آنحضور  پر نبوت اور رسالت کی تکمیل

خطبہ ٔمسنونہ‘ تلاوت ِآیات قرآنی ٭ ‘ احادیث ِنبویؐ اور ادعیہ ٔماثورہ کے بعد!

معزز حاضرین اور محترم خواتین! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ. آج مجھے جس موضوع پر گفتگو کرنا ہے‘ اس کے مختلف اجزاء پر میں پہلے بھی کئی مرتبہ گفتگو کرچکا ہوں. آج کی نشست میں میری کوشش ہوگی کہ ان اجزاء کو سمو کر ایک وحدت کی صورت میں پیش کروں‘ تاکہ ایک مکمل مضمون اپنے صغریٰ کبریٰ اور نتائج و عواقب سمیت آپ کے سامنے آجائے. میری کوشش یہ بھی ہوگی کہ اپنی گزارشات جوش خطابت کی بجائے دھیمے انداز میں اور دو اور دو چار کی طرح آپ کے سامنے رکھوں‘ تاکہ وہ بآسانی آپ کے ذہن نشین ہوجائیں اور آپ انہیں گنتی کے طور پر یاد کرسکیں. اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق عطا فرمائے.

عقیدۂ ختم نبوت کے دو پہلو

نبی اکرم پر نبوت و رسالت کا خاتمہ ہمارے ایمان کا جزو لاینفک ہے. اسے ایمان سے کسی طور بھی علیحدہ نہیں کیا جاسکتا. یہ عقیدہ اُمت ِمسلمہ کی تاسیس و بنیاد ہے. لیکن یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ عقیدۂ ختم نبوت کے دو پہلو ہیں. ایک پہلو وہ ہے جس سے ایک بہت اہم قانونی و فقہی اور شرعی حکم ملتا ہے. علماء دین نے اس کو اجاگر کرنے میں خوب محنت کی. اس کام کے لیے اپنی زندگیاں صرف کیں. دوسرا پہلو وہ ہے جو زیادہ تر علمی نوعیت کا ہے. اس سے کوئی فقہی حکم تو نہیں ملتا‘ البتہ نبی اکرم کا انبیاء و رسل میں جو مقام و مرتبہ ہے‘ اس کی اصل اساس واضح ہوتی ہے. اس اعتبار سے یہ اہم تر بات ہوگئی‘ لیکن چونکہ یہ علمی بات ہے‘ اس میں کوئی فقہی پہلو نہیں ہے‘ لہذا اس پر توجہ کم ہوئی ہے. 

اگر غور کیا جائے تو ختم نبوت کے یہ دونوں پہلو لفظ ’’ختم‘‘ کے اندر ہی موجود ہیں. ’’ختم‘‘ کا لفظ اردو اور عربی دونوں زبانوں میں دو معانی میں استعمال ہوتا ہے. ایک یہ کہ کوئی شے پہلے موجود تھی‘ مگر اب نہیں رہی تو کہیں گے کہ ختم ہوگئی ہے. مثلاً آٹا ختم ہوگیا‘ چینی ختم ہوگئی‘ پیسے ختم ہوگئے وغیرہ. دوسرا معنی یہ ہے کہ کوئی شے تدریجاً ترقی کرتے ہوئے مکمل ہوگئی. جیسے ایک طالب علم کہتا ہے کہ میں نے اپنا کام ختم کرلیا. یا جیسے آرمی میں کسی گروپ کو کوئی 
٭ الاحزاب: ۴۰‘ التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘الصف:۹‘سبا:۲۸‘الانبیاء:۱۰۷‘الاعراف:۱۵۸ خاص اسائنمنٹ دی جائے‘ تو اُس کام کو کامیابی سے انجام دینے کے بعد گروپ لیڈر اپنے کمانڈر سے کہتا ہے: mission accomplished .جو فریضہ ہمارے ذمہ عاید کیا گیا تھا‘ وہ ہم نے پورا کرلیا‘ ہم نے اپنا کام ختم کردیا. یہاں ختم سے مرادتکمیل ہے یعنی کسی شے کا تدریجاً ترقی کرتے ہوئے اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ جانا اور کامل ہونا. ختم کے پہلے معنی کے اعتبار سے ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ نبوت پہلے تھی‘ اب نہیں ہے. یعنی نبوت کا دروازہ پہلے کھلا تھا‘ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے. چنانچہ جس کسی نے بھی حضور کے زمانے میں یا آپؐ کے بعد دعویٰ نبوت کیا یا آئندہ کرے‘ وہ ملت اسلام سے خارج ہے. وہ کافر اور مرتد ہے‘ چاہے بظاہر وہ بڑا موحد ہو‘ نمازی اور روزے دار ہو‘ تقویٰ کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہو‘ عالم اور فلسفی ہو. اور جس نے اس کی تصدیق کی وہ بھی کافر ہے. اور چونکہ اسلامی ریاست میں مرتد واجب القتل ہے‘ لہذا اُسے قتل کردیا جائے گا. یاد رہے کہ مرتد کا حکم اسلام سے پھرنے والے پر لگے گا. اگر کوئی یہودی عیسائی ہوجائے یا ہندو عیسائیت اختیار کرلے تو اُن سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا. یہ چونکہ بہت اہم معاملہ ہے‘ لہذا اس پہلو پر علماء نے بہت توجہ صرف کی ہے.

عقیدۂ ختم نبوت پر قرآنی دلائل

عام طور پر ختم نبوت کے حوالے سے علماء کرام قرآن مجید سے صرف ایک آیت کو بطوردلیل پیش کرتے ہیں. یہ سورۃ الاحزاب کی آیت ۴۰ ہے . ختم نبوت کے موضوع پر ہونے والی تقریریں اور خطبات میں یہ بالعموم پیش کی جاتی ہے. 

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ 
’’محمد ( ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کر دینے والے) ہیں.‘‘ 

یہ آیت اور ماقبل آیات بنیادی طور پر حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کے حوالے سے ہیں اور ایک قبیح رسم کی بیخ کنی سے متعلق ہیں. عرب میں منہ بولے بیٹے کی روایت چلی آتی تھی. اس روایت میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اگر منہ بولے بیٹے کا انتقال ہوجائے‘ یا وہ اپنی کسی بیوی کو طلاق دے دے تو اس کی بیوی اُس کے منہ بولے باپ پر حرام رہتی تھی. وہ اس سے نکاح نہیں کرسکتا تھا. قرآن اس روایت کو توڑنا چاہتا تھا. چنانچہ یہ تعلیم دی گئی کہ منہ بولا باپ باپ نہیں. چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جنہیں حضور نے اپنا منہ بولا 
بیٹا بنایا تھا‘ اور لوگ انہیں زید بن محمدؐ کہنے لگے تھے‘ دوبارہ زید بن حارثہ کہلانے لگے. دوسرے یہ کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے. حضرت زید رضی اللہ عنہ سے حضور  نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی شادی کرائی. حضرت زینب رضی اللہ عنہا انہیں پسند نہیں کرتی تھیں‘ اس لیے کہ وہ غلام رہ چکے تھے‘ اور عرب میں وہ شخص جو کبھی غلام رہا ہو‘ چاہے بعد میں آزاد ہوگیا ہو‘ کم تر درجے میں رہتا تھا. حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنی ہاشم کی خاتون تھیں. وہ یہ سمجھتی تھیں کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ میرے قابل نہیں ہے. حضور  کے فرمانے پر انہوں نے شادی تو کرلی‘ مگر دل سے انہیں پوری طرح قبول نہ کیا. جو ادب واحترام اور عزت شوہر کی کرنی چاہیے تھی وہ نہ کرپائیں. چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے مجبور ہوکر کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں.

یہ بات حضور تک پہنچی تو آپؐ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو سمجھایا کہ پہلے تو میں نے ان پر زور دے کر تم سے شادی کرائی‘ اب تم طلاق دے کر انہیں زخم نہ لگاؤ. لیکن میاں بیوی کے معاملات ایسے تھے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق کے سوا کوئی چارہ نہ سمجھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی. اب حضور نے گمان یہ کیا کہ پہلے تو زینب کی شادی اُن کی مرضی کے خلاف ہوئی‘ اب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دے دی‘ اور اس طرح اُن کے ساتھ زیادتی ہوگئی اور اس کی تلافی کی یہی صورت ہے کہ میں خود ان سے نکاح کرلوں. لیکن اس معاملے میں عرب کا رواج آڑے آرہا تھا. اس رواج پر ضرب کاری اسی طور سے لگ سکتی تھی کہ آپؐ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کرتے‘ ورنہ یہ رواج کبھی ختم نہ ہوسکتا تھا. اس لیے کہ آپؐ خاتم النبیین ہیں. آپؐ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں تھا‘ جو آکر اس رواج کو ختم کردیتا. یہ ہے ختم نبوت سے اس آیت کا ربط. البتہ اس آیت کے بارے میں دو باتیں مزید عرض کردوں. ایک یہ کہ اس میں جو ’’خاتم‘‘ کا لفظ آیا ہے اس کی دونوں قراء تیں ہمارے ہاں مصدقہ ہیں‘ خاتِم بھی اور خاتَم بھی. میں نے خاتَم النبیین پڑھا. لیکن دوسری متواتر قراء توں میں یہ لفظ خاتِم کے طور پر بھی آیا ہے. دوسرے یہ کہ خاتَم کے معنی مہر کے ہیں. مہر کے دو کام ہوتے ہیں. ایک یہ کہ یہ آخری اتھارٹی کی طرف سے تصدیق ہوتی ہے. اسی کو مہر تصدیق ثبت کرنا کہتے ہیں. دوسرے‘ یہ کسی شے کو اس طور سے ختم کرتی ہے کہ اس میں ردو بدل نہ ہوسکے. یہ سربمہر کرنا ہے. مثلاً کوئی شاہی فرمان اگر رازدانہ طریقے سے کہیں بھیجنا ہو تو اِس اندیشہ کے پیش نظر کہ ایلچی خط کو لے جاتے ہوئے پڑھ نہ لے‘ اُسے سربمہر کر دیا جاتا ہے. اب خط کو پڑھنے کا اس کے سوا کوئی راستہ ممکن نہیں ہوتا کہ ایلچی مہر کو توڑ دے اور پھر کھول کر پڑھے. اسی بنیاد پر قادیانیوں نے ختم نبوت کی یہ توجیہہ کی اور لوگوں کو الجھایا کہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب جو بھی نبی آئے گا‘ آپؐ کی مہر سے آئے گا. 

عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے اب میں آپ کے سامنے ایک دوسری آیت پیش کررہا ہوں جو عام طور پر اس ضمن میں پیش نہیں کی جاتی. یہ سورۂ آل عمران کی آیت ۸۱ہے. فرمایا: 

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾ 

’’ اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں‘ پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا. (اللہ نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں.‘‘

ایک میثاق تو وہ ہے جو عالم ارواح میں تمام ارواحِ انسانی سے لیا گیا. اس میں انبیاء و رسل کی ارواح بھی شامل تھیں. یہ میثاق بندگی ہے. اللہ نے پوچھا: 
اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں‘‘قَالُوۡا بَلٰی (الاعراف:۱۷۲’’(تمام ارواح انسانیہ نے) کہا‘ کیوں نہیں (اے اللہ توہی ہمارا رب ہے. ہم تیری ہی بندگی کریں گے.)‘‘ لیکن انبیاء و رسل سے ایک اور میثاق بھی لیا گیا‘ اور وہ یہ تھا کہ جب دنیا میں تمہارے پاس میری ہدایت آئے تو اُس کی پیروی کرنا اور اپنے بعد آنے والے اور نبی اور رسول کے بارے میں اپنی قوم کو آ گاہ کرنا اور اس سے عہد لے کر جانا کہ وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کاساتھ دیں گے. یہ نہیں کہ بس لکیر کے فقیر ہوگئے کہ ہم نے تو ایک نبی اور رسول کو مانا ہوا ہے‘ اب کسی اور کو نہیں مانیں گے. اسی میثاق کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو بالکل واضح انداز میں حضور نبی کریم  کی آمد کی خبر دی. آپؑ نے اپنے آخری ایام میں اپنے حوارین سے فرمایا: ’’مجھے تم سے ابھی اور بھی بہت سے باتیں کہنی تھیں لیکن ابھی تم ان کا تحمل نہیں کرسکو گے. جب میرے بعد وہ فارقلیط آئے گا تو وہ تمہیں سب باتیں بتائے گا‘‘. یہ محمد رسول اللہ  کی آمد کی پیشین گوئی تھی.

’’فارقلیط‘‘ کے معنی اُس ہستی کے ہیں جس کی تعریف کی جائے. آپؐ کے اسم گرامی ’’محمدؐ ‘‘ کے یہی معانی ہیں. لہذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کے مصداق صرف اور صرف حضور  ہیں. عیسائی علماء کے حلق سے ’’فارقلیط‘‘ کا یہ لفظ نہیں اُ ترتا. انہوں نے اس کے کئی معانی مراد لیے ہیں اور ہیرا پھیری کی کوشش کی‘ تاکہ کسی طور سے اس کا مصداق پیغمبراسلام حضرت محمد  کو قرار دینے سے بچا جاسکے. لیکن ظاہر ہے کہ اس پیشین گوئی کا مصداق آپؐ کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا. اب اس بات پر غور کیجیے‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے کیے گئے میثاق کے تحت اپنے بعد میں آنے والے نبی کی آمد کی خبر دے دی. اگر نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہوگیا ہوتا تو کیا میثاق النبیین کے تحت آپؐ بھی اپنے بعد میں آنے والے نبی کی آمد کی خبر نہ دیتے. یقینا آپؐ بھی ضرور یہ خبر دیتے اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ بتاتے بلکہ اُن سے یہ عہد لیتے کہ اُن پر ایمان لانا. آپؐ نے اپنے بعد کسی نبی اور رسول کی آمد کی پیشین گوئی نہیں فرمائی بلکہ اس کے برعکس آپؐ نے نبوت و رسالت کے خاتمے کی خبر دی. یہی وجہ ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت پر ضرب لگانے والوں کے خلاف حضور کے دور ہی میں اعلان جنگ کیا گیا. عہدنبوی میں بعض مدعیان نبوت اُٹھ کھڑے ہوئے تو ان کو کافر مانا گیا اور ان کے خلاف جنگ کی گئی. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی مدعیان نبوت کا بہت بڑا فتنہ اُٹھا. ان کے خلاف بھی جنگیں کی گئیں اور ان کو قتل کیا گیا. تو اس بات پر ابتداء اسلام سے اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور خاتم النبیین ہیں.

عقیدۂ ختم نبوت احادیث کی رو سے

آپؐ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا. اس موضوع پر بہت سی احادیث بھی آئی ہیں. ان میں سے صرف دو احادیث ملاحظہ کیجیے. ایک روایت ترمذی کی ہے اور یہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: 

إِنَّـہُ سَیَکُونُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ کَذَّابُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی (۱
’’میری اُمت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے. ہر ایک کا یہی دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں. میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.‘‘ (۱) سنن الترمذی‘ ح:۲۲۱۹. راوی ثوبانؓ . دوسری حدیث صحیح بخاری کی ہے اور یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول  نے فرمایا:

لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتَّی یُبْعَثَ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلَاثِیْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ رَسُوْلُ اللہِ (۱
’’اس وقت تک قیامت نہ ہوگی جب تک تقریبا تیس جھوٹ بولنے والے دجال پیدا نہ ہوں گے اور اُن میں سے ہر ایک کا یہی دعویٰ ہوگا کہ میں اللہ کا رسول اور پیغمبر ہوں.‘‘

ایک اہم نکتہ:میں یہاں ایک نکتہ بیان کررہا ہوں جو اس سے پہلے میں نے کبھی بیان نہیں کیا ہے. آج ہی میرا ذہن اس طرف متوجہ ہوا ہے. علمائے کرام کا سب سے زیادہ زور ختم نبوت سے متعلقہ احادیث کے بیان پر رہا ہے. لیکن اُن سے ایک کمی رہ گئی. وہ انبیاء کرام میں نبی اکرم  کے عظیم مرتبے اور خاتم ا لنبیین کی حیثیت کے عقلی پہلو پر پوری توجہ نہ کرسکے. 

بدقسمتی سے سرسید احمد خان کے زمانے سے امت میں ایک بہت بڑا فتنہ شروع ہوچکا تھا کہ احادیث نبویہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے‘ بس قرآن ہی حجت ہے. اور جب حدیث کی روک ٹوک ختم ہوگئی تو جو جی میں آیا قرآن کی تفسیر کی جانے لگی. ظاہر ہے‘ جب حدیث و سنت کو حجت نہیں مانا جائے تو پھر حدیث قرآن پر اضافہ ہی شمار ہوگی. حالانکہ اس کے بغیر قرآن اور اسلام کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا. اس کے بغیر دین و شریعت کی واضح شکل سامنے آہی نہیں سکے گی. حدیث و سنت کو ایک طرف رکھ دیں گے تو پھر نماز بھی ایک نہیں رہے گی. اس لیے کہ قرآن میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ فرض نمازوں کی تعداد پانچ ہے. اسی طرح ان کے اوقات نہیں دیئے گئے. یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ظہر کی چار رکعات فرض ہیں. عصر کے چار فرض ہیں‘ فجر کے دو فرض ہیں‘ مغرب کے تین اور عشاء کے چار فرض ہیں. قرآن سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ نماز میں اتنی رکعات سنت ہیں‘ اور سنتوں میں فلاں مؤکدہ اور فلاں غیر موکدہ ہیں. یہ سارا نظام ہمیں سنتِ رسولؐ نے عطا کیا ہے. حدیث و سنت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ چھوٹی سی مثال ہی کافی ہے. قابل غور بات یہ ہے کہ جب حدیث و سنت کے بغیر نماز ہی کا نظام قائم نہیں ہوسکتا تو دین کا پورا نظام کیسے تشکیل پائے گا. لہذا یہ فتنہ استخفاف و انکار حدیث دین کے خلاف بہت بڑی بغاوت ہے.

اس نے بہت خطرناک نتائج پیدا کیے ہیں. اگرچہ سر سید احمد خان مسلمانوں کے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المناقب‘ باب علامات النبوۃ. ساتھ بہت مخلص تھے. مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر وہ بہت بے تاب رہتے تھے. انگریزی دور میں ہندو ترقی کررہے تھے‘ جبکہ مسلمان ہر میدان میں پیچھے تھے. انگریز سوچی سمجھی سکیم کے تحت انہیں پیچھے ہٹا رہے تھے. اس لیے کہ انہوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی ہے‘ انہیں ڈر تھا کہ اِن کے اندر بغاوت کے جراثیم موجود رہیں گے‘ ان کو دبانا ضروری ہے‘ ورنہ یہ کسی بھی وقت ہمارے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں. سرسید یہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمانوں کی یہی حالت رہی تو وہ پسماندگی کی دلدل میں غرق ہوجائیں گے. اور اُس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ حالت برقرار رہتی تو ہندوستان میں اگلے سو برس کے دوران‘ مسلمان قصائی یا پلے دار ہی رہ گئے ہوتے. سرسید نے مسلمانوں کو شاہراہ ترقی پر لے جانے کی کوشش کی. اس پہلو سے اُن کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے. ہماری یہ عادت ہے کہ جس سے نفرت ہو جائے اس کی ہر بات کو غلط کہتے ہیں اور جس سے محبت ہو اس کی ہر بات درست قرار دیتے ہیں. یہ روش صحیح نہیں ہے. کوئی بھی آدمی مکمل صحیح نہیں ہوتا اور نہ کوئی مکمل غلط ہوتا ہے. مکمل صحیح صرف اللہ کے رسول ہیں اور مکمل غلط عزازیل نامی شیطان لعین ہے. لہذا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بڑوں کے غلط افکار کی وجہ سے اُن کی صحیح بات بھی قبول نہ کی جائے‘ اور کسی کی عقیدت کی وجہ سے اُس کی غلط بات بھی رد نہ کی جائے. مجھے علامہ اقبال سے جو عقیدت ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں‘ مگر ایسا نہیں ہے کہ میں آنکھیں بند کرکے ان کی ہر بات مان لوں. اللہ نے اس چیز سے بچایا ہے. اسی طرح مجھے مولانا مودودیؒ سے جو اختلاف ہوا تومیں نے اسے برملا بیان کیا‘ مگر خواہ مخواہ اُن پر الزام تراشی نہیں کی‘ جیسے کہ ہمارے ہاں عام طور پر مولویوں کا وتیرہ ہے کہ جس سے کوئی دوری ہوگئی‘ اُس پر اینٹ‘ روڑہ‘ پتھر جو ہاتھ میں آیا‘ دے مارا. بہر کیف سرسید کی خدمات سے ہمیں انکار نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے برصغیر میں اسلام کو سخت نقصان پہنچایا. ہندوستان میں انکار حدیث اور استخفاف سنت کے فتنے کی اصل جڑ بنیاد سرسید احمد خان ہے. اور کوئی دوسرا اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس فتنے کو شروع کرسکتا.

سرسید کا بڑا مقام تھا. وہ بہت بڑا عالم تھا. علماء دیوبند کے چوٹی کے لوگوں کا ہم سبق تھا. اس فتنے کے بہت دور رس نتائج نکلے. سرسید کے قائم کردہ علی گڑھ کالج سے‘ جسے بعد میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا درجہ دے دیا گیا‘ جو لوگ تعلیم حاصل کرکے نکلے زیادہ تروہی مسلم لیگ کے لیڈر ہوئے. وہی سول سروس میں گئے اور قیام پاکستان کے بعد وہی یہاں حاکم ہوگئے. اس بنا پر ہمارے معاشرے پر اس فتنہ کےگہرے اثرات مرتب ہوئے. لیکن یہ تو بعد کی بات ہے‘ اس سے پہلے اس کا جو نتیجہ فوری طور پر نکلا وہ یہ تھا کہ جب غلام احمد قادیانی نے اِن احادیث نبویہ کی نفی کرنی شروع کی‘ تو اس کا عام جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں کوئی رد عمل پیدا نہیں ہوا. پھر یہ کہ مرزا قادیانی نے قرآن مجید میں آنے والے الفاظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی اپنے انداز سے شرح کرکے ایک بے یقینی کی سی کیفیت پیدا کردی. اس کا جواب بھی قرآن سے آنا چاہیے تھا‘ مگر افسوس کہ نہیں آیا.

اِتمام واِ کمالِ نبوتِ محمدیؐ

اللہ کرے کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں یہ بہت بڑے پیمانے پر علماء کرام تک پہنچے‘ اور وہ اس پر توجہ کریں. اس لیے کہ اس سے حضور کا مقام و مرتبہ صحیح طور پر متعین ہوتا ہے. بات کیا ہے؟ یہ کہ نبی اکرم پر نبوت اور رسالت کا صرف اختتام ہی نہیں ہوا‘ بلکہ اتمام اور اکمال بھی ہوا ہے. یہی نہیں ہوا کہ نبوت ہموار طریقے سے چلے آرہی تھی اور ایک جگہ آکر ختم ہوگئی بلکہ یہ بھی ہے کہ یہ تدریجاً ترقی کرتے ہوئے اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گئی. ختم نبوت کے حوالے سے اتمام اور اکمال نبوت کا پہلو زیادہ نمایاں نہ ہونے کی وجہ سے غلام احمد قادیانی نے بڑی ہوشیاری سے یہ بات کہی کہ وحی و نبوت تو رحمت ہے اور رحمت کیسے بند ہوسکتی ہے؟ وہ تو جاری رہے گی اور اگر جاری رہے گی تو میں نبی ہوں‘ میرے دعویٰ نبوت کو تسلیم کرو. ظاہر ہے‘ عام آدمی کے لیے‘ جس نے دین نہ پڑھا ہو‘ عربی زبان سے آ گاہی حاصل نہ کی ہو‘ یہ باتیں بڑی متاثر کن ہوتی ہیں. مرزا قادیانی نے یہ گمراہ کن پروپیگنڈا بھی کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے رسولِ محبوب تو زمین کے نیچے دفن ہوگئے اور حضرت عیسیٰؑ زندہ آسمان پر اُٹھا لیے گئے ہوں. عام آدمی آج بھی یہ بات سنے گا تو چونک جائے گا کہ ہاں‘ یہ تو صحیح بات ہے. حضور کا رتبہ تو سب سے بلند ہے اور وہ تو زیر زمین دفن ہیں پھر عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر کیسے اُٹھا لیے گئے. ان چھوٹی چھوٹی باتوں نے ناواقف لوگوں میں اثر پیدا کیا اور جب اُن کے ذہنوں میں علماء اور اپنے اسلاف کے بارے میں ایک گھٹیا رائے قائم ہوگئی تو اب وہ ایک ایسے جہاز کی مانند ہوگئے جس کا لنگر کٹ گیا ہو. اب کوئی بھی زور دار لہر آئے گی اور اُسے بہا لے جائے گی. بے لنگر کا جہاز کا محاورہ ہمارے ہاں اسی لیے استعمال ہوتا ہے. ہر فتنہ جو اُٹھتا ہے وہ پہلے پہل لوگوں کو اپنے اسلاف سے کاٹتا ہے. اُن کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اسلاف بات کو صحیح طور سے سمجھ نہ سکے. اصل بات تو اب سامنے آئی ہے‘ اور یہ بات بتانے والے مجدد کامل ہیں‘ بلکہ معاذ اللہ یہ اللہ کے نبی ہیں.

اِتمام و اِکمالِ نبوتِ محمدیؐ اور آپؐ کا مقصد ِ عثت

اتمام و اکمالِ نبوت کے حوالے سے قرآن حکیم کی وہ آیت بہت اہم ہے جو آپ کے مقصدبعثت ’’اظہار دین حق‘‘کے حوالے سے تھوڑے سے فرق کے ساتھ تین مقامات پر آئی ہے:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ...
’’وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول (محمدؐ ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) دے کر اور دین الحق کے ساتھ‘ تاکہ وہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کریں.‘‘ 

یہاں دو باتیں قابل غور ہیں. پہلی بات یہ ہے کہ ادبیت کا تقاضا یہ ہے کہ کلام میں تکرار نہ ہو. ایک ہی بات اگر آپ دوبارہ کہہ رہے ہیں تو بہتر ہے کہ ذرا اسلوب بدلیں ورنہ سامعین بور ہو جائیں گے. بقول مرزا غالب ؏ اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں. قرآن مجید میں غلبہ ٔدین کا مضمون بھی کئی بار آیا ہے‘ مگر انداز بیان میں تنوع ہے. دین کو غالب کرنے کے حوالے سے یہاں
اظہار دین علی الدین کلہ کے الفاظ آئے ہیں. کسی جگہ اقامت ِدین کے الفاظ آتے ہیں. کہیں اِس کے لیے وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ کے اور کہیں وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ کے الفاظ آئے ہیں. 

قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ اہم ترین مضامین بار بار آتے ہیں‘ تاکہ ان پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے‘ اُن پر مائیکرو سکوپ لگائی جائے. آپؐ کے مقصد بعثت 
’’اظہار دین الحق علی الدین کلہ‘‘ کا مضمون جیسا کہ پیچھے واضح کیا گیا قرآن مجید میں تین جگہ آیا ہے. یعنی سورۃالصف:۹‘ سورۃ الفتح:۲۸‘ سورۃ التوبۃ:۳۳میں. سورۃ الصف اور سورۃ التوبہ میں تو بالکل ایک جیسے الفاظ آتے ہیں‘ البتہ سورۃ الفتح میں آیت کے آخری الفاظ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾ کی جگہ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ آئے ہیں. تو یہ ہے وہ عظیم مشن جو حضرت محمد کو دیا گیا ہے. 

اس آیت سے معلوم ہوا کہ آپؐ کے پیش نظر دین کی صرف تبلیغ ہی نہیں تھی‘ دین کو قائم کرنا بھی تھا. یہ نہیں کہ ہم نے پیغام رب پہنچا دیا‘ اب تم جانو اور تمہارا کام جانے. نہیں‘ بلکہ آپؐ کو دین کو بالفعل قائم بھی کرنا تھا. اور یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تبلیغ دین اور اقامت دین میں بہت بُعد اور فاصلہ ہے. ؏ ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است! 

’’اظہار دین الحق علی الدین کلہ‘‘ کے الفاظ قرآن حکیم میں صرف نبی کریم  کے لیے آئے ہیں. آپؐ کے علاوہ دوسرے کسی رسول اور نبی کے لیے یہ الفاظ نہیں آئے. یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابوالانبیاء ہیں‘ خلیل اللہ ہیں‘ امام الناس ہیں‘ اُن کے لیے بھی یہ الفاظ نہیں آئے. جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ انبیاء کی کچھ حیثیتیں تو سب میں مشترک ہیں. مثلاً تمام انبیاء اپنی جگہ پر روشنی کا چراغ تھے‘ داعی تھے‘ شاہد تھے‘ نذیر تھے. سورۃ الاحزاب میں حضور کے لیے بھی یہی الفاظ آئے ہیں. یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶﴾ (الاحزاب) ’’اے پیغمبر‘ ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے. اور اللہ کی طرف بلانے والا اور چراغ روشن.‘‘ اگرچہ ان حیثیتوں میں ہر نبی اور رسول کا اپنا اپنا مقام ہے. حضور ان پانچ باتوں میں بھی دوسروں سے بہت اونچے مقام پر ہیں. تاہم بنیادی طور پر یہ حیثیتیں تمام انبیاء و رسل کے درمیان مشترک ہیں‘ لیکن ’’اظہار دین علی الدین کلہ‘‘ کے الفاظ صرف نبی آخرالزماں  کے لیے آئے ہیں. 

آپؐ کے مقصد بعثت کے ذکر کے بعد دو جگہ تو 
وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾ کے الفاظ آئے ہیں اور ایک جگہ فرمایا: وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ اس سے واضح فرما دیا کہ آپؐ کا یہ مشن جس قدر بھاری اور عظیم ہے‘ اِسی قدر کفار اس کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے. مگر اس کام میں آپؐ کو اللہ کی مدد حاصل رہے گی. اللہ بطور مددگار آپ ؐ کے لیے کافی رہے گا. سورۃ الصف اور سورۃ التوبہ کے ان دونوں مقامات سے پہلے ایک ایک ہم معنی آیت آئی‘ صرف ایک لفظ ’’لِیُطْفِئُوْا‘‘ ’’اَنْ یُّطْفِئُوْا‘‘ کہاگیا ہے. سورۃ الصف میں فرمایا: یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ ’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ (کے چراغ) کی روشنی کو منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کافر ناخوش ہی ہوں.‘‘ اور سورۃ التوبہ میں الفاظ ہیں: یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲﴾ دونوں جگہ ’’یُرِیْدُوْنَ‘‘ میں مستتر ضمیر فاعلی ’’ھُمْ‘‘ یہود کی طرف راجح ہے کیونکہ اس سے پہلے انہی کا تذکرہ ہوا ہے. مطلب یہ ہے کہ یہودی تو چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں‘ مگر اُن کی یہ خواہش ہرگز پوری ہونے والی نہیں ہے. اللہ بہرحال اپنے نور کا اتمام فرما کر رہے گا‘ چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو. یہی بات مولانا ظفر علی خان نے اپنے انداز سے یوں کہی تھی ؎ 

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

سیرۃ النبیؐ کا عمود

نبی  کے مقصد بعثت کے حوالے سے آنے والی یہ آیت قرآنی بہت اہم ہے. میں اپنے اسلاف میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کو جامع ترین شخصیت سمجھتا ہوں. اُن کے بعد امام غزالی ؒ اور امام ابن تیمیہؒکا نمبر آتا ہے. میرے نزدیک یہ دونوں شخصیات باہم مل کر شاہ ولی اللہ کے برابر ہیں. شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ آیت پورے قرآن مجید کا عمود ہے. عمود سے آگاہی بہت ضروری ہے. اگر آپ کسی کی بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی مراد سمجھی جائے کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے. ایک خطیب جب خطبہ دیتا ہے تو اس میں بات کو سمجھانے کے لیے کئی مثالیں بھی بیان کی جاتی ہیں. کئی ضمنی مباحث بھی بیان میں آجاتے ہیں‘ مگر پورے بیان میں اہم ترین شے وہ مرکزی خیال ہوتا ہے جو معین ہوتا ہے. حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک قرآن میں وہ معین مرکزی خیال یہ آیت ہے. اس آیت کے بارے میں شاہ صاحب کی یہ رائے ہے‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کی اس آیت کی کس قدر خصوصی اہمیت ہے. اب میں بھی اس آیت کے بارے میں اپنی حقیر سی رائے پیش کرتا ہوں. میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت قرآن حکیم کا عمود ہو‘ نہ ہو‘ سیرۃ النبی کا عمود ضرور یہی آیت ہے. سیرت ِمطہرہ کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا جب تک یہ آیت نہ سمجھ لی جائے. سیرت النبیؐ کا صحیح فہم اس آیت کی مدد سے حاصل ہوسکتا ہے. اس لیے کہ یہی آیت اُس عظیم مشن کے بارے میں بتاتی ہے جو محمد رسول اللہ  کے حوالے کیا گیا.

یہ مشن آپؐ نے کیسے پورا کیا‘ اس کے لیے آپؐ نے کیا طریقہ اختیار کیا‘ آپؐ کن مراحل سے ہوکر گزرے‘ اِن ساری چیزوں میں ایک منطقی ربط اور تسلسل تبھی نظر آئے گا جب یہ آیت آپ کے سامنے ہو. یہ آیت سامنے نہیں ہوگی تو آپ سیرت کی بہت سی باتیں اور پہلو سمجھ نہیں پائیں گے. مثلاً آپؐ کی حیات طیبہ کے مکی دور میں مسلمانوں سے کہا گیا کہ چاہے تمہارے ٹکڑے کردیئے جائیں‘ تم ہاتھ نہ اُٹھاؤ‘ تمہیں جوابی کارروائی کی ہرگز اجازت نہیں ہے‘ مگر جب آپؐ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو اس کے بالکل برعکس صورت ہوگئی. یہاں آپؐ نے غزوات کا آغاز فرما دیا. اسی طرح یہ بات بھی سمجھ نہیں آئے گی کہ نبی اکرم نے حدیبیہ کے مقام پر قریش کے ساتھ دب کر صلح کی تھی مگر اس صلح کے ایک ہی سال بعد جب قریش کا سردار ابوسفیان مدینہ آیا ہے تو آپؐ اس کی بات بھی نہیں سن رہے تھے. اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کردوں. ۱۹۸۵ء کی بات ہے‘ انڈیا کے عالم دین مولانا وحید الدین خان جو اپنے افکار کی وجہ سے حکومت ہندوستان کے چہیتے اور آر ایس ایس اور بی جے پی کی آنکھوں کا تارا ہیں‘ جامع القرآن قرآن اکیڈمی تشریف لائے. میری دعوت پر وہ اکیڈمی کے ہال میں تنظیم اسلامی کے رفقاء سے خطاب کررہے تھے. اپنے خطاب میں اُن کا سارا زور اس نکتہ پر تھا کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے صلح سے ہوتا ہے‘ لڑائی سے کچھ نہیں ہوتا. اس کے لیے دلیل پر دلیل دیئے جارہے تھے. میں تنظیم اسلامی کا امیر تھا اور صدر مجلس کی حیثیت سے میں نے طے کیا تھا کہ میں کوئی بات نہیں کروں گا‘ بس یہ مقرر ہیں اور یہ میرے سامعین اور رفقاء تنظیم. میرے فکر میں کوئی غلطی ہو تو یہ ان کے سامنے پیش کردیں‘ اور صحیح ہو تو اس کی تائید کردیں. مولانا وحید الدین نے جب اپنی تقریر ختم کی تو میں نے اُن سے اجازت لے کر ایک سوال کیا کہ اگر جنگ اتنی ہی بری اور صلح اتنی ہی اچھی شے ہے‘ جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں تو پھر یہ بتائیے کہ صلح حدیبیہ ٹوٹ جانے کے بعد جب قریش کا سردار ابوسفیان یہ درخواست لے کر مدینہ آیا کہ آپؐ صلح کی تجدیدکردیں تو آپؐ نے اس کی تجدید کیوں نہیں فرمائی؟ میرا سوال سن کر وہ مبہوت ہوگئے. ان کا انگریزی زبان میں جواب صرف یہ تھا "No Comments". مغربی مؤرخ ٹائن بی بھی آپؐ کے مقصد بعثت کو نہ سمجھ سکا.

اسی بنا پر آپؐ کی حیات طیبہ کے مکی اور مدنی دور کے بارے میں اُس نے کہا: 
".Muhammad failed as a Prophet but succeeded as a statesman" اُسے مکے کا محمد نبیوں کی طرح کا نظر آتا ہے. اس لیے کہ اس دور میں آپؐ کی زندگی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نقشہ ہے. آپ ؐ لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں. کھڑے ہوکر وعظ کررہے ہیں. کسی نے گالی دی تب بھی خاموش ہیں‘ بلکہ اُسے دعائیں دے رہے ہیں. کوئی کہتا ہے (نعوذ باللہ) آپؐ کو جنون کا عارضہ ہوگیا ہے. کوئی شاعر اور کوئی ساحر قرار دیتا ہے. کوئی کہتا ہے کہ کذاب ہیں‘ کسی اور سے ڈکٹیشن لیتے ہیں اور آکر ہم سے کہتے ہیں کہ مجھ پر وحی آئی. یہ سب باتیں آپؐ سن رہے ہیں مگر کسی کو کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں. ٹائن بی کے نزدیک‘ آپؐ کی یہ درویشی معاذ اللہ ناکامی ہے. اس کے برعکس مدینہ والے محمد تو پہلے دن سے سپہ سالار ہیں‘ ہیڈ آف دی سٹیٹ ہیں‘ اور اس حیثیت سے بھرپور کامیاب ہیں. منٹگمری واٹ نے بھی اس سوچ کی بنیاد پر سیرت پر دو کتابیں لکھیں. "Muhammad at Makkah" اور "Muhammad at Madina" لیکن اس میں جو اصل زہر پوشیدہ ہے‘ وہ یہ خیال ہے کہ (معاذ اللہ) آپؐ کی سیرت کے مکی اور مدنی ادوار میں تضاد پایا ہے. مکی دور میں آپؐ کچھ اور ہیں اور مدنی دو ر میں کچھ اور. اس طرح کے اشکالات کو صرف اس آیت کے حوالے سے رفع کیا جاسکتا ہے. جب یہ بات معلوم ہوکہ آپؐ کا مقصد بعثت غلبہ ٔدین تھا‘ محض تبلیغ نہیں تھا‘ تو آپؐ کے حیات طیبہ کے مکی اور مدنی ادوار میں کوئی تضادنظر نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی غلط فہمی ہوگی. اگر محض تبلیغ مقصود ہوتی تو یقینا آپؐ کا ایک ہی طرزِ عمل ہوتا‘ لیکن چونکہ آپؐ کو دین قائم کرنا اور انقلاب برپا کرنا تھا‘ لہذا آپؐ درجہ بدرجہ آگے بڑھے. اگر مقصد بعثت پیش نظر ہوگا تو ہر انصاف پسند آدمی یہی کہے گا کہ آپؐ مختلف مراحل طے کرتے ہوئے غلبۂ دین حق کے ہدف کی طرف بڑھ رہے تھے. 
بہرحال نبوت و رسالت کئی ہزار سالوں کے دوران رفتہ رفتہ اور تدریجاً ارتقاء کے مراحل طے کررہی تھی تا آنکہ آپؐ کی ذات مبارک میں اپنے نقطۂ تکمیل یا نقطۂ عروج و کمال کو پہنچ گئی. چنانچہ ختم نبوت کے حوالے سے دونوں پہلو پیش نظر رہنے چاہئیں. یہ بات بھی کہ آپؐ پر نبوت و رسالت ختم ہوگئی‘ اب کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا‘ اور یہ بات بھی کہ آپؐ پر نبوت و رسالت اور ہدایت کامل اور مکمل ہوگئی. اسی لیے ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ حضور کے ذکر میں تکمیل‘ اتمام اور اکمال کے الفاظ آتے ہیں. چنانچہ تکمیل دین کی آیت میں فرمایا: 

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (المائدہ:۳

’’آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.‘‘
اسی طرح اُس آیت میں جس کا پیچھے ذکر ہوا ہے فرمایا: 

وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ 
’’اور اللہ اپنے نور کا اتمام کرنے والا ہے‘ خواہ کافر ناخوش ہی ہوں.‘‘

سورۃ التوبۃ میں فرمایا: 

وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲
’’اور اللہ اپنے نور کو پورا کیے بغیر رہنے کا نہیں‘ اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے.‘‘

حضور کی ایک حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:

اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ (۱(۱) مشکوٰۃ‘ کتاب الآداب، باب الرّفق والحیاء و حسن الخلق. ’’مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اخلاق کی جو بلندیاں ہیں‘ ان کو مکمل کردوں.‘‘
تکمیل نبوت و رسالت کے ضمن میں ایک حدیث صحیح بخاری و مسلم میں آتی ہے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:

إِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہِ وَیَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُولُوْنَ ھَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَۃُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ (۱

’’میری مثال اور ان پیغمبروں کی مثال جو مجھ سے پہلے گزر گئے‘ ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک مکان بنایا اور اس کو بہت عمدہ اور خوشنما بنایا. اس کے ایک گوشہ میں صرف ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی. لوگ جب اس مکان میں جاتے تو تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپؐ فرماتے تھے کہ وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں.‘‘

نبی اکرم  پر تکمیل نبوت و رسالت کے مظاہر

اب آئیے‘ اس بات پر غور کریں کہ آپؐ کی ذات مبارکہ پر نبوت و رسالت کے کامل ہونے کے مظاہر کیا ہیں. کن چیزوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ آپؐ پر نبوت و رسالت کامل ہوگئی. اس ضمن میں بہت اہم اور توجہ طلب آیت مقصد بعثت سے متعلق آیت ہے‘ جس کا پیچھے ذکر ہوا ہے‘ یعنی ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ... اس آیت میں حضور  پر نبوت و رسالت (۲کی تکمیل کے تین مظاہر بیان ہوئے ہیں. ان (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المناقب‘ باب خاتم النبین . 

(۲) یہ سوال کہ نبوت و رسالت میں کوئی فرق ہے یا یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں‘ ایک مشکل اور پیچیدہ سوال ہے. اس وقت اس پر بحث مقصود نہیں کہ نبی کون ہوتا ہے اور رسول کون ہوتا ہے. یہ ایک علمی مسئلہ ہے. اس بارے میں میں نے اپنا موقف کئی مرتبہ اپنے دروس میں بیان کیا ہے. تاہم یہ بات واضح ہو جائے کہ اگر ایک شخص نبی بھی ہے اور رسول بھی ہے‘ تو اس کی ذات میں رسالت اور نبوت میں کیا نسبت ہے. نبوت و رسالت میں نسبت کا وہی معاملہ ہے جو ایک شخص کے دونوں ہاتھوں کا ہے جو باہم جڑے ہوئے ہوں. ایک ہاتھ کا رُخ ایک طرف اور دوسرے ہاتھ کا دوسری جانب ہوتا ہے.

نبوت کا رخ آسمان کی جانب یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ہے. یہ اللہ سے لینے والا معاملہ ہے. (باقی اگلے صفحے پر) 
میں سے دو مظاہر تکمیل نبوت کے ہیں اور ایک مظہر تکمیل رسالت کا ہے. تکمیل نبوت کے دو مظاہر تکمیل ہدایت اور تکمیل دین ہیں‘ اور تکمیل رسالت کا مظہر ’’اظہار دین حق ‘‘ہے. تکمیل رسالت کا ایک اور مظہر(کل نوع انسانی کی طرف آپؐ کی بعثت) دوسرے مقامات پر آیا ہے. حضور کو اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں عطا فرمائیں. ایک ’’الہدیٰ‘‘ اور دوسری ’’دین حق‘‘ یعنی سچا اور کامل دین‘ عدل و انصاف کے بلند ترین معیارات پر پورا اُترنے والا دین. یہ دو چیزیں جو آپؐ کو عطا کی گئیں‘ قبل ازیں ان دونوں میں ارتقائی مراحل طے ہوئے. 

تکمیل ہدایت:تکمیل نبوت کا پہلا مظہر یہ ہے کہ آپ ؐ پرہدایت کی تکمیل ہوئی. آپؐ سے پہلے ہدایت بھی ارتقائی مراحل طے کر رہی تھی اور آپؐ پر آ کر یہ کامل ہو گئی اور آپؐ کو ہدایت کا کامل ترین ایڈیشن قرآن حکیم کی صورت میں عطا کیا گیا. قرآن حکیم میں صحف ابراہیم کا ذکر آیا ہے‘ اگرچہ ہمیں معلوم نہیں کہ آج صحف ابراہیم ؑکہاں ہیں بلکہ دنیا میں کہیں ہیں بھی یا نہیں! میرا گمان ہے‘ اگرچہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہندوؤ ں کے پاس جو اُپنشد ہے‘ وہ صحفِ ابراہیمی کی بگڑی ہوئی شکل ہے. برہما کا لفظ بھی درحقیقت لفظ ابراہیم علیہ السلام کی بگڑی ہوئی صورت ہے. میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح عیساؤں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنا لیا‘ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کے بادشاہوں نے انہیں اپنا برہما (خدا) بنا لیا. حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے
 (گزشتہ صفحے سے) چنانچہ اللہ کی طرف سے نبی پر وحی آتی ہے. اس کے برعکس رسالت کا رخ زمین یعنی بندگان خدا کی طرف ہے. رسالت پیغام کا پہنچانا ہے. چنانچہ اللہ حکم دیتا ہے کہ میرے پیغام کو پہنچاؤ. جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا: اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿۲۴﴾ (طٰہٰ) ’’جاؤ فرعون کی طرف کہ اُس نے سرکشی کی ہے.‘‘ تصوف میں یہ بحث چلتی ہے کہ نبوت بلندتر ہے یا رسالت. اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ رسالت بلند تر ہے. یہ نبوت سے اونچا مقام ہے. رسولوں کی تعداد صرف ۳۱۳ ہے‘ جبکہ نبی ایک لاکھ سے زائد آئے ہیں. مولانا رومی اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں. اُن کے نزدیک بلند تر درجہ نبوت ہے‘ رسالت نہیں. اس لیے کہ نبوت کا رخ اللہ کی طرف ہے. یہ انٹینا اُدھر سے ہے. نبوت مرتبہ ٔعروج میں ہے. رسالت مرتبۂ نزول میں ہے . غار حرا میں رسول خد اؐ بلندی کے مراحل طے کر رہے تھے‘ اور جب آپؐ وہاں سے اُتر کر لوگو ں کی طرف آئے تاکہ پیغام حق پہنچائیں‘ تو یہ گویا مرتبہ ٔنزول تھا ؎

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا 

اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا 
حضرت نوح علیہ السلام تھے‘ آخر ان پر بھی تو کوئی صحیفہ آیا ہوگا. قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے. مسٹر ڈیبوئس ایک فرنچ سکالر اور محقق تھا. اس نے انڈیا میں ہندو سکرپچرز کے تفصیلی مطالعے پر چالیس برس لگائے. اس کا کہنا ہے کہ ہندوؤں میں جو مَنُو ہے‘ جو مہانوح ہے وہ دراصل حضرت نوح علیہ السلام کا بگڑا ہوا نام ہے. ہندی میں ’’مہا‘‘ کسی بڑی شخصیت کے لیے آتا ہے جیسے مہا آتما. اس نسبت سے گاندھی کو مہاتما گاندھی کہا جاتا ہے. منوسمرتی کے متعلق اس کا کہنا ہے کہ یہ دراصل وہ صحیفہ تھا جو حضرت نوح علیہ السلام کو دیا گیا(واللہ اعلم). میرا خیال ہے کہ ان چیزوں میں علمی طور پر کھوج لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے. تاہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا‘ سوائے اس چیز کے جو قرآن میں آگئی. حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بعد بے شمار انبیاء پر صحیفے آئے. پھر تورات‘ زبور اور انجیل نازل ہوئیں. ان سب کتابوں میں لوگوں کے لیے ہدایت اور روشنی تھی جیسا کہ سورۃ المائدہ (آیت۴۴) میں فرمایا: اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ’’بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے.‘‘ لیکن یہ ہدایت ابھی ابتدائی مراحل میں تھی‘ ابھی مکمل نہ ہو پائی تھی. قرآن حکیم پر آکر اس ہدایت کی تکمیل ہوگئی. چنانچہ قرآن کو ’’الہدیٰ‘‘ کہا گیا ہے. یوں سمجھئے‘ پہلے انسان ذہنی و فکری اعتبار سے عہد طفولیت میں تھا. وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا‘ ہدایت بھی ترقی کرتی گئی. ایک پرائمری کے طالب علم کے لیے اگر آپ پی ایچ ڈی ٹیوٹر رکھ دیں گے تو وہ اسے پی ایچ ڈی نہیں کراسکے گا؟ اس لیے کہ بچے کا ذہنی افق ابھی بلند نہیں ہے. وہ اس کی ذہنی سطح کے مطابق ہی پڑھا پائے گا. اگرچہ اس کے پاس علم کا خزانہ ہے‘ مگر جس کو دینا ہے‘ اُسے اس کی استعداد کو پیش نظر رکھ کردینا ہوگا. 

آنحضور کی بعثت حضرت آدم علیہ السلام کے کم و بیش چھ ہزار سال بعد ہوئی. یہ وہ زمانہ تھا جب ذہنی و فکری‘ فلسفیانہ اور منطقی بحثوں اور مابعد الطبیعیات کے ا عتبار سے انسان بالغ ہوچکا تھا. عجیب بات ہے کہ اسلام سے قبل کے تاریخ انسانی کے۱۲۰۰ سال (۶۰۰ق م تا ۶۰۰ عیسوی) ہی وہ عرصہ ہے جس میں مروجہ تمام مذاہب اور فلسفے پیدا ہوئے. اِسی عرصے میں بدھ ازم‘ جین ازم‘ کنفیوشش ازم اور تاؤ ازم آئے. اسی دور میں سقراط اور بقراط آئے. اسی عرصے میں مانی وانی آئے. وجود کی حقیقت کیا ہے؟ کائنات کیا ہے؟ اس کی ابتدا اور انتہا کیا ہے؟ ہماری زندگی کی ابتدا اور انتہا کہاں ہے. ہم کہاں سے آئے اور کہاں جارہے ہیں؟

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم 

یہ سارے سوالات وہ ہیں جن پر فلسفی غور کرتے رہے. اس عرصے میں چین‘ ہندوستان‘ ایران اور یونان کے فلسفیوں نے اس بارے میں اپنے اپنے نظریات اور خیالات پیش کیے‘ اور انہی کے فلسفوں کو شہرت ملی. بہرکیف جب ان۱۲۰۰ سالوں کے دوران انسانی ذہن فلسفیانہ اور منطقی اعتبار سے اپنے عروج کو پہنچ گیا‘ تب رسول اکرم  کی بعثت ہوئی اور الہدیٰ‘ کامل ہدایت کے نزول کا آخری مرحلہ آیا. نزول وحی سے قبل آپؐ غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں غوروفکر اور سوچ بچار کرتے تھے. دنیا میں غلط کام کیوں ہو رہے ہیں؟ ظلم و ناانصافی کا چلن کیوں عام ہے؟ انسان اس قدر پستی میں کیوں گر گیا ہے؟ کیا انسان میں پستی ہی پستی ہے یا اس کے وجود کا کوئی روشن پہلو بھی ہے؟ یوں سمجھئے‘ چھ ہزار سال میں انسان نے جو فلسفیانہ شعور حاصل کیا ہے‘ وہ سارا سفر محمدرسول اللہ  نے غار حرا کی خلوتوں میں چند مہینوں میں طے کیا. اس کے بعد آپؐ پر آیات قرآنی نازل ہونی شروع ہوئیں اور تیئس سالوں میں ’’الہدیٰ‘‘ کی تکمیل ہوگئی. 

تکمیل ہدایت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا. اللہ تعالیٰ نے کسی گزشتہ پیغام کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اس کی تکمیل ہوچکی اور اس کی حفاظت کا ذمہ دار میں ہوں‘ مگر قرآن کے متعلق فرمایا: 
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) ’’بے شک ہم نے ہی یہ ’’الذکر‘‘ نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.‘‘ اللہ نے دوسری کتب سماوی تورات‘ زبور‘ انجیل وغیرہ کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا. چنانچہ ان میں تحریف ہوگئی. اگر اللہ اُن کی حفاظت کا ذمہ لے لیتا تو ان میں کبھی تحریف نہ ہوسکتی تھی. اگر اللہ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ہوتا تو ہم بھی قرآن میں تحریف کیے بغیر نہ رہتے. کیا یہ سچ نہیں کہ قرآن کے ترجموں اور تفسیروں میں تحریفیں کی گئی ہیں. پھر متن میں تحریف کیوں نہ ہوتی. مگر اس کا متن اس لیے محفوظ ہے کہ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے. میں لطیف انداز میں یہ کہا کرتا ہوں کہ سابقہ آسمانی کتابوں کو حق پہنچتا ہے کہ اللہ کی جناب میں شکوہ کریں کہ اے اللہ‘ ہم بھی تیری کتابیں تھیں‘ قرآن بھی تیری کتاب تھی‘ تو پھر تو نے کیوں ہمارے ساتھ سوتیلی بیٹیوں والا سلوک کیا. تو نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا‘ ہماری حفاظت کا ذمہ کیوں نہیں لیا. اس کا جواب یہ ہے کہ دیکھو‘ ابھی تمہارے اندر ہدایت کامل نہیں ہوئی تھی. تمہاری حیثیت مختلف ادوار میں عبوری ہدایات کی تھی جبکہ ابھی ہدایت کا کامل اور مکمل ایڈیشن ’’الہدیٰ‘‘ نہیں آیا تھا. تمہارے اندر احکام ہی دئے گئے تھے‘ ابھی حکمت نہیں آئی تھی. اگرچہ انجیل میں حکمت آئی تھی‘ مگر ابھی اس کا آغاز ہی ہوا تھا‘ جبکہ تورات میں تو سرے سے حکمت تھی ہی نہیں. اُس میں احکام ہی احکام تھے‘ بلکہ بائبل کے سب سے نمایاں الفاظ ہی The Ten Commandments (احکام عشرہ) ہیں. انسان ابھی اس قابل نہیں تھا کہ اس کو حکمت سمجھائی جاتی. لہذا عبوری دور کی تعلیمات ہونے کے سبب سابقہ کتب کی حفاظت کی ضرورت نہیں تھی. لیکن جب ہدایت اور حکمت کی تکمیل ہوگئی‘ تو اللہ نے اس کو محفوظ کرلیا. 

ایک دفعہ ایک قادیانی نوجوان مجھ سے ملنے آیا. مجھ سے سوال کیا کہ وحی و نبوت تو رحمت ہے. ٹھیک ہے‘ محمد  پر رحمت کامل ہوگئی‘ مگر رحمت بند کیسے ہوسکتی ہے؟ میں نے پوچھا‘ کیا تم یہ مانتے ہو کہ قرآن میں ہدایت کامل ہوگئی. کہنے لگا‘ جی بالکل. میں نے کہا‘ یہ بتاؤ کہ کیا تمہارے خیال میں قرآن محفوظ ہے یا اس میں تحریف ہوگئی. اُس نے کہا‘ کیوں نہیں‘ یہ تو محفوظ ہے. میں نے کہا‘ جب یہ قرآن مکمل بھی ہے اور محفوظ بھی تو پھر مزید ہدایت کی گنجائش کہاں سے نکلے گی. یہ ہدایت محفوظ ‘ یا کامل نہ ہوتی‘ پھر توہم کہہ سکتے تھے کہ یہ محفوظ نہیں ہے‘ یا ابھی ادھوری ہے‘ ابھی کامل ہونی ہے‘ لہذا سلسلہ نبوت ابھی جاری رہنا چاہیے‘ مگر جب ہدایت محفوظ بھی ہے اور کامل بھی ہوگئی‘ تو مزید ہدایت کی ضرورت کیسے باقی رہ سکتی ہے. گلاس ابھی پورا بھرا نہ ہو تو پانی ڈالنا چاہیے. گلاس لبالب بھر جائے تو اس میں اور پانی کیسے ڈالیں گے. میں نے کہا کہ جب قرآن میں ہدایت کامل ہوگئی اور اللہ نے قرآن کو محفوظ بنا لیا تو پھر اس بات کے لیے قطعاً کوئی منطقی اور عقلی دلیل نہیں ہے کہ نبوت اور وحی کے جاری رہنے کا تصور بھی کیا جاسکے. وہ نوجوان جھگڑالو نہیں تھا. میری بات کو سمجھ گیا اور مبہوت ہو کر رہ گیا. ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تکمیل دین اور تکمیل ہدایت کے حوالے سے اگر ہم حضور کے مرتبہ و مقام کو نمایاں نہیں کرتے‘ تو پھر جتنے بھی فتنے سر اُٹھائیں گے‘ ان کا سدباب نہیں ہو سکے گا. 

تکمیل دین

تکمیل نبوت کا دوسرا مظہر یہ ہے کہ آپؐ پر دین بھی کامل کر دیا گیا. آپؐ کو جو دین عطا کیا گیا وہ دین حق ہے. دین حق کیا ہے؟ یہ مکمل نظام زندگی ہے. اس کا بھی ارتقا ہوا ہے. ایک زمانہ تھا جب ہمارے آباء و اجداد غاروں میں رہتے تھے. اُس وقت کوئی اجتماعی نظام نہیں تھا. کوئی میونسپلٹی نہیں تھی. ہر شخص آزاد تھا. اگلی سٹیج آئی تو قبیلے کے نظام نے جنم لیا. ہر قبیلہ کا ایک اپنا نظام ہوتا تھا. افراد قبیلہ کے لیے قبیلے کے سردار کا حکم ماننا لازمی تھا. قبیلے کی روایات باعث فخر سمجھی جاتی تھیں. لوگ کہتے کہ یہ ہمارے قبیلے کا رواج ہے‘ یہ ہماری رسم ہے‘ یہ ہماری رِیت ہے وغیرہ. اگر غور کیا جائے تو قبائلی زندگی انسان کا تمدن کی طرف پہلا قدم تھا. اس لیے کہ اس سے پہلے انسان کو کامل آزادی حاصل تھی‘ اب یہاں اُس پر قدغن لگنی شروع ہوگئی. انسان یہاں آکر پابند ہوگیا کہ بہرصورت قبیلہ کی رسم پوری کرے گا اور قبیلہ کی روایت پر چلے گا‘ خواہ وہ رسم اور روایت اُسے پسند ہو یا ناپسند. اس کے بعد اگلا دور آیا تو ایک قبیلے نے اپنا ایک شہر بھی بنا لیا. اُس کے گرد ایک فصیل بھی کھینچ لی اور اپنے نظام کو اور مستحکم کرلیا. اس طرح ایک قبیلے کی شہری ریاست قائم ہوگئی. جب حضور کی بعثت ہوئی ہے مکہ مکرمہ بھی ایک قبیلے کی شہری ریاست تھا. وہاں وہی شخص رہ سکتا تھا جو قرشی ہو‘ یا کسی قرشی کا حلیف ہو یا اُس کا غلام ہو یا اُس کی امان میں آجائے. مکہ میں کوئی دوسرا نہیں رہ سکتا تھا. اُس کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں تھی. پھر اگلا دور آیا تو کئی قبیلے ایک جگہ جمع ہوگئے اور ساتھ مل کر رہنے لگے. قبائل کے باہم مل کر رہنے سے یہ سوال پیدا ہوا کہ اُن کا آپس میں انٹریکشن کس بنیاد پر ہوگا. ظاہر ہے‘ مختلف قبیلے ہیں‘ اُن کے سردار مختلف ہیں‘ اُن کا نظام الگ الگ ہے.

اگر ایک شہر میں رہنا ہے توکچھ چیزیں تو آپس میں بہرحال طے کرنی پڑیں گی. یہیں سے گویا آئین و دستور کے تصور کا آغاز ہوا. آپ حیران ہوں گے مدینہ منورہ بھی پانچ قبیلوں پر مشتمل ایک بستی تھی. تین قبائل یہودی تھے یعنی بنونضیر‘ بنو قریظہ اور بنو قینقاع اور دو عرب قبیلے تھے یعنی اوس اور خزرج. یہودیوں کا اپنا الگ نظام تھا. ان کے ہاں سردار تھے‘ مفتی اور علماء تھے. وہ تورات کے ماننے والے تھے. عرب قبائل اوس اور خزرج کے ہاں یہ طے تھا کہ اگر اوس کا کوئی نوجوان کسی خزرجی کو قتل کردے گا تو اُسے تین گنا دیت ادا کرنی ہوگی‘ اور اگر کوئی خزرجی اوسی کو قتل کرے گا تو اُسے صرف ایک تہائی دینی پڑے گی. ذرا سوچئے‘ اس صورتحال پر کسی اوسی نوجوان کا خون کس قدر کھولتا ہوگا کہ خزرجی کے مقابلے میں میرے خون کی قیمت ایک تہائی ہے. اس کے بعد اگلے مرحلے پر سلطنتیں قائم ہوئیں. جیسے عرب کے شمال میں کئی سو سال سے دوسلطنتیں تھیں سلطنت روما اور سلطنت ایران. سلطنتیں وجود میں آئیں تو اب محلات کھڑے کئے گئے‘ فوجیں بنائی گئیں جو تربیت یافتہ اور مسلح تھیں. پھر بادشاہوں نے عوام کی گردنوں پر اپنی بادشاہی اور خدائی کا تخت رکھا. عوام پر ظلم ڈھائے جانے لگے. محنت مزدور کرتا اور اُس کی کمائی پر عیش بادشاہ اور جاگیر دار کرتا تھا. اگر کوئی شخص بادشاہ کے ظلم کے خلاف سر اُٹھاتا‘ تو فوجیں اُس کا سر کچل دیتی تھیں. مثلاً ایک شخص کپڑا بن رہا ہے تو اُس سے کہا جاتا کہ تمہیں اتنا ٹیکس دینا ہوگا ورنہ تمہارا سر کچل دیا جائے گا. یہ ظالمانہ نظام جب ظلم کی انتہا کو پہنچ گیا تو انسان غلام‘مجبور‘مقہور اور مظلوم بن کر رہ گیا. اس کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ ہوتا. اس کے مقابلے میں جاگیردار گل چھرے اڑانے لگے. بادشاہوں کے محلات میں مشرق و مغرب کا نسوانی حسن جمع کیا جانے لگا. کنیزوں کی فوجوں کی فوجیں لائی گئیں. یہی وقت تھا جب محمد رسول اللہ  کی بعثت ہوئی. 

ایک بات اور نوٹ کیجیے. اس دور سے لے کر تاقیامت انسان کی اصل ضرورت ایک عادلانہ نظام ہے. نبی اکرم  نے انسان کی اس ضرورت کو بتمام و کمال پورا کیا. اُسے عادلانہ نظام عطا فرمایا. مگر افسوس کہ اس نظام سے انحراف کرکے انسان آج پھر ظالمانہ نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے. آج کا نظام کیا ہے؟ آسمانی تعلیمات سے بے گانہ پابندیاں. جو چیز حکومت طے کردے گی آپ اس کے پابند ہوں گے. فرض کریں کہ آپ کی حکومت طے کردے کہ بچوں کو فلاں فلاں نصاب پڑھایا جائے گا. اب آپ اُس نصاب سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے. آپ نے بچے کو سکول میں داخل کروا دیا. اس کے بعد بچے کے نصاب کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے. بچہ وہی پڑھے گا جو سرکار پڑھائے گی. اور یہ نصاب بنانے والے کون لوگ ہیں؟ یہ وہی قوتیں ہیں جو اسلام کی دشمن ہیں. آج امریکہ پوری اسلامی دنیا بالخصوص سعودی عرب اور پاکستان کے نصاب سے اسلام کو کھرچ کھرچ کر نکال رہا ہے. حکمرانوں کو ڈکٹیٹ کرایا جارہا ہے کہ نصاب سے جہاد کا ذکر نکالو. ہم اہل پاکستان سے بتکرار یہ کہا جارہا ہے کہ اپنی تاریخ سے تحریک پاکستان کا ذکر نکالو. نصاب تاریخ میں کوئی نظریاتی حوالہ نہیں ہونا چاہیے. اسی طرح ہندو دشمنی کی بات نہیں ہونی چاہیے. اس صورتحال میں ہم اپنے بچوں کو کہاں لے جائیں؟ کیا غاروں میں بند کردیں؟ اسی طرح آپ ٹی وی کی تباہ کاریوں سے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تو کیسے بچائیں گے. کیا گھر میں ٹی وی نہ لاکر اس سے پوری طرح بچ جائیں گے. ظاہر ہے‘ ایسا نہیں ہے. آپ اپنے گھر میں ٹیلی ویژن نہیں لائیں گے تو بچے کہیں باہر جاکر دیکھ لیں گے. پنساری یا دودھ والے کی دوکان پر جاکے دیکھ لیں گے. پڑوسی کے گھر چلے جائیں گے. یا کسی کینٹین کا رُخ کر لیں گے. سارے مسائل حل تب ہوں گے جب آپ نظام بدلیں گے. جب تک غلط نظام نہیں بدلے گا‘ حالات کبھی نہیں 
سدھریں گے. اسی لیے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ تقسیم دولت کا نظام غلط ہو جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار ہوتے ہیں‘ گل چھرے اور عیاشیاں ہوتی ہیں‘ اور دوسری طرف بھوک اور فاقے ہوتے ہیں اور انسان کی حیثیت باربرداری کے اونٹ کی سی ہوجاتی ہے. انسان انسان نہیں رہتا. جو شخص صبح سے شام تک کمر توڑ دینے والی محنت کرتا ہے‘ پھر بھی اُس کے خاندان کی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی‘ آپ اُس سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ کیا وہ رات کو کھڑے ہوکر اللہ سے لو لگائے گا؟
کسی اعلیٰ آدرش اور نصب العین کی فکر کرے گا؟ خود حضور نے فرمایا: کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّـکُوْنَ کُفْرًا (۱’’ہوسکتا ہے فقر انسان کو کفر تک پہنچا دے‘‘. یہ فقر ہی تو ہے جو انسان سے خودکشیاں کروا رہا ہے. یہ فقر ہی تو ہے کہ ایک ماں اپنی تین بچیوں کو لے کر ریل کے سامنے کود جاتی ہے. شاہ ولی اللہ ؒ کہتے ہیں کہ تقسیم دولت کا غلط نظام دو دھاری تلوار ہے. یہ ادھر بھی کاٹتی ہے اور ادھر بھی کاٹتی ہے. نامنصفانہ نظام کے نتیجے میں جن لوگوں کے پاس دولت کے انبار لگ جاتے ہیں اُن کے ہاں عیاشیاں اور بدمعاشیاں ہوتی ہیں. وہ گل چھر ے اڑاتے ہیں. اُن کی اخلاقی حس مردہ ہوجاتی ہے. دوسری طرف جو لوگ وسائل سے محروم ہو جاتے ہیں. وہ بھوکے مرتے ہیں‘ روزی روٹی کے علاوہ اُن میں کوئی اور فکر پیدا ہی نہیں ہوتی. اُن میں خوف خدا اور فکر آخرت کیونکر پیدا ہوگی‘ وہ نجات اُخروی کے بارے میں کیسے سوچیں گے‘ جبکہ وہ تو بار برداری کے اونٹ اور کولہو کے بیل ہیں. واقعتا شاہ ولی اللہ کی سماجی فکر (social thought) بہت بلند درجے پر ہے. تو یہ تھا وہ غلط نظام جس کے شکنجے میں حضور کی بعثت سے پہلے انسانیت جکڑی ہوئی تھی.

اظہار دین حق:

حضور  تشریف لائے. آپؐ کو دین حق عطا کیا گیا. آپؐ کا مقصد بعثت یہ تھا کہ آپؐ کل نظام اطاعت پر دین حق کو غالب کریں اور انسان کو ظالمانہ نظام کے شکنجے سے رہائی دلائیں.
 
یہ واضح ہو کہ دین حق صرف الہدیٰ (قرآن) پر نہیں بنے گا. الہدیٰ اور دین الحق دونوں ایک نہیں ہیں‘ دو ہیں. الہدیٰ اور دین حق کے درمیان میں واوِ عطف آیا ہے. اور واؤ عطف معطوف اور معطوف علیہ میں مغائرت پیدا کرتا ہے. جیسے ہم کہتے ہیں کہ میں اور وہ. لفظ ’’اور‘‘ بتاتا ہے کہ میں اور ہوں اور وہ اور ہے. بلاشبہ الہدیٰ دین حق کی بنیاد اور اساس ہے مگر اس کا 
(۱) الضعفاء الکبیر للعقیلی‘ راوی : عمر بن الخطابؓ ، ج۴‘ ص ۲۰۶تفصیلی ڈھانچہ اور خاکہ سنتِ رسولؐ سے بنتا ہے. جب آپ سنتِ رسولؐ کے بغیر نماز تک کا نظام نہیں بنا سکتے تو کوئی اور نظام کیا بنائیں گے. وہ لوگ بہت ظالم تھے اور ہیں جنہوں نے حدیث سے اُمت کا رُخ موڑنے کی سعی مذموم کی. افسوس کہ یہ فتنہ آج بھی پھیل رہا ہے. پرویزیت اور مشرقیت کے علمبردار ہمارے ہاں آج بھی موجود ہیں جو اپنے آپ کو اہل قرآن کہتے ہیں اور حدیث کا انکار کرتے ہیں. 
حضور کو جو دو چیزیں دی گئیں‘ (یعنی الہدیٰ اور دین حق)اُن میں سے الہدیٰ کے ضمن میں آپؐ کی بنیادی ذمہ داری اُس کی تبلیغ تھی. چنانچہ سورۃ المائدۃ میں فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۶۷
’’ اے پیغمبر ! جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچ دو. اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے. (یعنی پیغمبری کا فرض ادانہ کیا) اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا. بیشک اللہ منکروں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

اور قیامت کے دن اس بارے میں پوچھا جائے گا. جیسا کہ سورۃ الاعراف میں فرمایا گیا:

فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ 
’’ تو جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ان سے بھی پرسش کریں گے اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے.‘‘

حضور نے تبلیغ کا یہ فرض نہ صرف بتمام و کمال پورا فرمادیابلکہ خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر سوا لاکھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع سے خطاب میں صحابہ کرامؓ سے یہ گواہی بھی لے لی کہ ’’ کیا میں نے (پیغام رب) پہنچا دیا؟‘‘ صحابہؓ نے جواب دیا ’’ہاں‘ حضور ہم گواہ ہیں کہ آپؐ نے حق امانت ادا کردیا، آپؐ نے حق رسالت ادا کردیا ،آپؐ نے خیر خواہی کا حق بھی ادا کردیا‘‘. 
(۱)یہ گواہی آپؐ نے اس لیے لی کہ مذکورہ آیات آپؐ کے سامنے تھیں. آخر رسول بھی اللہ کا بندہ ہوتا ہے کہ اُس سے بھی تو محاسبہ ہوگا. 

دین حق کے ضمن میں آپؐ کی ذمہ داری دین کو قائم کرنا تھا. دین صرف تبلیغ کی شے نہیں ہے.آپؐ کو حکم تھاکہ اسے غالب اور قائم کرکے دکھائیے‘ یہ تکمیل رسالت کا تقاضا ہے.آپؐ کا مقصد بعثت ہی یہ تھا کہ دین کو غالب کریں. 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘ باب خطبۃ ایّام منیٰ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہ… (الصف:۹)

’’وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول (محمدؐ ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) دے کر اور دین الحق کے ساتھ‘ تاکہ وہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کریں.‘‘

عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ٖ (کل نظام اطاعت پر) فرما کر اُمت کو یہ بتا دیا ہے کہ تعمیل و قیام دین میں مائنس ون‘ مائنس ٹو کی گنجائش نہیں. یہ دین ایک مکمل پیکیج ہے. لینا ہے تو پورا لو‘ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ. دین کو پورے طور سے غالب کرو. اس طور سے غالب کرو کہ پورا نظام زندگی اس کے تابع ہو جائے. سیاسی نظام اس کے تحت ہو. حاکمیت اعلیٰ نہ تو شخص واحد کی ہو‘ نہ جمہور کی بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہو. معاشی نظام اسلام کے تحت ہو. سود اور جوئے کی بیخ کنی ہو. شراب بنانے اور پینے پلانے کا بالکل خاتمہ ہو جائے. عصمت فروشی کو ذریعہ ٔ کمائی بنانا ختم ہوجائے. اشتہاروں میں عورتوں کی تصویروں کے ذریعے کمائی کا انسداد ہوجائے. ان سب چیزوں پر پابندی ہو. تب ہی عصمت و عفت کے پاکیزہ تصورات فروغ پائیں گے اور انسان کی خاندانی اور سماجی زندگی کو استحکام حاصل ہوگا.

اگر اسلام کو غالب کر کے دکھا نہ دیا جاتا تو دنیا یہ کہہ سکتی تھی کہ اسلام پیغام تو بہت اچھا ہے کہ لیکن ناقابل عمل ہے. حضور  سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے افلاطون نے ایک کتاب
"Republic" کے نام سے لکھی تھی‘ جس میں اپنی خیالی ریاست کا آئیڈیا پیش کیا تھا. لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ ریاست سے متعلق اُس کا آئیڈیا ایک خواب ہی تھا جو اس نے دیکھا تھا. وہ ہونے والی بات نہیں تھی. تو حضور  نے اسلام کے نظام عدل کے متعلق جو باتیں کہی تھیں‘ اگر آپؐ اسلامی نظام کو قائم کرکے نہ دکھاتے تو لوگ یہی کہتے کہ یہ ہونے والی بات نہیں ہے‘ یہ نری شاعری ہے. اگر اسلامی نظام قابلِ عمل ہوتا تو پیغمبر اسلام اُسے قائم کرکے دکھا دیتے. لوگ کہتے قوم کا سردار خادم ہوتا ہے‘ یہ بہت اچھی بات ہے‘ لیکن یہ عملاً ہو نہیں سکتی‘ یہ ناممکن ہے. یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قوم کا سردار ہو اور رات کے وقت ایک غریب عورت اور اس کے بچوں کے لیے آٹے کی بوری اپنے کندھے پر لاد کر لا رہا ہو. اِسی طرح یہ بات بھی انہونی لگتی کہ لاکھوں مربع میل کا حکمران پیدل چل کر یروشلم میں داخل ہو رہا ہے اور اُس کا خادم اونٹ پر سوار ہے. اسلامی تاریخ کا واقعہ ہے کہ مسلمان کی فوجوں نے یروشلم کا گھیراؤ کیا. لیکن یہ شہر فتح نہیں ہورہا تھا. خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست آئی کہ آپؓ یہاں تشریف لائیں. تب ہی بیت المقدس فتح ہو گا. اس لیے کہ وہاں کے عیسائی علماء نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ یہ شہر جس شخص کے ہاتھوں فتح ہوگا اس میں فلاں فلاں نشانیاں ہوں گی اور یہ نشانیاں تم میں نہیں ہیں.

لہذا یہ کبھی تمہارے ہاتھوں فتح نہیں ہوگا‘ چاہے تم قیامت تک یہاں پڑے رہو. اس لیے کہ یروشلم کی فصیلیں بہت اونچی تھیں اور اندر ہر چیز موجود تھی. مسلمانوں کے پیغام پر خلیفہ یروشلم روانہ ہوگئے. سات سو میل کا سفر تھا. ایک اونٹ اور ایک خادم ساتھ تھا. کوئی خدم و حشم نہیں‘ کوئی باڈی گارڈ نہیں. چونکہ ایک ہی اونٹ تھا‘ اور اُس پر راستے کا راشن بھی تھا‘ لہذا ایک وقت میں ایک ہی آدمی اُس پر بیٹھ سکتا ہے. اب اسلامی مساوات کے اصول کے تحت خلیفہ نے یہ طے کیا کہ ایک منزل اونٹ پر خلیفہ سوار ہوں‘ اور خادم اونٹ کے آگے آگے چلے اور اگلی منزل خادم اوپر بیٹھیں اور خلیفۂ وقت اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے چلیں. جب یہ یروشلم پہنچے تو خادم کی باری تھی. چنانچہ لوگوں نے دیکھا کہ خلیفہ اونٹ کی نکیل تھامے آگے آگے پیدل چلے آرہے ہیں اور خادم اونٹ پر سوار ہے. یہ ہے اسلامی مساوات کا عملی نمونہ جس کی نظیر کہیں پیش ہی نہیں کی جاسکتی. جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ چون این لائی کی بیٹی بھی سائیکل پر سکول جاتی تھی‘ مصر کے حکمران جمال ناصر کی بیٹی بھی سائیکل پر سکول جایا کرتی تھی تو ہمیں اُن کی عظمت کا احساس ہوا. اسی طرح یہ بات بھی ہمارے لیے خوشگوار حیرانی کا باعث بنی کہ جب ہندوستان کا وزیراعظم لال بہادر شاستری مرا تو پورے ہندوستان میں اس کا کوئی گھر نہیں تھا اور اس کی بیوی اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتی تھی. لیکن یہ ساری کی ساری بلندیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی گرد کو بھی نہیں پاسکتیں. اگر آپ ان سب لوگوں کو جمع کرلیں‘ پھر بھی یہ عمر رضی اللہ عنہ کے آس پاس بھی نہیں آئیں گے. یہ صرف محمد رسول اللہ  کا کارنامہ ہے کہ آپؐ نے عدل و مساوات پر مبنی نظام بالفعل قائم کرکے دکھادیا. آپؐ کو حکم تھا کہ اس کو قائم کرو اور دنیا پر حجت قائم کردو‘ تاکہ لوگ جان لیں کہ دین یہی ہے‘ حق یہی ہے‘ نظام یہی ہے. اسی نظام میں انسان کی فلاح ہے. اسی میں اس کی بہبود ہے. اسی میں اخلاقیات کی بلندی ہے. اسی میں تہذیب کی مضبوطی ہے. اسی میں تمدنی تقاضے پورے ہوسکتے ہیں.

کل نوع انسانی کی طرف بعثت

تکمیل رسالت کا دوسرا مظہر یہ بھی ہے کہ محمد رسول اللہ سے پہلے جتنے رسول آئے، وہ کسی قوم کے لیے‘ کسی علاقے کے لیے یا کسی شہر کے لیے آئے‘ پوری نوعِ انسانی کے لیے کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا. محمد عربی اللہ کے واحد رسول ہیں جن کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے . قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا : اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ ’’ہم نے نوح کو بھیجا اس کی قوم کی طرف‘‘. حضرت ھود علیہ السلام کے بارے میں صراحت ہے کہ آپؑ قومِ عاد کے لیے بھیجے گئے: وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف بھیجے گئے: وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام قومِ مدین کی طرف بھیجے گئے: وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اشکال پیدا ہو سکتا ہے. اس لیے کہ حضرت عیسٰی ؑ کے ماننے والے اس وقت پوری دنیا میں ہیں اور ساری نسلوں کے لوگ ہیں… تو اس سے شک ہوتا ہے کہ شاید حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت پوری نوعِ انسانی کی طرف ہو ‘لیکن اس نکتے کو سمجھ لیجئے کہ عقلی اور منطقی اعتبار سے اور منصوص اور منقول ہونے کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت صرف بنی اسرائیل کے لیے تھی. قرآن مجید میں سورۂ آل عمران میں کہا گیا: وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ’’وہ رسول تھے بنی اسرائیل کی طرف‘‘. قرآن کی اس نص قطعی کے علاوہ خود انجیل میں موجود ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’میں صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں‘‘. 

حضرت محمد رسول اللہ  پہلے اور آخری رسول ہیں جن کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے ہوئی ہے. یہ مضمون قرآن مجید میں پانچ مرتبہ مختلف الفاظ میں آیا ہے. سب سے واضح انداز میں سورۂ سبا میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (آیت ۲۸’’(اے محمد !) ہم نے آپ کو نہیں بھیجامگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘. سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہوا: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ ’’ہم نے آپؐ کو( کسی ایک قوم یا کسی ایک علاقے کے لیے نہیں بلکہ) تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘. نبوت و رسالت ہمیشہ سے رحمت ہے‘ مگر آپؐ پر آکر یہ رحمت ’’رحمۃ لِّلعالمین‘‘ بن گئی ہے. یہ تکمیل رسالت کا ایک مظہر ہے. اور سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۸ میں خود نبی کریم کی زبانِ مبارک سے یہ کہلوایا گیا: قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا ’’(اے محمد ! ڈنکے کی چوٹ) کہہ دو: اے لوگو! (اے بنی نوعِ آدم!) میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں.‘‘محمد پہلے اور آخری رسول ہیں جو پوری نوع انسانی کے لیے بھیجے گئے. ہدایت اور نبوت و رسالت کی تکمیل کا تعلق انسان کے ذہنی و فکری اور تمدنی ارتقاء سے ہے. ذہنی و فکری ارتقاء کے ساتھ ساتھ آسمانی ہدایت میں اضافہ ہوتا گیا‘ یہاں تک کہ الہدیٰ‘ کامل ہدایت نامہ کے نزول کا مرحلہ آیا. دوسری جانب تمدنی ارتقاء کے نتیجے میں انسان غاروں سے لے کر سلطنتوں کے دور تک آپہنچا‘ تب دین حق آ گیا. تمدنی ارتقاء کے نتیجے میں حضور کے زمانے میں رسل و رسائل اس قدر پیدا ہوگئے تھے کہ ایک دعوت تمام انسانوں تک پہنچ سکتی تھی. چنانچہ آپؐ کی بعثت پوری نوع انسانی کے لیے ہوئی. آپؐ کی رسالت پوری نوع انسانی کے لیے ہے. آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا.

خاتم النبیین کا مشن اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داری

حضور اکرم  کی بعثت کے دو حصے ہیں. سورۃ الجمعہ میں فرمایا:
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳

’’ وہی تو ہے جس نے امیین میں انہی میں سے (محمدؐ کو) پیغمبر بنا کر بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور انہیں (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں. اور اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے. اور ان میں سے اور لوگوں کی طرف بھی (ان کو بھیجا ہے) جو ابھی ان (مسلمانوں سے) نہیں ملے اور وہ غالب حکمت والا ہے.‘‘

آپ کی بنیادی بعثت اُ میین کی طرف ہے. اسی لیے ان کی زبان میں یہ قرآن نازل ہوا ہے. امیین جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں اور دیگر مشرکین عرب جو ان سے ملتے ہیں‘ اُمت کی تشکیل میں ان کی حیثیت مرکزہ کی سی ہے. اُن کے بعد اسلام میں ایرانی‘ بربر‘ ہندی اور ترک داخل ہوئے. یہ گویا الیکٹرانز ہیں جو چاروں طرف چکر لگا رہے ہیں. آپؐ کی بعثت عمومی کل نوع انسانی کی طرف ہے. 
وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ میں اسی کی طرف اشارہ ہے کہ انہی میں سے اور بھی ہیں جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے‘ یہ بھی بالآخر اسی اُمت کا حصہ بن جائیں گے. آپؐ کی بعثت خصوصی اور بعثت عمومی کے حوالے سے تکمیل رسالت کے دو پہلو ہوگئے. ایک یہ کہ آپؐ پر رسالت کا یہ حق ہے کہ دین کو غالب کرکے دکھائیں‘ اور آپؐ نے جریرہ نما عرب کی حد تک دین کو غالب کر کے دکھا دیا .تکمیل رسالت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دین حق پوری دنیا پر غالب کر کے دکھا دیا جائے.آپؐ کا مشن ایک درجہ میں تو پورا ہوگیا کہ جزیرۂ نمائے عرب پر اللہ کے دین کا غلبہ ہوگیا. لیکن یہ تکمیل کُلّی نہیں ہے‘ اس لیے کہ آپؐ صرف عرب کے لیے نہیں آئے تھے‘ پوری نوعِ انسانی کے لیے بھیجے گئے تھے. لہذا جب تک پوری نوع انسانی تک وہ ہدایت نہ پہنچے‘ اور کل روئے ارضی پر وہ نظام قائم نہ ہو‘ اس وقت تک آپؐ کا مقصد بعثت اظہار دین حق اتمامی شان کے ساتھ پورا نہیں ہوگا‘ اور اس مشن کو آگے بڑھانے کا کام باقی رہے گا. اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎ 

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے 

یہ کام اس اُمت کو کرنا ہے. اگر امت یہ کام نہیں کرتی تو وہ مجرم ہے. ہاں‘ کوشش کے باوجود اگر دین غالب نہیں ہوتا تو یہ دوسری بات ہے. کام کرنے والے اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائیں گے. لیکن اگر اس کام میں کوتاہی ہورہی ہے‘ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں کا حضور کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘ اگرچہ وہ اپنی جگہ سچے اُمتی بنے پھرتے ہوں. اس لیے کہ آپؐ نے فرما دیا کہ مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ’’جس نے میری سنت سے منہ موڑا‘ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.‘‘

غلبہ ٔاسلام کی بشارت

اسلام کا غلبہ بالآخر ہوکر رہنا ہے. اس کا صغریٰ وکبریٰ قرآن مجید میں موجود ہے. اللہ کا اٹل فیصلہ ہے کہ یہودیوں کی سازشوں کے علی الرغم نو ر توحید کا اتمام اور دین حق کا غلبہ ہوکر رہے گا. اس کے لیے صغریٰ یہ آیات ہیں: 
یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲﴾ (التوبۃ) 

’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ (کے چراغ) کی روشنی کو منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کافر ناخوش ہی ہوں.‘‘ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ… (الصف:۹

’’وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول (محمدؐ ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) دے کر اور دین الحق کے ساتھ‘ تاکہ وہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کریں.‘‘ 

کبریٰ کیا ہے؟ کبریٰ درج ذیل آیت ہے: 
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۵﴾ (النور) 

’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین کی خلافت عطا فرمائے گا‘ جیسا ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا. وہ میری عبادت کریں گے (اور) میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بد کردار ہیں.‘‘

اہل ایمان سے کہا جارہا ہے کہ انہیں خلافت مل کر رہے گی. جب یہ آیت نازل ہوئی اُس وقت مدینے میں حالات انتہائی مخدوش تھے. ہر وقت اندیشہ رہتا تھا کہ ابھی کفریہ لشکر آئے گا اور حملہ آور ہو جائے گا. لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ اہل اسلام کو غلبہ حاصل ہوا‘ یہاں تک کہ فتح مکہ کے بعد انقلاب اسلامی کی تکمیل ہوگئی‘ اور لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے. دور خلافت راشدہ میں یہ نظام جزیرۂ نما عرب سے باہر ۲۲ لاکھ مربع میل کے علاقے میں پھیل گیا. خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور اب دوبارہ آکر رہے گا. یہ بات ایک طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے جس میں حضور نے اپنے زمانے سے لے کر قیامت تک پانچ ادوار گنا دیئے ہیں. حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:

تَکُوْنُ النُّـبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلْاَفَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ‘ فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اللہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا‘ فَـیَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ َکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَـکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً‘ فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ اَنْ تَـکُوْنَ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ثُمَّ سَکَتَ (۱

’’دَورِنبوت تم میں اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا اس کو ختم کردے گا. پھر نبوت کی طرز پر خلافت کا دور ہوگا. پھر وہ دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا‘ پھر وہ اس کو ختم کردے گا جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا. پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی. وہ دور بھی اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا تو ختم کردے گا. پھر جبر کی فرماں روائی (غلامی کی بادشاہت) ہوگی‘ وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر وہ اس کو ختم کردے گا جب وہ اسے ختم کرنا چاہے گا. پھر نبوت کے طرز پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی.‘‘ پھر آپ خاموش ہوگئے.

حدیث کے مطابق اُمت کا پہلا دور دور نبوت ہے. اس کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور آئے گا. پھر ظالم بادشاہت کا زمانہ آئے گا. پھر غلامی والی بادشاہت کا دور آئے گا. اس سے مراد اس وقت نہ جانے کیا سمجھی گئی ہو گی‘ مگر آج یہ بات بآسانی سمجھ میں آتی ہے. اس سے مراد عالم اسلام پر استعمار کی حکمرانی کا عہد ہے. دور استعمار سے پہلے مسلمانوں پر اچھے یا برے جیسے بھی تھے مسلمان ہی حکمران تھے. یہ چاہے بہت بُرے تھے یا بہت اچھے تھے‘ لیکن تھے یہ مسلمان‘ اور محمد ہی کے نام لیوا تھے. مگر دور استعمار میں پورے عالم اسلام پر کہیں انگریز‘ کہیں فرانسیسی‘ کہیں ولندیزی‘ کہیں اٹالینز‘ کہیں فرنچ قابض ہوگئے اور مسلمان غیروں کے محکوم ہوگئے. اس کے بعد پانچواں دور دوبارہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا آئے گا. اس دور میں منہاج نبوت پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی. یہ وقت آنے والا ہے. یہ خبرا لصادق المصدوق محمد رسول اللہ  نے دی ہے.

امت مسلمہ چوتھے اور پانچویں دور کے درمیان

اُمت محمدیہؐ کے پانچ ادوار سے متعلقہ اس حدیث میں بیان کردہ چار ادوار سے اُمت گزر چکی ہے. اس وقت ہم چوتھے اور پانچویں دور کے درمیان کھڑے ہیں. چوتھا دور یعنی (۱) مسند احمد : مرویات نعمان بن بشیرؓ - دور استعمار ایک اعتبار سے ختم ہوچکا ہے کہ مسلم خطوں سے انگریز چلے گئے‘ فرانسیسی چلے گئے‘ اٹالینز اور ولندیزی وغیرہ چلے گئے. لیکن ایک اعتبار سے اب از سر نو پوری نوع انسانی پر ایک نیا مالیاتی شکنجہ کسا جارہا ہے. یہ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک‘ ملٹی نیشلز او ر TRIPS کا شکنجہ ہے. یہ شکنجہ مغرب کا ہے جو شیطان اور یہودیوں کے دام میں پھنسا ہوا ہے. برسر میدان قیادت تو امریکہ کی ہے‘ مگر اُس کے پیچھے اصل طاقت اور منصوبہ ساز یہود ہیں. یہودی چاہتے ہیں کہ اپنے مالیاتی شکنجے میں پوری دنیا کو کس لیں جبکہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پوری دنیا پر ہمارا قبضہ مکمل ہو جائے. صہیونیوں کا اپنا مخصوص پانچ نکاتی ایجنڈا ہے جو درج ذیل ہے. 

(۱) اُن کے بقول ’’شر کی قوتوں‘‘ کے خلاف عظیم جنگ ہونی چاہیے‘ جسے اُن کے مذہبی لٹریچر میں آرمیگاڈان کا نام دیا گیا ہے.
(۲) آرمیگاڈان کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل قائم ہونا چاہیے.
(۳) پھر مسجد اقصیٰ اور گنبد صحرہ کو گرا دینا چاہیے.
(۴) مسجد اقصیٰ کی جگہ تھرڈ ٹمپل بنایا جائے جو ۱۰۰ ق م میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا تھا مگر بعدازاں بخت نصر نے اُسے تباہ کر دیا. پھر اُس کی دوبارہ تعمیر کی گئی‘ مگر ۷۰ء میں اُسے ٹائٹس رومی نے برباد کر دیا تھا‘ تب سے یہ آج تک گرا پڑا ہے. 
(۵) تھرڈ ٹمپل تعمیر کرنے کے بعد اُس میں تخت داؤدی لاکر رکھ دیا جائے. یہ ایک پتھر ہے جس پر بٹھا کر حضرت داؤد علیہ السلام کی تاج پوشی کی گئی تھی. بعدازاں اِس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تاج پوشی کی گئی اور اسے ہیکل سلیمانی میں رکھا گیا. جب ٹائٹس نے یروشلم کو تاراج اور ہیکل سلیمان کو برباد کر دیا تو واپس جاتے ہوئے وہ اِس پتھر کو اپنے ساتھ روم لے گیا. روم سے یہ پتھر آ ئرلینڈ‘ وہاں سے سکاٹ لینڈ اور وہاں سے انگلینڈ لایا گیا‘ اور یہاں پارلیمنٹ کے سامنے واقع چرچ میں رکھ دیا گیا اور ایک کرسی میں فٹ کر دیا گیا. اِسی کرسی پر تمام انگریز بادشاہوں کی تاج پوشی ہوتی ہے.
صلیبی و صہیونی ایجنڈا بتدریج آگے بڑھے گا اور پھر جنگوں کا وہ دور آئے گا جس کی پیشین گوئیاں احادیث میں کی گئی ہیں. پھر حضرت مہدی آئیں گے‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور پھر وہ دور آئے گا کہ عالمی سطح پر اسلام کا نظام قائم ہوگا اور تب یہ نظام گلوبل ہوگا. اسی کی طرف ایک حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے جو حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے.رسول اللہ  نے فرمایا: 
اِنَّ اللہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا‘ وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا (۱

’’اللہ نے مجھے پوری زمین کو لپیٹ کر (یا سکیڑ کر) دکھا دیا. چنانچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور تمام مغرب بھی. اور یقین رکھو کہ میری اُمت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہوکر رہے گی جو مجھے لپیٹ کر(یا سکیڑ کر) دکھائے گئے.‘‘

ایک اور روا یت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے. حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ  کو فرماتے ہوئے سنا:

لَا یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ اِلَّا اَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ وَذُلِّ ذَلِیْلٍ - اِمَّا یُعِزُّھُمُ اللہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَجْعَلُھُمْ مِنْ اَھْلِھَا اَوْ یُذِلُّھُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَھَا - قُلْتُ: ’’فَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ‘‘ (۲

’’دنیا میں نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ اسلام کو داخل نہیں کردے گا‘ خواہ عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں. (یعنی) یا لوگ اسلام قبول کرکے خود بھی عزت کے مستحق بن جائیں گے یا اسلام کی بالادستی تسلیم کرکے اس کی فرماں برداری قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے.‘‘ میں(راوی) نے کہا: تب تو سارے کا سارا دین اللہ کے لیے ہوجائے گا.
اسی دور کا نقشہ اقبال نے اپنے اشعار میں یوں کھینچا ہے.

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الفتن واشراط الساعۃ‘ باب ھذہ الامۃ بعضھم ببعض.
(۲) رواہ احمد فی ’’المسند‘‘ بسند صحیح. تخریج مشکاۃ المصابیح للالبانی.
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے!
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے!!

سخت دن آنے والے ہیں

یہ بات بھی واضح ہو کہ اگرچہ پوری دنیا میں بالآخر اسلام کا غلبہ ہوجائے گا‘ مگر اس سے پہلے ہم پر بڑا سخت اور کڑا وقت آنے والا ہے. ہم پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے کوڑے برسنے والے ہیں. عالم عرب پر تو خاص طور پر اللہ کا کوڑا برسے گا. اس لیے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہوئی. اللہ نے ان کو بہت اونچا مقام دیا‘ کہ انہی میں سے حضور کی بعثت ہوئی. حضور عربی النسل تھے. اب اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے. دوسرے یہ کہ ان کی زبان میں اللہ کا کلام موجود ہے. مگر اس تمام تر فضیلت کے باوجود انہوں نے بھی زمین پر اللہ کا دین نافذ نہیں کیا. 
عربوں میں سے بعضوں نے امریکہ کو اپنا قبلہ و کعبہ بنالیا اور بعضوں نے روس کو اپنا امام بنا لیا‘ مگر اسلام کی طرف کسی نے بھی پیش قدمی نہیں کی. لہذا یہ اللہ کی طرف سے شدید سزا کے مستحکم ہیں. اس کی خبر بھی حضور  نے دے رکھی ہے. آپؐ نے فرمایا: 
وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍِّ قَدِ اقْتَرَبَ ’’تباہی و بربادی ہے عربوں کے لیے اس شر سے کہ جو قریب آچکا ہے.‘‘ 

عربوں کے بعد سب سے بڑے مجرم ہم پاکستانی مسلمان ہیں. ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا. ہم نے اللہ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگی تھیں کہ خدایا ہمیں انگریز کی غلامی سے نکال اور ہندو کی غلامی میں جانے سے بچا. قیام کے کوئی آثار نہیں تھے. ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں تھی‘ ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی کہ پاکستان بناسکتے. کوئی ہمارا پشت پناہ نہیں تھا. برطانوی حکومت ہمارے سخت خلاف تھی. ماؤنٹ بیٹن گاندھی کا چیلا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح سے شدید نفرت کرتا تھا. پھر یہ کہ معاشی طور پر ہم کمزور تھے. تجارت پر ہندو قابض تھے. بڑے بڑے صنعت کار وہی تھے. تعلیم میں بھی وہ ہم سے بہت آگے تھے. لیکن اس کے باوجود اللہ نے ہمیں یہ ملک دیا‘ تاکہ دیکھے ہم آزاد وطن حاصل کرکے کیا کرتے ہیں. سورۃ الاعراف میں ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ اے موسیٰ علیہ السلام ہم پر تو آپؑ کے آنے سے پہلے بھی ظلم ہورہے تھے اور اب بھی ہورہے ہیں‘ ہمارا حال تو نہیں بدلا. اِس پر آپؑ نے فرمایا: 

قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۹﴾٪ (الاعراف) 
’’تمہارا رب بہت جلد تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور اس کی بجائے تمہیں اس سرزمین کا مالک بنا دے گا پھر دیکھے گاتم کیا کرتے ہو.‘‘

ہمیں بھی بطور امتحان یہ ملک عطا کیا گیاتھا‘ تاکہ اللہ دیکھے کہ ہم اُس سے کیے گئے نفاذ اسلام کے وعدے کو پورے کرتے ہیں یا نہیں. افسوس کہ ۶۳ سال سے ہم حالت امتحان میں پڑے ہوئے ہیں. ہم نے اس ملک میں اسلام نافذ نہیں کیا. ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لینے سے تو بات نہیں بنتی‘ اسلام کا نظام عدل اجتماعی کہاں ہے. ٹھیک ہے‘ ملک میں نماز روزے والا اسلام کسی قدر موجود ہے‘ مگر وہ تو ہر جگہ ہے. وہ تو ہندوستان میں بھی ہے. وہ تو امریکہ و برطانیہ میں بھی ہے. اسلام کا وہ نظام عدل اجتماعی کہاں ہے جس میں قوم کا آقا اس کا خادم ہوتا ہے‘ جہاں حکمران راست باز اور امین ہوتے ہیں. یہاں تو 
’’سید القوم‘‘ ظالم و جابر ہیں‘ سب سے بڑے جھوٹے ہیں‘ سب سے زیادہ وعدہ خلافی کرنے والے ہیں‘ سب سے بڑے غبن کرنے والے ہیں. واقعہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے وعدے سے منحرف ہوکر ہم بھی عذاب الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں‘ اسی طرح جس طرح عرب اسلام سے پہلو تہی کرکے عذاب کے مستحق ٹھہرے ہیں.

پاکستان : خلافت کا نقطہ ٔآغاز

اگرچہ اس وقت اسلام کے تعلق سے پاکستان کی صورتحال اچھی نہیں ہے. تاہم بالآخر حالات ضرور بدلیں گے. مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ایک خاص منصوبے کے تحت معرض وجود میں لایا ہے. بالآخر یہیں سے اسلامی خلافت کا آغاز ہوگا. میرے اس یقین کی بنیاد آپ کی یہ حدیث ہے. حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

یَخْرُجُ نَّاسٌ مِنَ الْمَشْرِقِ فَیُوَطِّئُوْنَ لِلْمَھْدِیِّ یَعْنِیْ سُلْطَانَــــہٗ (۱)
’’کچھ لوگ(عرب کے) مشرق سے نکلیں گے. وہ لوگ گویا مہدی کی سلطنت جمادیں گے.‘‘

اب ظاہر ہے‘ پاکستان عرب کے مشرق میں ہے. پھر یہ کہ ہم ہی نے تحریک پاکستان کے دوران نعرہ لگایا تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الااللہ.‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کا نظام عدل 
(۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الفتن‘ باب خروج المھدی. سب سے پہلے یہاں قائم ہوگا اور پھر یہاں سے حضرت مہدی کی حکومت قائم کرنے کے لیے فوجیں جائیں گی. اس لیے کہ عربوںمیں دم خم نہیں رہا. دولت اور عیاشیوں نے انہیں کھوکھلا کردیا ہے. لہذا ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ کفر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور یہودیوں سے جنگ کرسکیں. اگر وہ یہ ہمت کرسکتے تو اسرائیل کو کب کا اُٹھا کر باہر پھینک دیا ہوتا. علامہ اقبال نے نہ جانے کس جذب کی کیفیت میں یہ شعر کہا تھا ؎ 

خضر وقت از خلوتِ دشتِ حجاز آید بروں
کارواں زیں وادیٔ دور و دراز آید بروں

آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ وادی کون سی ہے جس میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں. یہ وادی سندھ ہے‘ اور اس میں صرف صوبہ سندھ شامل نہیں‘ بلکہ پورا پنجاب اور افغانستان کا مشرقی اور انڈیا کا مغربی حصہ شامل ہے. اس وادی میں سب سے پہلے اسلام قائم ہوگا‘ اور پھر یہاں سے مہدی کی سپورٹ کے لیے فوجیں جائیں گی. لیکن نفاذ اسلام کے لیے عملی جدوجہد تو ہمیں کرنی ہوگی.

غور طلب سوال

اسلام تو غالب ہونا ہے. ہمارے لیے غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ہم حضور کے سچے امتی ہیں تو اس ضمن میں ہماری ذمہ داری کیا ہے. ہمیں اس معاملہ میں کیا کام کرنا ہے. ہمارے ہاں جب حضور کی سیرت پر جلسے ہوتے ہیں تو آپؐ کی زلفوں کی تعریف ہوتی ہے. آپؐ کی آنکھوںکی تعریف بیان کی جاتی ہے. شاعر نے یہ جو نعت کہی ہے وہ بڑی پاکیزہ اور عمدہ نعت ہے. اس میں عقیدت کا بہت عمدہ مظاہرہ بھی ہے اور کوئی غلو بھی نہیں.

حسن یوسفؑ‘ دمِ عیسیٰؑ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری 

آپؐ کا حسن و جمال‘ آپؐ کے کمالات‘ آپؐ کی دلآویز شخصیت یہ وہ چیزیں ہیں جو سب کو معلوم ہیں اور یہ ہر جگہ بیان ہوتی ہیں‘ مگر یہ بات بہت کم بیان ہوتی ہے کہ آپؐ نے کیا کیا تکلیفیں اُٹھائیں. آپؐ نے خود فرمایا کہ جتنی تکلیفیں دوسرے انبیاء کو ہوئی ہیں‘ اتنی تنہا میں نے برداشت کیں. اس بات کا تذکرہ نہیں ہوتا کہ شعب ابی طالب کی محصوری کے دوران امام الانبیاء  اور آپؐ کے خاندان پر کیا گزری. سفر طائف کے دوران آپؐ پر کس طرح پتھراؤ کیا گیا اور کس طرح آپؐ کا جسم اطہر لہولہان ہوگیا. میدانِ اُحد میں کس طرح آپؐ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے ہیں اور اتنا خون بہا ہے کہ آپؐ بے ہوش ہوکر گر گئے اور یہ خبر پھیل گئی کہ آپؐ کا انتقال ہوگیا ہے. غزوۂ احزاب میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھے ہوئے تھے. کہنے لگے‘ یا رسول اللہ! اب تو ہمارے لیے کھڑا رہنا مشکل ہوگیا ہے. دیکھئے‘ ہم نے پتھر باندھ کر اپنے پیٹوں کو چادر سے کس کر اپنے آپ کو کھڑا کیا ہوا ہے. اس موقع پر آپؐ نے اپنا کرتہ اُٹھاکر دکھایا تو آپؐ کے جسم اطہر پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے.

آپؐ کو یہ تمام تکلیفیں غلبۂ دین حق کے مشن میں اُٹھانا پڑیں. کیا اللہ تعالیٰ کو بنی اسرائیل آپؐ سے زیادہ پیارے تھے کہ ذرا بھوک لگی تو اُن پر من و سلویٰ اتار دیا. دھوپ لگی تو اوپر بادلوں کا سائبان کردیا. پیاس لگی تو پتھر سے ۱۲ چشمے جاری کردیئے. ہرگز نہیں. رسول اللہ  کا مقام تو یہ ہے کہ ؏ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر . رسول خدا  کو آزمائشوں اور امتحانات سے اس لیے گزارا گیا‘ تاکہ آپؐ کی سیرت امت کے لیے نمونہ بنے. اللہ چاہتا تو حضور کے پاؤں مبارک میں کانٹا تک نہ چبھتا اور انقلاب آجاتا. آپؐ محبوبِ ربّ العالمین تھے. کون یہ چاہے گا کہ اپنے محبوب کے پاؤں میں کانٹا چُبھا ہوا دیکھے. اللہ تعالیٰ یوں بھی کر سکتا تھا کہ آپؐ کو ذرا بھی تکلیف نہ پہنچتی اور دین غالب ہوجاتا. لیکن ایسا نہیں ہوا. اس لیے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اُمت محمدیہؐ کے لیے نمونہ بنانا تھا‘ جس نے بعد میں شہادت علی الناس کا فریضہ ادا کرنا تھا. راہ حق میں آپؐ پر تکالیف اس لیے آئیں‘ تاکہ آپؐ کی اُمت پر حجت قائم ہوجائے اور اسے معلوم ہوجائے کہ اِس راہ میں بھوکا پیاسا رہنا پڑے گا‘ جیسے حضور نے بھوک پیاس برداشت کی اور ہر طرح کے مصائب و آلام سے گزرنا ہوگا‘ پھر جاکر اللہ کی مدد آئے گی. اظہار دین حق کے مشن میں آپؐ کے سینکڑوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا. فلسفہ یہی تھا کہ یہ کام یونہی نہیں ہو جائے گا. اس راہ میں قربانیاں دینی پڑیں گی. نبی کے ہاتھوں اللہ نے جزیرہ نمائے عرب میں اپنے دین کو غالب کردیا. آپؐ نے قرآن کی دعوت بھی پہنچا دی اور جزیرۂ نمائے عرب کی حد تک غلبہ دین کا مشن بھی مکمل فرمالیا. اب اس مشن کی تکمیل اُمت مسلمہ کے ہاتھوں میں ہے. اب یہ ہماری ذمہ داری ہے.غلبہ ٔدین کا یہ کام کیسے ہوگا؟ اس کا طریق کار کیا ہے؟ اس پر گفتگو آئندہ نشست میں ہوگی. ان شاء اللہ!