سیرتِ طیبّہ میں انقلاب اسلامی کے ضمن میں ابتدائی مراحل خطبہ ٔمسنونہ‘ تلاوت ِآیات قرآنی ٭ ‘ احادیث ِنبویؐ اور ادعیہ ٔماثورہ کے بعد!

سابقہ خطابات کے ضمن میں چند مزید نکات

حضرات! آج کے خطاب کا اصل موضوع تو اگرچہ انقلاب اسلامی کے ضمن میں تصادم کے مراحل ہے لیکن قبل ازیں مجھے اپنے پچھلے تین خطبات کے بعض مضامین کے چند اہم نکات بیان کرنے ہیں‘ جو بیان ہونے سے رہ گئے تھے. لہذا آج کا مضمون پورا نہ ہو پائے گا‘ بلکہ یہ اگلے اتوار کو ہی مکمل ہوگا‘ ان شاء اللہ. 

میرا جو پہلا خطبہ تھا‘ اس میں بحمد اللہ ایمان کی بحث بہت جامعیت کے ساتھ پوری ہوگئی. یہی اسلام کا فلسفہ ہے. یہی اسلام کی میٹافزکس ہے. اسی کے لیے انگریزی لفظ 
world view ہے‘ یعنی کائنات اور انسان کے بارے میں آپ کا تصور کیا ہے؟ دینی اصطلاح میں اِسی کا نام ایمان ہے.

ایمان کے ضمن میں ایک بہت بڑا مغالطہ

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دور میں ہم عام طور پر ایمان کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے جملہ متضمنات کے ساتھ ہمیں پہلے ہی حاصل (taken for granted) ہے. کہا جاتا ہے کہ جب ہم مسلمان ہیں تو صاحب ایمان بھی ہیں. حالانکہ یہی سب سے بڑا مغالطہ ہے. ہماری تحریکیں اور دینی جدوجہد اس لیے ناکام ہورہی ہے کہ ان کا نقطہ آغاز (starting point) ہی غلط ہے. یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں وراثتاً ایک عقیدہ منتقل ہوگیا ہے اور ہم زبان سے اُس کا اقرار بھی کرتے ہیں‘ مگر بغور جائزہ لیا جانا چاہیے کہ وہ حقیقی ایمان‘ وہ یقین والا ایمان کہاں ہے. ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکئے اور اپنے آپ سے یہ سوالات کیجیے. 

?Am I really convinced about the existense of God
?Am I really convinced about the direction and the life after death
?is the prophet of Allah and The Quran is the guide book of Allah  Am I really convinced that Muhammad ٭ سورۃ الصف‘ آیات : ۴۱۴ اِس سے معلوم ہوگا کہ اگرچہ ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ ان حقائق کے بارے میں گمان تو ہے مگر ان پر وہ یقین نہیں جو فی الواقع ہونا چاہیے. بلکہ ہم میں سے اکثر کی کیفیت یہ ہے کہ 

اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ (الجاثیۃ) 
’’ہم اس کو محض وہمی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا.‘‘

جب میں نے اپنے طور پر دعوتی و تحریکی جدوجہد کا آغاز کیا تو ’’اسلام کی نشاۃِ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا‘ جو جون ۱۹۶۷ء کے میثاق میں شائع ہوا. اس مضمون میں ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کا تصور موجود تھا. اس وقت تعلیم و تعلّم قرآن کو تحریک کی شکل میں برپا کرنے کا خاکہ ذہن میں آیا تھا. بہرحال اس کتابچے کا مرکزی مضمون یہی ہے کہ اگرچہ اس صدی کا یہ خاص معاملہ ہے کہ اس میں عالمی سطح پر احیائے اسلام کے لیے جدوجہد ہورہی ہے‘ گزشتہ پچاس ساٹھ برس سے جماعت اسلامی‘ الاخوان المسلمون‘ مسجومی پارٹی‘ تبلیغی جماعت‘ عباد الرحمن گروپ اور سعید نورسی کی تحریک‘ سب ہی اپنے اپنے انداز میں اور اپنے فکر کے مطابق پوری محنت اور کوشش کررہے ہیں‘ لیکن یہ سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ یہ سب تحریکیں دُنیوی نتائج کے اعتبا رسے ناکام کیوں نظر آتی ہیں؟ تاحال کہیں پر بھی اسلامی انقلاب بالفعل برپا نہیں ہوسکا.

اس کی کیا وجہ ہے؟ میری رائے میں ان تمام تحریکوں کے خلوص اور محنت کے باوجود ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تحریکیں ایمان کو taken for granted لے رہی ہیں‘ یعنی جب ہم مسلمان ہیں تو ایمان تو لازماً موجود ہے. جو زور ایمان کے حصول پر ہونا چاہیے تھا ان تحریکوں نے بالعموم اس کی ضرورت محسوس نہیں کی. حالانکہ یہی وہ چیز ہے جہاں پانی مررہا ہے. جسے ہم ایمان سمجھ رہے ہیں وہ محض ایک موروثی عقیدہ بن کر رہ گیا ہے جس کا ہماری عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں‘ لیکن حقیقی ایمان یعنی یقین قلبی اور personal conviction کے درجے تک پہنچنے والا ایمان سرے سے مفقود ہے. ہم اپنی زندگیوں کو دیکھیں‘ اپنے معمولات پر تنقیدی نگاہ ڈالیں‘ اپنی اقدار کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ خالص مادہ پرستانہ نقطہ ٔنظر ہمارے اذہان و قلوب پر مسلط ہے. آخرت پر اگر فی الواقع ایمان موجود ہو تو انسان کی دنیاوی زندگی کچھ اور ہی قسم کا نقشہ پیش کرتی ہے. اللہ تعالیٰ پر ایمان اگر ذہن و قلب میں راسخ ہو تو کچھ اور ہی طرح کا کردار وجود میں آتا ہے. رسولِ اکرم سے حقیقی محبت اگر دل میں موجود ہو تو اس کا اظہار کسی اور طرح سے ہوتا ہے. یہ سب کچھ کہاں ہے؟ معلوم ہوا کہ اصل کمی یہاں ہے‘ پانی یہاں مررہا ہے!! ان تحریکوں کی ناکامی میں کچھ حصہ عجلت پسندی اور جلدبازی کا بھی ہے کہ ایک متعدبہ افراد اور معاشرے کے ذہین عناصر کے ذہنوں کو بدلے بغیر قبل از وقت سیاسی میدان میں چھلانگ لگا دی گئی. مختلف تحریکوں نے اس نوع کی غلطیاں بھی کی ہیں‘ لیکن ان تمام غلطیوں میں سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ ایمان پر جو زور (emphasis) ہونا چاہیے تھا‘ وہ نہیں ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہیں تو مومن بھی ہیں. حالانکہ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے. افسوس کی بات ہے کہ کسی بھی دینی جماعت نے ایمان پر زور نہیں دیا‘ سوائے تبلیغی جماعت کے. بلاشبہ تبلیغی جماعت کے ہاں ایمان پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے. ان کی گفتگوؤں میں‘ ان کے خطابات میں‘ ان کی تقاریر میں ایمان و یقین کا خصوصی ذکر اور حوالہ ہوتا ہے. یہ بات بتکرار یاددلائی جاتی ہے کہ ہر شے اللہ کے کرنے سے ہوتی ہے ‘محض اسباب سے نہیں ہوتی. بھوک روٹی سے نہیں مٹتی‘ اللہ کے اذن سے مٹتی ہے. پیاس پانی سے نہیں بجھتی‘ اللہ کے اذن سے بجھتی ہے. لہذا توکل اسباب پر نہیں بلکہ اللہ مسبب الاسباب پر ہونا چاہیے. لیکن بدقسمتی سے تبلیغی جماعت میں بھی ایمان کی جو intellectual dimension ہے‘ جو تفقہ والا حصہ ہے‘ جس کو قرآن علیٰ وجہ البصیرت ایمان قرار دیتا ہے‘ اُس پر فوکس نہیں ہے. میں نے علیٰ وجہ البصیرت ایمان کی تحریک پیدا کرنے کے لیے اپنی سی کوشش کی ہے. میری روز اول سے یہ کوشش رہی ہے کہ عہدحاضر کی عام علمی سطح پر آکرintellectual dimension کے ساتھ ایمان کی وضاحت کی جائے. 

٭مبدأ و معاد کا علم

میں آج ایمان کی بحث کے ضمن میں ایک نقطہ کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں. میں نے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اصطلاح مبدا و معاد استعمال کی. یہ اصل میں حضرت مجدّد الف ثانی امام ربانی شیخ احمد سرہندیؒ کی ایک تالیف کا نام ہے. مبدا کے معنی اُس جگہ کے ہیں جہاں سے ابتدا ہوتی ہو‘ اور معاد وہ مقام ہے جہاں لوٹ کر جاناہے. مبدا و معاد کا علم جو ہمیں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے ضمن میں ملتا ہے‘ ہمارے سامنے نہ ہو تو ہمارا حال ان لوگوں کا سا ہوگا جو تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں. ایک بہت خوبصورت شعر ہے ؎

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے‘ نہ انتہا معلوم

ہمیں یہ معلوم ہی نہ ہوگا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جارہے ہیں. زیادہ سے زیادہ یہ پتا ہوگا کہ میں اتنے سال پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں نو مہینے رہ کر اس دنیا میں آیا تھا اور بس. اس سے پہلے کیا تھا؟ یہ کائنات کب سے ہے اور کب تک رہے گی؟ کچھ پتا نہیں ہوگا. اسی طرح یہ تو معلوم ہوگا کہ ایک وقت میں قبر پر اُتار دیا جاؤں گا لیکن اس کے بعد کیا ہوگا‘ کوئی پتا نہیں ہوگا. اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے. اس کو ذرا اپنے اوپر طاری کرکے سوچئے. فرض کیجیے‘ آپ لاہور سے کراچی جارہے ہیں. آپ ریل میں بیٹھے ہیں‘ تو آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا گھر اور بال بچے یہاں لاہور میں ہیں اور کراچی آپ فلاں کام کے لیے جارہے ہیں. فلاں جگہ جانا ہے. یہ سب باتیں آپ کے ذہن میں ہیں. اب فرض کیجیے‘ آپ کے ساتھ کوئی ایسا حادثہ ہو جاتا ہے‘ مثلاً اوپر سے ٹرنک گر کر آپ کے سر پر لگ جاتا ہے جس سے آپ کی یادداشت زائل ہوجاتی ہے. اب کیا ہوگا؟ آپ کو کچھ یاد نہیں ہوگا کہ میں کون ہوں‘ کہاں رہتا ہوں؟ کہاں جارہا ہوں؟ میرے اہل و عیال کہاں ہیں؟ آیا میرا کوئی ہے بھی یا نہیں ہے؟ آپ گاڑی میں بیٹھے یہ دیکھیں گے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد گاڑی رکتی ہے‘ کچھ لوگ اُس میں سے اُتر جاتے ہیں اور کچھ لوگ اُس پر سوار ہو جاتے ہیں. اس کے علاوہ آپ کو اور کسی بات کا بھی علم نہیں ہوگا. اِس کیفیت سے آپ کو جو الجھن ہوگی‘ وہ ناقابل بیان ہوگی. یہی معاملہ ایمان کی دولت سے محروم انسان کا ہوتا ہے. اگر ہمارا اللہ اور آخرت پر ایمان نہ ہو تو مبدأ و معاد کے علم کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں ہوگی. ہم اس کے بارے میں بے علمی اور بے یقینی کا شکار ہوں گے. معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں. سورۃ الملک میں اللہ فرماتا ہے:

اَفَمَنۡ یَّمۡشِیۡ مُکِبًّا عَلٰی وَجۡہِہٖۤ اَہۡدٰۤی اَمَّنۡ یَّمۡشِیۡ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۲۲﴾ 

’’بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر پڑتا ہے وہ سیدھے راستے پر ہے یا وہ جو سیدھے راستے پر برابر چل رہاہو؟‘‘
یہاں اللہ مثال دے کر سمجھا رہا ہے کہ ایک شخص وہ ہے جو اوندھے منہ زمین پر گھسٹ رہا ہے‘ اور دوسرا وہ شخص ہے جو کھڑا سیدھے راستے پر چل رہا ہے. کیا یہ برابر ہوسکتے ہیں؟ ان میں ہدایت یافتہ کون ہوگا؟ ظاہر ہے‘ وہ شخص ہدایت یافتہ نہیں کہ جو اوندھے منہ گھسٹ رہا ہے. وہ تو اپنے پیٹ کے بل پر چل رہا ہے. اُس کے پیش نظر تو پیٹ اور جنس کے تقاضے ہیں. یہی اُس کی زندگی 
ہے. مبدا ومعاد کا علم نہ ہو تو انسان یہی سمجھے گا کہ میں پیٹ کے لیے اور جنس کے لیے جی رہا ہوں‘ اللہ اللہ خیر سلا. ایسا شخص سیدھے راستے پر کیونکر ہوسکتا ہے. صحیح راہ پر تو وہ شخص ہوگا جو کھڑاہوکر سیدھا چل رہا ہے. اس کے سامنے اس کی منزل ہے. اُس کا ایک ہدف ہے. اُسے معلوم ہے کہ میں اللہ کے پاس سے آیا ہوں اور مجھے اللہ ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے. انا للہ و انا الیہ راجعون. 

٭ حیاتِ انسانی کی حقیقت

حیاتِ انسانی یہی نہیں جس میں ہم جی رہے ہیں بلکہ یہ بہت طویل ہے. بقول علامہ اقبال ؎
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی

اس ضمن میں قرآن مجید میں سورۃ المومن میں بڑی عظیم آیت آئی ہے. اکثر و بیشتر مفسرین اسے سمجھ نہیں سکے. اس آیت میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جہنمی اللہ کے سامنے فریاد کریں گے. 

قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿۱۱﴾ (المؤمن)
’’وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو نے ہمیں دو دفعہ بے جان کیا اور دو دفعہ جان بخشی. ہم کو اپنے گناہوں کا اقرار ہے تو کیا نکلنے کی کوئی راہ ہے.‘‘

تو یہ موت کی دو صورتیں کون سی ہیں؟ جن کا یہاں ذکر ہورہا ہے. ہم تو ایک ہی موت سے واقف ہیں. اسی طرح یہاں مذکور دو احیاء کون سے ہیں ہم تو ایک ہی احیاء سے آگاہ ہیں جو قیامت کے دن ہوگا. یہی بات سورۃ البقرہ میں ایک اور انداز میں بھی آئی ہے. 

کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۸﴾ 

’’(کافرو) تم اللہ سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو‘ جس حال میں کہ تم بے جان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی. پھر وہی تم کو مارتا ہے. پھر وہی تم کو زندہ کرے گا. پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے.‘‘

انسان کی پانچ زندگیاں ہیں یا یوں کہیے کہ طویل زندگی کے پانچ ادوار ہیں‘ جن میں سے 
دو ادوار سوتے ہوئے گزرتے ہیں اور تین بیداری میں ہیں. سب سے پہلا دور وہ ہے جب عالم ارواح میں انسان کی روح کو پیدا کیا گیا. اُس وقت صرف روح تھی‘ جسم نہیں تھا. اور وہی عالم امر ہے. وہاں صرف روحانی زندگی تھی. اِس پہلی زندگی کے بعد ہمیں سلا دیا گیا. یہ گویا دوسری زندگی ہے. یہ موت اور نیند کی کیفیت ہے. اس کے بعد ہمیں تیسری زندگی اِس دنیا میں ملی. اس زندگی کا آغاز رحم مادر سے ہوتا ہے‘ جب انسان کو مادی جسم عطا کیا جاتا ہے. رحم مادر میں انسانی جنین جب ۱۲۰ دن کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اُس میں روح پھونکتا ہے. حیات دنیا کاستر اسّی سالہ عرصہ مکمل ہوتے ہی انسان کا انتقال ہوجاتا ہے. یہاں سے اُس کی چوتھی زندگی شروع ہوجاتی ہے. یہ عالم برزخ اور قبر کی زندگی ہے. پانچویں زندگی آخرت کی ہے. یہ اُس وقت شروع ہوگی جب صور پھونکا جائے گا. صور کے اثر سے سب مرے ہوئے لوگ جی اُٹھیں گے‘ اور اپنی قبروں سے نکل کر دی گئی خبروں کی سچائی کانظارہ کریں گے اور اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے. ہر مردہ اُ سی ہیئت اور حالت پر اُٹھے گا جس میں اُس کی موت واقع ہوئی تھی. اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہماری یہ حیات دنیوی دو موتوں کے درمیان ہے. ایک موت وہ ہے جب ہماری ارواح کو پیدا کرنے اور اُن سے عہدالست لینے کے بعد انہیں کولڈ سٹوریج میں رکھ دیا گیا اور دوسری موت وہ جو اِس دنیا کی زندگی کے اختتام پر آتی ہے. یہ زندگی ایک طویل سفر حیات کا ایک مختصر سا حصہ ہے‘ اور یہ اس لیے عطا کی گئی ہے‘ تاکہ ہمیں آزمایا جائے‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں فرمایا گیا:

خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲
’’اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا‘ تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے.‘‘

یہ زندگی امتحان کے لیے ہے. ہم کمرۂ امتحان میں بیٹھے ہیں. ہم بالعموم جس امتحان سے واقف ہیں‘ وہ تین گھنٹے کا ہوتاہے مگر یہ امتحان زندگانی ساٹھ ستر سال کے عرصے پر محیط ہے. اس امتحان کا نتیجہ آخرت میں جنت یا جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا. علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے ؎ 

قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی

٭نبی اور رسول کے مابین نسبت

میں نے اپنے پچھلے خطاب میں عرض کیا تھا کہ نبوت و رسالت میں کوئی فرق ہے یا نہیں ہے‘ اس موضوع پر میں بحث نہیں کروں گا‘ لیکن آج میں نے طے کیا ہے کہ اس ضمن میں بھی اپنے خیالات واضح طور پر آپ کے سامنے پیش کردوں. اگرچہ میرے خطبات اور دروس قرآن میں اس ضمن میں بارہا اشارات آئے ہیں‘ لیکن اجمال سے بات نہیں بنتی. اس بارے میں بہت سے لوگوں نے مجھ سے سوالات کیے ‘ خطوط کے ذریعے بھی یہ کہا کہ اِس موضوع پر تفصیل سے لکھوں‘ لیکن مجھے لکھنے کا موقع نہیں مل سکا. اب نہ جانے کتنی مہلت عمر باقی ہے‘ لہذا میں چاہتا ہوں کہ یہ واضح کردوں کہ میرے نزدیک نبی اور رسول کے مابین کیا نسبت ہے. 

نبی اور رسول کے معانی:

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ لغوی طور پر نبی کے معنی کیا ہیں؟ نبی کا لفظ نبأٌ سے بنا ہے‘ جس کے معنی ’’خبر‘‘کے ہیں. امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں: خَبَرٌ ذُوْ فَائِدَۃٍ عَظِیْمَۃٍ ایسی خبر جس سے بہت بڑا فائدہ ہو رہا ہو. ’’نبی‘‘ کے معنی خبر دینے والے کے ہیں. ’’نَـبُوَّۃٌ‘‘ بلندی کو کہتے ہیں. پس نبوت بہت بلند مقام و مرتبہ ہے. حضور نے اس مقام و مرتبہ کو تشبیہہ کے طور پر اپنے ایک عمل کے ذریعے سے نمایاں کیا تھا. آپ کو جب حکم ہوا تھا: فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ یعنی ’’آپ ڈنکے کی چوٹ بیان کیجیے‘ جو آپ کو کہا گیا ہے.‘‘ تو آپ کوہِ صفا پر کھڑے ہوگئے. کوہ صفا اس وقت چھوٹی سی چٹان کی شکل میں ہے‘ حضور کے زمانے میں وہ پہاڑ تھا. کوہ صفا پر کھڑے ہوکر آپؐ نے ’’وَاصَبَاحَا‘‘ کا نعرہ لگایا. عربوں کے ہاں رواج تھا کہ اگر کوئی شخص کسی بُری خبر کا اعلان کرتا یا اپنی قوم کو کسی بڑے خطرے سے آگاہ کرتا تو وہ کسی اونچی جگہ کھڑا ہو جاتا‘ کپڑے اتار دیتا اور پکار تا ’’واصباحا‘‘. ہائے وہ آنے والی صبح. اس لیے کہ غارت گرقبائل جو غارت گری کرتے تھے‘ اکثر رات میں کرتے تھے‘ بلکہ رات کے بھی اُس پہر میں جب نیند بہت گہری ہوتی ہے اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا تھپک کر آدمی کو سلارہی ہوتی ہے. نبی اکرم  نے بھی اسی روایت پر عمل کیا. ہاں اِس روایت میں جو غلط چیزتھی‘ یعنی برہنگی ‘ اُسے اختیار نہیں فرمایا. اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لیے اپنے دور میں ہر ذریعہ تبلیغ اختیار کریں‘ ہاں یہ احتیاط ضرور کی جائے کہ وہ ذریعہ حرام نہ ہو. اگر ہم ابلاغ کے جدید ذرائع کو چھوڑدیں گے تو گویا اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ماریں گے. بہرحال آپؐ کے پکارنے پر لوگ جمع ہوگئے تو آپؐ نے اُن سے پوچھا‘ لوگو! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک دشمن ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کو مانو گے. سب نے یک زبان ہو کر کہا‘ کیوں نہیں‘ ہم آپ پر ضرور یقین کریں گے‘ کیونکہ آپؐ صادق اور امین ہیں‘ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ‘ دوسرے یہ کہ آپؐ بلندی پر کھڑے ہیں. آپ پہاڑ کے اُدھر بھی دیکھ رہے ہیں‘ اِدھر بھی دیکھ رہے ہیں. تو یہ ہے مقام نبوت. نبی بلند مقام و مرتبہ پر ہوتا ہے. وہ دنیا کو بھی دیکھ رہا ہوتا ہے اور آخرت کو بھی اور اِسی بلندی سے وہ لوگوں کو حقائق کی خبر دیتا ہے. ’’رسالت‘‘ بڑا سادہ سا لفظ ہے. اس کا مادہ ر س ل ہے. اس مادہ سے باب افعال سے ارسل یرسل ارسالاً آتا ہے‘ جس کے معنی پیغامبر بھیجنا‘ خط بھیجنا‘ پیغام بھیجنا‘ تحفہ بھیجنا کے ہوتے ہیں. 

نبوت و رسالت کے ضمن میں متفق علیہ باتیں:

نبوت اور رسالت کے ضمن میں دو باتیں متفق علیہ ہیں. پہلی بات جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے‘ یہ ہے کہ یہ بھی ان چند اصطلاحات میں سے ہیں جو قرآن حکیم میں جوڑوں کی شکل میں آئی ہیں‘ اور قریب المعنی ہیں. یہ اگر کہیں ایک ساتھ آجائیں تو ان کے معنی جدا ہو جائیں گے‘ اور اگر علیحدہ علیحدہ ہوں تو کچھ معنی اکٹھے ہو جائیں گے. اہل علم کہتے ہیں: اذا اجتمعا تفرقا واذا تفرقا اجتمعا. اِس کی ایک مثال مومن اور مسلم کی ہے. یہ دو الفاظ بھی قریب المعنی جوڑا ہے. ان دونوں کے ایک ہی معنی ہیں‘ خواہ آپ مومن کہہ لیں یا مسلم‘ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں. لیکن ان کے علیحدہ علیحدہ معانی بھی ہیں. مثلاً سورۃ الحجرات میں فرمایا:

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (آیت۱۴
’’دیہاتی کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبی ان سے) کہیے‘ تم ایمان ہرگز نہیں لائے ہو. (ہاں) یوں کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں،اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘

یہاں ایمان اور اسلام کے معانی علیحدہ ہوگئے. اسی طرح کا معاملہ نبی اور رسول کا ہے. الفاظ کا یہ جوڑا ہم معنی بھی ہے اور مختلف بھی ہے. جب نبی اور رسول کے الفاظ علیحدہ علیحدہ آئیں گے تو ہم معنی ہو جائیں گے‘ اور جب ایک جگہ آئیں گے تو پھر اِن کے معانی علیحدہ ہوجائیں گے. 
دوسری بات جو علماء کے نزدیک متفق علیہ ہے‘ یہ ہے کہ نبی عام ہے اور رسول خاص ہے‘ جیسے مسلم عام ہے اور مومن خاص ہے. ہر مومن تو لازماً مسلم ہے لیکن ہر مسلم لازماً مومن نہیں ہے. آج دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں.لیکن کیا یہ مومن بھی ہیں؟ اگر فی الواقع مومن ہوتے تو دنیا میں کبھی ذلیل و خوار نہ ہوتے کہ خود اللہ نے فرمایا کہ

وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (آل عمران)
’’اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے.‘‘

ہم ذلیل و خوار اس لیے ہیں کہ صحیح معنوں میں مومن نہیں ہیں. بہرحال نبی عام اور رسول خاص ہے. ہر رسول لازماً نبی ہے‘ مگر ہر نبی لازماً رسول نہیں ہے. 

تیسری بات بھی تقریباً متفق علیہ ہے. وہ یہ کہ دنیا میں جو انبیاء کرام ؑ آئے ہیں‘ اُن کی تعداد سوا لاکھ ہے‘ اور رسولوں کی تعداد۳۱۳ہے. عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع میں جو صحابہؓ حضور  کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے وہ سوا لاکھ تھے. یہ گویا وہی تعداد ہے جو دنیا میں آنے والے نبیوں کی ہے‘ اور میدان بدر میں حضور  کے ساتھ ۳۱۳ صحابہ تھے‘ اور یہ وہ تعداد ہے کہ جس تعداد میں دنیا میں رسول آئے.

نبوت و رسالت میں فرق:

اب سوال یہ ہے کہ نبی اور رسول میں فرق کیا ہے. اس سلسلہ میں عام طور پر علماء کا کہنا ہے کہ دنیا میں جو پیغمبر کتاب لے کر آتا ہے وہ رسول ہے اور جو بغیر کتاب کے آتا ہے وہ نبی ہے. دوسرے یہ کہ جو پیغمبر کوئی شریعت لاتا ہے‘ وہ رسول ہے اور جو شریعت نہیں لاتا وہ نبی ہے. میرے نزدیک نبی اور رسول میں فرق کے حوالے سے یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں. اس لیے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو کتاب زبور دی گئی‘ لیکن وہ نبی ہیں‘ رسول نہیں ہیں‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نئی شریعت نہیں لائے‘ لیکن پھر بھی وہ رسول ہیں. نبوت و رسالت میں فرق کچھ اور ہے.

نبوت مرتبہ‘ رسالت عہدہ ہے :

میں سمجھتا ہوں کہ نبوت ایک مرتبہ اور کیڈر ہے جبکہ رسالت ایک عہدہ اور اپائنٹمنٹ ہے. نبی کو جب کسی خاص جگہ پر معین کرکے بھیج دیا جائے تو وہ رسول ہوجاتا ہے. اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے. جب ایک شخص CSP آفیسر بن جاتا ہے‘ اس نے ٹریننگ بھی کرلی ہوتی ہے‘ تو اب اسے کسی بھی اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا جاسکتا ہے. اسے ڈی سی لگایا جاسکتا ہے‘ کہیں ڈپٹی سیکرٹری لگایا جاسکتا ہے. کہیں کسی محکمے کا چیئرمین بنایا جاسکتا ہے. بہرحال اُسے جہاں بھی تعینات کیا جائے گا‘ وہ اس کا ممکنہ عہدہ ہوگا‘ البتہ اس کا کیڈر مرتے دم تک CSP رہے گا. یہی کہا جائے گا کہ وہ CSPآفیسر ہے‘ یا PCS آفیسر ہے. پس جدید اصطلاح میں نبوت ایک کیڈر اور ایک مرتبہ اور رسالت ایک عہدہ ہے. جب اللہ کسی نبی کو معین طور پر کسی کی طرف بھیجتا ہے تو وہ رسول ہوجاتا ہے‘ جیسے موسیٰ علیہ السلام سے فرما گیا: 

اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿٪۲۴﴾ (طٰہٰ)
’’تم فرعون کے پاس جاؤ (کہ) وہ سرکش ہو رہا ہے.‘‘

اگر نبیوں کو اس طرح کی اپائنٹمنٹ نہیں دی جاتی تو ان کی حیثیت وہی ہوتی ہے‘ جیسے اولیاء اللہ کی ہوتی ہے. وہ اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں. اُن کے دل میں ایمان ہوتا ہے‘ اور ایمان بھی یقین والا. البتہ فرق یہ ہوتا ہے کہ انبیاء پر وحی آتی ہے‘ اولیاء پر وحی نہیں آتی. نبیوں کی طرح اولیاء کی ذات سے بھی خیر پھیلتا ہے‘ بلکہ ہر مومن کی ذات سے خیر پھیلتا ہے بشرطیکہ وہ مومن ہو. اگر آگ واقعتا آگ ہے تو اس سے ماحول میں حرارت لازماً پھیلے گی. اگر کسی کے وجود سے نیکی نہیں پھیلتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندۂ مومن نہیں ہے. 

نبی کے برعکس رسول قتل نہیں ہو سکتا:

نبی اور رسول میں دوسرا فرق یہ ہے کہ نبی قتل ہوسکتا ہے جبکہ رسول قتل نہیں ہوسکتا. کیوں؟ اس لیے کہ وہ ایک خاص جگہ میں اللہ کا نمائندہ بنا کر بھیجا جاتا ہے. اس کی توہین اللہ کی توہین ہے. اس کو قتل کرنے کی کوشش اللہ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوتی ہے. لہٰذا رسول کبھی قتل نہیں ہوسکتے. قرآن مجید میں کئی جگہ اس بات کو واضح کیا گیا ہے. سورۃ المجادلۃ میں فرمایا:

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ (آیت۲۱)
’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول لازماً غالب رہیں گے.‘‘

سورۃ الصافات میں ارشاد ہوا:
وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚۖاِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ ﴿۱۷۲﴾۪وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۱۷۳
’’اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہوچکا ہے کہ وہی (مظفر و) منصور ہیں. اور ہمارا لشکر غالب رہے گا.‘‘

اسی طرح سورۃ القمر میں حضرت نوح علیہ السلام اللہ سے فریاد کرتے ہیں کہ 
فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ ﴿۱۰﴾ ’’انہوں نے رب سے دعا کی کہ (اے اللہ) میں (اِن کے مقابلے میں) مغلوب ہوا جارہا ہوں‘ میری مدد کر(اور ان سے انتقام لے).‘‘

رسول مغلوب نہیں ہوسکتا. اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ نبی اکرم  کی یہ آرزو کیوں پوری نہ ہوئی کہ میں اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں. آپؐ فرماتے ہیں: میری بڑی خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل ہوجاؤں‘ پھر مجھے زندہ کیا جائے‘ پھر قتل ہو جاؤں‘ پھر زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جائے‘ پھر زندہ کیا جائے. اللہ نے یہ آرزو پوری نہیں کی. اس لیے کہ رسول کے حوالے سے اللہ کا فیصلہ ہے کہ : 

وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚۖاِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ ﴿۱۷۲﴾۪وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۱۷۳﴾ (الصفّٰت)
’’اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ وہی (مظفر و) منصور ہیں‘ اور ہمارا لشکر غالب رہے گا.‘‘

رسول کے غلبہ اور قتل سے بچاؤ کی فیصلہ کن اور سب سے نمایاں مثال قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آئی ہے. بنی اسرائیل میں ایک ہی وقت میں دو شخصیتیں موجود تھیں. ایک حضرت یحیی علیہ السلام اور دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام . یحیی علیہ السلام قتل کردیئے گئے‘ مگر عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی سازش کامیاب نہ ہوئی. اللہ نے اُ نہیں قتل نہیں ہونے دیا‘ بلکہ زندہ آسمان پر اٹھا لیا. حضرت یحیی علیہ السلام جو نبی تھے‘ جن کے بارے میں قرآن میں سید‘ حصور اور نبی صالح کے الفاظ آتے ہیں‘ قتل ہوگئے‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول تھے‘ انہیں قتل ہونے سے بچالیا گیا‘ اور انجیل برنباس کے مطابق ان کی جگہ وہ حواری سولی چڑھ گیا‘ جس نے انہیں گرفتار کروانے کے لیے غداری کی تھی. اللہ نے اس کی شکل حضرت مسیحؑ کی بنا دی. قرآن نے بنیادی بات بتا دی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے‘ اللہ نے انہیں زندہ اُٹھا لیا. باقی تفصیل نہ قرآن میں ہے‘ نہ حدیث میں ہے. 

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ (النساء:۱۵۷
’’اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ ؑ مسیح کو جو اللہ کے پیغمبر (کہلاتے) تھے قتل کردیا ہے. (اللہ نے ان کو ملعون کردیا) اور انہوں نے عیسیٰ ؑ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی. ‘‘

یعنی یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا‘ انہونی بات ہے. رسول تو قتل ہوہی نہیں سکتا. 
اس ضمن میں ایک اور سوال یہ ہے کہ قرآن میں جہاں قتل انبیاء کا ذکر آیا ہے‘ وہاں بعض جگہوں پر قتل رسل کا ذکر بھی آیا ہے‘ اس سے کیا مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے مقامات پر رسول کے معنی نبی کے ہیں. یہاں وہ اصول لاگو ہوگا جو پیچھے بیان کیا گیا ہے کہ 
اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا. 

آخری بات اہل تصوف کے حوالے سے ہے. بعض جاہل صوفیوں کا کہنا یہ ہے کہ ولایت نبوت و رسالت سے افضل ہے. یہ نری بکواس ہے. اسی لیے میں نے ’’جاہل‘‘ صوفیاء کہا ہے. یہ خیال سب صوفیاء کا نہیں ہے‘ جاہل صوفیاء کا ہے. عبدیت‘ ولایت اور نبوت کیڈر ہیں. ہر نبی پہلے عبد‘ پھر ولی اور پھر نبی ہوتا ہے‘ اور جب اُسے معین کرکے کسی خاص جگہ بھیجا جاتا ہے تو وہ رسول ہو جاتا ہے. پس رسالت وہ منصب اور عہدہ ہے کہ جس میں نبوت و رسالت دونوں جمع ہیں. 

نبوت کا رخ اللہ‘ رسالت کا بندوں کی طرف ہے

نبوت کا رخ اللہ کی طرف ہے. نبی اللہ سے لے رہا ہوتا ہے. اس کے برعکس رسالت کا رُخ بندگان خدا کی طرف ہوتا ہے. رسول اللہ کا پیغام لوگوں میں پھیلا رہا ہوتا ہے. چونکہ رسالت کا رُخ مخلوق کی طرف ہے جبکہ نبوت کا رُخ اللہ کی طرف ہے‘ لہذا اس اعتبار سے نبوت کو افضل کہا جائے گا. مولانا رومؒ کہتے ہیں کہ نبوت مرتبۂ عروج میں ہے اور رسالت مرتبۂ نزول میں ہے. حضور کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎ 

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا 
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تھے کہ اُن سے کہا گیا :
اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿٪۲۴﴾ (طٰہٰ) 

’’تم فرعون کے پاس جاؤ (کہ) وہ سرکش ہو رہا ہے.‘‘

یعنی کوہ طور کی بلندی پر سے اب ذرا نیچے اترو‘ اور فرعون کو دعوت حق پیش کرو‘ جس نے سرکشی کی 
ہے. جب اللہ کا رسول‘ اللہ کا نبی رات کو کھڑا ہوتا ہے تو یہ اس کی عبدیت ہے. یہ اس کی نبوت ہے‘ اس کا رخ اللہ کی طرف ہے. اور جب وہ دن میں تبلیغ کررہا ہوتا ہے‘ اللہ کے پیغام کے ابلاغ کے لیے ادھر اُدھر جاتا ہے‘ کبھی ایک سے اور کبھی دوسرے سے بات کرتا ہے‘ تو یہ رسالت ہے. چونکہ پیغام الٰہی پہنچانے کے دوران لوگوں سے طرح طرح کی ناروا باتیں سننا پڑتی ہیں‘ جس سے دل میں کچھ نہ کچھ میل آجاتا ہے‘ لہذا کہا جاتا ہے کہ رات کو کھڑے ہوکر ذرا اندر کی صفائی کرو‘ یہ جو تکدر آگیا تھا‘ اُسے دھو لو. مولانا رومؒ نے اس ضمن میں بہت عمدہ مثال دی ہے کہ جب بارش آتی ہے تو وہ فضا کو دھوتی اور اُس کے اندر موجود کثافتوں کو لے کر زمین پر آتی ہے. پھر وہ زمین کو دھوتی ہے. چنانچہ دریا زمین کی کثافتیں بہا لے جاتا ہے. پھر یہی پانی سمندر میں پہنچ جاتا ہے. پھر سورج کی تمازت سے وہاں سے بخارات کی شکل میں اُٹھ رہا ہوتا ہے. اور تب یہ نہایت صاف و شفاف ہوتا ہے. اس میں کوئی کثافت نہیں ہوتی. نبی کا یہ رات کا جو معاملہ ہے اُس کا رُخ اللہ کی جانب ہے. اور یہ دن کا جو معاملہ ہے‘ اس کا رخ بندوں کی طرف ہے. بہرحال ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہستی جو نبی بھی ہو اور رسول بھی‘ اس کی نبوت اس کی رسالت سے افضل ہے. (واللہ اعلم) 

٭انقلاب نبویؐ میں معجزوں کا عمل دخل نہیں!

اپنے خطبۂ ثانی کے بارے میں مجھے خاصا اطمینان ہے. بحمدا للہ‘ میں نے اپنا مافی الضمیر صحیح طور پر بیان کردیا ہے. اس کا حاصل یہ ہے کہ ختم نبوت کے دو پہلو ہیں. ایک یہ کہ آپؐ پرنبوت و رسالت اختتام کو پہنچ گئی اور دوسرے‘ آپ پر ہدایت کی تکمیل ہوگئی. ختم نبوت کے پہلو سے حضور  کی اصل فضیلت تکمیل نبوت و رسالت میں ہے. یعنی آپؐ پر نبوت و رسالت کی تکمیل ہوئی ہے. بدقسمتی سے ہم نے اس پہلو کو ختم نبوت کی دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا. تکمیل نبوت و رسالت کے دو مظاہر ہیں: الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق (یعنی کامل نظام زندگی). کار رسالت کے حوالے سے آپؐ کی ذمہ داری صرف یہی نہیں تھی کہ دین کو پہنچا دیں‘ بلکہ یہ بھی آپؐ کی ذمہ داری تھی کہ اس دین کو قائم کرکے دکھائیں. گویا آپ کا مشن ایک انقلابی مشن تھا. تیسری چیز جس کامیں آج اضافہ کررہا ہوں وہ یہ ہے کہ حضور  کی شخصیت میں نبوت و رسالت کے کامل ہونے کے ساتھ انسانیت بھی اپنی معراج کو پہنچ گئی. آپؐ پر بشریت کی بھی تکمیل ہوگئی. چنانچہ حضور نے تاریخ انسانی کا جو عظیم ترین انقلاب برپا کیا وہ محض انسانی محنت‘ مشقت‘ ایثار و قربانی‘ صبر و مصابرت‘ استقامت و مقاومت کی بنیاد پر برپا کیا. اس میں معجزوں کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے. یہ نہیں ہوا کہ بھوک لگی ہو تو اللہ نے من و سلویٰ اتار دیا ہو. جب پیاس لگی تو اُس نے ایک چٹان سے بارہ چشمے جاری کردیئے ہوں. سمندر سامنے آیا تو باذن الٰہی اُسے ایک عصا کی ضرب سے پھاڑ دیا گیا ہو. 

حضور نے اسلام کے غلبہ کے لیے جس طور سے عظیم جدوجہد کی اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان میں کیا کچھ رکھا ہوا ہے. آپؐ نے ۲۳ سال کے قلیل عرصے میں خالصتاً انسانی بنیادوں پر تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا فرمایا. اِس راہ میں آپؐ کو سخت ترین صعوبتوں سے گزرنا پڑا. حضور خود فرماتے ہیں کہ وہ تکلیفیں جو تمام انبیاء و رسل کو اُٹھانی پڑی ہیں‘ وہ ساری میں نے تنہا اُٹھائیں. غور کیجیے‘ طائف کے دن آپؐ کے ساتھ کیا ہوا؟ شعب ابی طالب میں آپؐ نے کس طور سے بھوک پیاس کے ساتھ تین سال کی قید اور سماجی بائیکاٹ برداشت کیا. یہ وہ قید نہیں جو ہمارے ہاں ہوتی ہے. ہمیں تو جیل میں قید کے دوران کھانا ملتا ہے‘ لیکن وہاں تو آپؐ اور آپؐ کے خاندان کو کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا. آپؐ کا ٹوٹل سماجی بائیکاٹ کیا گیا تھا. آپؐ کے ساتھ میدان احد میں کیا ہوا؟ خندق کی کھدائی کے دوران آپؐ کی یہ حالت تھی کہ 
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے پیٹوں پر ایک پتھر باندھ رکھا تھا تو آپؐ نے دو پتھر باندھے ہوئے تھے. 

یہ بات کہ آپؐ کے انقلاب میں معجزوں کا عمل دخل نہیں‘ بہت سے لوگوں کو اچھی نہیں لگے گی. لیکن یہ حقیقت ہے. اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا. لفظ ’’معجزہ‘‘ کے معنی ہیں عاجز کردینے والی شے. معجزہ وہ دلیل ہے جس کے بعد انکار کرنا ممکن نہ رہے. معجزہ یا تو لوگوں کے مطالبے پر دکھایا جاتا ہے یا پھر اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے. مثلاً حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے اُن سے کہا: اے صالح :ؑ! اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو دُعا کرو کہ ہمارے سامنے یہ جو چٹان ہے‘ اس میں سے ابھی ایک گابھن اُونٹنی برآمد ہو جائے. انہوں نے اللہ سے دعا کی اور لوگوں کی آنکھوں کے سامنے چٹان سے ایک گابھن اونٹنی برآمد ہوگئی. یہ مطالبہ پر معجزہ دکھانے کی مثال ہے. رسول کے اپنے دعوے کی صداقت کے طور پر معجزہ پیش کرنے کی ایک مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے. حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور سے واپس آئے تو اپنی قوم سے کہا کہ میں اللہ کی طرف سے آیات (نشانیاں) لے کر آیا ہوں.

انہوں نے پوچھا‘ آپ کیا نشانیاں لائے ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا تو وہ سانپ بن گیا. اسی طرح اپنا ہاتھ بغل میں دے کر نکالا تو وہ سورج کی طرح چمکتا ہوا روشن ہوگیا. یہ معجزات گویا اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر ہیں. ان دونوں معانی میں حضور  کا کوئی معجزہ نہیں. یہاں تک کہ قرآن حکیم میں ایک مقام ایسا بھی ہے جس کو پڑھتے ہوئے میں لرزجاتا ہوں. ایک موقع پر حضور کے اپنے دل میں خواہش پیدا ہوگئی کہ کوئی معجزہ دکھا ہی دیا جائے‘ تاکہ ان کم بختوں کا منہ بند ہو جائے. اس لیے کہ سردارانِ قریش کہہ رہے تھے کہ ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کردے‘ یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہر رواں کردے‘ یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کو رودررو ہمارے سامنے لے آئے‘ یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اُتار لائے جسے ہم پڑھیں. اس پر اللہ کی طرف سے جواب آیا: 

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۵۰﴾ (العنکبوت)
’’ اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے نشانیاں کیوں نازل نہیں ہوئیں. کہہ دو کہ نشانیاں تو اللہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو کھلم کھلا ہدایت کرنے والا ہوں.‘‘

میں نے تو دعویٰ رسول ہونے کا کیا‘ خدا ہونے کا دعویٰ تو نہیں کیا. یہ معجزات اللہ کے اختیار میں ہیں. میں اپنے اختیار سے کوئی چیز نہیں دکھا سکتا. اس حوالے سے ایک واقعہ بھی آتا ہے‘ جس سے کپکپی طاری ہوتی ہے. آپؐ کا ایک پھوپھی زاد بھائی تھا‘ جو آپؐ کے ساتھ رہتا تھا اور آپؐ کی سپورٹ کرتا تھا. وہ ایمان تو نہیں لایا تھا لیکن آپؐ کے ساتھ تعاون کرتا تھا‘ جیسے ابوطالب آپؐ کی حمایت کرتے تھے. جس محفل میں کفار نے آپؐ سے معجزہ لانے کا مطالبہ کیا‘ اُس محفل میں آپؐ کا یہ پھوپھی زاد بھائی بھی موجود تھا. اس نے کہا‘ محمدؐ آج تمہاری قوم نے تم پر حجت قائم کردی ہے. اب اگر آپؐ معجزہ نہیں دکھا سکتے تو آئندہ میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گا. ان کا مطالبہ معقول ہے. آپ خود کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزے ملے ہیں‘ عیسیٰ علیہ السلام کو وہ 
معجزے ملے ہیں‘ جن کی کوئی حد تو نہیں تو پھر آپؐ معجزہ کیوں نہیں دکھا دیتے. اب ان حالات میں اگر حضور کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہو ہی گیا ہو کہ اے اللہ تو کوئی معجزہ دکھا ہی دے‘ تاکہ ان کے منہ بند ہوں تو یہ بات بالکل فطری تھی لیکن اللہ نے بتا دیا کہ میں نے معجزہ نہیں دکھانا. یہ وہ مقام ہے جسے پڑھتے ہوئے میں لرز جاتا ہوں. فرمایا: 

وَ لَقَدۡ کُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَکَ مِنۡ نَّبَاِی الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۳۴﴾وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۳۵﴾ (الانعام)

’’ اور تم سے پہلے بھی پیغمبر جھٹلائے جاتے رہے تو وہ تکذیب اور ایذاء پر صبر کرتے رہے. یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی. اور اللہ کی باتوں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں. اور تم کو پیغمبروں (کے احوال) کی خبریں پہنچ چکی ہیں (تو تم بھی صبر سے کام لو)اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سْرنگ ڈھونڈھ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ. اور اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا. پس تم ہرگز جذباتی نہ ہونا.‘‘

اس کا ایک خاص سبب تھا؟ وہ یہ کہ معجزہ دکھانے کے بعد قوم کی مہلت ختم ہو جاتی ہے. معجزہ دیکھنے کے بعد بھی جو قوم ایمان نہ لائے وہ ہلاک کردی جاتی ہے. جبکہ اللہ تعالیٰ کو ابھی اس معاملے کو آگے بڑھانا تھا. آپؐ نے اظہار دین حق کی جو جدوجہد کی‘ اس میں یقینا خرق عادت قسم کے معاملات بھی ہوئے ہیں‘ اللہ کی خصوصی مدد بھی آئی ہے اور یہ غیر مرئی اور غیر طبعی طور پر بھی آئی ہے‘ لیکن دعوے سے اور مطالبے پر نہیں آئی. جیسے ایک موقع پر کھانا تھوڑے لوگوں کے لیے تھا‘ بہت سے لوگوں کے لیے اُس میں برکت پیدا ہوگئی. پانی تھوڑا سا تھا‘ حضور نے اپنا لعاب دہن اُس میں ڈالا ہے تو آپؐ کی برکت سے یوں چشمہ پھوٹا کہ سب نے پانی پی لیا. یہ طبعی قوانین سے ہٹ کر ماورائی انداز میں مدد ہے. اسی طرح میدان بدر میں نصرت کے لیے فرشتے اترے. غار ثور میں آپؐ کی حفاظت کے لیے مکڑی نے جالا بنا اور کبوتری نے انڈے دیئے اور یوں اللہ نے آپؐ کو دشمنوں سے بچالیا. تاہم آپؐ کا اصل معجزہ صرف ایک ہے اور وہ معجزہ قرآن ہے. جسے ایمان لانا ہے اس قرآن پر ایمان لائے. جسے 
ایمان نہیں لانا وہ بڑے سے بڑا معجزہ دیکھ کر بھی نہیں لائے گا. کیا فرعون معجزہ دیکھ کر ایمان لایا؟ کیا قوم ثمود ایمان لائی؟ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردہ کو زندہ کرتے تھے‘ مٹی کا پرندہ بنا کر پھونک مارتے ہیں تو وہ اڑتا ہوا پرندہ بن جاتا ہے‘ مگر کیا ان معجزات کو دیکھ کر یہودیوں نے اُن کی دعوت کو تسلیم کیا. اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور کو جو معجزہ دیا گیا وہ قرآن ہے اور یہ سب سے بڑا معجزہ ہے.

اس لیے کہ باقی سارے معجزے خواہ کتنے ہی بڑے نظر آئیں صرف رسول کی زندگی میں تھے‘ بعد میں نہیں رہے. عصائے موسیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خاص تھا. کہا جاتا ہے وہ لاٹھی اب بھی تابوتِ سکینہ میں موجود ہے جو یہودیوں کے بقول مسجد اقصیٰ کے نیچے تہہ خانوں میں دبا ہوا ہے. اسی طرح ایک مرتبان بھی ہے‘ جس میں یہود کے لیے گندم کی شکل میں ’’من‘‘ اترتا تھا. لیکن ان چیزوں میں اب اثر نہیں. کیونکہ اس طرح کے معجزات رسول کی زندگی کے لیے تھے. آپؐ کو جو معجزہ دیا گیا‘ اُس کی تاثیر تاقیام قیامت رہے گی. بہرحال حضور کے لیے خرق عادت مدد بھی آئی. راہِ حق میں اللہ کی مدد آتی ہے لیکن یہ اس وقت آتی ہے جب انسان آزمائش پر پورا اُتر تا ہے . اس سے پہلے مدد نہیں آتی. بہرحال آنحضور کو ایک انقلابی مشن تفویض کیا گیا. یعنی دین کو قائم کرو‘ جو نظام باطل چلا آتا ہے اسے اکھیڑو‘ اور اس کی جگہ دین کو قائم و غالب کرو. چنانچہ آپؐ نے تاریخ انسانی کا عظیم ترین‘ گھمبیر ترین‘ جامع ترین اور ہمہ گیر ترین انقلاب برپا فرمایا. اس ضمن میں ایم این رائے‘ ایچ جی ویلز‘ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کی گواہیاں پیش کی جاچکی ہیں. لہذا اس سے جو نتیجہ نکالنا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ واقعتا یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انقلاب کا صحیح طریق کار کیا ہے تو اس کے لیے آپ کو نبی اکرم  کی سیرت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا. افسوس کہ ہم آج بھٹک رہے ہیں ؎

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے 

کوئی سمجھتا ہے کہ انقلاب دعوت و تبلیغ سے برپا ہوجائے گا. خدا کے بندو‘ اگر دعوت سے انقلاب برپا ہوسکتا تو کیا (معاذ اللہ) آنحضور سے بڑا مبلغ‘ حضور سے بڑا داعی‘ حضور سے بڑا معلم‘ مربی‘ مزکی کوئی ہوسکتا ہے؟ پھر آپؐ کو تلوار ہاتھ میں کیوں لینی پڑی؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات کے راستے سے انقلاب آجائے گا. یہ خیال بھی درست نہیں. انتخابات سے اُسی چیز کی عکاسی ہوگی جو معاشرے میں ہے. انتخابات سے جاگیردار‘ سردار اور سرمایہ دار ہی آگے آئیں گے. تم کس خوش فہمی میں مبتلا ہو. اِسی طرح محض علمی اور تعلیمی کام سے بھی کبھی انقلاب نہیں آسکتا. اگر آپ کو انقلاب کا طریق کار درکار ہے‘ تو اس کے لیے آپؐ کو پیغمبر اسلام  کی سیرت کی طرف رجوع کرنا ہوگا. پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ انقلابی جدوجہد دنیا کا مشکل ترین کام ہے. اگر آپ دعوت وتبلیغ کا کام کریں گے آپ کو کوئی جان سے نہیں مارے گا‘ ہاں برا بھلا کہہ سکتا ہے. مشقت تو آپ کو کرنی پڑے گی‘ محنت کرنی پڑے گی چاہے آپ مشنری ہوں‘ چاہے تبلیغی جماعت کے بھائی ہوں‘ مگر آپ کو جان کا خطرہ نہیں ہے. انقلابی جدوجہد میں تو جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے. کیوں؟ انقلاب کے معنی یہ ہیں کہ آپ نظام کو بدل دیں‘ جبکہ نظام کے ساتھ برسراقتدار مراعات یافتہ طبقات کے مفادات وابستہ ہیں. اُن کی سرداریاں‘ سیادتیں ہیں‘ چودھراہٹیں قائم ہیں. اگر آپ ان سب کو ختم کرنے کے درپے ہوگئے‘ اگر یہ سارے آشیانے جس درخت کی شاخوں پر بنے ہوئے ہیں اگر آپ اس درخت کی جڑ کاٹنے لگ گئے‘ تو یہ نہیں ہوسکتا کہ اُن کی طرف سے مزاحمت نہ ہو. وہ یقینا اس کی شدید مزاحمت اور مخالفت کریں گے ع نظام کہنہ کے پاسبانو یہ معرض انقلاب میں ہے. 

اب آئیے‘ پچھلے خطبہ کی طرف. اُس میں خاصے خلا رہ گئے تھے 
.

٭انقلاب نبویؐ کا اساسی منہاج : چند وضاحتیں

میں نے انقلاب نبوی کے اساسی منہاج کے ضمن میں بتایا تھا کہ نبی اکرم  نے افراد کی تیاری کے لیے تلاوت قرآن‘ تزکیہ‘ تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کو ذریعہ بنایا. ان اصطلاحات کا ذکر قرآن حکیم میں چار مرتبہ آیا ہے. 
(۱) چنانچہ سب سے پہلے سورۃ البقرہ کے پندرہویں رکوع کے آخر میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی دعا میں یہ الفاظ وارد ہوئے:

رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۲۹﴾٪

’’اے رب ہمارے ہم دونوں کو بھی اپنا فرمانبردار بنائے رکھ اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی اُمت برپا کیجیے جو تیری فرمانبردار ہو. اور ہمیں تعلیم فرما ہماری عبادت کے طور طریقے. اور قبول فرما ہماری توبہ. یقینا تو توبہ قبول کرنے اور رحم فرمانے والا ہے. اور اے رب ہمارے تو مبعوث فرمائیو ان میں ان ہی میں سے ایک رسول‘ جو اُن کو سنائے تیری آیتیں اور انہیں تعلیم دے کتاب اورحکمت کی اورتزکیہ کرے اُن کا.بے شک تو ہی ہے سب پر غالب اور کامل حکمت والا.‘‘

(۲) پھر تین ہی رکوعوں کے بعد‘ اٹھارھویں رکوع کے آخر میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ آنحضور کی بعثت دراصل اسی دعائے ابراہیم ؑو اسمٰعیلؑ 
عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْھِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ کا ظہور ہے‘ ان ہی چار اصطلاحات کو دہرایاگیا:
کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۵۱﴾ؕۛ (البقرہ)

’’چنانچہ بھیج دیا ہے ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے‘ جو سناتا ہے تمہیں ہماری آیات اور تزکیہ کرتا ہے تمہارا اور تعلیم دیتا ہے تمہیں کتاب اور حکمت کی اور تعلیم دیتا ہے تمہیں ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں جانتے تھے.‘‘
(۳) اگلی سورت یعنی سورۂ آل عمران میں یہ مضمون مزید شان اور آن بان کے ساتھ وارد ہوتاہے:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۶۴﴾ (آل عمران) 

’’اللہ نے احسانِ عظیم فرمایا ہے اہل ایمان پر کہ اُٹھایا ان میں ایک رسول ان ہی میں کا‘ جو سناتا ہے اُنہیں اُس کی آیات اور تزکیہ کرتا ہے ان کا اور تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب اور حکمت کی. اور یقینا وہ تھے اس سے قبل کھلی گمراہی میں!‘‘
(۴) آخری بار یہ مضمون اٹھائیسویں پارے میں سورۃ الجمعہ میں آتا ہے:

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ 

’’وہی ہے (اللہ) جس نے اُٹھایا اُمّیوں میں ایک رسول ان ہی میں سے جو سناتا ہے انہیں اس کی آیات اور تزکیہ کرتا ہے ان کا اور تعلیم دیتا ہے ان کو کتاب اور حکمت کی. یقینا وہ تھے اس سے قبل کھلی گمراہی میں!‘‘ 

حکمت : تعلیم نبوی کا نقطۂ عروج

یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ اول الذکر دو مقامات پر جہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دُعا کے حوالے سے آپؐ کے اساسی منہاج کا ذکر ہے‘ وہاں اِس ضمن میں آنے والی چار اصطلاحات میں سب سے آخر میں تزکیہ کا ذکر آیا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں خود اِن چار اصطلاحات کا ذکر فرمایا ہے‘ اُس میں آخر الذکر شے حکمت بیان ہوئی ہے. اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا معاذ اللہ پہلی ترتیب جو انبیاء کی ہے نادرست ہے؟ ہرگز نہیں. البتہ ہم یہ کہیں گے کہ جو ترتیب اللہ کی طرف سے آئی ہے وہ اہم تر ضرور ہے. اس سے معلوم ہوا کہ نبوی تعلیم و تربیت کا نقطہ عروج تعلیم حکمت ہے. بعثت نبوی سے پہلے زمانوں میں جب انسان فکری اور ذہنی اعتبار سے اپنے بچپنے کے دور سے گزر رہا تھا‘ حکمت کا اہل نہیں تھا. تب بلند ترین شے تزکیہ یعنی انسان کوپاک کردینا تھا لیکن اب یہ حکمت ہے. ہمارے ہاں بدقسمتی سے خانقاہی نظام میں سارا زور تزکیہ ہی پر رہ گیا. افراد کو مانجھے جاؤ‘ رگڑے جاؤ‘ پھر جن کا تزکیہ ہوا ہے ان کو بھی اسی کام میں لگا دو کہ اور لوگوں کو مانجھیں رگڑیں‘ مگر اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی کہ جن کو مانجھا اور رگڑا گیا ہے‘ ان کو کسی انقلابی عمل میں شریک کرنا ہے. یقینا حضور نے تزکیہ کیا‘ مگر تزکیہ کے بعد پھر افراد کو باطل کے ساتھ ٹکرا دیا. 

تزکیہ نہایت ضروری ہے : تعلیم کتاب سے مراد قانون‘ شریعت کی تعلیم و تنفیذ ہے‘ مگر اس سے پہلے ضروری ہے کہ افراد کا تزکیہ ہو. اگر تزکیہ نہیں ہوا یعنی آپ کے ارادے اُمنگیں‘ نیتیں خالص نہیں ہیں‘ تو آپ کو جو علم حاصل ہوگا وہ آپ کو غلط رُخ پر لے جائے گا. آپ اُس کے ذریعے علم اور روحانیت کی دوکانداری کریں گے ؎

علم رابر تن زنی مارے بود
علم رابر دل زنی یارے بود

(اگر علم کو تن پر ڈال دو گے تو یہ تمہارا سانپ ہے جو تمہیں ڈسے گا. اور اگر اسے دل پر ڈالو گے تو یہ تمہارا دوست ہے.)
یہ علمائے سوء کیوں پیدا ہوتے ہیں. اس لیے کہ ان کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا. وہ علم کا بہت بڑا خزانہ تو جمع کرلیتے ہیں‘ لیکن چونکہ نیتوں میں فطور ہوتا ہے‘ لہذا فتویٰ فروشی کرتے اور دینی دوکانداری چمکاتے ہیں. یہ بات اتنی یقینی ہے کہ تبع تابعین کے دور ہی میں حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ جو مجاہد‘ عالم اور محدث تھے‘ فرماتے تھے:

وما افسد الدین الا الملوک واحبار سوء و رھبانھا
(دین میں جتنا فساد اور فتنہ اُٹھا ہے‘ وہ یا بادشاہوں نے اُٹھایا یا پھر علمائے سوء اور صوفیانے.)
اس لیے تو اقبال نے کہا تھا ؎ 

باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ ملائی و سلطانی و پیری 

تلاوت آیات کے دو بنیادی مقاصد:اب آئیے‘ آپؐ کے اساسی منہج کے حوالے سے جو چار اصطلاحات آئی ہیں‘ اُن میں سے تلاوت آیات پر کچھ مزید بات ہو جائے. 

’’تلاوت آیات‘‘ کا ایک مقصد تو میں نے بیان کردیا تھا کہ قرآن ایک مقناطیس ہے جو سلیم الفطرت لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے. جس شخص کے اندر روح مرنہ گئی ہو‘ جس کے دل پر حجابات اتنے مضبوط نہ ہو گئے ہوں کہ ایمان کی روشنی اندر داخل ہی نہ ہوسکے‘ جس کی روح ابھی زندہ ہو‘ اگرچہ ضعیف‘ کمزور اور نحیف ہو‘ قرآن اس کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے بالکل اُسی طرح جیسے مقناطیس لوہے کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے. اِس لیے کہ روح اور قرآن دونوں ایک جگہ سے آئے ہیں. روح بھی اللہ کے پاس سے آئی ہے. یہ زمین کی شے نہیں ہے. جیسا کہ ہمارا جسد خاکی زمین کی شے ہے اور قرآن بھی اللہ کے پاس سے آیا ہے. لہذا جب قرآن کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو روح اِس کی جانب کھنچتی ہے. ؏ از کجا می آیدایں آواز دوست (یہ میرے دوست کی آواز کہاں سے آتی ہے ؟)

تلاوت آیات کا دوسرا مقصد جو بیان ہونے سے رہ گیا تھا‘ یہ ہے کہ قرآن ہی لوگوں کے اندر یقین والا ایمان پیدا کرتا ہے. اس کے لیے نہایت اہم لفظ خود ’’آیت‘‘ ہے. آیت کے معنی نشانی کے ہیں. بہت سادہ سی مثال ہے. آپ کے ایک دوست نے کسی وقت آپ کو بہت قیمتی قلم دیا تھا. آپ نے اسے استعمال نہیں کیا‘ اور ٹرنک میں رکھ دیا تاکہ تادیر خراب نہ ہو. سالہا سال بیت گئے‘ آپ کو نہ دوست یاد آیا اور نہ قلم یاد آیا. کبھی یہ خیال ہی نہیں رہا. پھر اچانک ایک دن آپ نے وہ ٹرنک کھولا تو آپ کی نظر قلم پر پڑی. نظر پڑتے ہی آپ کو دوست یاد آجائے گا. اس میں کسی عقل و شعور کی ضرورت ہے. اسی کا نام تذکر ہے. آیات قرآنی یاددہانی کراتی ہیں. آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید میں ’’ذکر‘‘ کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے. قرآن خود کو ’’الذکر‘‘ قرار دیتا ہے. اللہ نے فرمایا: 
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ ’’بے شک ہم ہی نے ’’الذکر‘‘ نازل کیا.‘‘ پھر قرآن میں ذکریٰ‘ تذکر اور تذکیر کے الفاظ بھی کئی مرتبہ آئے ہیں. پس آیات اللہ کی یاد تازہ کرتی ہیں‘ اُس کے وجود کی گواہی دیتی ہیں. ازروئے قرآنآیات تین قسم کی ہیں. آیات آفاقی‘ آیات انفسی اور آیات قرآنی. آیات آفاقی وہ ہیں جو کائنات میں بکھری ہوئی ہیں. اہل عقل ان پر غور کرتے ہیں. فرمایا:

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙ (آل عمران)
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں.‘‘

سورۃ البقرہ میں فرمایا:

وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴
’’اور مینہ میں جس کو اللہ آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کر دیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں عقلمندوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں.‘‘

سورۂ حم السجدہ آیت ۵۳ میں فرمایا:
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ
’’ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ (قرآن) حق ہے.‘‘

اِس آیت مبارکہ میں علم ِانسانی کے دائرہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدید اکتشافات وانکشافات کی طرف اشارہ ہے. یہ آیاتِ آفاقی ہیں. فرانسیسی سرجن ڈاکٹر مورس بوکائے نے قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا کہ میرا دل اس بات پر مطمئن ہو گیا ہے کہ اس قرآن میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے سائنس نے غلط ثابت کیا ہو. البتہ اُس دَور میں جبکہ انسان کا اپنا ذہنی ظرف وسیع نہیں ہوا تھا‘ علومِ انسانی اور معلوماتِ انسانی کا دائرہ محدود تھا ‘اس وقت سائنسی اشارات کی حامل آیاتِ قرآنیہ کا کیا مفہوم سمجھا گیا‘ یہ بات اور ہے. کلام اللہ ہونے کے اعتبار سے اصل اہمیت تو قرآن کے الفاظ کو حاصل ہے. ڈاکٹر مورس بوکائے نے قرآن کا تورات کے ساتھ تقابل کیا. تورات میں یہ مباحث موجود ہیں کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی‘ اللہ نے اسے 
کیسے بنایا. مختلف سائنسی phenomena قرآن میں موجود ہیں. ڈاکٹر مورس بوکائے نے اس اعتبار سے محسوس کیا کہ تورات میں کئی ایسی چیزیں ہیں جو غلط ثابت ہو چکی ہیں. ڈاکٹر مورس بوکائے کے علاوہ میں ڈاکٹر کیتھ ایل مور قرآن حکیم میں علم ِجنین سے متعلق اشارات پاکر بے حد حیران ہوا کہ یہ معلومات چودہ سو برس پہلے کہاں سے آگئیں! فزیکل سائنسز میں جیسے جیسے انسان ترقی کرتا جائے گا‘ یہ بات مزید مبرہن ہوتی چلی جائے گی کہ یہ کلام حق ہے. یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں.

بہرحال آیات تین طرح کی ہیں. آیات آفاقی‘ آیات انفسی اور آیات قرآنی. یہ تینوں مل کر کام کرتی ہیں. ان میں آیات قرآنیہ کا کام عمل انگیز 
(catalytic agent) کا ہے. آپ نے کیمسٹری میں پڑھا ہوگا. دو سالٹ اگر باہم مل کر تعامل نہیں کرتے تو کوئی تیسری چیز آکر اُن میں تعامل کرا دے گی. یہ تیسری چیز کیٹیلیٹک ایجنٹ کہلاتی ہے. قرآن کی آیات کیٹیلیٹک ایجنٹس ہیں‘ جو آیات آفاقی اور آیات انفسی کو لے کر انسان کے دل میں خوابیدہ ایمان کو ابھار کر اوپری سطح پر لے آتی ہیں. یہ ہے یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ سورۃ النور میں فرمایا گیا: اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یعنی ’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.‘‘ نور دو طرح کے ہیں. ایک نور فطرت ہے جو انسان کے دل میں ہوتا ہے‘ اور دوسرا نور قرآن ہے. نور فطرت اور نورِ قرآن مل کر نور ایمان بنتے ہیں. 

٭تصادم کا آغاز انقلابی کرتے ہیں

ایک اور انتہائی باریک نکتہ یہ ہے کہ تصادم کا آغاز ہمیشہ انقلابی کرتے ہیں. دور نبویؐ میں بھی تصادم کی ابتدا کفار اور مشرکین نے نہیں کی بلکہ رسول اللہ  نے کی. انقلابی یہ کہتے ہیں کہ تمہارے خیالات غلط ہیں‘ تمہارے عقائد غلط ہیں‘ تمہارے نظریات غلط ہیں‘ تمہارا نظام غلط ہے. اس دعوت سے ساکن و جامد معاشرہ میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے‘ جیسا کہ تالاب کے کھڑے پانی میں پتھر پھینکیں تو لہریں پیدا ہو جاتی ہیں. استحصالی معاشرہ جامد اور ساکن اس لیے ہوتا ہے کہ اس میں ظالم اور ڈاکو آپس میں مفاہمت کرلیتے ہیں. وہ ایک دوسرے سے لڑتے نہیں. لہذا برے سے برا معاشرہ بھی پُرامن ہوتا ہے. مکہ کا معاشرہ بھی اس اعتبا رسے پُرامن تھا. یہ کھڑے ہوئے پانی میں پہلا پتھر کس نے پھینکا؟ کس نے کہا کہ تمہارا نظام غلط ہے. تمہارے عقائد غلط ہیں. تمہارے الٰہ باطل ہیں. اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘ کس نے کہا کہ تمہارے سرمایہ دار غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے‘ یتیموں کو دھتکاردیتے ہیں. یہ سب اللہ کے رسول  نے کہا ہے. کیا مشرکین مکہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس دعوت حق کی زد کن پر پڑرہی ہے. ظاہر ہے‘ مراعات یافتہ استحصالی طبقات ہی دعوت حق کی زد میں آرہے تھے. نظام حق کے بالفعل قیام کے لیے اِن طبقات کی سرکوبی ناگزیر تھی. اسی لیے تو آپؐ کو تصادم کے مرحلہ سے گزرنا پڑا. اِسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوہا نازل فرمایا. اس بات کا ذکر سورۃ الحدید آیت ۲۵ میں آیا ہے .اسلام کے انقلابی فلسفہ کی نہایت واضح آیت:میرے خیال میں سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ قرآن میں اسلام کے انقلابی فلسفے کی عریاں ترین آیت ہے جس میں اللہ نے فرمایا:

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ
’’ہم نے بھیج دیا اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ اور ان کے ساتھ کتاب بھی اتاری اور میزان بھی (شریعت و قانون بھی‘ عدل کا نظام بھی)‘‘ اللہ نے یہ سب کیوں کیا؟ آگے اس کا جواب بھی دے دیا کہ :

لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ
’’تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں.‘‘

یعنی ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو‘ ڈپریشن ختم ہو. یہ جو کسان پر ظلم ہورہا ہے‘ مزدور کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے‘ یہ باقی نہ رہے ؎

خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب 
انقلاب‘ انقلاب‘ اے انقلاب!!

آگے فرمایا:

وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ 
’’اور ہم نے لوہا پیدا کیا. اس میں (اسلحہ جنگ کے لحاظ سے) خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں اور اس لئے کہ جو لوگ بن دیکھے اللہ اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں اللہ ان کو معلوم کر لے.‘‘

اللہ نے لوہا اُتارا. اس میں جنگ کی صلاحیت ہے. اس سے تلوار اور ڈھال بنے گی‘ 
نیزہ بنے گا. اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون ہیں اس کے وہ وفادار بندے جو اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں. یعنی لوہے کی طاقت سے دین حق کے مخالف بن کر سامنے آنے والوں کا سر کچلتے ہیں. جہاد‘ ایمان کا لازمی تقاضا:غلبۂ دین حق کے لیے جہاد ایمان کا لازمی تقاضا ہے. سورۃ الصف میں جہاں نبی اکرم کا مقصد بعثت اظہار دین حق کا ذکر ہے‘ اُس کے فوری بعد اہل ایمان سے یہ بھی فرمادیا کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ
’’مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے مخلصی دی. (وہ یہ کہ) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو.‘‘

گویا جہاد کے بغیر آخرت کے دردناک عذاب سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے. 
آگے اسی سورت میں فرمایا کہ اللہ کے معاون و مددگار بنو: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ
’’مومنو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم ؑ نے حواریوں سے کہا کہ (بھلا) کون ہیں جو اللہ کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں؟‘‘

اللہ کے معاملے میں یہ معاونت کس کام میں درکار ہے. یہ معاونت اللہ کے دین کے غلبہ کی جدوجہد میں مطلوب ہے. اللہ کی مدد یہ ہے کہ اللہ کے جھنڈے کو کھڑا کیا جائے‘ اللہ کے دین کو قائم کیا جائے. 
اسی سورۃ الصف میں وہ آیت بھی ہے جس میں صفیں باندھ کر قتال کا ذکر کیا گیا ہے. 

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصف)
’’ جو لوگ اللہ کی راہ میں (ایسے طور) پر پرے جما کر لڑتے ہیں کہ گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں وہ بے شک اللہ کے محبوب ہیں.‘‘

دین یہ تقاضا نہیں کرتا کہ بس تزکیہ ہو‘ کرامات کا تذکرہ ہو‘ ضربیں لگائی جائیں‘ قصے کہانیاں سنائی جائیں بلکہ وہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اگر فی الواقع مومن ہو تو پھر اللہ کے دین کے 
غلبہ کے لیے جہاد و قتال کے مرحلے بھی طے کرو‘ کہ یہ دین کا حصہ ہے. 

مستشرقین کی کوتاہ نظری

یہاں یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ مستشرقین نے اپنی کوتاہ نظری کے باعث رسول  کی حیاتِ طیبہ کے مکی اور مدنی دور کے طرزِ عمل کو متضاد قرار دیا ہے. چنانچہ ٹائن بی (Toynbee) نے حضور کے بارے میں ایک بڑا زہر بھرا جملہ کہا تھا: 

"Muhammad failed as a prophet but succeeded as a statesman" 

[یعنی (معاذ اللہ) محمد ( ) نبی کی حیثیت سے تو ناکام ہوگئے‘ لیکن بحیثیت سیاست دان کامیاب ہوئے‘‘.]
دراصل آپؐ کی مکی زندگی میں دعوت و تربیت‘ تزکیہ اور صبر محض کا نقشہ تھا. اس کے نزدیک انبیاء کا کام یہی ہوتا ہے. یہی کام تین سال تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کیا. اس کا کہنا یہ ہے کہ محمد ( )جب مکے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے (معاذ اللہ) مدینہ کی طرف راہِ فرار اختیار کی. مستشرقین اپنی گھٹیا ذہنیت اور کوتاہ فہمی کے سبب ہجرت مدینہ کو 
"Flight to Madina" کہتے ہیں‘ حالانکہ یہ فرار نہیں تھا‘ بلکہ ایک متبادل مرکز (Alternate Base) کی طرف منتقلی تھی. اس سے پہلے آپؐ نے متبادل مرکز کی تلاش میں طائف کا سفر اختیار فرمایا تھا‘ لیکن مشیت ایزدی کچھ اور تھی. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ متبادل مرکز مدینہ کی شکل میں عطا کیا. مدینہ کی حیثیت انقلابی جدوجہد میں اقدام کے مرحلے کے آغاز کے لیے ایک Base کی تھی. 

برطانوی پروفیسر منٹگمری واٹ نے بھی‘ جسے ضیاء الحق مرحوم نے خاص طور پر پاکستان بلایا تھا‘ سیرت محمدی پر دو کتابیں لکھیں:
(1) Muhammad at Makkah
(2) Muhammad at Madina

اس نے بھی ان دونوں کتابوں میں یہی بات کہی ہے کہ مکے والا محمد ( )کچھ اور ہے‘ مدینے والا کچھ اور. مکے والا محمد( ) تو داعی‘ مبلغ‘ مزکی اور درویش ہے اور اس کی سیرت میں واقعتا نبیوں والا نقشہ نظر آتا ہے جبکہ مدینے والا محمد ( ) تو ایک مدبر‘ منتظم‘ سٹیٹس مین‘ سیاست دان اور سپہ سالار ہے. اس کے نزدیک یہ دونوں شخصیتیں بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں. منٹگمری واٹ نے"Muhammad at Madina" میں حضور کے لیے مدح اور تعریف کے بہت ہی خوبصورت الفاظ کو جمع کیا ہے. آپؐ کی دور اندیشی‘ معاملہ فہمی‘ صورت حال کے صحیح ادراک اور صحیح اقدام کی صلاحیت‘ آپؐ کی انسان شناسی اور ہر انسان کی ذہنی سطح کا اندازہ کرتے ہوئے اس سے اس کی سطح پر بات کرنے اور اس کی صلاحیت و استعداد کے مطابق کام لینے جیسی تمام خصوصیات کا تذکرہ اس نے کھلے دل کے ساتھ کیا ہے. اس نے حضور کی موقع شناسی‘ تدبر اور سیاست وغیرہ کے جتنے بھی اعلیٰ ترین اوصاف ہیں ان کا ذکر افعل التفضیل (superlative degree) کے صیغے میں کیا ہے. اس سے ایک مسلمان دھوکا کھاتا ہے کہ یہ کتاب حضور کی تعریف میں لکھی گئی ہے‘ حالانکہ درحقیقت وہ تضاد (contrast) بیان کررہا ہے کہ بحیثیت سیاست دان (statesman) تو آپؐکامیاب ہیں جبکہ بحیثیت نبی (معاذ اللہ) آپؐ ناکام ہوگئے. 

کوتاہ نظری کی وجہ :

لوگوں کو یہ تضادات سیرت طیبہ کو صحیح تناظر میں نہ سمجھنے کی وجہ سے نظر آتے ہیں. ورنہ اگر گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو جو چیز بظاہر تضاد نظر آتی ہے‘ وہ تضاد نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد کے مختلف مراحل کے مختلف تقاضے ہیں. یہ صحیح ہے کہ ۱۲ سالہ مکی دور میں مسلمانوں کو حکم تھا کہ چاہے تمہارے جسم کے ٹکڑے کردیئے جائیں‘ تم ہاتھ نہیں اُٹھاؤ گے. اور پھر مدینہ میں آکر کہا گیا کہ وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ (البقرہ:۱۹۰’’اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو.‘‘ تلوار ہاتھ میں لو‘ اگر کوئی اینٹ مارے تو اُسے پتھر مارو. اسی طرح ایک وقت تھا جب آپؐدب کر صلح حدیبیہ کررہے تھے. جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سخت اضطراب کی کیفیت میں تھے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ ضبط نہ کرسکے تو آپؐ سے کچھ cross questions بھی کر بیٹھے‘ جس پر بعد میں پچھتاتے رہے‘ مگر پھر اس صلح کے محض ایک سال کے بعد جب مکے کا سردار مدینہ آیا اور سفارشیں کرواتا رہا کہ صلح کا معاہدہ ختم نہ کیجیے‘ تو آپؐ نے اُس کی بات نہ مانی. دراصل یہ سب ایک ہی انقلابی عمل کے مختلف مراحل ہیں. پراسس ایک ہی ہے‘ لیکن پراسس کے ایک مرحلہ کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے‘ دوسرے مرحلے کا تقاضا کچھ اور. آپؐ کے پیش نظر انقلاب تھا‘ نہ لڑائی مقصود تھی نہ صلح مقصود تھی‘ مقصوداللہ کے دین کا غلبہ تھا. میں اللہ کا شکر اداکرتا ہوں کہ اُس نے مجھے کسی درجے میں سیرت کی خدمت کی یہ توفیق بخشی ہے کہ میں نے اپنی کتاب ’’منہج انقلاب نبویؐ ‘‘ میں ان سب اشکالات کا حل بتایا ہے. 

یہ بات بھی نوٹ کرلیجیے کہ حضور کی ذاتی زندگی میں خفیہ دعوت کا کوئی دور نہیں آیا. 
آپؐ نے کوئی بات خفیہ طور پر نہیں کی. آپؐ کی کوئی زیر زمین سرگرمیاں نہیں تھیں. البتہ Low profile میں ذاتی رابطوں کے ذریعے یہ بات پھیلائی‘ لیکن پھر جب حکم آگیا فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ یعنی ’’(اے محمدؐ !) اب ڈنکے کی چوٹ کہو جس کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے.‘‘ تو آپؐ کوہِ صفا پر تشریف لے گئے . اب تو کوہِ صفا کی بس علامت باقی رہ گئی ہے‘ حضور کے زمانے میں وہ باقاعدہ پہاڑی تھی‘ ایسی پہاڑی کہ جس کے پیچھے کوئی لشکر بھی چھپ سکتا تھا. کوہِ صفا پر چڑھ کر آنحضور نے عرب کے مروجہ دستور کے مطابق قوم کو ندا دی. یہیں سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دعوت و ابلاغ کے لیے اپنے زمانے میں جو بھی مروجہ طریقے ہوں ان کو اختیار کیا جانا چاہیے. البتہ اگر حیا اور شرافت کے منافی کوئی شے ہو تو اس سے احتراز کیا جائے. اُس دَور میں غارت گری اور لوٹ مار کے لیے قبائل ایک دوسرے پر حملہ کرتے رہتے تھے. یہ حملہ عام طور پر رات کو ہوتا‘ بلکہ رات کے بھی پچھلے پہرsmall hours of the morning میں‘ یعنی رات کے دو‘ تین‘ چار بجے‘ جبکہ نیند کا انتہائی غلبہ ہوتا ہے. اس وقت سوئے ہوؤں پر آکر ٹوٹ پڑنا اور قتل و غارت گری اور لوٹ مار کرکے بھاگ جانا‘ یہ ان کا ایک عام رواج تھا. لہذا اگرقبیلے کے کسی فرد کو یہ اطلاع مل جاتی کہ کوئی قبیلہ ان پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے تو وہ بلند مقام پر چڑھ کر کپڑے اتار کر مادر زاد برہنہ ہوکر نعرہ لگاتا تھا کہ ’’وَاصَبَاحَا‘‘(ہائے وہ صبح جو آیا چاہتی ہے) یعنی جس میں غارت گری‘ لوٹ مار اور کشت و خون ہوگا. اب اس میں دونوں صورتیں یعنی سمعی اور بصری جمع ہوجاتیں. اس لیے کہ جہاں تک تو اس کی آواز جارہی ہوتی وہاں تک لوگ اس کی آواز کو سنتے اور دوڑے چلے آتے اور جہاں اس کی آواز نہیں جارہی ہوتی تو وہ کھڑا ہوا عریاں نظر آتا. اسی لیے اسے ’’نذیر عریاں‘‘ کہا جاتا تھا‘ یعنی وہ خبردار کرنے والا‘ متنبہ کرنے والا جو بالکل ننگا ہوگیا ہو. حضور نے بھی قوم کو آگاہ کرنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا البتہ برہنگی کے معاملے کی اصلاح کی. کیونکہ یہ بات حیا و فطرت کے خلاف ہے اور آپؐ کے لیے ایسا کرنا ناممکن تھا‘ لیکن نعرہ وہی لگایا کہ ’’وَاصَبَاحَا‘‘ . اب لوگ آکر جمع ہوگئے اور انہوں نے آپؐ سے اس کا سبب دریافت کیا. آپؐ اونچائی پر کھڑے تھے‘ آپؐ نے قوم کو اپنی دعوت پیش کی. اس پر آپؐ کا چچا ابولہب کہنے لگا ’’تَــبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟‘‘ تمہارے لیے ہلاکت و بربادی ہو‘ کیا تم نے ہمیں اس کام کے لیے جمع کیا ہے؟‘‘ ہم تو سمجھتے تھے کہ تم واقعتا کوئی خبر دینے والے ہو‘ کوئی بات بتانے والے ہو. حضور نے پہلے فرمایا کہ لوگو! میں اگر تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو تم میری بات مانو گے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ ضرور‘ اس لیے کہ آپؐ پہاڑ کی بلندی پر کھڑے ہیں ا ور پہاڑ کے دونوں جانب دیکھ رہے ہیں. دوسرے یہ کہ آپؐ نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں‘ آپؐ تو الصادق اور الامین ہیں. آپؐ نے لوگوں سے پہلے یہ گواہی لے کر بات کی ہے کہ میں تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں‘ آخرت کے محاسبے سے خبردار کرتا ہوں. جس پر آپؐ کے چچا نے کہا تھا کہ ’’تَبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟‘‘. بہرحال آپؐ نے ایک دن بھی زیرزمین تحریک نہیں چلائی. 

باطل سے تصادم کا مرحلۂ اوّل:صبر محض

انقلابی جدوجہد کو اگر انتہائی اختصار سے بیان کیا جائے تو اس کے تین مراحل ہیں. پہلا مرحلہ جماعت سازی ہے. اس پر مفصل گفتگو ہوچکی ہے. دوسرا مرحلہ باطل نظام سے تصادم ہے. سیرت طیبہؐ میں تصادم میں مرحلہ اول کیا تھا؟ صبر محض. صبر محض (passive resistance) کا مطلب یہ ہے کہ انقلابی تحریک کے کارکن اپنے موقف پر ڈٹے رہیں‘ پیچھے نہ ہٹیں‘ لیکن تشدد و تعذیب کے جواب میں کسی قسم کی جوابی کارروائی نہ کریں. اس صبر محض کے بھی دو مراحل ہیں.

زبانی کلامی تشدد

صبر محض کاپہلا مرحلہ وہ ہے جس میں زبانی کلامی تشدد ہوتا ہے. یعنی کوفت پہنچاؤ ‘ ذہنی اذیت پہنچاؤ ‘ لیکن کوئی جسمانی تشدد اور جسمانی تکلیف نہ دو. اس مرحلہ پر اصل ہدف اور نشانہ خود داعی بنتا ہے‘ اس کے ساتھی نہیں بنتے. اس لیے کہ ابتدا میں لوگ محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص ہے جس کا دماغ خراب ہوا ہے اور یہ ہمارے نوجوانوں کے دماغ خراب کررہا ہے. ان نوجوانوں کو تو انہوں نےreclaim کرنا ہے‘ انہیں واپس لینا ہے‘ لہذا اُن کے خلاف ابھی ہاتھ نہیں اُٹھائے جائیں گے بلکہ داعی کی شخصیت کو مجروح کرنے (character assassination) کی کوشش ہوگی. کہا جائے گا کہ یہ پاگل ہے‘ fanatic ہے‘ ساحر ہے‘ شاعر ہے اور دیوانہ ہے. سیرتِ مطہرہ میں یہ ساری ہی باتیں ملتی ہیں‘ جن کا تذکرہ ابتدائی مکی سورتوں میں آتا ہے. مکی دور کے قریب قریب تیرہ برس کے ابتدائی تین سالوں میں صرف نبی اکرم پر تشدد ہوا ہے اور یہ تشدد جسمانی نہیں بلکہ صرف زبانی کلامی تھا کہ ان کو کوفت پہنچاؤ‘ انہیں ذہنی اذیت دو. جیسے کہ سورۃ الحجر میں ان معاندین و مخالفین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے: وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡ نُزِّلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ اِنَّکَ لَمَجۡنُوۡنٌ ؕ﴿۶﴾ اگر عربی زبان سے ذرا سی واقفیت ہو تو اندازہ ہوگا کہ کتنا زہر میں بجھا ہوا یہ جملہ ہے: ’’اے فلانے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی ذکر نازل ہو رہا ہے‘ ہم تو تم کو پاگل سمجھتے ہیں.‘‘ اب یہ بات بھی محمد رسول اللہ  نے سنی. غور کیجیے‘ آپؐ کی طبیعت پر اس کا کس قدر اثر ہوا ہوگا. اس کو کہتے ہیں اعصابی جنگ (war of nerves) یعنی کسی طرح سے ان کی قوت ارادی کو ختم کردو‘ ان کے اندر جو آہنی عزیمت ہے کسی طرح اس کو پگھلا کر رکھ دو. اسی سورۃ الحجر کے آخر میں یہ الفاظ آئے ہیں. وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ ’’(اے محمد ) ہمیں خوب معلوم ہے کہ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس سے آپؐ کا سینہ بھنچنے لگتا ہے (آپؐ کو شدید ذہنی اذیت و کوفت ہوتی ہے)‘‘.

داعی سوچتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو کل تک میرے قدموں تلے آنکھیں بچھاتے تھے‘ جو مجھے دیکھتے ہی کہا کرتے تھے: 
جَاءَ الصَّادِقُ‘ جَاءَ الْاَمِیْنُ … ہر جگہ خیر مقدم ہوتا تھا‘ ہر ایک مجھ سے محبت کرتا تھا‘ ہر شخص میرا احترام کرتا تھا‘ لیکن یہی لوگ ہیں جو آج میرا استہزاء و تمسخر کررہے ہیں‘ کوئی مجنون و دیوانہ کہہ رہا ہے‘ کوئی شاعر و ساحر کہہ رہا ہے. سورۃ الدخان میں فرمایا: وَ قَالُوۡا مُعَلَّمٌ مَّجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۱۴﴾ ’’وہ کہنے لگے (یہ تو معاذ اللہ) پڑھایا ہوا (اور) دیوانہ ہے‘‘. یعنی آپؐ کو کوئی اور سکھاتا پڑھاتا ہے اور یہ آکر ہم سے کہتے ہیں کہ یہ کلام مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہورہا ہے. ذرا اندازہ لگائیے کہ حضور کے قلب مبارک پر کیا گزرتی ہوگی جب یہ باتیں کہی جاتی ہوں گی. مزیدبرآں آپؐ کے متعلق یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان پر کسی آسیب کا سایہ ہوگیا ہے. روایات میں آتا ہے کہ ایک روز حضور کی خدمت میں عتبہ بن ربیعہ آیا جو قریش کے بڑے سرداروں اور چودھریوں میں سے تھا. نبی اکرم  کے معاندین و مخالفین میں سے یہ شخص بڑا شریف النفس تھا. وہ بڑے ہی مخلصانہ و مشفقانہ اور بڑے ہی مربیانہ و ہمدردانہ انداز میں حضور سے کہنے لگا کہ ’’بھتیجے! اگر واقعی تم پر کسی بدروح کا سایہ ہوگیا ہے تو مجھے بتا دو‘ میرے بہت سے عاملوں اور ماہر فن کاہنوں سے تعلقات ہیں‘ میں کسی کو بلا کر تمہارا علاج کرا دوں گا‘‘. غور کا مقام ہے کہ یہ سن کر حضور کے قلب ِ مبارک پر کیا گزری ہوگی. تشدد کا پہلا نشانہ بحیثیت ِ داعیٔ اول جناب محمد  کی ذاتِ اَقدس تھی. استہزاء و تمسخر بھی بلاشبہ تشدد ہوتا ہے‘ بلکہ ذہنی اور نفسیاتی کوفت سے بڑا تشدد کوئی اور نہیں. جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ تکلیف انسان کو اُس وقت ہوتی ہے جب اسے ذہنی کوفت پہنچتی ہے. چنانچہ ابتدائی تین سال تک اعصاب شکنی کی پوری کوشش ہوتی رہی‘ تاکہ آپؐ کے اعصاب ٹوٹ کر رہ جائیں اور آپؐ میں وہ ہمت باقی نہ رہے کہ کھڑے رہ کر دعوت پیش کرتے رہیں. 

مخالفین کی طرف سے اس کی ایک اور انداز سے بھی کوشش ہوئی تھی. بعض عامل لوگوں نے بہت سی ریاضتوں کے ذریعہ سے اپنی آنکھوں کے اندر ایک خاص کشش اور چمک پیدا کرلی ہوتی ہے اور قوّتِ ارادی کو اپنی آنکھوں میں اس طور سے مرتکز کرلیا ہوتا ہے کہ وہ کسی کو گھور کر دیکھیں تو وہ دہل کر رہ جائے اور اس کی قوت ارادی پاش پاش ہوجائے. یہ نفسیاتی مشقیں دنیا میں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں اور آج کے دور میں تو اس نے ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کرلی ہے. معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم  پر ایسی کوششیں بھی کی گئیں. سورۃ القلم میں فرمایا گیا ہے: 
وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۵۱﴾ ’’یہ کفار جب ’’الذکر‘‘ یعنی قرآن سنتے ہیں تو یہ آپؐ کو ایسی نگاہوں سے گھور کر دیکھتے ہیں گویا آپؐ کے قدم اکھاڑ دیں گے (آپؐ کی آہنی قوت ارادی کو پاش پاش کردیں گے) اور یہ کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) یہ ضرور مجنون و دیوانہ ہے.‘‘ استہزاء و تمسخر کے یہ الفاظ آپؐ کے قلب ِ مبارک پر تیر کی طرح جاکر لگ رہے ہیں. بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے عاملین کی باقاعدہ خدمات حاصل کی گئیں کہ وہ اپنی نگاہوں سے جناب محمد کی قوت ارادی کو پاش پاش کرکے رکھ دیں. مولانا اصلاحی صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ اس کا ایک خاص طریقہ ہے. رات کو عین تہجد کے وقت سفید لباس پہنو‘ سفید چادر بچھاؤ‘ اس کے اوپر سفید کاغذ پر ایک نکتہ لگاؤ‘ اور پھر اُس پر اپنی نگاہ جماؤ‘ دیکھتے رہو. پلک جھپکنے نہ پائے. اس سے آنکھوں میں ایک خاص قوت جمع ہو جائے گی. اب آپ کسی کو دیکھیں گے تو وہ آپ کی نگاہ سے نگاہ نہیں ملا سکے گا. پس یہ ہے تشدد کا پہلا دور یعنی داعی ٔ اول کو ذہنی کوفت پہنچانے کی ہر امکانی سعی و کوشش. چنانچہ پہلے تین سال میں کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ  کے علاوہ کسی اور صاحب ِ ایمان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا گیا ہو. اس لیے کہ ان کے نقطۂ نظر کے اعتبار سے اصل مسئلہ تو داعی ٔ اول ہی تھا جو یہ دعوت لے کر کھڑا ہوا. لہذا وہ کہتے تھے کہ کسی طریقہ سے اس کو دعوت حق سے باز رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو مسئلہ باقی نہیں رہے گا. ہمارے کچھ جوشیلے اور سر پھرے نوجوان ہیں اور ہمارے شرفاء میں سے بھی کچھ لوگ اس کی باتوں میں آگئے ہیں‘ لیکن اگر ہم نفسیاتی و ذہنی حملوں کے ذریعہ سے اس داعی ٔاول کو بددل (disheart) کردیں اور اس کی قوت ارادی کو ختم کردیں تو یہ سب سے کامیاب حربہ ہے. پھر کامیابی ہی کامیابی ہے.

جسمانی تشدد

صبر محض کے دوسرے مرحلہ میں جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے .پس پہلے تین سال تو جناب محمدرسول اللہ  اس بدترین ذہنی و اعصابی تشدد کا نشانہ بنے رہے. آغازِ وحی کے بعد چوتھے سال سردارانِ قریش دارالندوہ میں باقاعدہ مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اب تک ہم نے جو تدبیریں کی ہیں وہ سب ناکام ہو چکی ہیں اور یہ دعوت جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے. گویا ؏ ’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے‘‘.اور اب تویہ آگ ہمارے بارود خانوں تک پہنچ گئی ہے اور ہمارے غلاموں کے طبقہ کے لوگ محمد ( ) کی دعوت کے حلقہ بگوش ہوگئے ہیں. ان کو یہ فکر دامن گیر ہوگئی کہ اب کیا ہوگا؟ کیونکہ غلاموں کا طبقہ اس معاشرے کے لیے بڑی افرادی قوت (human potential) کی حیثیت رکھتا تھا. اس نظام میں غلام اپنی قسمت پر قانع تھے اور حالات سے سمجھوتاکرچکے تھے کہ ٹھیک ہے‘ ہمارے نصیب میں یہی کچھ ہے. لیکن اگر کہیں ان کے اندر ان کی عزت نفس بیدار کردی گئی‘ اور ان میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ ہم بھی انسان ہیں اور ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں تو کیا ہوگا؟ پھر تو ہمارا نظام تلپٹ ہوکررہ جائے گا. یہ طاقت اگر کہیں ہمارے خلاف کھڑی ہوگئی تو اس کا سنبھالنا مشکل ہو جائے گا. اس کے علاوہ ان کی اس تشویش میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا کہ جناب محمد (رسول اللہ  ) کی دعوت ہمارے نوجوانوں میں نفوذ کررہی ہے جو ایک بڑے خطرہ کی علامت ہے. آپ اندازہ کیجیے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کون ہیں؟ خاندانِ بنو اُمیہ کے ایک صالح نوجوان. مصعب بن عمیر‘ سعد بن ابی وقاص‘ حذیفہ بن عتبہ اور عبد اللہ بن مسعود کون ہیں؟ رضی اللہ تعالیٰ عنہم. یہ اونچے گھرانوں کے نوجوان ہیں.یہ اورمتعدد دوسرے نوجوان محمد( ) کے قدموں میں پہنچ گئے. لہذ اکفار مکہ سوچنے پرمجبور ہوگئے کہ اب تک ہماری جو حکمت عملی تھی وہ کامیاب اور مؤثر ثابت نہیں ہوئی.لہذا فیصلہ ہواکہ اب ان پر جسمانی تشدد کرو تاکہ اُن کے ہوش ٹھکانے آجائیں. ہم میں سے جس کو بھی کسی پر کوئی اختیار اور کوئی اقتدار حاصل ہے وہ اسے اُس پر استعمال کرے اور اُس کو جو رو تعدی اور ظلم و ستم کا نشانہ بنائے‘ تاکہ وہ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آئے.

چنانچہ آغازِ وحی کے چوتھے سال اہل ایمان کے لیے جسمانی تشدد کا دور شروع ہوا. پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ابتدائی تین سال تک تو ذہنی تشدد اور اذیت کا ہدفِ خاص طور پر حضور کی ذاتِ اقدس رہی. لیکن اب قریباًتمام اہل ایمان شدید قسم کی تعذیب‘ تعدّی اور بہیمانہ ظلم و ستم کا ہدف بنے. مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں‘ وہ غلام نہیں ہیں‘ کوئی آقا تو ان کو نہیں مار سکتا. لیکن وہاں کے معاشرے کے اصول و رواج کے مطابق آنجنابؓ کا چچا موجود ہے جو بمنزلہ باپ ہے اور اسے اپنے بھتیجے پر اختیار حاصل ہے. اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مارا بھی اور بالآخر ایک چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھونی دے دی. اب دم گھٹ رہا ہے اور مرنے کے قریب ہیں. آخر کوئی وجہ تھی کہ جب نبوت کے پانچویں سال میں حضور نے چند صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہجرت حبشہ کی اجازت دی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور آپؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہاجو رسول اللہ  کی لخت ِ جگر ہیں‘ یہ دونوں ان میں شامل تھے. جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب بھی ان مہاجرین میں شامل تھے جو بنو ہاشم کے سردار کے بیٹے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں. یہ لوگ غلام تو نہیں تھے. لیکن وہاں بزرگوں کو خود اِن پر ایک اختیار حاصل تھا‘ لہذا یہ نوجوان اہل ایمان اپنے گھر والے مشرکین کے تشدد اور مظالم کا نشانہ بن رہے تھے. 

لیکن غلاموں کے ساتھ اس سے بھی بہت آگے بڑھ کر جورو ستم کا معاملہ ہوا ہے. ظاہر ہے کہ ظلم و تشدد کی چکی میں سب سے زیادہ پسنے والے یہی لوگ تھے. ان کے تو کوئی حقوق تھے ہی نہیں‘ کیونکہ وہ اپنے آقاؤں کے مملوک تھے. ان کے آقا اگر انہیں ذبح کردیں تو ان سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا تھا. جیسے کسی کی بکری ہو تو وہ جب چاہے اسے ذبح کردے‘ کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا. یہی وجہ ہے کہ غلاموں کے ساتھ وہاں جو کچھ ہوا اس کو سن کر سخت سے سخت دل شخص کو بھی جھرجھری آجاتی ہے. حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ اُمیہ بن خلف نے جو کچھ کیا وہ آپ کے علم میں ہے. لیکن کوئی نہیں تھا جو اس سے پوچھ سکے کہ تم یہ کیا کررہے ہو؟ ایک گوشت پوست کے زندہ انسان کے ساتھ وہ بہیمانہ سلوک کیا جارہا تھا جو اگر کسی مُردہ جانور کے ساتھ بھی کیا جائے تو طبیعت میں ناگواری کا احساس پیدا ہو جائے‘ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا. 
مکہ میں ان کے علاوہ ایک اور طبقہ تھا جو حلیفوں کا طبقہ کہلاتا تھا‘ جو نہ قرشی تھے‘ نہ غلام تھے‘ بین بین کی ایک حیثیت کے حامل تھے. دراصل مکہ صرف ایک قبیلے کا شہرتھا‘ اس میں صرف قریش آباد تھے‘ اور کوئی دوسرا قبیلہ آباد نہیں تھا اس تفاوت کو پیش نظر رکھئے کہ تمدنی اعتبار سے مدینہ منورہ زیادہ ارتقائی مرحلے پر تھا. اس میں پانچ قبیلے آباد تھے‘ عربوں کے دو قبائل اوس اور خزرج اور یہودیوں کے تین قبائل بنو نضیر‘ بنو قینقاع اور بنو قریظہ جبکہ مکہ تمدنی اعتبار سے بھی ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا اور صرف ایک قبیلے کا شہر تھا. اب اس میں یا تو قریش آباد تھے یا اُن کے غلام جو اُن کے نزدیک بھیڑ بکریوں کی حیثیت رکھتے تھے. ایک تیسری کیٹیگری وہ تھی کہ کوئی شخص باہر کا آکر اگر خود کو قریش کی کسی بڑی شخصیت کی حمایت میں دے دے‘ اس کا حلیف بن جائے تو گویا وہ اس بڑے شخص کے زیر حفاظت مکہ میں رہ سکتا ہے. اس طرح اس قرشی کو اس پر پورا اختیار حاصل ہوجائے گا. اس کی حیثیت اگرچہ غلام کی نہیں ہے‘ لیکن وہ پوری طرح آزاد بھی نہیں. وہ گویاآزادوں اور غلاموں کے بین بین ایک تیسری مخلوق ہوگئی. 

حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کا معاملہ یہی تھا. بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یمن کے رہنے والے ایک باعزت انسان تھے. انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا‘ جس میں ان کو حضور کی بعثت کی بشارت ہوئی تھی. اسی کے پیش نظر وہ مکہ کے ایک شریف النفس شخص کی پناہ میں آکر سکونت پذیر ہوگئے. اسی شخص کی ایک کنیز حضرت سمیہ ( رضی اللہ عنہا) سے آقا کی اجازت سے ان کا نکاح ہوگیا اور اس طرح یہ ایک خاندان بن گیا. وہ قرشی لاولد مرگیا اور جو شخص اس کا وارث اور جانشین بنا وہ ابوجہل تھا. چنانچہ اب وہی حیثیت آلِ یاسر پر ابوجہل کو حاصل ہوگئی. حضرت یاسر رضی اللہ عنہ غلام تو نہیں تھے لیکن ابوجہل کے حلیف اور اس کی پناہ میں تھے. اس لیے کوئی اور ابوجہل سے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ تم اس خاندان کے ساتھ کیا کررہے ہو؟ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مسلسل اور بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے یہ دو میاں بیوی اور ایک ان کے بیٹے حضرت عمارؓ ہیں. یہ تینوں حضور پر ایمان لے آئے تھے. ان پر ابوجہل نے شدید ترین مظالم کیے. حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو شوہر اور بیٹے کی نگاہوں کے سامنے انتہائی بہیمانہ طور پر شہید کیا. یہ ایک مؤمنہ کا پہلا خون تھا جس سے مکہ کی سرزمین لالہ زار ہوئی. پھر حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پاؤں چار سرکش اونٹوں کے ساتھ باندھ کر انہیں چار سمتوں میں ہانک دیا گیا جس سے انؓ کے جسم کے پرخچے اُڑ گئے.

ہاتھ بندھے رکھو!

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا ہورہا تھا کہ ہمیں باطل کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے‘ اس سے پنجہ آزمائی کرنی چاہیے. چنانچہ سورۃ النساء کی آیت ۷۷ کی تفسیر میں امام رازیؒ نے امام طبریؒ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص اور بعض دوسرے صحابہ کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے نام مذکور ہیں‘ کہ یہ وہ حضرات تھے جو بار بار حضور کی خدمت میں عرض کیا کرتے تھے کہ اب ہمیں قتال کی اجازت ملنی چاہیے‘ ہم کب تک برداشت کریں گے! تصور کیجیے کہ جب مکہ میں حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کیا جارہا تھا جو صنف ِ نازک میں سے تھیں‘ پھر بوڑھی بھی‘ تو کم از کم چالیس مسلمان موجود تھے. کیا ان کا خون کھولتا نہیں ہوگا؟ کیا وہ جوش میں نہیں آتے ہوں گے؟ اور حضور سے عرض نہ کرتے ہوں گے کہ یا رسول اللہ! آپؐ کی نام لیوا ایک بوڑھی خاتون کو اس طرح ستایا جارہا ہے اور بے عزت کیا جارہا ہے‘ تو کیا ہم میں مردانگی کا جوہر نہیں ہے؟ ہمیں اس بربریت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے. لیکن اس وقت حکم یہی تھا کہ نہیں‘ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ‘ اپنے ہاتھ بندھے رکھو‘ ابھی اپنے اس جوش و جذبہ کو تھام کر رکھو. جلد ہی وقت آئے گا‘ تب اپنا یہ جوش نکال لینا. کیونکہ انقلابی عمل کے اعتبار سے حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جوش کو تھامو اور روکو. صبر کرو اور جھیلو. مدافعت میں ہاتھ مت اُٹھاؤ. چنانچہ حضور جب حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے پاس سے گزرتے تو انہیں صبر کی تلقین فرماتے: اِصْبِرُوْا یَا آلَ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ (۱’’اے یاسر کے گھر والو! صبر کرو! اس لیے کہ تمہارے وعدہ کی جگہ جنت ہے.‘‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اُن کے چچا نے مارا اور بالآخر ایک چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھونی دے دی. حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی گردن میں رسی ڈال کر اُن کا آقا چھوکروں کے ہاتھ میں تھما دیتا کہ اسے کھینچو. جیسے کچھ عرصہ پہلے عراق کی ابوغریب جیل میں قیدیوں پر تشدد کی تصویریں شائع ہوئیں کہ قیدیوں کو برہنہ کرکے گلے میں رسی ڈال کر انہیں زمین پر گھسیٹا جارہا ہے. حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ معاملہ مکہ کی گلیوں میں ہوا. انہیں نوکیلے پتھروں والی زمین پر اس طرح گھسیٹا جاتا جیسے مردہ جانور کی لاش گھسیٹی جاتی ہے. حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جو پیشے کے اعتبار سے لوہار تھے‘ بڑے نیک نوجوان تھے. حضور کے دامن سے وابستہ ہوکر اُن کا (۱) مسند احمد‘ مرویات حضرت عثمان غنی ؓ . کردار مزید بلند ہوگیا. ایمان لانے کی پاداش میں اُن کو دہکتے ہوئے کوئلوں پرلٹا دیا جاتا‘ جس سے وہ بجھ جاتے تھے. اس صورتحال میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا ہورہا تھا کہ ہمیں باطل کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے. اُس ظلم و ناانصافی کا قلع قمع کرنا چاہیے. 

معتدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بار بار حضور کی خدمت میں یہ عرض کرتے تھے کہ اب ہمیں قتال کی اجازت ملنی چاہیے کہ ہم کب تک یہ ظلم و زیاتی برداشت کریں گے. اس سلسلے میں ایک روایت بھی آتی ہے. حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نبی اکرم  کی خدمت میں حاضر ہوا. آپؐ کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو تکیہ بنائے تشریف فرما تھے. اس وقت ہم مشرکین کے ہاتھوں سختی سے دوچار تھے. میں نے کہا: کیوں نہ آپؐ اللہ سے دُعا فرمائیں. یہ سن کر آپؐ اُٹھ بیٹھے. آپؐ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا. اور آپؐ نے فرمایا ’’جو لوگ تم سے پہلے تھے‘ ان کی ہڈیوں تک گوشت اور اعصاب میں لوہے کی کنگھیاں کردی جاتی تھیں. لیکن یہ سختی بھی انہیں دین سے باز نہ رکھتی تھی‘‘. پھر آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ اس امر کو یعنی دین کو مکمل کرکے رہے گا‘ یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک جائے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا. البتہ بکری پربھیڑیے کا خوف ہوگا‘‘. ایک روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ ’’لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو.‘‘ 
(۱

اسی پر سورۃ العنکبوت کی آیتیں اتریں ہیں جن میں وہی اظہار ناراضی ہے‘ جو حضور نے فرمایا تھا:

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳
’’الم. کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے‘ چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی؟ اور جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں‘ ہم نے ان کو بھی آزمایا تھا (اور ان کو بھی آزمائیں گے) سو اللہ ان کو ضرور معلوم کرے گا جو (اپنے ایمان میں) سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں.‘‘

مراد یہ ہے کہ ہم نے پہلے بھی جو لوگ اس میدان میں آئے ہیں‘ ان کو آزمایا ہے. ٹھوک بجا کر دیکھا ہے. ان کے خلوص کا امتحان لیا ہے. ان کے صبر اور استقامت کو جانچا ہے. ہمارا 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الانبیاء‘ باب علامات النبوۃ. قاعدہ تو یہ ہے. لہذا جو بھی اس راستے پر آئے وہ سوچ سمجھ کر آئے. دعوت حق پھولوں کی سیج نہیں ہے‘ کانٹوں بھرا بستر ہے. جنت لینی ہے تو یہ سب کچھ برداشت کرنا ہوگا. یہی بات سورۃ البقرہ میں فرمائی گئی: 

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ
’’اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے. تو صبر کرنے والوں کو (اللہ کی خوشنودی کی) بشارت سنادو.‘‘

مکی دور میں اہل ایمان کو یہ حکم تھا کہ کسی تشدد‘ ظلم اور زیادتی کے جواب میں ہاتھ نہ اُٹھاؤ. سورۃ النساء کی مندرجہ ذیل آیت مدینہ میں ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے اوروہ بھی مدنی دور کے پانچویں یا چھٹے سال جس کے الفاظ ہیں:

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ (النساء:۷۷
’’کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کی طرف جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو.‘‘ یہ حکم مکی دور کی کسی سورت میں نہیں ملے گا. اس وقت حکم یہ تھا کہ نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرتے رہو ؎
با نشۂ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن

ابھی ’’برسلطنت ِ جم زن‘‘ کا حکم نہیں آیا تھا بلکہ تربیت اور تیاری کا مرحلہ تھا. اللہ کے ساتھ سے زیادہ سے زیادہ لو لگاؤ. اللہ کی محبت دلوں میں مزید جماؤ. اپنے عزم و ارادہ کو اور زیادہ تقویت دو. اللہ کی راہ میں مصائب و تکالیف جھیلنے کا خود کو زیادہ سے زیادہ عادی اور خوگر بناؤ. بقول اقبال ؎

نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

بہرحال یہ تعذیب کا دور چلا ہے. اسی کے ذریعے سے نظم کی پابندی کی ٹریننگ ہوئی ہے. اس ضمن میں ایک اورواقعہ بھی بتا دوں جو اگرچہ مجھے کسی کتاب میں تو نہیں ملا‘ تاہم ۱۹۷۹ء میں میں نے جدہ میں ایک ٹی وی سیریل ’’فرسان اللہ‘‘ دیکھی تھی‘ اُس میں یہ واقعہ دکھایا گیا تھا. ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابوجہل نے کسی بات پر تھپڑ دے مارا. جواب میں انہوں نے بھی ابوجہل کو تھپڑ رسید کردیا. کیونکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو بہرحال شرفاء میں سے تھے‘ غلام نہیں تھے. اُن کے جوابی تھپڑ رسید کرنے پر حضور نے پندرہ دن کے لیے انہیں مکہ بدر کردیا. مطلب یہ تھا کہ اگر تم صبر نہیں کرسکتے تو کچھ روز کے لیے مکہ سے باہر چلے جاؤ. 

صبر محض کی حکمت:

اس صبر محض (passive resistance) کے مرحلہ کی حکمت یہ ہے کہ ابتدا میں چند باہمت اور سلیم الفطرت لوگ اس انقلابی نظریہ کے قائل اور حامی ہوتے ہیں. اگر وہ لوگ Violent ہو جائیں‘ یعنی تشدد کا جواب تشدد سے دینے لگیں تو اس غلط نظام کے علمبرداروں کو پورا اخلاقی جواز مل جائے گا کہ انقلاب کے حامیوں کو کچل کر رکھ دیں. جب تک انہوں نے ہاتھ نہیں اُٹھایا تو ان مخالفین و معاندین کے چودھریوں اور سرداروں کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوتا. چنانچہ اس حال میں اگر وہ تشدد کررہے ہوں تو وہ بلا جواز ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رفتہ رفتہ عامۃ الناس کی ہمدردیاں انقلابی جماعت کے ساتھ ہونی شروع ہوجاتی ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ان لوگوں کو آخر کیوں مارا اور ستایاجارہا ہے‘ جبکہ یہ ہمارے معاشرے کے شریف‘ بے ضرر اور بہتر افراد میں سے ہیں‘ اور یہ لوگ خاموشی سے کیوں ماریں کھا رہے ہیں! اب ذرا چشم تصور سے دیکھئے‘ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مکہ کی سنگلاخ اور تپتی زمین پر گردن میں رسی باندھ کر اس طرح گھسیٹا جارہا ہے جیسے کسی مردہ جانور کی لاش کو گھسیٹا جاتا ہے. آخر دیکھنے والے بھی انسان تھے. ان کے اندر بھی احساسات تھے!. اگرچہ ان میں جرأت اور ہمت نہیں کہ اس بہیمانہ ظلم پر صدائے احتجاج بلند کریں. ایسے لوگوں کو اصطلاح میں خاموش اکثریت (silent majority) کہا جاتا ہے. یہ خاموش اکثریت اندھی اور بہری نہیں ہوتی. دیکھتی بھی ہے اور سنتی بھی ہے. خاموش تو ہے‘ بولتی نہیں ہے‘ لیکن وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی رہتی ہے کہ یہ کیسا ظلم ہورہا ہے؟ وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ جیسے محنتی اور فرض شناس غلام کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کیوں ہورہا ہے؟ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جیسے شریف النفس شخص کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر کیوں لٹایا جارہا ہے؟ مکہ کے اندر یہ ظلم اہل مکہ دیکھ تو رہے تھے. مگر ظلم کرنے والے ابوجہل‘ ولید بن مغیرہ‘ اُمیہ بن خلف‘ عقبہ بن ابی معیط اور عتبہ بن ربیعہ وغیرہ بڑے بڑے چودھری اور سردار تھے. ان کے خلاف آواز اُٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں تھی. تو عوام کا ان کے خلاف کھڑے ہونے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ لیکن اندر ہی اندر ہمدردی کے احساسات پیدا ہورہے تھے‘ بقول شاعر کیفیت یہ ہورہی تھی کہ ؏ ’’جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ‘‘. چنانچہ دل اندر ہی اندر فتح ہورہے تھے. لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ اِن مظلوموں نے کوئی جرم نہیں کیا‘ کسی کے ساتھ کوئی گستاخی نہیں کی‘ بس ایک بات کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں. بس یہی ان کا ’’قصور‘‘ ہے. کسی پر انہوں نے آج تک ہاتھ نہیں اُٹھایا‘ کسی کو انہوں نے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا‘ پھر ان کے ساتھ یہ ظلم اور تشدد کیوں ہورہاہے؟

اصل میں صبر محض کے مرحلے کی حکمت اور اس کا فلسفہ یہی ہے. کسی انقلابی جماعت کو اس ’’صبر محض‘‘ 
(passive resistance) کے دور میں تین ابتدائی کاموں کو کرنے کی مہلت ملتی ہے. یعنی دعوت زیادہ سے زیادہ پھیلانا‘ دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرنا اور پھر اس مرحلے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کی تربیت کرنا. اس لیے کہ اگلے تمام مراحل کی کامیابی کا دارومدار انہی تمہیدی و ابتدائی مراحل کی پختگی پر ہے. اگر ان مراحل کے تقاضوں کو کماحقہ ٗادا کیا گیا ہے اور انقلابی کارکنوں کی سیرت و کردار میں پختگی اور مضبوطی آگئی ہے تب تو آگے چل کر کامیابی ہوگی‘ ورنہ وہی بات ہوگی کہ ریت کا گولہ بنا کر شیشے پر ماریں گے تو شیشہ کھڑا رہے گا اور وہ ریت بکھر جائے گی پھر ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ ماریں کھا کر لیکن ہاتھ نہ اُٹھا کر ایک طرف ان کارکنوں میں قوت برداشت اور قوتِ ارادی پروان چڑھتی ہے‘ اپنے نظریہ سے ان کی وفاداری مضبوط ہوتی ہے اور اس پر انہیں استقامت حاصل ہوتی ہے‘ جیسے خام سونا کٹھالی میں تپ کر کندن بنتا ہے اسی طرح ان انقلابی کارکنوں میں مظالم و مصائب کی بھٹیوں سے گزر کر ایک آہنی عزم اور پہاڑوں سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور ان میں ایثار و قربانی کا جذبہ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ جاتا ہے. اور دوسری طرف جو روتعدی‘ تشدد اور ظلم و ستم جھیل کر یہ لوگ معاشرہ کی خاموش اکثریت کے دل جیتتے چلے جاتے ہیں. 

یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت اگرچہ دے دی گئی تھی کہ اگر یہ تعذیب و تشدد تمہارے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے‘ تم اگر یہاں رہ کر نہیں کرسکتے تو اس ملک کو چھوڑ کر چلے جاؤ. میری زمین بہت وسیع ہے. چنانچہ بعض مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت بھی کی ہے. لیکن ظاہر ہے‘ یہ ہجرت فرض نہیں تھی. اس تعذیب کا کلائمکس ۳ سال کی شعب ابی طالب کی قید ہے‘ جو سات نبویؐ سے ۱۰ نبویؐ تک رہی. بنو ہاشم گھروں سے نکال کر شعب ابی طالب میں محصور کردیئے گئے‘ اور یہ طے کر دیا گیا کہ گھاٹی کے اندر کھانے پینے کی 
کوئی چیز نہ جانے دی جائے گی. کچھ لوگ جیسے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جو حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے رشتہ دار تھے‘ رات کی تاریکی میں کبھی کبھار ایک پہاڑ کی چوٹی سے اتر کر کھانے کو کچھ دے آتے. ورنہ وہ وقت بھی آیا ہے کہ بنو ہاشم کے پھول جیسے چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے چلا رہے ہیں‘ اور سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ سوکھا چمڑا اُبال کر اس کا پانی ان کے حلق میں ٹپکا دیا جائے. 

تین سالہ سوشل بائیکاٹ سے چھٹکارا ہوا ہے تو یوں ہوا ہے کہ قریش کے چوٹی کے لوگوں نے ایک عہدنامہ پر دستخط کرکے جس پر لکھا تھا کہ اب بنو ہاشم کا بائیکاٹ ہے‘ کوئی بھی ان سے کوئی شے نہ خریدے گا اور نہ بیچے گا‘ اُسے خانہ کعبہ میں لٹکا دیا تھا. جب اسے دیمک کھا گئی‘ تو کسی نیک دل نے کہا کہ بھئی وہ تمہارا عہد نامہ تو ختم ہوگیا. اب خدا کے لیے اُسے تم بھی ختم کردو. تب وہ ختم ہوا. لیکن اسی سال ۱۰ نبوی کو جسے حضور نے عام الحزن کہا ہے‘ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا. باہر کفار کی باتیں سن کر آپؐ دل و دماغ پر بوجھ لے کر آتے تھے. اپنے گھر میں تو ایک دلجوئی کرنے والی رفیقہ حیات تھی وہ بھی نہیں رہی. پھر اسی سال آپؐ کے چچا ابوطالب کا بھی انتقال ہوگیا. اگرچہ وہ ایمان نہیں لائے تھے مگر انہوں نے بنی ہاشم کے سردار کی حیثیت سے آپ کو تحفظ دیا. وہ قبائلی زندگی تھی. حضرت ابوطالب کے بنو ہاشم قبیلہ کے سردار ہونے کی وجہ سے پورا بنو ہاشم کا خاندان حضور کے پیچھے تھا. اسی لیے حضور کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوسکا. اگر آپؐ کے خلاف اقدام ہوتا تو اس سے خانہ جنگی کا اندیشہ تھا. لیکن ابوطالب کے انتقال کے بعد وہ سہارا نہ رہا. لہذا کفار نے طے کرلیا کہ اب محمد ( ) کو مزید رعایت نہیں دی جائے گی. وہ آپؐکی جان کے درپے ہوگئے. اس پر جو اگلی باتیں ہیں‘ ان شاء اللہ آئندہ تقریر میں ہوں گی. اصل سیرت کا مضمون تو گویا اب شروع ہوا ہے. اس سے پہلے تو ہم نے فلسفۂ سیرت پڑھا ہے. 

اقول قولی ھٰذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات