انقلاب نبویؐ کا مرحلہ اول: جماعت سازی اور اُس کا نبویؐ طریق

خطبہ ٔمسنونہ‘ تلاوت ِآیات قرآنی ٭ ‘ احادیث ِنبویؐ اور ادعیہ ٔماثورہ کے بعد!
معزز حاضرین اور محترم خواتین! سیرت خیر الانام ؐ کے سلسلہ میں آج میری گفتگو کا عنوان ہے: انقلاب نبوی کا مرحلہ اوّل: جماعت سازی اور اُس کا نبوی ؐ طریق. ظاہر ہے اسلامی انقلاب مرد لائیں گے. لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مردان کار کہاں سے آئیں گے‘ اور حزب اللہ کی تشکیل اور تنظیم کیسے ہوگی اور اس کے کارکنان کا تزکیہ اور تطہیر کیونکر ہوگی. اس کا نبویؐ طریقہ کار کیا ہے. اب تک جو دو خطبے ہو چکے ہیں‘ اُن میں پہلا خطبہ زیادہ بنیادی علمی نوعیت کا تھا. اُس میں بتایا گیا تھا کہ فلسفۂ دین میں نبوت و رسالت پر ایمان کا مقام کیا ہے. دوسرے خطبے میں یہ بات واضح کی گئی کہ حضور کی عظیم المرتبت شخصیت میں نبوت و رسالت اپنے تکمیل کے مرحلے کو کیونکر پہنچی. اس کے دو مظاہر بتائے گئے تھے. ایک یہ کہ آپؐ پر ہدایت کامل ہوگئی. ہدایت کا آغاز تو حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا تھا‘ مگر یہ ہزاروں سال ارتقائی مراحل طے کرکے قرآن مجید میں آکر اپنے آخری اور تکمیلی درجے کو پہنچ گئی. اور چونکہ ہدایت کامل ہوگئی‘ لہذا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ بھی لے لیا. دوسرے یہ کہ انسان کے تمدنی ارتقاء کے ساتھ دین حق بھی ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے محمد رسول اللہ  پر آکر مکمل ہوگیا. سورۃ المائدہ کی آیت ۳ میں تکمیل رسالت کے ان دونوں مظاہر کا ذکر بایں الفاظ کیا گیا ہے: 

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ 
’’ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.‘‘

اس آیت سے واضح ہے کہ اللہ تعالی نے نبی  پر اپنا دین بھی مکمل کردیا اور ’’نعمت‘‘ کی بھی تکمیل فرمادی. اور نعمت سے مراد نعمت ہدایت ہے. اگرچہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ صحت بڑی نعمت ہے‘ یہ دولت بھی نعمت ہے‘ اولاد بھی نعمت ہے. یقینا یہ سب چیزیں نعمت ہیں. مگر سب سے بڑی بلکہ اصل نعمت نعمت ہدایت ہے. ہدایت کے ساتھ ہی یہ چیزیں بھی نعمت ہیں. 
٭ سورۃ الجمعہ‘ آیات: ۱.۲ اگر ہدایت نہیں ہے تو پھر حقیقت میں کوئی شے بھی نعمت نہیں ہے. چنانچہ اگر صحت ہے مگر ہدایت نہیں ہے تو پھر یہ خرابیوں کا باعث بنے گی. پھر بدمعاشیاں ہوں گی‘ گل چھرے اڑائے جائیں گے‘ معاشرے میں فساد اور گندگی پھیلے گی. اسی طرح اگر دولت ہے مگر ہدایت نہیں ہے تو پھر اسراف و تبذیر کے شیطانی مظاہرے اور عیاشیاں ہوں گی‘ جیسا کہ آج کل دولت مندوں کے ہاں ہورہا ہے. پس یہ دو مظاہر تکمیل نبوت کے ہیں. اسی طرح تکمیل رسالت کے بھی دو مظاہر ہیں. ایک یہ کہ آپؐ کو دین حق کی صرف تبلیغ ہی نہیں کرنا تھی بلکہ اس کو قائم بھی کرنا تھا. دوسرے دین کا غلبہ صرف جزیرہ نما عرب ہی میں نہیں ہونا بلکہ پوری دنیا میں ہونا ہے. یوں نبوت و رسالت کی تکمیل کے چار مظاہر ہوگئے.

نبی اکرم کو تحریکی رول دیا گیا

اب آئیے آج کے موضوع کی طرف!نبی اکرم کو اللہ نے جو رول دیا وہ تحریکی رول ہے‘ وہ ایک انقلابی عمل ہے. آپؐ کو دین حق کو غالب کرنا تھا. یہ بات واضح ہو کہ کسی بھی نظام کو قائم کرنے کے لیے مخصوص طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا. تب ہی پہلے سے قائم نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ممکن ہوگا‘ اور نیا نظام قائم ہوگا. پہلے سے رائج نظام کو ختم کریں گے تو پھر ہی نیا نظام قائم ہوگا. اس لیے کہ نظام کہیں بھی دو نہیں ہوسکتے. مذہب سو بھی ہوسکتے ہیں مگر نظام ایک ہی ہوگا. دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی جگہ نظام کا خلا نہیں ہوتا. کوئی نہ کوئی نظام بہرحال موجود ہوتا ہے. مثلاً کہیں بادشاہت کا نظام ہوگا‘ کہیں جمہوریت کا نظام ہوگا‘ کہیں سرمایہ داری ہوگی‘ کہیں کمیونزم کا نظام ہوگا‘ کہیں قبائلی سسٹم ہوگا‘ کہیں جاگیرداری ہوگی. کوئی جگہ ایسی نہیں ہوسکتی جہاں کوئی نظام نہ ہو‘ اور کسی جگہ پر نیا نظام لانے کے لیے پہلے سے قائم نظام کو اکھاڑ کر پھینکنا ضروری ہے. اسی کا نام انقلاب (revolution) ہے. قرآن حکیم میں تین مرتبہ وہ الفاظ آئے ہیں جن میں آپؐ کا مشن ’’اظہار دین علی الدین کلہ‘‘ بتایا گیا ہے. فرمایا:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ 
’’وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) دے کر اور دین الحق کے ساتھ‘ تاکہ وہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کریں.‘‘ 

حضور کی کچھ حیثیتیں تو وہ ہیں جو تمام انبیاء علیہ السلام میں مشترک ہیں. مثلاً سب انبیاء بشیر ہیں‘ سب نذیر ہیں‘ سب داعی الی اللہ ہیں‘ سب اپنے اپنے مقام پر سراج منیر ہیں‘ سب شاہد بھی
ہیں. حضور کے لیے بھی یہی الفاظ آئے ہیں. سورۃ الاحزاب میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶﴾ 
’’ اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے. اور اللہ کی طرف بلانے والا اور چراغ روشن.‘‘

پس یہ حیثیتیں آپؐ اور دوسرے انبیاء و رسل کے درمیان مشترک ہیں‘ لیکن اظہار دین حق کے الفاظ صرف اور صرف حضور کے لیے آئے ہیں‘ اور جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ ایک بار نہیں‘ تین بار آئے ہیں. اس آیت 
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ کو شاہ ولی اللہ دہلوی نے پورے قرآن کا عمود قرار دیا ہے. یعنی قرآن سمجھ میں نہیں آئے گا جب تک یہ آیت نہ سمجھ آجائے. میں سمجھتا ہوں کہ یہ قرآن کا عمود ہے یا نہیں البتہ یہ سیرت کا عمود ضرور ہے. سیرت ہرگز سمجھ میں نہیں آئے گی جب تک یہ آیت سمجھ میں نہ آجائے. گویا شاہ ولی اللہ کے نزدیک یہ آیت قرآن کا عمود اور میرے نزدیک یہ سیرت کی کلید ہے. پھر یہ کہ اظہار دین حق کا جو مضمون یہاں اور دو دیگر مقامات پر بیان ہوا ہے‘ اس کے لیے قرآن مجید میں کئی اور اصطلاحات بھی آئی ہے. ایک اصطلاح تکبیر رب ہے. جیسا کہ فرمایا: وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ’’اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرو.‘‘ دوسری اصطلاح اقامت دین ہے. فرمایا: اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ .... یعنی ’’دین کو قائم کرو…‘‘. ایک اور اصطلاح الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ہے. سورۃ الانفال میں فرمایا گیا: وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ہے یعنی ’’دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے‘‘. ایک اور اصطلاح اعلائے کلمۃ اللہ ہے. فرمایا: کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا غلبہ ٔدین کے مضمون کی تکرار اور مختلف اسالیب میں بیان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس راہ میں جدوجہد کی کیا اہمیت ہے. مگر افسوس کہ دین کے تعلق سے ہم اتنی اہم ذمہ داری کو قطعاً فراموش کربیٹھے ہیں. مسلمانوں کو خیال ہی نہیں کہ غلبۂ دین کے لیے اُنہیں جدوجہد کرنا ہے‘ یہ اُن کا فریضہ ہے. اگر اسلام کے حوالے سے انہیں کوئی چیز یاد ہے تو وہ نماز‘ روزہ ہے اور وہ بھی کسی حد تک. علامہ اقبال نے کہا تھا ؎ 

نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے!

انقلاب کا مفہوم

اس تمہید کے بعد سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ انقلاب کسے کہتے ہیں. انقلاب کے لفظی معنی تبدیلی کے ہیں. ہم عام طور پر یہ لفظ کسی بھی لفظ کے ساتھ جوڑ کر استعمال کرلیتے ہیں. مثلاً علمی انقلاب‘ ثقافتی انقلاب‘ سائنسی انقلاب‘ فوجی انقلاب. لیکن لفظ ’’انقلاب‘‘ کے اصطلاحی مفہوم میں اس استعمال کی گنجائش نہیں‘ بلکہ کسی معاشرے کے سیاسی نظام‘ معاشی نظام یا سماجی نظام میں سے کسی ایک میں بنیادی تبدیلی کو صحیح انقلاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے.آج دنیا بھر میں انسانی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم مانا جاتا ہے .ان میں سے ایک حصہ فرد کی انفرادی زندگی سے متعلق ہے‘ جبکہ دوسرا حصہ زندگی کے اجتماعی معاملات کومحیط ہے. ان میں سے مقدم الذکر حصہ مذہب کا دائرۂ کار ہے‘ جوکہ عقائد (dogmas) مراسم عبودیت (rituals) اور سماجی رسومات (social customs) پر مشتمل ہے. آج دنیا بھر میں ان معاملات میں فرد کو آزاد تسلیم کیا جاتا ہے. چنانچہ ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس طرح کے چاہے عقائد اپنا لے . چاہے وہ ایک خدا کومانے ‘چاہے سو کو مانے یا ہزار کو مانے‘ چاہے کسی کو بھی نہ مانے. جس طرح چاہے مراسمِ عبودیت بجا لائے. چاہے گوشہ نشین ہو کر تپسیائیں کرے‘ چاہے بتوں کے آگے سجدے کرے‘ یا ایک نادیدہ خدا کی پرستش کرے. مراسمِ عبودیت کی اسے آزادی ہے. چاہے روزے رکھے‘ نماز پڑھے‘ چاہے مندر میں جائے یا چرچ میں‘ اجازت ہے.اسی طرح سماجی رسومات ادا کرنے میں وہ آزاد ہے. شادی کے موقع پر چاہے نکاح پڑھوائے‘ چاہے پھیرے ڈلوائے. فوت شدہ شخص کی میت کو چاہے دفن کیا جائے‘ چاہے اسے جلا دیا جائے.

زندگی کا دوسرا حصہ تہذیب‘ تمدن‘ ریاست اور سیاست یعنی اجتماعی نظام سے متعلق ہے اور یہ سیاسی نظام‘ معاشی نظام اور سماجی نظام 
(The Politico- Socio-Economic System) پر مشتمل ہے. کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں ہے. اسی کا نام سیکولرازم ہے. واضح رہے کہ سیکولرازم کا مطلب لامذہبیت نہیں ہے‘ بلکہ یہ ہمہ مذہبیت‘ لادینیت کے اصول پر مبنی ہے. سیکولرازم میں مذہب تو سارے قابلِ قبول ہیں. یہ بات تو بش بھی کہتا تھا کہ "We are ready to embrace Islam" اسلام بطور مذہب پر انہیں کوئی اعتراض نہیں. وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے امریکہ میں آ کر سینیگاگ اور چرچ خریدے اور انہیں مساجد بنا لیا‘ ہم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا. انہوں نے یہاں بڑی تعداد میں ایفرو امریکنز کو اور کچھ گوروں کو بھی convert کرکے مسلمان بنا لیا‘ ہم نے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا. وجہ صاف ظاہر ہے کہ بحیثیتِ مذہب ان کی اسلام سے کوئی جنگ نہیں ہے‘ لیکن ایک نظام (Politico-Socio-Economic system) کی حیثیت سے اسلام انہیں قطعاً گوارا نہیں.اسلام کے اسی تصور کو وہ فنڈامنٹلزم کا نام دیتے ہیں اور فنڈامینٹلزم کو دہشت گردی (terrorism) کے مترادف قرار دیتے ہیں. چنانچہ کبھی وہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں تو کبھی ’’بنیاد پرستی کے خلاف جنگ‘‘ کا. حقیقت میں یہ جنگ اسلام کے نظامِ حیات کے خلاف ہے. یہ جنگ اسلام کے عقائد‘ عبادات اور رسومات کے خلاف نہیں ہے.

آج کی اصطلاح میں انقلاب اس اجتماعی نظام میں کسی تبدیلی کو کہتے ہیں. مذہبی میدان میں کسی بڑی سے بڑی تبدیلی کو بھی انقلاب نہیں کہا جا سکتا. تاریخِ انسانی میں سب سے بڑی مذہبی تبدیلی 300 عیسوی میں ہوئی تھی‘ جب شہنشاہِ روم قسطنطینِ اعظم نے عیسائیت اختیار کر لی تھی اور ساری سلطنت عیسائی ہو گئی تھی. مذہبی تاریخ میں اتنی بڑی تبدیلی 
(conversion) کبھی نہیں ہوئی. سلطنت روما اُس وقت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی ‘یعنی پورا شمالی افریقہ‘ پورا مشرقی یورپ اور پورا مغربی ایشیا. لیکن اتنی بڑی مذہبی تبدیلی کو بھی کبھی انقلابات کی تاریخ میں نہیں گنوایا گیا. اس لئے کہ اس مذہبی تبدیلی سے سیاسی‘ معاشی یا سماجی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی‘ مذہب کی تبدیلی کے باوجود اجتماعی نظام بدستور وہی رہا. پس انقلاب (revolution) وہ تبدیلی کہلائے گی جو کسی ملک کے سیاسی نظام‘ معاشی نظام‘ یا سماجی نظام سے متعلق ہو اور بنیادی نوعیت کی ہو.

تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب

اب ہم دنیا کے چند مشہور انقلابات کا جائزہ لیتے ہیں. ان میں ’’انقلابِ فرانس‘‘ بہت مشہور ہے اور اس میں شک نہیں کہ یہ واقعی انقلاب تھا. لیکن اس سے صرف سیاسی نظام میں تبدیلی آئی تھی. مذہب پہلے بھی عیسائیت تھا‘ بعد میں بھی وہی رہا. سماجی ڈھانچے (social structure) میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی. دوسرا بہت مشہور انقلاب روس کا بالشویک انقلاب ہے جو۱۹۱۷ء میں آیا. اس سے صرف معاشی نظام تبدیل ہوا. چنانچہ تمام ذرائع پیداوار قومیالئے گئے اور انفرادی ملکیت کا خاتمہ کر دیا گیا. نوٹ کیجئے کہ یہ دونوں انقلابات ہیں جبکہ رومن امپائر کا بیک وقت کرسچین ہو جانا انقلاب نہیں ہے. اب آپ ذرا محمد رسول اللہ  کے برپاکردہ انقلاب کا جائزہ لیں. سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ کیا واقعی حضور نے انقلاب برپا کیا یا ہم صرف جوشِ عقیدت میں یہ دعویٰ کر بیٹھتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ نے نہ صرف انقلاب برپا کیا بلکہ تاریخ انسانی کاعظیم ترین انقلاب برپا کیا. یہ بات محض جذباتی انداز سے نہیں بلکہ ٹھنڈے تجزیئے (Cold Analysis) سے ثابت کی جاسکتی ہے. اس پر اپنوں کی ہی نہیں اغیار کی بھی گواہیاں موجود ہیں. عربی کا مقولہ ہے: ’’اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ‘‘ یعنی ’’اصل فضیلت وہ ہوتی ہے جس کا دشمن بھی اقرار کریں‘‘. دوست اور اعتقاد رکھنے والے تو ہر چیز کی تعریف ہی کریں گے‘ اصل تعریف وہ ہے جو دشمن کی زبان سے ہو.اگر شیردل کنگ رچرڈ نے صلاح الدین ایوبی کی تعریف کی تو معلوم ہوا کہ واقعتا صلاح الدین ایوبی بڑی عظیم شخصیت تھی.
انقلاب نبویؐ کے حوالے سے پہلی گواہی ایم این رائے کی ہے. ایم این رائے ایک بنگالی ہندو تھا اور وہ انٹرنیشنل کمیونسٹ آرگنائزیشن کا رکن تھا. اس نے ۱۹۲۰ء میں بریڈلا ہال لاہور میں ’’اسلام کا تاریخی کردار‘‘ 
(The Historical Role of Islam ) کے عنوان سے لیکچر دیا. اپنے لیکچر میں اُس نے صاف لفظوں میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب محمد ( ) نے برپا کیا. واضح رہے کہ وہ عقیدت مند نہیں ہے ‘ ایک بنگالی ہندو ہے اور ٹاپ کا کمیونسٹ ہے‘ لیکن وہ بھی یہ بات تسلیم کررہا ہے. یہ گواہی پچھلی صدی کے آغاز سے ۲۰برس بعدکی ہے. 
دوسری گواہی امریکی ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کی ہے. اُس نے پچھلی صدی کے اختتام سے بیس برس پہلے ایک کتاب 
"The 100" لکھی. اس کتاب میں اُس نے پانچ ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ میں سے ایسے ایک سو انسانوں کا انتخاب کرکے ان کی درجہ بندی (gradation) کی‘ جنہوں نے انسانی تمدن کے دھارے کے رخ کو موڑنے میں مؤثر کردار ادا کیا. اس درجہ بندی میں وہ نمبر ایک پر لایا محمد رسول اللہ کو.ڈاکٹر مائیکل ہارٹ مذہب کے اعتبار سے عیسائی ہے. اس کی یہ کتاب دنیا میں بہت عام ہوئی ہے‘ لیکن اشاعت کے بعد وہ بہت جلد نایاب ہو گئی تھی اور عام خیال یہ تھا کہ شاید کسی سازش کے تحت اسے غائب کیا گیا ہے. اس لئے کہ اس نے اس کتاب میں (عیسائیوں کے نزدیک خدا کے اکلوتے بیٹے) حضرت مسیح علیہ السلام کو نمبر تین پر رکھا اور حضور کو نمبر ایک پر لایا ‘ اور یہ بات عیسائی دنیا کے لئے قابل قبول اور قابلِ برداشت نہیں تھی. اس نے لکھا ہے: 

My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the"
".only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels 

ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے نزدیک انسانی زندگی کے دو علیحدہ علیحدہ میدان ہیں. ایک ہے مذہب‘ اخلاق اور روحانیت کا میدان‘ جبکہ دوسرا ہے تمدن‘ تہذیب‘ سیاست اور معاشرت کا میدان‘ اور ان دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب (supremely successful) انسان تاریخ انسانی میں صرف اور صرف ایک ہی ہیں اور وہ ہیں حضرت محمد . جن لوگوں کو بالعموم بڑا سمجھا جاتا ہے ان کی عظمت کسی ایک پہلو سے نمایاں ہوتی ہے. عبادت گزاری اور نفس کشی میں گوتم بدھ بہت اونچا ہے. اخلاقی تعلیمات کے اعتبار سے حضرت مسیح علیہ السلام بہت اونچے ہیں‘ لیکن ریاست‘ حکومت اور سیاست میں ان کا کوئی دخل نہیں. فتوحات اور ملک گیری کے حوالے سے سکندرِ اعظم بہت اونچا ہے‘ اٹیلا بہت اونچا ہے‘ چنگیزخان بہت اونچا ہے‘ اکبر اعظم بہت اونچا ہے‘ اور بھی بڑے بڑے حکمران ہو گزرے ہیں لیکن دین‘ اخلاق اور روحانیت میں ان کا کوئی مقام تھا؟ یہاں زیرو سے بھی کام نہیں چلے گا‘ minus لانا پڑے گا. تاریخِ انسانی میں صرف اور صرف ایک ہی انسان ہے جو ہر دو اعتبار سے بلند ترین اور کامیاب ترین قرار پاتا ہے اور وہ ہیں محمد رسول اللہ .
اغیار کی گواہیوں میں سے تیسری گواہی ایچ جی ویلز کی ہے. لیکن اس کی جس عبارت کا یہاں حوالہ دیا جارہا ہے اس کی کتاب 
"A Concise History of the World" کے نئے ایڈیشن سے اس عبارت کو نکال دیا گیا ہے.واقعتاکسی دشمن کی زبان سے اس سے بڑا خراجِ تحسین ممکن نہیں. اس لئے کہ ایچ جی ویلز بدترین دشمن ہے. اس نے حضور کی سیرتِ طیبہ پر سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین (دو بدبخت جومسلمانوں میں پیدا ہوئے) ان سے کہیں زیادہ زہریلے اور ان سے کہیں زیادہ کمینگی والے جملے کہے ہیں. لیکن جب اُس نے آنحضور کے خطبۂ حجۃ الوداع کے مندرجہ ذیل الفاظ کا حوالہ دیا ہے تو وہ گھٹنے ٹیک کر خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گیا ہے.خطبۂ حجۃ الوداع میں رسول اللہ نے فرمایا تھا:

یَا اَیُّھَا النَّاسُ! اَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَ:بَاکُمْ وَاحِدٌ ‘ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیِّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ 
عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی (۱)
’’لوگو! آ گاہ ہو جاؤ‘ یقینا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے. خبردار! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر. اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر. فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے.‘‘

ایچ جی ویلزاگرچہ عیسائی ہے‘ لیکن خطبہ حجۃ الوداع کا حوالہ دینے کے بعد وہ یہ اعتراف کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے کہ:

’’اگرچہ انسانی اخوت ‘ مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد ( ) ہی تھے جنہوں نے تاریخِ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا.‘‘

چنانچہ دشمنوں کی گواہی سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ تاریخِ انسانی کا عظیم ترین انقلاب تھا جو محمد رسول اللہ نے برپا فرمایا. 

انقلابِ محمدی (علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) کا انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس سے تقابل کریں تو نظر آتا ہے کہ انقلابِ فرانس میں صرف سیاسی نظام بدلا اور انقلابِ روس میں صرف معاشی نظام تبدیل ہوا لیکن انقلابِ محمدیؐ میں ہر چیز بدل گئی. مذہب بھی بدل گیا‘عقائد بھی بدل گئے‘ رسومات بھی بدل گئیں‘ سیاسی نظام بھی بدل گیا‘ معاشی نظام بھی بدل گیا‘ معاشرت بھی بدل گئی. کوئی بھی شے اپنی سابقہ حالت پر قائم نہیں رہی. ڈھونڈ کر بتایئے کہ فلاں چیز جوں کی توں رہ گئی. جس معاشرے اور قوم میں پڑھے لکھے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے‘ اس قوم کو آپؐ نے علم کے میدان میں دنیا کا امام بنا دیا. انہوں نے نئے نئے علوم ایجاد کئے‘ پوری دنیا کا علم سمیٹ کر‘ ہندوستان اور یونان تک سے علم لے کر‘ اور اسے مزید 
develop کر کے دنیا کے سامنے رکھا. تو پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ دنیا کا جامع ترین‘ گھمبیر ترین اور most profound انقلاب محمدعربی کا انقلاب تھا. کوئی دوسرا انقلاب اس کے مقابلے میں نہیں آ سکتا. باقی سب انقلابات جزوی (partial) تھے. 

انقلاب محمدیؐ اس حوالے سے بھی بے مثال ہے کہ سارے انقلابی عمل کی قیادت آپؐ 
(۱) السلسلۃ الصحیحہ‘ المحدث البانی‘ راوی : جا بر بن عبداللہ ؓ ۲۷۰۰ 

نے بنفس نفیس فرمائی. سیرت کا مطالعہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ آپؐ مکے کی گلیوں میں ایک مبلغ کی حیثیت سے گھوم رہے ہیں‘ تبلیغ کر رہے ہیں‘ لوگوں کے گھروں میں جاکر بات چیت کررہے ہیں. آپؐ ہی بدر اور احد کے معرکوں میں فوج کو کمانڈ کررہے ہیں. یہ خصوصیت دنیا کے کسی اور انقلاب میں موجود نہیں ہے. باقی دنیا کے انقلاب کئی نسلوں میں آئے. کسی ایک شخص نے فکر دیا‘ کسی دوسرے نے اُس فکر کے مطابق جدوجہد کرکے وہ انقلاب برپا کردیا. دنیا کے انقلابات میں سے کوئی بھی دوسرا انقلاب ایک حیاتِ انسانی کے عرصے (span) میں پورا نہیں ہوا‘ بلکہ فکر دینے والے مر کھپ گئے‘ بعد میں کہیں وہ فکر پروان چڑھا اور اس کی بنیاد پر کہیں انقلاب آگیا. مثال کے طور پر انقلاب فرانس کا فکر والٹیئر اور روسو نے دیا تھا‘ میدان عمل میں اُن کا کوئی کردار نہیں. اسی طرح اشتراکی انقلاب کی فکر مارکس اور اینجلز نے دی. مارکس نے جرمنی میں بیٹھ کر ’’ڈاس کیپیٹل‘‘ نامی کتاب لکھ دی‘ مگر یہ انقلاب اُن کے ہاتھوں نہیں آیا‘ بلکہ جرمنی اور انگلستان میں آیا ہی نہیں. انقلاب عملاً۱۹۱۷ میں بالشویک کے ہاتھوں روس میں آیا. بہرحال حضور کی زندگی اس اعتبار سے واقعتا contrast کی حامل ہے کہ ایک انقلابی دعوت کا آغاز بھی آپؐ نے کیا اور اسے کامیابی کی آخری منزل تک بھی خود پہنچایا. جبکہ محمدرسول اللہ کے لائے ہوئے انقلاب میں کل ۲۳ سال کے عرصے میں ‘الف سے ی تک انقلاب کے تمام مراحل طے ہو گئے.کوئی ہے تاریخ میں اس کی مثال؟ میں پھر ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے وہی الفاظ دہراؤ ں گا کہ He is the only, the only, the only person کہاں گلی گلی دعوت دینے والا ایک شخص‘ کہاں ایک فوج کی کمان کرنے والا قائدکوئی ہے مناسبت؟

اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ آج عہدِ حاضر میں اجتماعیات‘ سوشیالوجی یا پولیٹکل سائنس کا کوئی طالب علم پوری دیانت داری سے انقلاب کا صحیح طریقِ کار اخذ کرنا چاہے تو اسے صرف محمد رسول اللہ کی سیرتِ طیبہ سے مکمل راہنمائی مل سکتی ہے. مارکس‘ اینجلز‘ لینن یا والٹیئر کی زندگیوں سے اس ضمن میں قطعاً کوئی راہنمائی حاصل نہیں ہو سکتی. گویا طریقِ انقلاب کے لئے اب دنیا کے سامنے صرف ایک ہی منبع و سرچشمہ 
(source) ہے اور وہ رسول اللہ کی سیرتِ طیبہ ہے.

انقلاب برپا کرنا کھیل نہیں

انقلاب کے حوالے سے یہ بات ذہنوں میں بالکل واضح ہو جانی چاہیے کہ انقلاب برپا کرنا کوئی کھیل نہیں ہے‘ اور نہ ہی یہ کوئی دل پسند مشغلہ ہے بلکہ یہ نہایت مشکل کام ہے. اس کی وجہ کیا ہے؟ دیکھئے‘ ایک ہے دعوت و تبلیغ. جیسے ہمارے تبلیغی بھائی بستر اُٹھائے ہوئے گھوم رہے ہوتے ہیں. دور دراز کے سفر کرتے ہیں. گھر کا نرم بستر چھوڑ کر راتوں کو مسجدوں کے سخت فرش پر سوتے ہیں. تکلیف اور محنت‘ مشقت تو اس کام میں بھی ہے‘ لیکن اس میں جان و مال کا خطرہ نہیں ہے. زیادہ سے زیادہ یہ ہو جائے گا کہ کوئی گالی دے دے گا‘ کوئی پاگل کہہ دے گا اور بس. یہی معاملہ علمی کام کا بھی ہے. اس میں بھی یہی ہوگا کہ آپ سے کسی کا فکری اختلاف ہوجائے گا اور کوئی آپ کی ریسرچ کے مقابلے میں اپنی ریسرچ لے آئے گا. وہ آپ کو پاگل قرار دے دے گا‘ آپ اس کو پاگل قرار دے دیں گے. مگر جان کو کوئی خطرہ اس میں بھی نہیں ہوگا. لیکن انقلابی جدوجہد وہ عظیم مشن ہے جس میں جان و مال کا خطرہ ہوتا ہے. اس لیے کہ انقلاب کی زد رائج الوقت نظام اور اس کے پروردہ لوگوں پر پڑتی ہے. یہ لوگ کیسے برداشت کریں گے کہ انقلاب کے علمبردار اُٹھیں اور اُس نظام کا قلع قمع کریں جو انہیں مراعات سے نوازتا ہے. وہ تو یہ کہیں گے کہ آؤ‘ انہیں ختم کرو‘ انہیں مارو‘ کہ یہ ہمارے نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں. ہمارے مفادات کا یہ تقاضا ہے کہ سٹیٹس کو برقرار رہے اور یہ اس نظام کو بدلنے آئے ہیں‘ انہیں کچل دو. اسی لیے قرآن نے پہلے ہی بتا دیا کہ غلبۂ دین حق کی راہ میں آزمائشیں اور مشکلات آئیں گی. سورۃ البقرہ میں فرمایا:
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ

’’ اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے. تو صبر کرنے والوں کو (اللہ کی خوشنودی کی) بشارت سنادو. ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.‘‘

اسی سورت میں آگے فرمایا:
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿۲۱۴

’’ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یونہی) بہشت میں داخل ہو جاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں. ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعو بتوں میں) ہِلا ہِلا دیئے گئے‘ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب اللہ کی مدد آئے گی؟ دیکھو اللہ کی مدد (عن) قریب (آیا چاہتی) ہے.‘‘

انقلابی عمل کے تین مراحل

اب آئیے‘ انقلابی عمل کے مراحل کی طرف! انقلابی عمل کے سات مراحل ہیں‘ چھ مراحل تو انقلاب برپا کرنے کے ہیں. یعنی انقلابی نظریہ کی اشاعت‘ تنظیم‘ تربیت‘ صبر محض‘ راست اقدام‘ مسلح تصادم اور ساتواں مرحلہ انقلاب کو برآمد کرنا ہے. ظاہر ہے‘ ہر انقلاب کی یہ فطری خاصیت ہوتی ہے کہ وہ جغرافیائی‘ علاقائی یا ملکی اور قومی حدود کا پابند نہیں ہوا کرتا بلکہ وہ پھیلتا ہے. کسی بھی انقلابی نظریہ کو نہ پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے نہ ویزا کی. بلکہ وہ ان قیود سے آزاد ہوتا ہے. جدید اصطلاح میں اسے ’’تصدیر الانقلاب‘‘ کہتے ہیں. انقلاب اگر صحیح معنوں میں انقلاب ہو تو وہ ضرور پھیلتا ہے. فرانس کا انقلاب پہلے پہل فرانس میں آیا‘ مگر پھر دنیا بھر میں پھیل گیا. بالشویک انقلاب روس میں آیا‘ لیکن پھر لاطینی امریکہ تک پہنچ گیا. حضور کا انقلاب پہلے عرب میں آیا. پھر کہاں سے کہاں پہنچ گیا. اس وقت کی آباد دنیا کا تقریباً آدھا حصہ اس انقلاب کے زیرنگیں آگیا. یہ انقلاب کا خاصہ ہے اور اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ پھیلے اور وسعت پذیر ہو. بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی انقلاب کے حقیقتاً ’’انقلاب‘‘ ہونے کا حتمی ثبوت یہی ہے کہ وہ کسی علاقائی و جغرافیائی حد میں محدود ہو کر نہ رہ جائے‘ بلکہ پھیلے اور وسعت پذیر ہو. اگر وہ جغرافیائی حدود کے اندر محدود ہوکر رہ گیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں جان نہیں تھی‘ اس کے بنیادی فلسفہ میں قوت تسخیر نہیں تھی‘ اس میں آفاقیت اور عالمگیریت نہیں تھی. بلکہ شاید اس کے اندر اصل فیصلہ کن عوامل صرف قومی و ملکی تھے. اس میں کوئی ایسا نظریہ‘ کوئی ایسا پیغام نہیں تھا جو بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہو اور جو قومی اور جغرافیائی حدود سے بالاتر ہو کر نوعِ انسانی کے اذہان و قلوب میں اپنی جگہ بنا سکے. میں نے اپنی کتاب منہج انقلاب نبویؐ میں جو اِس موضوع پر مفصل کتاب ہے‘ سیرت کی روشنی میں انقلاب کے یہی سات (۱+۶مراحل بیان کیے ہیں. اسی طرح اپنے ایک دوسرے کتابچہ ’’رسولِ انقلابؐ کا طریق انقلاب‘‘ میں میں نے اسلامی اصطلاحات سے ہٹ کر بتایا ہے کہ انقلابی عمل (revolutionary process) کے سات (۱+۶)مراحل ہیں. لیکن اپنے ان خطبات میں میں نے مراحل انقلاب کو مختصر کرکے تین (یعنی۱+۲) مراحل کی صورت میں بیان کر رہا ہوں. انقلاب محمدی کے متذکرہ سات مراحل کو اگر اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے تو یہ تین مراحل بنیں گے. دو مراحل انقلاب برپا کرنے کے اور ایک مرحلہ انقلاب کو برآمد کرنے کا. علامہ اقبال کے دو اشعار میں نے بہت دفعہ سنائے ہیں. اقبال داعیٔ انقلاب تھا‘ اگرچہ وہ میدان کا آدمی نہیں تھا. وہ کلیم نہیں حکیم تھا. لیکن اس کی حکیمی اور دانائی قابل داد ہے. کہتا ہے ؎ 

گفتند جہانِ ما آیا بہ تو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد ‘ گفتند کہ برہم زن!

اس شعر میں اقبال اللہ سے اپنا ایک مکالمہ بیان کر رہا ہے. اللہ نے مجھ سے کہا‘ اے اقبال! میں نے تمہیں اپنی جس دنیا میں بھیجا ہے آیا وہ تمہارے ساتھ سازگار ہے؟ کیا تمہیں وہ پسند ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں‘ مجھے پسند نہیں! یہاں ظلم ہے‘ یہاں غریب پس رہا ہے. یہاں مزدور کے رگوں کے خون کی سرخی سے شراب کشید کر کے سرمایہ دار پیتا ہے . ؎ 

خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!!

سرمایہ دار نے مزدور کی رگوں میں دوڑنے والے خون سے سرخ شراب کشید کی ہے اور جاگیرداروں کے ظلم و ستم سے دہقان کی کھیتی خراب ہے. اس کے بچے بھوکے ہیں اور اس کی کھیتی سے ان کی غذا کا اہتمام نہیں ہو رہا. یہ اقبال کی بڑی عظیم نظم ہے جس میں اس نے انقلاب کا نعرہ لگایا ہے. تو اقبال کہتے ہیں کہ جب میں نے کہا کہ مجھے تیرا یہ جہان پسند نہیں‘ یہ میرے لئے سازگار نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’برہم زن!‘‘یعنی اسے توڑ پھوڑ دو‘ درہم برہم کر دو! یہاں انقلا ب برپا کر دو!! 

اب اس انقلاب کا طریق کار کیا ہو؟ غلط نظام کو کیسے ختم کیا جائے‘ اسے اقبال نے د و مصرعوں میں بیان کر دیا ہے. پہلے مصرعہ میں انقلاب کے متذکرہ چار مراحل اور دوسرے میں 
دو مراحل بیان کئے ہیں ؎ 

با نشۂ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن!

یعنی پہلے درویشی کی روش اختیار کرو اور اپنا کام کرتے رہو. دعوت و تبلیغ میں لگے رہو. کوئی پاگل کہے یا کوئی گالی دے تو اُسے جواب میں دعا دو. یوں دکھائی دے گویا بدھ مت کے بھکشو بنے ہوئے ہیں. مارا جا رہا ہے مگر جواب نہیں دے رہے ہیں. اور جب تیار ہو جاؤ یعنی تعداد بھی کافی ہو‘ ٹریننگ بھی صحیح ہو چکی ہو‘ ڈسپلن کے بھی پابند ہو جاؤ اور ہر شے قربان کرنے کو تیار ہو جاؤ تو اب اپنے آپ کو سلطنتِ جم کے ساتھ ٹکرا دو. اسی سے انقلاب آئے گا. ٹکراؤ کے بغیر انقلاب نہیں آتا. محض وعظ سے انقلاب نہیں آیا کرتا. اور ٹکراؤ میں جانیں بھی جائیں گی‘ خون بھی دینا پڑے گا.

انقلاب کا پہلا مرحلہ : جماعت سازی اور اس کا طریق

انقلابی جدوجہد کے پہلے مرحلے کا عنوان ایک حقیقی انقلابی جماعت کی تیاری یعنی حزب اللہ کی تشکیل ہے‘ اور دوسرے مرحلے کا یک لفظی عنوان تصادم ہے. اس وقت موضوع بحث یہی پہلا مرحلہ ہے. یعنی مردان کار کی فراہمی اور حزب اللہ کی تشکیل و تنظیم اور تزکیہ و تطہیر کا نبویؐ طریقہ کار. یہ بات واضح کردی جائے کہ جماعت سازی خاص طور پر نظریات کی بنیا دپر جماعت کی تشکیل دنیا کا مشکل ترین کام ہے. قومی سطح پر جماعت بنالینا بڑ اآسان کام ہے. رفاہی کام کے لیے جماعت بنانا بھی آسان ہے. اسی طرح علمی کام کے لیے جماعت بنا لینا بھی بہت آسان ہے. لیکن نظریاتی سطح پر‘ انقلاب برپا کرنے کے لیے جماعت بنانا انتہائی مشکل کام ہے. اس سے زیادہ مشکل اور کوئی کام نہیں. اِس مشکل کا ایک سبب تو یہ ہے کہ لوگوں کا مزاج اور ذوق مختلف ہوتا ہے. اُن میں ذہنی سطحوں کا فرق ہوتا ہے. سمجھ اور فہم کی گہرائی مختلف ہوتی ہے. ان سب کو جوڑنا جان جوکھوں کا کام ہے. ایک حیوانوں کے گلے کو تو ایک کتا بھی ہانک کر لے کر جاسکتا ہے. آپ نے دیکھا ہوگا کہ پٹھان لوگ کاغان اور ڈیرہ غازی خان سے کئی کئی سو بھیڑوں کا گلہ لے کر آتے ہیں. ایک آدمی لاٹھی لے کر پیچھے پیچھے چل رہا ہوتا ہے. اُس کے ساتھ ایک کتا ہوتا ہے جو بھیڑ بکریوں کو قابو رکھتا ہے. انسانوں میں تو ہر ایک کا اپنا فہم‘ اپنی سوچ اور اپنے نظریات ہوتے ہیں. ہر ایک اپنی جگہ سقراط بقراط ہوتا ہے. انقلابی جماعت کی تشکیل کے مشکل ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر کوئی نہ کوئی سچی یا جھوٹی خودی ہوتی ہے ؎ 

بقدرِ پیمانۂ تخیل سرور ہر شے میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریبِ پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا 

بہرحال یہ وہ رکاوٹیں ہیں جن کو پار کرکے آپ کو انقلابی جماعت بنانی ہے.

جماعت سازی کے لوازم

انقلابی جماعت بنانے کے لیے چھ لوازم ہیں‘ جن کا پورا کرنا ضروری ہے. اگر ان کو پورا نہ کیا گیا تو پھر کوئی جماعت انقلابی جماعت نہ بن سکے گی. میرے نزدیک انقلابی جماعت کے یہ پانچ لوازم درج ذیل ہیں:
(۱) انقلابی جماعت کے کارکنوں اور قائدین کے فکر اور نظریات و خیالات میں کامل نظریاتی ہم آہنگی ہو. 
(۲) دل و دماغ میں انقلاب کے علاوہ کوئی اور آرزو نہ ہو‘ یہی آرزو ہو کہ غلط نظام کا خاتمہ ہوجائے 
(۳) انقلاب کے لیے تن‘ من‘ دھن لگا دینے کے لیے آمادگی ہی نہ ہو بلکہ انتہائی ذوق و شوق ہو. 
(۴) نظم کی پابندی کے لیے انسان اپنی انا کو کچل دے‘ اور خود کو سمع و طاعت کا خوگر بنائے.
(۵) انقلابی کارکنوں میں انتہائی مضبوط نظریاتی عصبیت یعنی جذباتی وابستگی ہو. 
(۶) جماعت میں شامل افراد کا تزکیہ ہو.

یہ چھ چیزیں انقلابی جماعت کے لوازم ہیں. اِن کے بغیر کوئی جماعت انقلابی جماعت نہیں بنے گی. اب آئیے‘ اس خاکے میں تھوڑا سا رنگ بھر دیں. 

نظریاتی ہم آہنگی: اس کا مطلب توحید پر یقین کامل ہے. اس لیے کہ یہ اسلامی انقلاب کا اساسی نظریہ ہے. توحید محض ایک عقیدہ نہیں ہے بلکہ ایک انقلابی نظریہ ہے. اس کے تین پہلو ہیں. 

سیاسی میدان میں توحید کا مطلب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعتراف واعلان ہے. اللہ کی زمین پر نہ کوئی انسان حاکم ہے اور نہ کوئی قوم حاکم ہے. حاکم فقط اللہ ہے. 
اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ. بقول اقبال ؎ 

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی ‘باقی بتانِ آزری!

نظریۂ توحید انسانی حاکمیت کی ہر شکل میں نفی کرتا ہے. انسانی حاکمیت نہ تو فردِ واحد کی بادشاہت کی شکل میں قابلِ قبول ہے‘ نہ کسی قوم کی دوسری قوم پرحاکمیت کی شکل میں‘ جیسے انگریز ہم پر حکمران ہو گیا تھا‘ اور نہ ہی عوام کی حاکمیت جائز ہے‘ جیسے کہ جمہوری نظام میں ہوتی ہے. حاکمیت (sovereignty) کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور انسان کے لئے خلافت ہے. غیر اللہ کی حاکمیت کی تمام صورتیں شرک ہیں اور دورِ حاضر میں حاکمیت جمہور (popular sovereignty) کا تصور تو بدترین شرک ہے. شارع (قانون ساز) صرف اللہ تعالیٰ ہے اور رسول اس کے نمائندے ہیں. غور کیجیے‘ کیا توحید سے بڑا بھی کوئی انقلابی نعرہ ہو گا؟

معاشی میدان میں توحیدکا تقاضا یہ ہے کہ ہر شے کا مالک حقیقی اللہ ہے. یہ انقلابی نعرہ مروجہ معاشی نظاموں کی جڑوں پر تیشے کی طرح گرتا ہے. کوئی شخص کسی شے کا مالک نہیں ہے‘ نہ انفرادی طور پر نہ قومی طور پر.اس طرح سرمایہ داری کی بھی نفی ہو گئی اور کمیونزم کی بھی. مالک صرف اللہ ہے : 
لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ ’’اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے‘‘. ہر شے کا مالک وہی ہے اور انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ امانت ہے ؎ 

ایں امانت چند روزہ نزدِ ماست
در حقیقت مالکِ ہر شے خدا ست!

میں اپنے جسم کا بھی مالک نہیں ہوں‘ میرا یہ جسم بھی اللہ کی ملکیت ہے. انا للہ وانا الیہ راجعون. یہ ہاتھ پاؤں‘ یہ آنکھیں‘ یہ دماغ سب کچھ میرے پاس اللہ کی امانت ہے. اُس نے مجھے کوئی گھر دے دیا ہے تو وہ بھی اس کی امانت ہے‘ اولاد دی ہے تو وہ بھی اُ سی کی امانت ہے. چنانچہ ملکیت تامہ اسی کے لئے ہے. ہم مالک و مختار نہیں ہیں کہ جو چاہیں کرتے پھریں. حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا: قَالُوۡا یٰشُعَیۡبُ اَصَلٰوتُکَ تَاۡمُرُکَ اَنۡ نَّتۡرُکَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوۡ اَنۡ نَّفۡعَلَ فِیۡۤ اَمۡوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ اِنَّکَ لَاَنۡتَ الۡحَلِیۡمُ الرَّشِیۡدُ ﴿۸۷﴾ (ھود) ’’اے شعیب ؑ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے؟ اور یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو.‘‘ سرمایہ دار کا موقف یہ ہوتا ہے کہ یہ میرا مال ہے‘ میں اسے جیسے چاہوں تصرف میں لاؤں‘ خواہ اس سے سودی کاروبار کروں یا کسی کو سود پر قرضہ دوں. اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو سرمائے کا مالک سمجھتا ہے. اگر آپ اپنے آپ کو امین سمجھیں گے تو آپ کا نقطۂ نظر یکسر مختلف ہو گا . پھر آپ اپنا ہاتھ بھی وہیں استعمال کریں گے جہاں اللہ کی اجازت ہے. آپ اپنے پاؤں سے بھی اسی راستے پر چلنا چاہیں گے جس پر اللہ چاہتا ہے کہ آپ چلیں. آپ کا مال وہیں خرچ ہو گا جہاں اللہ چاہتا ہے کہ آپ خرچ کریں. 
سماجی سطح پر توحید کا تقاضا یہ ہے کہ پیدائشی طور پر تمام انسان برابر ہیں‘ کوئی اونچا نہیں‘ کوئی نیچا نہیں. اس ضمن میں ایچ جی ویلز کی گواہی بتائی جاچکی ہے کہ ’’انسانی اخوت ‘مساوات اور حریت کے وعظ تو پہلے بھی بہت کہے گئے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ تاریخِ انسانی میں پہلی بار ان بنیادوں پر ایک معاشرہ قائم کیاہے محمد ( ) نے‘‘. اسلامی معاشرے میں اگر کوئی اونچ نیچ ہے تو وہ ان کمالات کی بنیاد پر ہے جو آپ نے از خود حاصل کئے ہیں. آپ نے علم حاصل کیا تو آپ اونچے ہو گئے ‘ آپ کی عزت کی جائے گی. آپ نے تقویٰ کی روش اختیار کی ‘ روحانی مقام حاصل کیا‘ اب آپ کی عزت کی جائے گی. 
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ ’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہو‘‘.پیدائشی طور پرتمام انسان برابر ہیں. شودرہو یا برہمن‘کالا ہو یا گورا‘ مرد ہو یا عورت‘ کوئی فرق نہیں. مرد اور عورت کے درمیان بھی فرق انتظامی اعتبار سے ہے. یہ اُسی طرح کا فرق ہے جیسے کسی محکمے میں ایک انچارج اورایک باہر کھڑے ہوئے قاصد میں ہوتا ہے. بحیثیت انسان اُن میں کوئی فرق نہیں. ہاں منصب اور اختیارات کے اعتبار سے سربراہ شعبہ کا منصب اونچا ہے‘ قاصد کا نیچا ہے‘ لیکن یہ محض انتظامی معاملہ ہے. پھر یہ کہ رنگ‘ نسل‘ علاقہ کی بنیاد پر لوگوں میں اونچ نیچ ہرگز نہیں ہوسکتی. اللہ نے فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ... (الحجرات:۱۳)
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے‘ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے.‘‘

رنگ کی بنیاد پر امریکہ میں کالے کم تر قرار د یئے گئے . لہذا انہیں سفید فام امریکیوں کے خلاف سول وار لڑنی پڑی. کیونکہ سفید فام امریکی کالے غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے. اسی طرح آج بھی ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی لعنت موجود ہے. کچھ لوگ پیدائشی شودر ہیں‘ لہذا کم ترہیں اور کچھ پیدائشی برہمن ہیں اور برتر حیثیت کے مالک سمجھے جاتے 
ہیں. حکومت نے ذات پات کے نظام کے خاتمے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا‘ مگر وہ نظام ختم نہ ہوسکا. حکومت اس تفریق کے خاتمے کے لیے دلتوں کے لیے اسمبلی میں نشستیں مختص کرتی ہے‘ تو بڑی ذات والے اُن کی بستیاں جلا دیتے ہیں. ہندوستان میں جس قدر ہندو مسلم فسادات ہوتے ہیں‘ اُس سے بڑھ کر فسادات ہندوؤں کے آپس میں ہوتے ہیں. نچلی ذات والوں کی پوری پوری بستیاں جلادی جاتی ہیں. یہ ہے حال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کا.
مقصود و مطلوب: انقلابی جماعت کے لوازم میں سے دوسری چیز یہ ہے کہ واحد مقصود و مطلوب انقلاب ہو‘ لیکن یہ بات دنیا کے دوسرے انقلابات کی حد تک ہے. اسلامی انقلابی کارکنوں کا مقصود و مطلوب انقلاب نہیں‘ بلکہ اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح ہونی چاہیے. محض انقلاب ہمارا مطلوب و مقصود اور نصب العین نہیں ہے. اسلامی انقلاب کے لیے ہم اس لیے جدوجہد کرتے ہیں کہ یہ ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے. ہمارا نصب العین یہ ہے کہ ہم سے اللہ راضی ہو جائے اور ہمیں آخرت کی فلاح حاصل ہو جائے‘ جہنم سے چھٹکارا مل جائے. دوسری کوئی غرض‘ کوئی دنیوی مفاد پیش نظر نہ ہو. اسلامی انقلابی پارٹی کے کارکنوں کو ہر دم اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ آیا ہمارے دل میں کوئی اور بت خانہ تو آباد نہیں‘ کہیں لیڈری کا سودا تو نہیں‘ کہیں حکومت اور اقتدار کی خواہش تو نہیں‘ کہیں نمایاں ہونے کا جذبہ تو نہیں ہے‘ کہیں شہرت کے حصول کی تمنا تو نہیں ہے. سینے اور دل کا اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کے علاوہ ہر آرزو سے پاک ہو جانا ضروری ہے‘ اگرچہ یہ کام آسان نہیں‘ نہایت مشکل ہے. یہ کام محمد رسول اللہ  نے کیا ہے. آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کیا حال تھا‘ اس ضمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی ہی سے ایک مثال کافی ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے. ایک جنگ میں آپؓ کا ایک کافر سے مقابلہ ہوا ہے. آپؓ نے کافر کو زیر کرلیا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور خنجر گھونپنے ہی والے تھے کہ کافر نے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا. اِس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُسے فوراً چھوڑ دیا. کافر نے حیران ہو کر پوچھا‘ آپ نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ آپؓ نے فرمایا‘ میری تم سے کوئی ذاتی جنگ نہیں ہے. میں اللہ کے لیے تمہیں مار رہا تھا. اب تم نے میرے منہ پر تھوکا ہے تو اس سے میرے اندر انتقامی جذبہ بھی پیدا ہوگیا. اب میں اگر تمہیں قتل کروں گا تو میرا یہ فعل خالصتاً اللہ کے لیے نہیں ہوگا. اندازہ کیجیے‘ جنگ کے دوران بھی جب مرو یا مارو کی کیفیت ہوتی ہے‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے اندر جھانکتے اور اپنی نیتو ںکا جائزہ لیتے تھے. 

شوق شہادت: انقلابی جماعت کے کارکنوں میں اپنے مشن کے لیے تن من دھن لگا دینے کا سچا جذبہ ہو. اسلامی پارٹی کے کارکنوں کے دل راہ حق میں شہادت کے لیے بے تاب ہوں. شہادت کی تمنا انہیں بے چین کیے رکھے. اگر اللہ کے راستے میں سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ اور شہادت کی آرزو نہیں ہے تو گویا ابھی آپ راہ انقلاب پر نہیں آئے‘ خواہ آپ یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ میں بڑا انقلابی کارکن ہوں. قرآن عزیز میں فرمایا:

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ (الاحزاب: ۲۳)
’’مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار انہوں نے اللہ سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا. تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں.‘‘

نظم کی پابندی:انقلابی جماعت کے لوازم میں سے ایک نظم کی پابندی ہے. انقلابی کارکن نظم میں یوں پروئے گئے ہوں گویا 
’’بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ‘‘ ہے‘ یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار جب تک یہ کیفیت نہ ہو تنظیم وجود میں نہیں آسکتی. اس کے لیے بنیاد کیا ہے؟ سمع و طاعت! سنو اور اطاعت کرو: ’’وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا ‘‘ (listen and obey) انقلابی کارکن سمع و طاقت کے خوگر ہوں. ایک امیر کی اطاعت کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہوں. 

رسول اللہ  کی قائم کردہ انقلابی جماعت میں سمع و طاعت کا معاملہ کس نوعیت کا تھا! اس کے لیے دو واقعات کافی ہیں. پورے مکی دور میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے حکم یہ رہا ہے کہ چاہے مشرکین تمہیں کتنا ہی ماریں‘کتنی ہی ایذائیں دیں‘ حتیٰ کہ تمہیں ہلاک کردیں لیکن تم ہاتھ نہ اُٹھاؤ. اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہیں تھی اور تاریخ میں اس کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ کسی نے حضور کے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہو. یاد رہے کہ قرآن مجید میں ایسا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا. جو بدنصیب لوگ سنت کی اہمیت کے قائل نہیں ہیں‘ ان کے لیے یہ بات خاص طو رپر غور کرنے کی ہے کہ مکی دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس حکم پر اس شدت اور سختی سے عمل پیرا تھے؟ قرآن حکیم میں تو کہیں جاکر ۵ھ یا۶ ھ میں سورۃ النساء میں یہ الفاظ آئے ہیں: 
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ... ’’(اے نبیؐ ) کیا آپؐ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جن کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو…‘‘ لیکن پورے مکی قرآن میں یہ حکم موجود نہیں ہے. دراصل یہ حکم اللہ کا نہیں تھا بلکہ محمد رسول اللہ  کا تھا. یا یوں کہیے کہ اللہ نے یہ حکم حضور کو وحی خفی کے ذریعے سے دیا. وحی جلی میں یہ حکم بہرحال موجود نہیں ہے. اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں اس کی توثیق فرمائی ہے. اس آیت سے اس بات کی وضاحت ہوگئی ہے کہ اے مسلمانو! ایک دَور وہ تھا جب حکم یہ تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو‘ اُس وقت تو تم کہا کرتے تھے کہ ہمیں جنگ کی اجازت ہونی چاہیے. اور آج جبکہ جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو تم گھبرا رہے ہو! کسی جماعت کے اس درجہ منظم ہونے اور اپنے رہنما‘ قائد اور لیڈر کے حکم کی پابندی کی ایسی مثال پوری انسانی تاریخ میں آپ کو نہیں ملے گی. 

مواخات باہمی:

انقلابی جماعت کا ایک اہم لازمہ یہ ہے کہ انقلابی کارکن ایک دوسرے سے رشتہ اخوت میں جڑے ہوئے ہوں. اشتراکی تحریک میں کامریڈ ہوتے ہیں اور کامریڈ کا رشتہ بہن بھائی کے رشتے سے بھی بڑھ کر خیال کیا جاتا ہے. اگر کارکنوں میں یہ عصبیت اور جذباتی لگاؤ نہ ہوگا تو انقلاب برپا نہیں ہوگا. اس کی خصوصی اہمیت ہے. بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس پر توجہ کم ہوئی ہے‘ حالانکہ اس پر خصوصی دھیان دینے کی ضرورت ہے. سورۃ الفتح میں رسول خدا  اور آپؐ کے ساتھیوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے. فرمایا: 

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۲۹﴾ 

’’محمد  اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل. (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (اللہ کے آگے) جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں. (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں. ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں. (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی‘ پھر اس کو مضبوط کیا‘ پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے‘ تاکہ کافروں کا جی جلائے. جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجرعظیم کا وعدہ کیا ہے.‘‘

پھر یہی مضمون سورۃ المائدہ میں بایں الفاظ آیا ہے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴﴾اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿٪۵۶

’’ اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں‘ اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں. یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے. تمہارے دوست تو اللہ اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے اور (اللہ کے آگے) جھکتے ہیں. اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر اور مومنوں سے دوستی کرے گا تو (وہ اللہ کی جماعت میں داخل ہوگا اور) اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے.‘‘

محولہ بالاآیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ جب تم اس معیار پر پورے اُ تر جاؤ گے کہ تمہاری ولایت‘ تمہارا دلی تعلق اللہ سے‘ اس کے رسول  سے اور اہل ایمان سے ہوگا‘ تو پھر ہی تم وہ حزب اللہ بن سکو گے‘ جو اللہ کے وعدے کے مطابق غالب آکر رہے گی.

تزکیہ و روحانی ترقی : ایک اسلامی جماعت کے لیے ان پانچ باتوں کے علاوہ چھٹی بات بھی درکار ہے اور وہ افراد کا تزکیہ نفس اور روحانی ترقی ہے. اس کے بغیر بھی ایک اسلامی جماعت انقلابی جماعت نہیں بنے گی.

تزکیۂ نفس کا مطلب کیا ہے؟ اپنے نفس کو پاک کرنا. لہذا انقلابی کارکنوں کا مقصود صرف 
اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح ہو‘ محض انقلاب برپا کردینا نہ ہو. اُن کے ذہنوں میں یہ بات بالکل واضح ہو کہ اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنا میرا فریضہ ہے. میں مسئول اور ذمہ دار ہوں. اس بارے میں اللہ کے ہاں مجھ سے سوال ہوگا. مجھ سے پوچھا جائے گا کہ تم نے باطل نظام کے ساتھ سازگاری کیوں اختیار کئے رکھی؟ اس نظام کے تحت کیوں پھل پھول رہے تھے؟ تم حزب اللہ میں شامل کیوں نہیں ہوئے‘ حزب الشیطان کا حصہ کیوں بنے رہے؟ وہ بات جو کبھی امریکی صدر بش یا پاول نے کہی تھی:
?You are with us or against us صرف اللہ کو کہنے کا حق ہے. یعنی ?You are with me or with Shatan (یعنی تم یا تو حزب اللہ میں ہو یا پھر حزب الشیطان میں ہو.) اگر فی الواقع میرے ساتھ ہو‘ حزب اللہ میں ہو تو پھر تمہیں نظام شیطانی سے بغاوت کرنا ہوگی. اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم حزب الشیطان کا حصہ ہو. بغاوت کا ایک ادنی ٰ مظہر یہ ہوگا کہ تمہیں غیر اسلامی نظام سے نفرت ہو‘ اُس سے کسی قسم کا تعاون نہ کرو‘ اُسے پروموٹ نہ کرو. اس نظام کے تحت پھلنے پھولنے کی کوشش نہ کرو. اس سے اگلا مرحلہ یہ ہوگا کہ زبان سے کہو کہ یہ نظام غلط ہے. اور اس سے اگلا مرحلہ یہ ہے کہ جب طاقت حاصل ہو جائے تو بزور قوت اس نظام کا قلع قمع اور خاتمہ کرو. یہی بات ایک حدیث میں آئی ہے. آپ نے فرمایا:

مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (۱
’’تم میں سے جو شخص برائی دیکھے اُسے چاہیے کہ اُسے ہاتھ سے روکے. اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر زبان سے روکے. اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے روکے (یعنی برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے.‘‘ 

فرد کی تبدیلی کے لیے قرآن حکیم کا پروگرام

اب آئیے‘ یہ دیکھیں کہ فرد کی تبدیلی کے لیے قرآن کا پروگرام کیا ہے؟ اگرچہ انقلاب جماعت کے ذریعے آئے گا مگر ظاہر ہے‘ جماعت افراد ہی سے بنے گی. لہذا انقلابی جدوجہد کا نقطہ آغاز انقلابی فرد کی تیاری ہے. فرد کی تبدیلی کے لیے ہم قرآن مجید کی جانب رجوع کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور  کے مقصدِ بعثت کے انقلابی پہلو کی (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب نہی عن المنکر من الایمان وضاحت کے لیے اگر تین بار ان الفاظِ مبارکہ کو دہرایا کہ: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ (التوبۃ:۳۳ الفتح:۲۸ الصف:۹’’یعنی وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول( ) کو ’الہدیٰ‘ اور ’دین حق‘ کے ساتھ تاکہ غالب کردے اُس کو پورے کے پورے دین پر!‘‘تو انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کی وضاحت کے لیے چار اہم اور بنیادی اصطلاحات کو پورے چار بار دہرایا یعنی: (۱)تلاوتِ آیات‘ (۲) تزکیہ نفوس‘ (۳) تعلیم کتاب اور (۴) تعلیم حکمت!
(۱)چنانچہ سب سے پہلے سورۃ البقرہ کے پندرہویں رکوع کے آخر میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی دعا میں یہ الفاظ وارد ہوئے:

رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۲۹﴾٪

’’اے رب ہمارے ہم دونوں کو بھی اپنا فرمانبردار بنائے رکھ اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی اُمت برپا کیجیے جو تیری فرمانبردار ہو. اور ہمیں تعلیم فرما ہماری عبادت کے طور طریقے. اور قبول فرما ہماری توبہ. یقینا تو توبہ قبول کرنے اور رحم فرمانے والا ہے. اور اے رب ہمارے تو مبعوث فرمائیو ان میں ان ہی میں سے ایک رسول جو اُن کو سنائے تیری آیتیں اور انہیں تعلیم دے کتاب اورحکمت کی اورتزکیہ کرے اُن کا.بے شک تو ہی ہے سب پر غالب اور کامل حکمت والا.‘‘
(۲)پھر تین ہی رکوعوں کے بعد‘ اٹھارہویں رکوع کے آخر میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ آنحضور کی بعثت دراصل اسی دعائے ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ 
عَلٰی نَبِـیِّنَا وَعَلَیْھِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ کا ظہور ہے‘ ان ہی چار اصطلاحات کو دہرایاگیا:

کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۵۱﴾ؕۛ (البقرۃ)

’’چنانچہ بھیج دیا ہے ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے‘ جو سناتا ہے تمہیں ہماری آیات اور تزکیہ کرتا ہے تمہارا اور تعلیم دیتا ہے تمہیں کتاب اور حکمت کی اور تعلیم دیتا ہے تمہیں ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں جانتے تھے.‘‘ (۳)اگلی سورت یعنی سورئہ آل عمران میں یہ مضمون مزید شان اور آن بان کے ساتھ وارد ہوتاہے:

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۶۴﴾ (آل عمران)

’’اللہ نے احسانِ عظیم فرمایا ہے اہل ایمان پر کہ اُٹھایا ان میں ایک رسول ان ہی میں کا جو سناتا ہے اُنہیں اُس کی آیات اور تزکیہ کرتا ہے ان کا اور تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب اور حکمت کی. اور یقینا وہ تھے اس سے قبل کھلی گمراہی میں!‘‘
(۴)آخری بار یہ مضمون اٹھائیسویں پارے میں سورۃ الجمعہ میں آتا ہے:

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲
’’وہی ہے (اللہ) جس نے اُٹھایا اُمّیوں میں ایک رسول ان ہی میں سے جو سناتا ہے انہیں اس کی آیات اور تزکیہ کرتا ہے ان کا اور تعلیم دیتا ہے ان کو کتاب اور حکمت کی. یقینا وہ تھے اس سے قبل کھلی گمراہی میں!‘‘

اور یہاں اس کی اہمیت اس اعتبار سے بہت بڑھ جاتی ہے کہ سورۃ الجمعہ سے متصلاً قبل ہے سورۃ الصف‘ جس کی مرکزی آیت وہی ہے جس میں آنحضور  کے مقصدِ بعثت کے انقلابی پہلو کو واضح کیا گیا ہے‘ یعنی اظہار دین حق. 

سورۃ الجمعہ اور سورۃ الصف کا آپس میں گہرا رشتہ ہے. ان دونوں سورتوں کے شروع میں تسبیح باری تعالیٰ کا ذکر آیا ہے. سورۃ الجمعہ میں مضارع (حال و مستقبل) کے صیغے میں فرمایا گیا: 
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾ اور سورۃ الصف میں ماضی کے صیغے میں فرمایا گیا: سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ پھر یہ کہ سورۃ الجمعہ کی مرکزی آیت ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ ... ہے اور سورۃ الصف کی مرکزی آیت ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ... ہے.

سورۃ الجمعہ کی پہلی آیت کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے چار اسماء 
وارد ہوئے ہیں اور یہ ایک غیرمعمولی بات ہے. قرآن مجید میں اللہ کے اسماء و صفات عام طور پر آیات کے آخر میں وارد ہوتے ہیں‘ لیکن اکثر و بیشتر جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں. مثلاً وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ‘ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ‘ وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ وقس علیٰ ذلک. لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اکٹھے چار اسماء وارد ہوئے ہیں. اس کا اصل سبب اس سورۂ مبارکہ کے عمود والی آیت ہے. اس آیت میں نبی اکرم  کے طریق کار کے ضمن میں چار اصطلاحات آئی ہیں‘ یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ کی چار شانوں کا ذکر ہے: تلاوتِ آیات تزکیہ‘ تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت. درحقیقت ان چاروں کا بڑا گہرا ربط ہے ان چار اسماء حسنیٰ کے ساتھ!… وہ ’’الملک‘‘ ہے. یعنی بادشاہِ ارض و سماوات ہے. چنانچہ اس کی آیات پڑھ کر سنائی جارہی ہیں‘ جیسے کوئی منادی کرنے والا شہنشاہ کے فرامین (proclamations) لوگوں کو سنا رہا ہو. گویا یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ عکس ہے اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی ’’اَلْمَلِکُ‘‘ کا. دوسری شان اللہ کی یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ ’’اَلْقُدُّوْسُ‘‘ ہے‘ یعنی انتہائی پاک. اللہ تعالیٰ کی شان قدوسیت کا بڑا گہرا تعلق ہے نبی اکرم کے بارے میں بیان کردہ دوسری اصطلاح وَ یُزَکِّیۡہِمۡ یعنی عمل تزکیہ کے ساتھ اسی طرح وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ (وہ تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب یعنی احکامِ شریعت کی) میں اللہ تعالیٰ کی شان ’’العزیز‘‘ کا عکس جھلکتا دکھائی دیتا ہے. وہ زبردست ہے‘ مختارِ مطلق ہے‘ وہ جو چاہے حکم دے. بندوں کا کام ہے اس کے احکام کی بے چون و چرا اطاعت!سورۃ التغابن میں یہ مضمون آچکا ہے: وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا ’’سنو اور اطاعت کرو‘‘. سورۃ البقرہ میں سود کے بارے میں فرمایا: وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا کان کھول کر سن لو! اللہ نے سود حرام کیا ہے اوربیع کو حلال ٹھہرایا ہے‘ تم کون ہوتے ہو اُس پر ا عتراض کرنے والے؟ یہ ہے ’’العزیز‘‘ کا مفہوم. یعنی ایک ایسی ہستی جس کے اختیارات پر کوئی تحدید نہ ہو‘ کوئی limitations نہ ہوں‘ کوئی checks and balances نہ ہوں‘ مختار مطلق! اور آخری اور چوتھا لفظ جو اللہ کی شان میں آیا ہے ’’الحکیم‘‘ ہے. اس کا ربط و تعلق گویا از خود ظاہر ہے نبی اکرم  کے فرائض چہارگانہ میں سے چوتھے کے ساتھ‘ جو درحقیقت نبی اکرم کے اساسی منہاج کا نقطۂ عروج ہے‘ یعنی تعلیم حکمت! غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی دعا میں تلاوت آیات کے فوراً بعد تعلیم کتاب و حکمت کا ذکر آیا ہے‘ تزکیہ کا ذکر آخر میں آیا ہے. باقی تینوں جگہوں پر پہلے تلاوت آیات‘ تزکیہ اور آخر میں کتاب و حکمت کی تعلیم کا ذکر کیا گیا ہے. اب فرق کیا ہے؟اس سے لطیف فرق یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد میں اعلیٰ قدر تزکیہ تھی‘ اب یہ حکمت ہے. کیونکہ تین جگہ اللہ تعالیٰ نے حکمت کا ذکر آخر میں فرمایا ہے. 

یہ بات بھی سمجھ لی جائے کہ یہ چاروں اصطلاحات جن میں ہمارے مفسرین نے مغائرت پیدا کی ہے دراصل ایک ہی شے ہے. ان چاروں کا مرکز و محور قرآن ہے. یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس سے مراد آیات قرآنی کی تلاوت ہے. وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ تعلیم کتاب سے مراد بھی قرآن حکیم کی تعلیم ہے. اس میں بھی کوئی شک اور اختلاف نہیں. تزکیہ اور حکمت بھی قرآن سے باہر کی شے نہیں ہے. اللہ نے فرمایا: ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ (بنی اسرائیل:۳۹’’‘(اے پیغمبرؐ ) یہ ان (ہدایتوں) میں سے ہیں جو اللہ نے دانائی کی باتیں تمہاری طرف وحی کی ہیں.‘‘ کتاب قرآن میں بھی ہے اور حدیث نبویؐ میں بھی ہے. اِس سے مراد قانون ہے (تفصیل بعد میں بیان ہوگی). اسی طرح حکمت قرآن میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ہے. اور تزکیہ exclusively قرآن کی شے ہے. پس حضور کا آلۂ انقلاب قرآن ہے. آپؐ نے اسی کے ذریعے افراد کی سیرت و کردار میں انقلاب برپا کیا. بقول الطاف حسین حالی ؎

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا 
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

آئیے‘ انقلابِ نبوی کے اساسی منہاج کے حوالے سے اِن چار اصطلاحات کا تفصیل سے مطالعہ کریں. 
تلاوت آیات:آپؐ لوگوں پر آیات قرآنی کی تلاوت فرماتے تھے. حضور نے کبھی کوئی طویل تقریر نہیں کی. کبھی کوئی اپنا فلسفہ بیان نہیں کیا. کبھی کوئی لمبا چوڑا وعظ نہیں فرمایا. ایسا ہوا ہے تو بہت کم ہوا ہے. آپؐ لوگوں کو اکثر قرآن سناتے تھے. اس لیے کہ یہی قرآن مردانِ کار کی تلاش اور فراہمی کا ذریعہ ہے. یہ روح انسانی کے لیے مقناطیس ہے. اگر قرآن سرسری طور پر بھی سنایا جائے تو جس شخص کی فطرت مسخ نہ ہوگئی ہو وہ اس میں کشش محسوس کرے گا. وجہ کیا ہے؟ قرآن اور روح دونوں کا ذریعہ ایک ہے. ہماری روح بھی اللہ کی طرف سے آئی اور قرآن بھی اللہ کی طرف سے آیا ؏از کجا می آید ایں آوازِ دوست؟ (میرے دوست کی آواز 
کہاں سے آرہی ہے) ہاں جن لوگوں کی روح مرچکی ہے‘ جن کے جسم چلتے پھرتے مقبرے بن چکے ہیں اور روح اُن کے اندر دفن ہو چکی ہے‘ ان پر قرآن کا بھی اثر نہیں ہوگا. جیسے ابوجہل پر اس کا اثر نہیں ہوا ؎ 

مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے 
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے 

قرآن کو ایک مقناطیس کی حیثیت حاصل ہے. یہ سلیم الفطرت لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے. یہ ایسے ہی ہے جیسے لکڑی کے برادے میں سے لوہ چون کو مقناطیس اپنی جانب کھینچ کر الگ کردیتا ہے. قرآن مجید کی تاثیر کا یہ عالم ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے قرآن سنا تو وہ لوگ نہ صرف فوراً ایمان لے آئے بلکہ قرآن کے داعی بن گئے. اس کا ذکر سورۃ الجن میں بایں الفاظ آیا ہے:

قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ 
’’(اے پیغمبر  لوگوں سے) کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو) سنا تو کہنے لگے ہم نے ایک عجیب قرآن سنا‘ جو بھلائی کا راستہ بتاتا ہے‘ سو ہم اس پر ایمان لے آئے.‘‘

یہ بات بھی یاد رہے کہ قرآن کتاب ہدایت ہے اور اس کا اساسی مفہوم اور پیغامِ ہدایت اس کی اوپری سطح پر موجود ہے. اس کا جوہر اس کی بالائی سطح پر ہے. جیسے اگر سمندر میں کوئی آئل ٹینکرڈوب جائے تو اس میں سے جو تیل نکلے گا وہ ظاہر ہے‘ سطح آب پر ہی رہے گا‘ نیچے نہیں جائے گا. ہدایت و یاددہانی کے مقصد کے لیے قرآن حکیم کو آسان بنایا گیا ہے‘ جیسا کہ فرمایا: 

وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ (القمر) 
’’اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟‘‘

ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن کو مقناطیس کے سے انداز میں معاشرے میں بڑے پیمانے پر گھمایا پھرایا جائے‘ تاکہ سلیم الفطرت لوگ اس کی جانب کھنچے چلے آئیں.

تزکیہ:نبی کریم  کے فرائض چہارگانہ میں دوسرا فریضہ تزکیہ ہے. جس کے لیے یہاں الفاظ 
وَ یُزَکِّیۡہِمۡ آئے ہیں. تزکیہ کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس مرحلے پر اسے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے. تزکیہ کے لفظی معنی پاک کرنا ہیں. یہ ایک باغبان کا فعل ہے. ایک باغبان اپنا باغ لگاتا ہے. اس میں پھل دار درخت اور پھولوں والے پودے ہوتے ہیں‘ لیکن ان کے ساتھ ساتھ کچھ گھاس پھوس اور جھاڑ جھنکار بھی اُگ آتی ہے جو زمین کی ساری قوت نمو اور پانی کو جذب کرلیتی ہے. اگر یہ قوت نمو اور پانی پھل دار درخت اور پھولوں کے پودے حاصل کریں تو اُن کی بڑھوتری اور نشوونما زیادہ بہتر ہو. لہذا باغبان اس گھاس پھوس اور جھاڑ جھنکار کو نکال باہر کرتا ہے‘ تاکہ اُس کے لگائے درخت اور پودوں کی نشونما میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں. یہی معاملہ انسان کا ہے. انسان کی شخصیت کا ہیولہ دو چیزوں سے تیار ہوتا ہے. ایک اُس کا ظاہری جسم اوروجود ہے اور دوسرا اُس کا معنوی وجود ہے. انسان کے معنوی وجود کی نشوونما اور ترقی میں بہت سی چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں. تزکیہ یہ ہے کہ اُن رکاوٹوں کو دور کردیا جائے‘ تاکہ اُس کی نشوونما صحیح طور سے ہوسکے. 

قرآن حکیم نے ’’تزکیہ‘‘ کا لفظ چار معنی میں استعمال کیا ہے. سب سے پہلی چیز تطہیر فکر ہے. یعنی انسان کی فکر میں جو غلط چیزیں‘ غلط خیالات‘ غلط عقائد‘ غلط فلسفے وغیرہ ہوتے ہیں‘ اُن کو نکال باہر کرنا. دوسری چیز تزکیہ نفس ہے. نفس پر حیوانی جبلتیں غالب آجاتی ہیں. نفس کو اس طور سے پاک کرنا کہ وہ ان جبلتوں پر قابو پالے‘ یہ اُس کا تزکیہ ہے. تیسری چیز تصفیۂ قلب ہے. قلب انسانی آئینہ کی مانند صاف ہوتا ہے‘ مگر اس پر غبار آجاتا ہے. اس غبار کو ہٹاکر قلب کو صاف کرنا‘ یہ بھی تزکیہ کے ذیل میں آتا ہے. نبی اکرم نے فرمایا: ’’دلوں (کے آئینے) پر بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسے کہ لوہے پر زنگ لگ جاتا ہے‘‘. پوچھا گیا یارسول اللہ  ! اس کی جِلا کیا ہے؟ فرمایا: ’’موت کا کثرت سے ذکر اور تلاوت قرآن‘‘. چوتھی چیز تجلیۂ روح ہے. ہماری ارواح ہمارے جسمانی وجود سے بہت پہلے عالم ارواح میں پیدا کی گئیں. روح بھی غلط اثرات سے مضمحل ہو جاتی ہے‘ اِسے جِلا دینا‘ اس روشنی کو بھڑکانا بھی تزکیہ ہے. قرآن مجید 
شفاء لما فی الصدور ہے. سورۂ یونس آیت ۵۷ میں وہ خود کہتا ہے: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ 
’’لوگو! تمہارے پاس آگئی ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا.‘‘

قرآن موعظہ اور وعظ ہے جو دل کی کھیتی کو نرم کرتا ہے. آپ زمین کو ہل چلا کر پہلے نرم کرتے ہیں‘ پھر بیج ڈالتے ہیں‘ تب ہی اُس میں فصل اُگتی ہے. اگر زمین کو نرم کیے بغیر بیج ڈال دیں گے تو وہ ضائع ہوجائے گا. اسی طرح ضروری ہے کہ پہلے موعظہ سے دل کو نرم کیا جائے‘ اور 
جب نرم ہوجائے تو اس میں قرآن کا بیج ڈالا جائے. پھر ہی وہ سینوں میں جو حب الدنیا‘ حب مال ہے اور حب شھٰوٰت کے روگ ہیں‘ اُن کے لیے شفا بنے گا. قرآن سے یہ ساری چیزیں اندر سے نکلیں گی اور باطن کی صفائی ہوگی‘ اِسی کا نام تزکیہ ہے. سورۂ بنی اسرائیل میں بھی فرمایا گیا: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ (آیت:۸۲’’اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے.‘‘
تزکیہ کے لیے قرآن حکیم ہی عظیم ترین شے ہے‘ اِسی قرآن کے ذریعے اندر کے روگوں کا علاج ہوسکتا ہے. یہی اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتا ہے. قرآن حکیم تزکیہ کا جو نسخہ بتاتا ہے وہ چار چیزوں پر مشتمل ہے: (۱) قرآن اور نماز‘ (۲) صلوٰ ۃ تہجد‘ قیام اللیل‘(۳) روزہ‘ (۴) انفاق فی سبیل اللہ. اگر قرآن مجید کو تزکیہ کا مرکز و محور بنایا جائے گا تو یہ آپ کے ذہن سے اُتر کر قلب سے ہوتے ہوئے آپ کے پورے وجود کو دھوکر صاف کردے گا. 

بدقسمتی سے تزکیۂ نفس کے ضمن میں ہمارے صوفیاء نے جو مختلف طریقے اختیار کیے ہیں وہ نبویؐ طریق سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے. ہماری ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ دورِصحابہؓ کے بعد ہمارے ہاں اس وحدتِ فکر و عمل میں بتدریج زوال آتا چلا گیا جو دورِ خلافت راشدہ کا طرۂ امتیاز تھی. کچھ لوگ قانون اور فقہ کے ماہر بن گئے اور کچھ نے تزکیۂ نفس کے میدان کو اختیار کرلیا. اس طرح مختلف گوشوں میں یہ تمام امور بڑھتے چلے گئے اور ہر گوشہ اپنے ہی انداز میں ترقی کرتا اور پروان چڑھتا رہا. اس طرح وہ وحدت فکر و عمل جو قرآن مجید نے عطا کی تھی‘ مجروح ہوئی. چنانچہ تزکیۂ نفس کے معاملہ میں نہ معلوم کہاں سے یہ نظریات لیے گئے اور کہاں سے یہ نفسیاتی ریاضتیں او رمشقتیں اخذ کی گئیں کہ جن کے ذریعے سے تصفیۂ باطن ‘ تزکیۂ نفس اور تربیت روحانی کی کوشش کی جاتی ہے. اس ضمن میں واقعہ یہ ہے کہ میں گہرے احساس کے ساتھ اور علیٰ وجہ البصیرت یہ عرض کررہا ہوں کہ اس میدان میں طریق نبویؐ سے کچھ زیادہ ہی دوری ہوتی چلی گئی. نبی اکرم  کا طریقۂ تربیت اور اسلوبِ تزکیہ اس سے بہت مختلف تھا. نبی اکرم نے تزکیۂ نفس کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا تھا وہ یہی تھا کہ پہلے اس قرآن کے ذریعے سے فکر کی تطہیر کی جائے‘ نقطۂ نظر اور سوچ کی اصلاح کی جائے‘ نتیجتاً غلط اعمال پت جھڑ کی طرح از خود جھڑ جائیں گے یا جیسے اس درخت کے پتے سوکھ کر جھڑ جاتے ہیں جس کی جڑ کاٹ دی گئی ہو. یہ ہے تزکیہ کا عمل. قرآن مجید ہی درحقیقت اس عمل تزکیہ کا محور ہے. ’’ تلاوتِ آیات‘‘ کی طرح تزکیہ کی اساس اور بنیاد بھی یہی قرآن ہے. افسوس یہ ہے کہ 
اس معاملے میں جو طریقے اختیار کیے گئے ان میں بالعموم قرآن حکیم کو نظر انداز کردیا گیا. علامہ اقبال نے اس تلخ حقیقت کی جانب اپنے اشعار میں بڑی خوبصورتی سے اشارہ کیا ہے: 

صوفی پشمینہ پوشِ حال مست
از شراب نغمۂ قوّال مست
آتش از شعر عراقی در دِلش
در نمی سازد بقرآں محفلش

صوفیوں کا بالعموم حال یہ ہوگیا کہ عراقی یا اس قبیل کے دیگر شعراء کے اشعار سے تو ان کے دلوں میں حرارت پیدا ہوجاتی ہے لیکن قرآن کو سن کر اُن کی آنکھیں پُرنم نہیں ہوتیں. اس لیے کہ تلاوتِ قرآن کے ذریعے سے اندرونی کثافتوں اور کدورتوں کی صفائی کرنے کا جو طریقہ تھا محمد رسول اللہ  کا وہ متروک ہوتا چلا گیا اور تزکیہ کا عمل جو درحقیقت براہِ راست نتیجہ تھا یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ کا اسے اس کی اصل سے کاٹ دیا گیا. علامہ اقبال نے بعض حقائق کی تعبیر بڑی خوبصورتی سے کی ہے وہ کہتے ہیں:

کُشتنِ ابلیس کارے مشکل است
زاں کہ اُو گم اندر اعماقِ دل است

’’ابلیس کو قتل کردینا اور اس کو بالکل ختم کردینا بڑا مشکل کام ہے‘ اس لیے کہ وہ تو لوگوں کے وجود کے اندر سرایت کرجاتا ہے‘ دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے. یہ درحقیقت اس حدیث ِنبویؐ کا ترجمہ یا ترجمانی ہے کہ جس میں حضور نے فرمایا:

اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (۱)

’’بے شک شیطان تو انسان کے وجود کے اندر اس طرح جاری وساری ہوجاتا ہے جیسے (اس کی رگوں میں) خون دوڑتا ہے.‘‘

اس کے بعد علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎

خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتۂ شمشیرِ قرآنش کنی

اس شعر کے پہلے مصرعے میں بھی درحقیقت ایک حدیث کی طرف اشارہ ہے. ایک مرتبہ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتکاف‘ باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد. حضور نے فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے. اس پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے واقعتاً کسی نے بڑی ہمت کرکے سوال کیا کہ حضور کیا آپؐ کے ساتھ بھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ہے‘ لیکن میں نے اسے مسلمان کرلیا ہے . (۱علامہ اقبال نے اسی حدیث کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ ؏ خوشتر آں باشد مسلمانش کنی. یعنی بہتر یہ ہے کہ تم اس شیطان کو مسلمان کرلو! لیکن اس کا طریقہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ ؏ کشتہ شمشیر قرآنش کنی! اسے قرآن کی شمشیر سے قتل کرو. تمہارے اندر اگر غلط خیالات‘ غلط رجحانات‘ غلط جذبات اور غلط شہوات پیدا ہورہی ہیں تو یہ درحقیقت تمہاری غلط سوچ اور فکر اور تمہارے نقطۂ نظر کے کج ہو جانے کا نتیجہ ہے. یہ قرآن ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمہاری سوچ کو صحیح کرے گا‘ تمہارے نقطۂ نظر کو درست کرے گا‘ اور تمہارے نظامِ اقدار(Values system) کو صحیح بنیادوں پر استوار کرے گا. یہ ہے وہ طریقہ کہ جس سے تمہاری شخصیت میں بھی انقلاب آئے گا اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ غلط عادات اور غلط افکار کے دھبے تمہاری شخصیت سے خودبخود دور ہوتے چلے جائیں گے اور باطن کے اس انقلاب کے بعد ہی تم اس قابل ہوسکو گے کہ خارج میں بھی انقلاب برپا کرسکو! 

نبی اکرم کے اس انقلابی عمل میں قرآن حکیم کو جو اہمیت حاصل ہے اور جس کو بڑے ہی اجمال کے ساتھ مولانا حالی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ؎

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں اس حقیقت کو علامہ اقبال مرحوم نے کماحقہ سمجھا ہے اور اس کا ادراک کیا ہے. چنانچہ قرآن مجید کی عظمت کا بیان جس طرح ہمیں ان کے ہاں ملتا ہے‘ وہ اس دور کے کسی اور شخص کے ہاں نہیں ملتا. اس ضمن میں ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے ؎

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم 
حکمتِ او لا یزال است و قدیم
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب صفات المنافقین ‘ باب فتنۃ الشیطان فی العرب من التحریش.
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثلِ حق پنہاں و ہم پیداست ایں
زندہ و پائندہ و گویاست ایں
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود

ان اشعار میں سے آخری شعر میں علامہ اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ جب یہ قرآن کسی کے باطن میں سرایت کرجاتا ہے تو اس کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے‘ اس کے اندر ایک عظیم انقلاب آجاتا ہے‘ اس کی سوچ‘ اس کا فکر اور اس کے نظریات بدل جاتے ہیں‘ اس کی اقدار‘ اس کا نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ تبدیل ہو جاتا ہے. اب گویا کہ وہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا انسان ہے اور اس کے اندر سے جو یہ تبدیلی ابھری ہے‘ یہی درحقیقت صحیح طور پر خارج میں ایک تبدیلی برپا کرے گی اور اس طرح تمام غلط رویے اور تمام غلط اعمال خود بخود ختم ہوتے چلے جائیں گے‘ کیونکہ اندر سے ان کو غذا دینے والی جڑیں اب کاٹی جاچکی ہیں. 

یہ بات بھی واضح ہو کہ اتباع شریعت کے لیے تزکیہ نہایت ضروری ہے. اگر تزکیہ نہیں ہوگا تو احکام شریعت کی پیروی پر آمادگی نہ ہوگی. آپ اپنے بیٹے کو نماز پڑھنے کا کہتے ہیں. اگر اس کا تزکیہ نہیں ہوا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھے گا. اگر وہ سعادت مند ہے تو آپ کے سامنے پڑھ بھی لے تو آپ کی عدم موجودگی میں نہیں پڑھے گا. سبب کیا ہے؟ اُسے آپ نماز پڑھوانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ اسے خدا پر یقین نہیں ہے. آپ نے اُسے جہاں پڑھایا ہے وہاں سے اُسے بے یقینی اور تشکیک کے جراثیم منتقل ہوئے ہیں ؎

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ

پہلے اُس کی فکر کی تطہیر کرو‘ تب اندر سے نماز ابھرے گی. جب اُس کے دل میں یقین ہی نہیں تو وہ عمل پر کیسے آمادہ ہوگا. جب فکر کی تطہیر ہوتی ہے تب اندر سے خودبخود شریعت کی طلب اُبھرنے لگتی ہے. پھر انسان اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ میرا کوئی قدم راہ شریعت سے ہٹنے نہ پائے. وہ حکم شریعت معلوم کرتا ہے‘ تاکہ اُس پر چلے. قرآن مجید میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں آتا ہے کہ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ (آیت ۱۸۹[(اے محمدؐ ) تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے)] یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ (آیت ۲۱۵[(اے محمدؐ ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کس طرح کا مال خرچ کریں.] یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الشَّہۡرِ الۡحَرَامِ قِتَالٍ فِیۡہِ ؕ (آیت ۲۱۷[(اے محمدؐ ) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں.] یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ (آیت ۲۱۹[(اے پیغمبرؐ ) تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں.] وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡیَتٰمٰی ؕ (آیت ۲۲۰(اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں) وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ ؕ (آیت ۲۲۲(اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں.) ( البقرہ) یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَہُمۡ ؕ (المائدہ:۴(تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں.) یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ (الانفال:۱[(اے محمدؐ مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں.] صحابہ نبی  سے یہ سوالات کیوں پوچھتے تھے؟ اس لیے کہ تزکیہ نفس کے بعد اُن کے اندر اتباع شریعت کی سچی طلب پیدا ہوگئی تھی اور اتباع کے لیے راستہ معلوم ہونا ضروری ہے. 

تعلیم کتاب:تلاوت آیات اور تزکیہ نفوس کے بعد تیسرا مرحلہ ’’تعلیم کتاب‘‘ کا ہے. چنانچہ آگے فرمایا:

وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ 
’’اور وہ تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب کی.‘‘

جیسا کہ آغاز میں واضح کیا جاچکا ہے کہ ’’تلاوتِ آیات‘‘ میں بھی پیش نظر قرآن ہے. لیکن یہاں پھر جو کتاب کا لفظ آیا ہے تو اس میں یقینا قرآن مجید کا کوئی دوسرا پہلو پیش نظر ہے. اس طرح مختلف الفاظ سے قرآن مجید ہی کے مختلف گوشوں یا مختلف پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے. اس اصول کی روشنی میں غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید میں لفظ ’’کتاب‘‘ بالعموم قانون کے لیے آتا ہے‘ مثلا کسی چیز کے وجوب اور فرضیت کا بیان 
’’کُتِبَ‘‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے. جیسے فرمایا گیا: کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ ’’تم پر روزہ رکھنا فرض کردیا گیا.‘‘ کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ ’’تم پر قتال فرض کردیا گیا.‘‘ ایسے ہی وصیت کے وجوب کے بارے میں جو ابتدائی حکم تھا اس کے الفاظ ہیں: کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ... ’’تم پر واجب کردیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آموجودہو اور اگر وہ کچھ مال چھوڑ کر جار رہا ہو تو والدین اور رشتے داروں کے لیے وصیت کرجائے!‘‘ کہیں آتا ہے: حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡکِتٰبُ اَجَلَہٗ ؕ ’’یہاں تک کہ قانون اپنی اصل مدت کو پہنچ جائے.‘‘ تو لفظ ’’ کتاب‘‘ کا اطلاق اس کی پوری ہمہ گیریت کے ساتھ پورے قرآن مجید پر بھی ہوگا. لیکن جب قرآن کے مختلف پہلوؤ ں کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے جارہے ہوں تو ’’کتاب‘‘ سے مراد قوانین اور احکام ہوں گے. چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کی وضاحت کے لیے مختلف الفاظ آرہے ہیں. سب سے پہلے فرمایا: یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ اور یہاں ’’ تلاوت آیات‘‘ سے مراد لازمی طور پر قرآن حکیم ہی کی آیات کی تلاوت ہے. اس کے بعد وَ یُزَکِّیۡہِمۡ کے الفاظ میں تزکیۂ نفوس کا ذکر کیا گیا ہے جو اسی کا ایک منطقی نتیجہ ہے. پھر وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ میں جو لفظ ’’کتاب‘‘ دوبارہ آیاہے تو واقعہ یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد احکامِ شریعت (Dos and Don'ts) ہیں‘ یعنی یہ کرو اور یہ نہ کرو! یہ حلال ہے اور یہ حرام!

حلال و حرام کے احکام دینے میں یہ تدریج اور ترتیب برقرار رکھی گئی ہے کہ انہیں قلوب و اذہان کو بدلے بغیر نافذ نہیں کیا گیا. جب ذہن و فکر کی تبدیلی عمل میں آچکی‘ دلوں کی دنیا میں ایمان جاگزیں اور راسخ ہو چکا اور بنیادی طور پر بُرے کردار اور بُرے اخلاق سے انسان کا دامن صاف ہوچکا تو اب یوں سمجھئے کہ گویا زمین میں ہل چل چکا ہے اور وہ بیج ڈالے جانے کے لیے پوری طرح تیار ہے. اب بیج ڈالیں گے تو وہ بیج بار آور ہوگا‘ نتیجہ خیز ہوگا. زمین کو تیار کیے بغیر بیج ڈال دیا جائے تو بیج ضائع ہو جائے گا. چنانچہ جب 
یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ کا عمل کیا جاچکا اور تزکیے کے بنیادی تقاضے پورے ہوچکے‘ تب کہا گیا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو! اور اس وقت ہر حکم کو پوری خوشدلی کے ساتھ قبول کیا گیا. غور کیجیے‘ قرآن میں پہلے ہی حلال اور حرام کے احکام کیوں نہیں آگئے اور ان کا نزول اتنی دیر کے بعد کیوں ہوا؟ یا پورا قرآن یک دم کیوں نازل نہیں کردیا گیا؟ اس کی وجہ یہی حکمت تدریج ہے. پہلے وہ آیات اور سورتیں اتریں جنہوں نے قلوب و اذہان کی دنیا میں ہل چلایا اور اس میں سے کثافتوں کو نکال کر باہر پھینک دیا‘ ایمان کی بنیادوں کو استوار کیا‘ نتیجتاً بنیادی انسانی اخلاق پروان چڑھے اور گندگیوں سے سیرتیں پاک ہوگئیں. اس طرح جب یہ زمین پوری طرح تیار ہوگئی تو اس میں بیج ڈالا گیا اور یہ بیج 
خوب بار آور ہوا. یہ ہے وہ حکمت اور تدریج کہ جو قرآن مجید نے اپنے نزول میں ملحوظ رکھی‘ یا صحیح تر الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ قرآن کے نازل کرنے والے نے اس کے نازل کرنے میں پیش نظر رکھی اور اسی حکمت اور اسی تدریج کے ساتھ محمد رسول اللہ  نے انقلاب برپا کیا. یہ اسی کا مظہر ہے کہ ذہنی وقلبی تربیت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوجو بھی حکم دیا گیا وہ انہوں نے بلاتامل قبول کیا. انہیں جس چیز کے چھوڑنے کو کہا گیا وہ انہوں نے فورا ترک کردی. 

تعلیم حکمت:انقلاب نبوی کے اساسی منہاج کا آخری مرحلہ ’’تعلیم حکمت‘‘ کا ہے. جیسا کہ فرمایا گیا: 
وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ’’حکمت‘‘ کا لفظ سہ حرفی مادہ ح ک م ہے. عربی میں ’’ح ک م‘‘ کا مادہ بنیادی طور پر کسی شے کی پختگی اور استحکام کے لیے آتا ہے. حکمت دراصل انسانی عقل اور شعور کی پختگی ہے. انسان کے اندر غوروفکر کی جو استعداد ہے‘ اس کا پختہ (mature) ہوجانا اور اس میں اصابت رائے کی صلاحیت پیدا ہوجانا حکمت ہے اور یہ انسان کی صلاحیتوں میں بلند ترین چیز ہے. عام تعلیمی نظام میں بھی تربیت انسانی کے نقطۂ نظر سے یہ تدریج ملحوظ رکھی جاتی ہے کہ کسی بچے کو آپ پہلے تاریخ کے واقعات کا مطالعہ کروائیں گے اور اس کو یاد کروائیں گے کہ فلاں فلاں واقعات کب اور کیسے ہوئے. اس کے بعد پھر ایک مرحلہ ’’فلسفۂ تاریخ‘‘ کا آتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ فلاں قوم کو شکست کیو ں ہوئی‘ فلاں تہذیب کو عروج کیوں حاصل ہوا اور فلاں تمدن زوال پذیر کیوں ہوا؟ وغیرہ. اسی طرح آپ جغرافیہ میں پہلے یہ پڑھائیں گے کہ فلاں ملک کی آب و ہوا کیا ہے‘ وہاں کی زرعی پیداوار کیا ہے اور وہاں کون کون سے معدنی ذخائر پائے جاتے ہیں. لیکن اس کے بعد پھر طبعی جغرافیہ (Physical Geography) میں یہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ یہ تغیر و تبدل کیوں ہے؟ یہ موسم اس طرح کیوں بدلتے ہیں؟ فلاں جگہ یہ چیز کیوں پیدا ہورہی ہے؟ اور فلاں خطے میں یہ معدنیات کیوں پائی جاتی ہے؟ تو درحقیقت یہ ’’کیوں اور کیسے؟‘‘ ہر گوشۂ علم میں چوٹی کی چیز ہے. اسی طرح دین کا معاملہ ہے. انسانی ذہن اور شعور تربیت پاکر وہ پختگی حاصل کرلیں کہ انسان دین کے ’’کیوں اور کیسے‘‘ کو سمجھ سکے تو یہ ’’حکمت‘‘ ہے. فاتح دورِ حاضر امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’حُجَّۃُ اللّٰہِ البالغِۃ‘‘ کا موضوع یہی حکمت دین ہے کہ احکامِ شریعت میں کیا حکمتیں ہیں‘ ان کے کیا مقاصد ہیں.

دین پر عمل کا ایک درجہ تو یہ ہے کہ ہر مسلمان کو شریعت کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنی 
ہے.’’سمع و طاعت‘‘ اس کے ایمان کا تقاضا ہے. لیکن اس سے بلند تر سطح یہ ہے کہ وہ بصیرت باطنی اورenlightment پیدا ہو جائے کہ جس سے نظر آنے لگے کہ یہ حکم کیوں دیا جارہا ہے‘ اس کی حکمتیں کیا ہیں‘ اس کی غرض کیا ہے‘ اس کی علت کیا ہے‘ اس کی مصلحتیں کیا ہیں! انسان کے اپنے مفاد میں اور نظام اجتماعی کے مصالح کے اعتبار سے دین کے ان احکام کی کیا اہمیت اورکیا مقام ومرتبہ ہے. اس مرحلے پر پہنچ کر یہ حکم بوجھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ ایک نعمت معلوم ہونے لگتا ہے. تب شریعت کے اوامرو نواہی طبیعت کے لیے کسی ناگوار کیفیت کے حامل نہیں رہ جاتے‘ بلکہ ا ن کے اندر ا للہ کے ا نعام و ا حسان ہونے کا پہلو نمایاں ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں شریعت کو نعمت سے تعبیر فرمایا گیا ہے: اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ ... یعنی یہ اللہ کا انعام ہے کہ اُس نے تمہیں تمام پیچیدہ اور پُر پیچ راہوں میں ایک درمیانی راہ ’’صراط مستقیم‘‘ عطا فرمادی اور ایک متوازن اور معتدل نظام تمہیں عطا فرمایا. یہ سراسر انعام خداوندی ہے‘ اور اس نعمت کا اتمام ہوا ہے محمد رسول اللہ  پر. سورۃ البقرہ میں اس ’’حکمت‘‘ کے بارے میں فرمایا گیا: وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ ’’اور جس کو حکمت عطا کردی گئی اسے تو خیر کثیر سے نواز دیا گیا.‘‘ اور واقعہ یہ ہے کہ یہ حکمت اللہ کی بہت بڑی دولت ہے اور اللہ کا اُس شخص پر بہت ہی بڑا احسان ہے جسے اُس نے حکمت سے نوازا ہو. علامہ اقبال نے اسے ’’اسرارِ دین‘‘ سے تعبیر کیا ہے. فرماتے ہیں ؎ 

اے کہ می نازی بہ قرآنِ حکیم
تا کجا در حجرہ ہا باشی مقیم
در جہاں اسرارِ دیں را فاش کن!
نکتہ شرعِ مبیں را فاش کن!

تو حکمت دین کی تعلیم اور اس کا عام کیا جانا انقلاب نبوی کے اساسی منہاج کی چوٹی کا معاملہ ہے. گویا یہ اس کا مرتبۂ کمال اور نقطہ ٔ عروج ہے. قبل ازیں اشارہ کیا جاچکا ہے کہ عہد نبویؐ سے پہلے انسان اپنے شعور کی منزلیں طے کررہا تھا. لہذا پہلی امتوں کو حکمت نہیں دی گئی. وہاں صرف احکام ہی احکام تھے. تورات میں سب سے اہم چیز ہی وہ احکام ہیں جنہیں احکام عشرہ کہا جاتا ہے. تورات صرف احکام پر مشتمل تھی. انجیل میں پہلی مرتبہ حکمت کا ذکر آتا ہے. لیکن یہ بھی ابتدائی درجے میں تھی. قرآن میں آیات بھی ہیں‘ تزکیہ کا عمل بھی ہے‘ قانون بھی ہے اور حکمت بھی ہے. امام شافعیؒکے نزدیک اس سے مراد سنت ہے. حکمت قرآن سے باہر کی شے نہیں ہے‘ بلکہ اس کا جزو لاینفک ہے. سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا: ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ (آیت:۳۹یعنی ’’اے نبی‘ یہ ہیں وہ باتیں جو حکمت کی قبیل سے آپ کے رب نے آپ پر وحی کی ہیں.‘‘

وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ 
’’اور جس کو دانائی ملی بے شک اس کو بڑی نعمت ملی.‘‘

حکمت قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی. حکمت کے نادر موتی آپ کو حدیثوں میں بکثرت ملیں گے‘ اور بسا اوقات یہ ضعیف حدیثوں میں زیادہ ملتے ہیں. اگرچہ علماء کے ہاں یہ طے ہے کہ ضعیف حدیث سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا. لیکن اس میں جو علم و حکمت ہو وہ حاصل کیا جاسکتا ہے‘ جو قرآن کے منافی نہ ہو. 

حکمت دو طرح کی ہے. ایک حکمت اصولی یا حکمت ایمانی ہے. یہ ایمان کی میٹا فزکس‘ ایمان کے فلسفہ اور اس کے اجزاء کے باہمی ربط کو اُس کی گہرائیوں میں اُتر کر سمجھنا ہے. یہ جاننا کہ ایمان باللہ خالصتاً صرف فطرت کی آواز ہے‘ البتہ ایمان بالآخرت میں فطرت کے ساتھ منطق بھی لگے گی. اور قرآن مجید کے حوالے سے آپ کو یہ ساری چیزیں ایک عقلی اور حکیمانہ نظام کے ساتھ پیش کرنی ہوں گی. مولانا روم نے کہا تھا ؎

چند خوانی حکمت یونانیاں 
حکمت قرآنیاں را ہم بخواں!

ارسطو کی منطق‘ ابن رشد کے ذریعے سے ترجمہ ہوکر ہمارے پاس پہنچ گئی. ابن سینا‘ فارابی‘ کندی یہ سب ان کے غلام اس کی شرحیں لکھتے رہے. مولانا روم کہتے ہیں کہ کب تک یونانیوں کی حکمت پڑھتے رہو گے. قرآن کی حکمت سیکھو‘ اِس کو حکمت کا ذریعہ بناؤ. 

دوسری حکمت تشریعی یا حکمت تفصیلی ہے. اسی کا دوسرا نام حکمت فروعی‘ یعنی حکمت احکام بھی ہے. اس کا تعلق احکامات کی علت کے فہم سے ہے. اللہ نے ایک حکم دیا ہے‘ تو یہ حکم کیوں دیا؟ فلاں چیز اُس نے کیوں فرض کی ہے؟ اللہ تعالیٰ الحکیم ہے. کسی حکیم ہستی کا کوئی بھی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوسکتا. تو اللہ نے جو حکم دیا ہے وہ یقینا مبنی برحکمت ہے‘ مگر یہ حکمت کیا ہے. اگر آپ اُس کی حکمت سمجھ لیں گے تو اس پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا. حکم تو آپ کو ماننا 
ہے خواہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے. جب آپ مومن ہیں‘ آپ نے اللہ کو مانا ہے تو اس کا حکم بھی ماننا پڑے گا. لیکن اگر اس کی حکمت سمجھ میں آجائے‘ تو اس حکم پر عمل کے لیے آپ کا سینہ کھل جائے گا. اس کو قبول کرنے کے لیے ذہن بیدار ہو جائے گا. طبیعت میں آمادگی پیدا ہو جائے گی. اسلام میں کچھ احکام ہیں. یہ کرو‘ یہ نہ کرو‘ اور کچھ چیزوں سے روکا گیا ہے. یہ اوامر و نواہی یونہی نہیں دے دیئے گئے بلکہ یہ حکیمانہ ہیں. خدا کے بندو جس چیز سے تمہیں روکا گیا ہے. تمہارے بھلے کو روکا گیا ہے‘ اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے. فرض کریں‘ آپ مری جارہے ہیں. آپ سڑک پر سے پہاڑی پر چڑھتے ہیں تو آپ کو جگہ جگہ سگنل دکھائی دیتے ہیں‘ جن میں آپ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اپنی رفتار کم کرو‘ آگے موڑ آرہا ہے. ظاہر ہے‘ آپ ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں. آپ یہ نہیں کہتے کہ ہمیں تیز رفتاری سے کوئی نہیں روک سکتا‘ ہم اپنی مرضی سے ڈرائیو کریں گے. کیوں؟ اس لیے کہ آپ جانتے ہیں کہ تیز رفتاری سے تمہارے ہی فائدے کے لیے روکا جارہا ہے. کیونکہ موڑ کے ساتھ گہری کھائی ہے. اگر رفتار کم نہیں کرو گے تو گہری کھائی میں گر پڑو گے. اسی طرح کا معاملہ شرعی احکام اور پابندیوں کا ہے. شریعت ہمارے اپنے فائدے کے لیے دی گئی ہے. اس پر چلنے سے ہماری شخصیت کی تعمیر ہو گی‘ خودی کو تقویت ملے گی. حکمت دین کے حوالے سے امام الہند شاہ ولی اللہؒ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ بہت ہی جامع ہے‘ جو اس حوالے سے شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے. اس کتاب کا ابتدائی حصہ حکمت اصولی سے متعلق ہے. اس میں مجھے کہیں کہیں ان سے اختلاف ہے. لیکن جو حصہ حکمت الاحکام کا ہے میں سمجھتا ہوں کہ واقعتا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے. 

حکمت و احکام کو جمع کرنے سے ہی نظام بنتے ہیں. مثلاً یہ سیاسی نظام ہوگا. یہ معاشرتی نظام ہوگا‘ یہ معاشی نظام ہوگا‘ ورنہ نظام قرآن حکیم میں لکھا ہوا کہیں نہیں ہے. قرآن میں احکام ہیں‘ بتا دیا گیا کہ یہ حلال ہے‘ یہ حرام ہے‘ یہ اوامر ہیں‘ یہ نواہی ہیں. ہم انہی کے حوالے سے اپنا نظام بنائیں گے کہ ہمارا معاشی نظام یہ بنتا ہے. گویا لاء اینڈ سوشل سائنسز دونوں کی بنیاد حکمت تفصیلی ہے. 

حکمت درحقیقت تعلیم و تربیت محمدیؐ کا درجۂ خصوصی ہے. حکمت کا ہر شخص اہل نہیں ہوتا. عرب قوم کا بھی یہی معاملہ تھا. وہ بحیثیت مجموعی حکمت کی اہل نہیں تھی. اسی لیے حضور نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ حکمت چاہے ثریا پر بھی ہوگی اس کی قوم کا 
کوئی شخص اس کو لے آئے گا. گمان یہی ہے کہ یہ پیشین گوئی حضرت امام ابوحنیفہ کے لیے ہے. عرب فلسفی اور منطقی نہیں تھے. اگرچہ حضور کے ساتھیوں میں سے کچھ ایسے ضرور تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے حکمت دی‘ مگر بحیثیت مجموعی عرب قوم کا مزاج فلسفیانہ اور حکمت والا نہیں تھا. اُن کی پہچان کچھ اور چیزیں تھیں. ان میں عمل کا مادہ اور جوش و جذبہ پایا جاتا تھا. ایک بات مان لی ہے تو اب اُس کے لیے جان دے دیں گے. زبان دے دی ہے تو اب وعدہ خلافی نہیں کریں گے. مہمان آگیا تو خود بھوکے رہ جائیں گے‘ مگر اس کو کھلائیں گے. باپ کے قاتل نے بھی آکر پناہ مانگ لی ہے تو‘ پھر اُسے کچھ نہیں کہیں گے. اگر اُسے حرم میں دیکھ لیا‘ پھر بھی کچھ نہیں کہیں گے. وہ سادہ سلیم الفطرت لوگ تھے. لہذا قرآن کی دعوت ان کے دل میں جاکر لگ گئی. ایرانی فلسفی تھے‘ یونانی فلسفی تھے‘ چینی فلسفی تھے‘ اسی طرح ہم ہندی بھی فلسفی تھے. اُمت کی بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ قرآن مجید بہت جلد پس منظر میں چلا گیا. حضور کے زمانے میں اہل ایمان کے ہاں دو ہی چیزیں تھیں. اُن کے ایک ہاتھ میں قرآن تھا اور دوسرے ہاتھ میں تلوار.قرآن سے ایمان بنتا تھا اور ایمان سے جہاد اُبھرتا تھا. بعد میں جب بڑی بڑی حکومتیں قائم ہوگئیں تو زیادہ اہمیت قانون کی ہوگئی. اب جہاد کا مطلب غلبۂ اسلام کی بجائے سلطنتوں کا دفاع یا مزید علاقے فتح کرکے اپنی حکومتیں بڑھانا رہ گیا. دوسرے‘ علم کے میدان میں قرآن پیچھے رہ گیا جبکہ حدیث اور فقہ آگے آگئے. یوں بتدریج قرآن نگاہوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا. یہاں تک کہ قرآن مجید صرف حصول ثواب یا ایصال ثواب کا ذریعہ بن کر رہ گیا. ہندیوں کی خاص طور پر بدقسمتی یہ بھی ہوئی ہے کہ اسلام عرب سے نکلا‘ وہ مغرب کی جانب گیا تو اس نے فلسطین کرا س کیا‘ اور مصر‘ لیبیا سے ہوتے ہوئے موریطانیہ تک جاپہنچا. یہاں کلچر کا خلا تھا. کوئی تہذیب تھی‘ نہ کوئی تمدن اور نہ ہی کوئی زبان تھی. لہذا عربی زبان اور عرب کلچر شمالی افریقہ پر چھا گیا. عربی زبان اور تہذیب نے مقامی زبانوں کو اپنے اندر جذب کرلیا. بربر زبان اور تہذیب اُس کے آگے سرنگوں ہوگئیں . اس کے برعکس جب اسلام مشرق کی طرف چلا تو اُس کے لیے سب سے پہلے لوہے کا چنا ایران ثابت ہوا. ایران میں فلسفہ‘ زبان اور ادب ہر شے موجود تھی. لہذا یہاں عربی تہذیب و تمدن ایرانی زبان و تہذیب کے دلدل میں پھنس گئی. پھر اسلام جتنا بھی آگے گیا‘ وہ فارسی زبان کے ذریعے سے گیا. اس پر عجمی فکر و تہذیب نے اثرات چھوڑے ہندوستان میں بھی جتنے عرصے مسلمان حکمران رہے‘ ہماری عدالتی زبان فارسی تھی‘ عربی نہیں تھی. اگر ہماری زبان عربی ہوتی تو ہمارے حالات بھی مختلف ہوتے. ہم قرآن سے دور نہ ہوتے. اس صورتحال میں علامہ اقبال یا شیخ الہندؒ کی جو تشخیص تھی کہ مسلمانوں کو قرآن سے جوڑنا چاہیے‘ میں نے اُسی کو اپنی دعوت کی بنیاد بنایا. اقبال نے کہاتھا ؎ 

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر 
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر 

زوال اسلام کی اصل وجہ قرآن مجید سے ہماری دوری ہے. قرآن پر بادشاہوں نے پردے ڈالے. خود علماء نے قرآن پر پردے ڈالے‘ اس لیے کہ عوام اگر قرآن پڑھیں گے تو ہمیں اس کی روشنی میں جانچیں گے. انہیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ ان کا کردار تو وہ نہیں ہے‘ جو قرآن پیش کررہا ہے. لہذا انہیں قرآن سے دور ہی رہنے دو ؎

ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

جب قرآن کا فلسفہ اور حکمت ختم ہوئی تو فلسفہ یونان آگیا ہے اور اس کے ڈنکے بجنے لگے. اب وہی شخص پڑھا لکھا شمار ہو نے لگا جو فلسفۂ یونان کا جاننے والا تھا‘ خواہ وہ حقیقت پسندی (realism) ہو یا مثالیت پسندی (idealism) . یہ ہے اصل میں وہ حادثہ جو ہمارے ساتھ ہوا. اقبال وہ شخص ہے کہ جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ تمہاری ذلت و رسوائی کا سبب قرآن کو ترک کردینا ہے. اگر سربلندی اور کامرانی چاہتے ہو تو تمہیں قرآن کو تھامنا ہوگا. 

گر تو می خواہی مسلماں زیستن 
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن 
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی 
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چوں شبنم بر زمیں افتندۂ
در بغل داری کتابِ زندۂ

میں نے رجوع الی القرآن کی تحریک برپا کرنے میں پچاس برس یونہی نہیں بسر کیے‘ علیٰ وجہ البصیرۃ بسر کیے ہیں. یہ میرا پیشہ نہیں تھا. میں کسی دارالعلوم سے فارغ التحصیل نہیں تھا. میرا درس کوئی روایتی درس نہیں تھا. اس کے ذریعے لوگوں کو قرآن مجید کی طرف اور فرائض دینی کی جانب متوجہ کرنا مقصود تھا. میں شعوری طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ احیائے اسلام کا عظیم مشن دعوت قرآنی ہی کے ذریعے انجام پائے گا. 

حکمت تعلیم و تربیت محمدیؐ کا خصوصی درجہ ہے. تربیت ہی کا ایک حصہ تنظیم ہے. انقلابی جماعت جب تک منظم نہ ہوگی‘ اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکے گی. انقلابی جماعت کی تنظیم فوج کی طرح ہونی چاہیے. فوج میں یہی ہوتا ہے کہ حکم ماننا ہے اوربس! اگر کوئی سپاہی اپنے افسر سے پوچھے جناب پہلے مجھے بتائیے کہ آپ یہ حکم کیوں دے رہے ہیں‘ اس میں کیا حکمت ہے؟ تو ایسی فوج ہرگز فوج نہیں کہلائے گی. انقلابی کارکنوں کا کام بھی یہی ہے کہ انہیں بہر صورت حکم ماننا ہے‘ اس لیے کہ انہیں انقلاب لانا ہے‘ سٹیٹس کو ختم کرنا ہے. رائج الوقت نظام کو تحفظ دینے والے اوپر بیٹھے ہوتے ہیں. وہ نظام کے بچاؤ کے لیے ہر حربہ اختیار کریں گے‘ فوج کو استعمال کریں گے‘ طاقت کا بے رحمانہ استعمال ہوگا. اگر اُن کا مقابلہ کرنا ہے تو انقلابیوں میں فوج کا سا ڈسپلن ہونا ضروری ہے. اگر اُن میں ملٹری ڈسپلن نہیں ہوگا تو وہ انقلابی عمل کی طرف آگے نہیں بڑھ سکیں گے. قرآن مجید نے اسی کو سمع و طاعت کہا ہے. انقلابی کارکنوں کا کام 
listen and obey ہے. اس ضمن میں مجھے Alfrd, Lord Tennyson کی نظم بہت پسند ہے جو امریکہ میں خانہ جنگی کے دوران پیش آنے والے ایک واقعہ سے متعلق ہے. چھ سو سواروں کا ایک دستہ تھا. اسے کہا گیا کہ !Forward, The light Brigade انہیں معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا‘ مگر انہوں نے حکم کی تعمیل کی. 

,Cannon to right of them
,Cannon to left of them
,Cannon in front of them
Vollyed and thundered
.Theirs not to make reply
?Theirs not to reason why
!Theirs but to do and die
Rode Into the valley of death
.Died the six hundred 
یقینی طور پر سامنے موت نظر آرہی تھی‘ مگر چھ سو سواروں کے دستے نے حکم مانا. یہ نہ کہا کہ ہمیں موت کے منہ میں کیوں دھکیلا جارہا ہے. اس اقدام کے نتیجے میں وہ چھ سو کے چھ سو قتل ہوگئے. آرمی تو اس ڈسپلن کا نام ہے. یہی انداز انقلابی جماعت کا ہونا چاہیے. اس نظم جماعت کے لیے قرآن مجیدنے سمع وطاعت کی اصطلاح استعمال کی ہے. 

جماعت سازی کی مسنون بنیاد: بیعت



جو لوگ جناب محمد رسول اللہ پر ایمان لے آئے‘ انہیں آپؐ نے منظم کیا‘ ان کی تربیت کی‘ انہیں سمع و طاعت کا خوگر بنایا. 

تیرہ برس تک مکے میں حکم یہ تھا کہ مسلمانو‘ چاہے تمہارے ٹکڑے کردیئے جائیں‘ تمہیں زندہ جلا دیا جائے‘ تم ہاتھ نہیں اُٹھاؤ گے. کوئی جوابی کارروائی نہیں کرو گے. اندازہ کیجیے‘ کیا سمع و طاعت کی اس سے بڑی ٹریننگ بھی ممکن ہے. حضرت خبابؓ بن ارت کی نگاہوں کے سامنے دہکتے ہوئے انگارے بچھا دیئے گئے اور کہا گیا کہ کُرتہ اتارو اور اُن پر لیٹ جاؤ. وہ لیٹ گئے. اُن کی پیٹھ کی کھال جلی‘ چربی پگھلی‘ جس سے انگارے ٹھنڈے ہوگئے. ذرا سوچئے‘ جو شخص یہ دیکھ رہا ہو‘ کہ مجھے بھون ڈالنے کی تیاری ہورہی ہے‘ اس کو اگر رکاوٹ نہ ہو تو وہ دو چار کو مار کر ہی مرے گا. بلی کو بھی آپ گھیر لیں‘ کارنر کرلیں تو وہ آپ کے اوپر حملہ کرے گی. لیکن کیا شے ہے کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی. یہ سمع و طاعت کا تقاضا تھا. ابھی تصادم کی اجازت نہیں تھی. اس حکم پر عمل کرنے سے بڑھ کر میرے نزدیک ڈسپلن کی ایکسر سائز اور کوئی نہیں ہوسکتی. پریڈ کرانے کی ضرورت نہیں ہے. اللہ کے رسول  کا حکم ہے کہ ہاتھ نہیں اُٹھانا‘ تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہاتھوں کو روکے رکھا. اس طرح کی سمع و طاعت اور ڈسپلن کی تربیت پاکر جماعت آگے بڑھی‘ تاآنکہ تصادم کے مرحلہ میں داخلے کی نوبت آئی. اقبال کا شعر ہے ؎

بانشہ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن

اللہ تعالیٰ نے یہ ساری منزلیں طے کرائیں. تب جاکر وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ (بنی اسرائیل)کی منزل آئی. 

انقلابی عمل کا لازمہ تصادم ہے. تصادم سے بچ کر انقلاب کبھی نہیں آسکے گا. اگر کوئی بڑا 
امن پسند ہے تو گھر میں جا بیٹھے. اور باطل کے غلغلہ کو برداشت کرے. اللہ اللہ خیر سلا. لیکن اگر آپ باطل نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تصادم ناگزیر ہے. جہاد کیا ہے؟ یہ تصادم ہی تو ہے. جہاد جہد سے بنا ہے. جب ایک جہد دوسری جہد کے مقابلے میں آتی ہے تو جہاد اور مجاہدہ ہوجاتا ہے. قتل قتل کے مقابلے میں آئے گا تو قتال اور مقاتلہ کہلائے گا. لیکن تصادم سے پہلے جماعت کی تیاری ناگزیر ہے. جماعت کے کارکنوں کو سمع و طاعت کا خوگر بنانا ضروری ہے. جماعت کے لیے سمع و طاعت کی مشق کیا ہے؟ یہ کہ حکم مانو. دور نبویؐ کے ابتدائی مرحلے میں کوئی ظاہری و صوری بیعت نہیں تھی. بیعت کا کوئی نظام نہیں تھا. بس یہی تھا کہ جب اللہ کے رسول کو مانا ہے تو آپؐ کا حکم بھی ماننا پڑے گا. یہ آپؐ پر ایمان کا تقاضا ہے: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ (النساء:۶۴’’ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر یہ کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے.‘‘ لہذا جس نے نبیؐ کو اللہ کا رسول مان لیا‘ اُسے آپؐ کی اطاعت کرنی ہے. چنانچہ عہد نبویؐ میں تنظیم کی سب سے پہلی بنیاد آپؐ پر ایمان تھی. جن لوگوں نے مان لیا کہ آپؐ اللہ کے نبی ہیں‘ آپؐ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اللہ کی جانب سے کہہ رہے ہیں‘ یہ آپؐ پر وحی آئی ہے‘ تو پھر ان کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ آپؐ کے حکم سے سرتابی کریں؟ کیا نبی کی بات سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے؟ 

وہ جماعت جو نبوت کی بنیاد پر قائم ہو‘ اس سے زیادہ مضبوط جماعت کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے. بلکہ میں کہتا ہوں کہ سچی نبوت تو درکنار جھوٹی نبوت بھی تنظیم کی بڑی بنیاد ہے. اندازہ کیجیے‘ غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کی بنیاد پر جو جماعت احمدیہ چل رہی ہے وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی‘ اور ان کا لاہوری فرقہ‘ جس نے غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانا‘ وہ منتشر ہو کر ختم ہو گیا. تو مضبوط ترین جماعت جو دنیا میں بن سکتی ہے وہ نبوت کے دعویٰ کی بنیاد پر بن سکتی ہے. چنانچہ محمد رسول اللہ کی سچی اور آخری نبوت کی بنیاد پر جو جماعت بنی‘ وہ دنیا کی مضبوط ترین جماعت تھی‘ جس کے بارے میں قرآن حکیم میں فرمایا گیا: 
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح:۲۹’’اللہ کے رسول محمدؐ اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں‘ کافروں پر بہت سخت اور آپس میں رحیم و کریم ہیں.‘‘ اس جماعت میں کسی نے رسول اللہ کو جماعت کا صدر منتخب نہیں کیا تھا‘ بلکہ آپؐ نبی اور داعی ہونے کی حیثیت سے خود بخود امیر تھے. آپؐ کے ساتھی ’’ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ‘‘ (ہم نے سنا اور مانا) کے اصول پر کاربندتھے. البتہ حضور نے مستقبل کے لئے ایک مثال قائم کرنے کے لئے بیعت کا سلسلہ شروع کیا‘ تاکہ آئندہ اگر مسلمان اسی انقلابی جدوجہد کا آغاز کریں توانہیں معلوم ہو کہ جماعت کیسے بنے گی. بیعت کے سلسلہ میں حد درجہ جامع اور نہایت عظیم روایت وہ ہے جو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. یہ حدیث بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہے اور سند کے اعتبار سے اس سے زیادہ صحیح حدیث ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں. بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللہِ  ’’ہم نے بیعت کی اللہ کے رسول سے‘‘. عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ’’اس بات پر کہ آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘‘ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ ’’تنگی اور سختی میں بھی اور آسانی میں بھی‘‘ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ’’طبیعت کی آمادگی کی صورت میں بھی اور طبیعت پر جبر کرنا پڑا تب بھی‘‘. وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ’’اور چاہے آپؐ دوسروں کو ہم پر ترجیح دے دیں‘‘. ہم یہ نہیں کہیں گے کہ آپؐ نے ایک نووارد نوجوان کو ہم پر امیر کیوں بنادیا؟ ہم آپؐ کے پرانے خدمت گار اور جاں نثار ساتھی ہیں‘ ہم پر اس نوجوان کو کیوں ترجیح دی گئی؟ آپؐ کا اختیار ہو گا جو چاہیں کریں. وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ’’اور جس کو بھی آپؐ امیر بنا دیں گے‘ اس سے جھگڑیں گے نہیں‘‘. وَعَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (۱’’اور یہ کہ ہم حق بات ضرور کہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں‘ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے‘‘.ہماری جو رائے ہو گی‘ ہمارے نزدیک جو بات حق ہو گی وہ ضرور کہہ دیں گے. اس لئے زبانیں بند نہیں کریں گے کہ لوگ کہیں گے کہ لو جی انہوں نے کیا کہہ دیا.یہ بیعت آرگنائزیشن کی دوسری بنیادہے. 

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث اسلامی انقلابی جماعت کا مکمل دستور ہے. اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے. قابل غور بات یہ ہے کہ حضور کو اس بیعت کی ضرورت تھی؟ کیا آپؐ پر ایمان لانا ہی کافی نہیں تھا کہ آپؐ کی ہربات ماننی ہے‘ ازروئے الفاظ قرآنی : 
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ (النساء:۶۴’’ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کےحکم سے.‘‘ اس سلسلہ میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی تقریر کے وہ الفاظ ایمان افروز مثال ہیں جو آپؐ نے ایک مجلس ِ مشاورت میں کہے تھے. غزوۂ بدر سے پہلے حضور نے ایک مجلسِ مشاورت منعقد (۱) سنن النسائی‘ کتاب البیعۃ‘ باب البیعہ علی ان لا ننازع الامر اھلہ. کی تھی کہ قریش کاایک قافلہ شمال سے مالِ تجارت سے لدا پھندا آ رہا ہے جس کے ساتھ صرف چالیس یا پچاس محافظ ہیں‘ جبکہ کیل کانٹے سے لیس ایک مسلح لشکر جنوب سے آ رہا ہے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان دو میں سے ایک پر تمہیں ضرور فتح عطا فرما دے گا. بتاؤ کدھر چلیں؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ حضور ! قافلے کی طرف چلیں‘ تھوڑے سے آدمی ہیں‘ ان پر ہم آسانی سے قابو پا لیں گے‘ مالِ غنیمت بہت ہاتھ آجائے گا‘ اور ہتھیار بھی ملیں گے‘جن کی ہمیں اشد ضرورت ہے. لیکن حضور  مزید مشورہ طلب فرماتے رہے. تب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اندازہ کیا کہ حضور کا اپنا رجحانِ طبع کچھ اور ہے. چنانچہ اس مرحلے پرپہلے مہاجرین نے تقریریں کیں کہ حضور ! آپؐ ہم سے کیا پوچھتے ہیں‘ جو آپؐ کا حکم ہو ہم حاضر ہیں. حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے تقریریں کیں ‘ لیکن حضور نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے حضور کسی خاص بات کے منتظر ہیں. مہاجرین میں سے ہی حضرت مقداد بن اسود ؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ’’حضورؐ جو آپ کا ارادہ ہو بسم اللہ کیجئے‘ ہمیں حضرت موسٰی ؑ کے ساتھیوں پر قیاس نہ کیجئے جنہوں نے اپنے نبی ؑ سے یہ کہہ دیاتھا کہ ’’اے موسٰی ؑ آپ اور آپ کا رب دونوں جائیں اور جاکر جنگ کریں‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘. کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو ہمارے ذریعے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما دے. لیکن حضور اب بھی انتظار کی کیفیت میں تھے. اب حضرت سعد بن معاذ ؓ کو خیال آیا کہ رسول اللہ کا روئے سخن دراصل انصار کی جانب ہے. بیعت عقبہ ثانیہ میں طے یہ ہوا تھا کہ اگر قریش آپؐ کا پیچھا کرتے ہوئے مدینے پر حملہ آور ہوئے تو ہم آپؐ کی اس طرح حفاظت کریں گے جیسے اپنے اہل و عیال کی کرتے ہیں. لیکن صورتِ واقعہ یہ تھی کہ قریش نے مدینے پر حملہ نہیں کیا تھا اور حضور خود باہر نکل کر تصادم کا آغاز کر چکے تھے ‘ لہذا انصار اس معاہدے کی رو سے مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کے پابند نہیں تھے. حضرت سعدؓ کو فوراً خیال آ گیا کہ ہو نہ ہو حضور ہماری تائید کے منتظر ہیں. چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ !معلوم ہوتا ہے آپؐ کا روئے سخن ہماری جانب ہے. ا ب دیکھئے‘ کس قدر عمدہ جملہ کہا : فَاِنَّا آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ یعنی حضور! ہم آپؐ پر ایما ن لا چکے ہیں اور ہم نے آپؐ کی تصدیق کی ہے. ہم نے آپؐ کو اللہ کا نبی اور رسول مانا ہے. اب ہمارا اختیار کہاں رہا؟ آپؐ جوبھی حکم دیں گے ‘سر آنکھوں پر! آپؐ ہمیں جہاں بھی لے جانا ہو لے چلئے. خدا کی قسم‘ اگر آپؐ ہمیں اپنی سواریاں سمندر میں ڈالنے کا حکم دیں گے تو ہم ڈال دیں گے…!

توحضور کوکسی سے بیعت لینے کی ضرورت نہیں تھی‘ آپؐ تو اللہ کے نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے مطاع تھے لیکن اس کے باوجود آپؐ نے بیعت کیوں لی؟ اس لئے کہ جماعت سازی کے حوالے سے آپؐ کی امت کے سامنے ایک کامل اسوہ آئے. آپ کے بعد مسلمان جماعت بنانے کے لئے انگریزوں ‘ روسیوں یا جرمنوں سے کوئی طریقہ مستعار نہ لیتے پھریں‘ بلکہ جماعت بنانے کے لئے وہ بنیاد اختیار کریں جو آپؐ چھوڑ کر تشریف لے گئے. یہ طویل حدیث جیسا کہ پیچھے کہا گیا ایک حزب اللہ کا ایک مکمل دستور ہے. لیکن ہمارے افلاس‘ بدنصیبی اور بدبختی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی مذہبی جماعت نے اس بنیاد پر جماعت سازی کی ضرورت محسوس نہیں کی. یہ اس حدیث کی انتہا درجے کی ناقدری ہے. چھوٹی چھوٹی حدیثوں کی بنیاد پر تو دوسروں کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ تم نے رفع الیدین نہیں کیا‘ تم نے آمین بالجہر کہہ دیا‘ لہذا ہماری مسجد سے نکل جاؤ مگر اس حدیث کی جانب کسی نے کوئی توجہ نہیں دی.