نظام سے ٹکراؤ ہوتا ہے.صہیونیوں کے آلہ ٔ کار انگریز اور امریکیوں کو کیا تکلیف تھی کہ وہ افغانستان پر چڑھ دوڑے؟ کیا وہ افغانی مسلمانوں کے نماز روزہ کی وجہ سے پریشان تھے. ظاہر ہے‘ ایسا نہیں ہے. یہ لوگ تو خود اپنے ملکوں میں نماز روزہ کی آزادی دیتے ہیں. مسلمانوں نے امریکہ میں مسجدیں بنالیں‘ چرچ خرید کر انہیں مسجد بنا لیا. انہوں نے نہیں روکا‘ اس لیے کہ مذہب سے اُن کی کوئی جنگ نہیں ہے. اُن کی جنگ اسلام کے اجتماعی نظام خلافت کے خلاف ہے. اُن کے لیے خطرہ اسلام کا معاشی و سماجی نظام ہے جو انہیں کسی طرح بھی گوارا نہیں ہے. آج پوری دنیا میں اُن کے سیکولر نظام کا راج ہے. ہر جگہ سود کی بنیادپر بنکاری نظام چل رہا ہے. مغربی تہذیب نے غیرت و حمیت اور حیا کا جنازہ نکال دیا ہے. اگرچہ عالم اسلام میں شرم و حیا کی اقدار کسی قدر بچی ہوئی ہیں‘ مگر مغربی فکر اور تہذیب جس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے‘ اندیشہ ہے کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی.

تصویر کا روشن رُخ

اب تک جو کچھ کہا گیا ہے یہ تصویر کا ایک رخ ہے. یہ اُس کا تاریک پہلو ہے. دوسری جانب تصویر کا روشن اور تابناک پہلو بھی ہمارے سامنے رہنا چاہیے جو احادیث رسولؐ سے ہمارے سامنے آتا ہے. احادیث کی پیشین گوئیوں کے مطابق دنیا کے خاتمے سے قبل کل روئے ارضی پر اللہ کا دین غالب آکر رہے گا‘ جیسے کہ حضور  نے اپنے بابرکت دور میں اپنے دست مبارک سے غالب کیا تھا. اس سلسلہ میں احادیث ملاحظہ کیجیے جن میں غلبۂاسلام کی بشارت دی گئی ہے. حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ  کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ اِلَّا اَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ وَذُلِّ ذَلِیْلٍ اِمَّا یُعِزُّھُمُ اللہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَجْعَلُھُمْ مِنْ اَھْلِھَا اَوْ یُذِلُّھُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَھَا قُلْتُ: ’’فَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ‘‘ (۱)

’’دنیا میں نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ اسلام کو داخل نہیں کردے گا‘ خواہ عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں. (یعنی) یا لوگ اسلام قبول کرکے خود بھی عزت کے مستحق بن جائیں گے یا اسلام کی بالادستی تسلیم کرکے اس کی فرماں برداری قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے.‘‘ میں(راوی) نے کہا: تب تو سارے کا سارا دین اللہ کے لیے ہوجائے گا. (۱) مسند احمد، باقی مسند الانصار، حدیث المقدادبن الاسود، ح ۲۲۶۹۷ دوسری روایت ہے. حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: 

تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلْاَفَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ‘ فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اللہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا‘ فَیَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ اَنْ یَکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً‘ فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ثُمَّ سَکَتَ (۱

’’دَورِنبوت تم میں اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا اس کو ختم کردے گا. پھر نبوت کی طرز پر خلافت کا دور ہوگا. پھر وہ دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا‘ پھر وہ اس کو ختم کردے گا جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا. پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی. وہ دور بھی اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا تو ختم کردے گا. پھر جبر کی فرماں روائی ہوگی‘ وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر وہ اس کو ختم کردے گا جب وہ اسے ختم کرنا چاہے گا. پھر نبوت کے طرز پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی.‘‘ پھر آپ خاموش ہوگئے.

غلبہ ٔ اسلام کے ضمن میں بعض اشارات بھی آئے ہیں کہ اس کا نقطۂ آغازکون سا خطہ ہوگا. حدیث کے مطابق عرب کی کسی مشرقی سمت سے لوگ سیاہ علم لے کر آئیں گے‘ اور ان کو کوئی نہیں روک سکے گا‘ یہاں تک کہ وہ جھنڈے ایلیا میں جاکر نصب ہو جائیں. ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد افغانستان اور پاکستان کے ممالک ہوں. بہرحال ہمارا کام یہ ہے کہ دین کے غلبہ و اقامت کے لیے اپنا تن من دھن لگا دیں. یہ کام ہمیں ہرحال میں کرنا ہے. ہمیں اللہ کے دین کو غالب کرکے دنیا کے سامنے اس کی ایک عملی شکل پیش کرنی ہے‘ تاکہ شہادت علی الناس کا وہ فریضہ ادا ہو سکے جو حضور کے انتقال کے بعد ہم پر بحیثیت امت عائد ہوا تھا.

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم لسائر المسلمین والمسلمات 
(۱) رواہ احمد‘ مرویات حضرت نعمان بن بشیر ؓ .