سیرت النبیﷺ میں باطل سے تصادم کے تکمیلی مراحل

خطبہ ٔمسنونہ‘ تلاوت ِآیات قرآنی ٭ ‘ احادیث ِنبویؐ اور ادعیہ ٔماثورہ کے بعد!

معزز حضرات و محترم خواتین!
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول میں آپ کو پہلے بھی سنا چکا ہوں کہ ’’میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے ربّ کو پہچانا.‘‘ آدمی ایک ارادہ کرتا ہے کہ مجھے یہ کام یوں کرنا ہے‘ مگر وہ اُس طور سے نہیں ہوپاتا. معلوم ہوا کہ کوئی بالاتر طاقت ہے جس کے ہاتھ میں کل اختیار ہے. میرا ارادہ تھا کہ چار خطبات میں سیرت کا بیان مکمل کروں گا‘ مگر اپنے ارادہ کے مطابق میں ان کی تکمیل نہ کرسکا اور اب مزید پانچواں خطاب ہورہا ہے. میری کوشش ہوگی کہ آج کسی حد تک اِس مضمون کی تکمیل ہو جائے. اللہ مجھے اس کی توفیق دے. (آمین)

حضرات! چوتھے خطبے میں تصادم کے مرحلہ ٔ اوّل صبر محض اور اُس کی حکمت پر بات ہو رہی تھی. اُسے مکمل کرنے کے بعد ہم تصادم کے تکمیلی مراحل کو بیان کریں گے. 


تصادم کا مرحلہ اوّل : صبر محض

حضور اکرم  کے چچا ابوطالب اور آپؐ کی زوجہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یکے بعد دیگرے وفات پاگئے. چنانچہ ان ظاہری سہاروں کے ہٹ جانے کی وجہ سے مخالفت کاطوفان اور زیادہ چڑھاؤ پر آگیا. مشرکین قریش کی جسارتیں اس قدر بڑھ گئیں کہ وہ کھل کر آپؐ کو اذیت اور تکلیفیں پہنچانے لگے. آپؐ کے پیچھے لونڈوں کے غول کے غول لگا دیے جاتے‘ جو شور مچاتے‘ حضور نماز پڑھتے تو وہ تالیاں پیٹتے. راستہ چلتے ہوئے آپؐ پر غلاظت پھینک دی جاتی. دروازے کے سامنے کانٹے بچھائے جاتے. کبھی گلا گھونٹ دیا جاتا. کبھی دست تعدی دراز کیا جاتا. آپؐ پر پھبتیاں کسی جاتیں. غلیظ گالیاں دی جاتیں. آپؐ کے چہرۂ انو رپر خاک پھینکی جاتی. ابوطالب کی سپورٹ نہ رہنے کی وجہ سے کفار قریش نے آپؐ پر اذیت رسانی کی حد کردی. آپؐ کی جان کے درپے ہوگئے‘ اور آپؐ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے. اس صورت حال نے آپؐ کے رنج و غم میں اور اضافہ کردیا. ابن اسحق کا بیان ہے کہ جب ابوطالب انتقال کرگئے تو قریش نے رسول اللہ کو ایسی اذیت پہنچائی کہ ٭ سورۃ الحدید‘ آیت ۲۵‘ سورۃ الصف ‘ آیات:۴۱۴ابوطالب کی زندگی میں کبھی اِس کی آرزو بھی نہ کرسکے تھے. انہیں غم انگیز حالات کی وجہ سے یہ سال غم کے سال کے نام سے موسوم ہوا. الغرض جب مکہ کی کھیتی دعوت حق کے لیے بالکل بنجرہوگئی‘ اور اِسے جوکچھ فصل دینی تھی‘ وہ دے چکی تو آپؐ نے فیصلہ کیا کہ اب مکہ سے باہر نکل کر حق کا پیغام پہنچایاجائے. 

حضور اکرم  کی اہل طائف کو دعوتِ اسلام

مکہ کی سرزمین تنگ ہوتی دیکھ کر آپؐ نے ۱۰ نبوی کو طائف کا سفر اختیار کیا کہ شاید وہاں کوئی امیر یا کوئی سردار ایمان لے آئے تو میں اپنا مرکز وہاں شفٹ کر دوں. طائف مکے سے تقریباً ساٹھ میل دور واقع ہے. مکہ اور طائف جڑواں شہر (twin cities) ہیں جیسے اسلام آباد اور راولپنڈی ہیں یا جیسے دریائے سندھ کے کنارے روہڑی اور سکھر کے جڑواں شہر آباد ہیں. طائف ایک بڑا سرسبز قطعہ اور نسبتاً ٹھنڈا مقام تھا اور قریش کا گرمیاں گزارنے کا مسکن تھا. وہاں ان کے باغات اور بڑی بڑی جاگیریں تھیں. آپؐ اپنے آزادکردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ وہاں گئے. راستے میں جس قبیلے سے گزر ہوتا‘ آپؐ اسے اسلام کی دعوت دیتے‘ لیکن کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہ کی. جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے اور جن کے نام یہ تھے: عَبد یَالَیل ‘ مسعود اور حبیب. ان کے والد کا نام عمر بن عمیر ثقفی تھا. آپؐ نے ان کے پاس بیٹھنے کے بعد انہیں اللہ کی اطاعت اور اسلام کی مدد کی دعوت دی. جواب میں ایک نے کہا: ’’میں کعبے کا پردہ پھاڑوں اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو.‘‘ دوسرے نے کہا: ’’کیا اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا؟‘‘ تیسرے نے کہا: ’’میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا. اگر تم واقعی پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے توپھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیے.‘‘ یہ جواب سن کر آپؐ وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے‘ اور صرف اتنا فرمایا: تم لوگوں نے جو کچھ کیا‘ بہرحال اسے پس پردہ ہی رکھنا. (۱

اہل طائف کی شقاوت قلبی:رسول اللہ  نے طائف میں دس دن قیام فرمایا. اس دوران آپؐ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے گفتگو کی. لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ تم ہمارے شہر سے نکل جاؤ. بلکہ انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہ (۱) تخریج الاحیاء‘ للعراقی‘ الراوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دے دی. چنانچہ جب آپؐ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے‘ تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپؐ کے پیچھے لگ گئے‘ اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپؐ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی. پھر گالیاں اور بدزبانیوں کے ساتھ ساتھ آپؐ پر پتھراؤ کیا. شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا‘ جس سے جسم اطہر لہولہان ہوگیا. ادھر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ڈھال بن کر چلتے ہوئے پتھروں کوروک رہے تھے‘ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی. بدمعاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا‘ یہاں تک کہ آپؐ کو ربیعہ کے بیٹوں عُتبَہ اور شَیْبہ کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا. جب آپؐ نے یہاں پناہ لی توبھیڑواپس چلی گئی‘ اور آپؐ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے. قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو ’’دعائے مستضعفین‘‘ کے نام سے مشہور ہے. آپؐ کے قلب کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی اُس دعا کو نقل کرتے ہوئے بھی کلیجہ شق ہوتا ہے: 

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ‘ اِِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ؟ اِلٰی بَعِیْدٍ یَجْھَمُنِیْ اَوْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَ اَمْرِیْ؟ اِنْ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ‘ اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ اِنْ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ (۱)

’’اے اللہ! کہاں جاؤں‘ کہاں فریاد کروں‘ تیری ہی جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں‘ اپنی قوت کی کمی اور اپنے وسائل و ذرائع کی کمی کی اور لوگوں میں جو رسوائی ہو رہی ہے‘ اس کی.اے اللہ! تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا تو نے میرا معاملہ دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ جو چاہیں میرے ساتھ کر گزریں؟پروردگار! اگر تیری رضا یہی ہے اور اگر تو ناراض نہیں ہے تو پھر میں بھی راضی ہوں‘ مجھے اس تشدد کی کوئی پروا نہیں ہے. اے ربّ! میں تیرے روئے انور کی ضیاء کی پناہ میں آتا ہوں جس سے ظلمات منور ہو جاتے ہیں.پروردگار! اگر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں !‘‘ 
اس سے گہری کوئی فریاد ہو سکتی ہے؟ لیکن دیکھئے‘ حضور کی دو نسبتیں ہیں‘ مقامِ عبدیت اور مقامِ رسالت. 
(وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـــہٗ) یہاں وہ نسبت ِعبدیت غالب آ رہی ہے: (اِنْ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ) ’’پروردگار اگر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں!‘‘ سرِتسلیم خم ہے جو مزاج ِ یار میں آئے!! (۱) الجامع الصغیر للسیوطی رحمہ اللہ : ۱۴۸۳. الراوی عبداللّٰہ بن جعفر بن ابی طالب. ادھر آپؐ کو ابنائے ربیعہ نے اس حالت ِ زار میں دیکھا تو ان کے جذبۂ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے ایک عیسائی غلام کو جس کا نام عَداس تھا‘ بلا کر کہا کہ اس انگور سے ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آؤ. جب اس نے انگور آپؐ کی خدمت میں پیش کیا تو آپؐ نے ’’بسم اللہ‘‘ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کیا. عداس نے کہا‘ یہ جملہ تو اس علاقے کے لوگ نہیں بولتے. رسول اللہ  نے فرمایا: ’’تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور تمہارا دین کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا باشندہ ہوں. رسول اللہ  نے فرمایا: ’’اچھا! تم مرد صالح یونس بن متی کی بستی کے رہنے والے ہو.‘‘ اُس نے کہا: آپؐ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں؟ رسول اللہ  نے فرمایا: ’’وہ میرے بھائی تھے. وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں.‘‘ یہ سن کر عداس رسول اللہ  پر جھک پڑا اور آپؐ کے سر اور ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیا. 

یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا کہ اب اس شخص نے ہمارے غلام کو بگاڑ دیا. اس کے بعد جب عداس واپس گیا تو دونوں نے اس سے کہا! یہ کیا معاملہ تھا؟ اُس نے کہا‘ میرے آقا! رُوئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی اور نہیں. اس نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا. ان دونوں نے کہا! دیکھو عداس‘ کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے پھیر نہ دے. کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے. 

قدرے ٹھہر کر رسول اللہ  باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پر چل پڑے. غم و الم کی شِدّت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا. کچھ فاصلہ طے کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے. ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا. اُس نے آپؐ سے یہ گزارش کی کہ آپؐ حکم دیں تو وہ اہل طائف کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے. 

خصوصی پروٹیکشن حاصل ہو گئی!

اہل طائف نے آپؐ کے ساتھ جس شقاوت قلبی اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا‘ وہ بدسلوکی کی انتہا تھی. اسی لیے پھر اللہ کی طرف سے آپؐ کو سپیشل پروٹیکشن حاصل ہوگئی. اس سے پہلے آپؐ کو یہ پروٹیکشن حاصل نہیں تھی. چنانچہ ایک مرتبہ آپؐ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل نے آپؐ کے گلے میں رسی ڈال دی‘ جس سے آپؐ کی آنکھیں ابھر آئیں. اسی طرح ایک مرتبہ آپؐ خانہ کعبہ میں نماز کے دوران ابوجہل کے کہنے پر عقبہ بن ابی معیط نے آپؐ پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر رکھ دی. بھاری اوجھڑی کی وجہ سے آپؐ سر نہیں اُٹھا سکتے تھے. جب آپؐ کے گھر میں اس کی خبر گئی تو حضرت فاطمۃ الزہرہ روتے ہوئے آئیں اور اوجھڑی کو ہٹایا.

حیاتِ نبوی کا سخت ترین دن اور آپؐ کی شان رحمت:

طائف کا دن آپؐ پر بہت سخت تھا.یہ بات آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے بھی فرمائی تھی. اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک روز رسول اللہ  سے دریافت کیا کہ کیا آپؐ پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو اُحد کے دن سے زیادہ سنگین رہا ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا‘ ان میں سب سے سنگین مصیبت وہ تھی جس سے میں گھاٹی کے دن دوچار ہوا‘ جب میں نے اپنے آپ کو عَبدیَالَیل بن عبدکُلال کے صاحبزادے پر پیش کیا. مگر اس نے میری بات منظور نہ کی‘ تو میں غم و الم سے نڈھال اپنے رُخ پر چل پڑا‘ اور مجھے قرن ثعالب پہنچ کر ہی افاقہ ہوا. وہاں میں نے سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ فگن ہے. میں نے بغور دیکھا تو اس میں حضرت جبریل علیہ السلام تھے. انہوں نے مجھے پکار کر کہا آپؐ کی قوم نے آپؐ سے جو بات کہی! اللہ نے اُسے سن لیا ہے. اب اس نے آپؐ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے‘ تاکہ آپؐ ان کے بارے میں اسے جو حکم چاہیں دیں. اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی‘ اور سلام کرنے کے بعد کہا: اے محمد( )! بات یہی ہے. اب آپؐ جو چاہیں … اگر چاہیں کہ میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں… تو ایسا ہی ہوگا … نبی نے فرمایا! (نہیں) بلکہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی‘ اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے گی. (۱

رسول اللہ  کے اس جواب میں آپؐ کی رحمۃ للعالمینی کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے. اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملک الجبال کا بھیجا جانا آپؐ کی نصرت خصوصی تھی‘ جس سے آپؐ کا دل مطمئن ہوگیا. آپؐ نے مکہ کی جانب پیش قدمی فرمائی اور جاکر وادیٔ نخلہ میں قیام فرمایا. آپؐ یہاں چند دن قیام پذیر رہے. اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے پاس جنوں کی ایک جماعت بھیجی. اس کا ذکر قرآن حکیم میں دو مقامات پر آیا ہے. سورۃ الاحقاف میں فرمایا: 

وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ ﴿۲۹﴾قَالُوۡا یٰقَوۡمَنَاۤ اِنَّا سَمِعۡنَا کِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ یَہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ وَ اِلٰی طَرِیۡقٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۳۰﴾یٰقَوۡمَنَاۤ اَجِیۡبُوۡا دَاعِیَ اللّٰہِ وَ اٰمِنُوۡا بِہٖ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُجِرۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۳۱﴾ 

(۱) صحیح البخاری‘ ح:۳۲۳۱ . راوی اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا. ’’اور جب ہم نے جنوں میں سے کئی شخص تمہاری طرف متوجہ کیے کہ قرآن سنیں تو جب وہ اس کے پاس آئے تو (آپس میں) کہنے لگے کہ خاموش رہو. جب (پڑھنا) تمام ہوا تو اپنی برادری کے لوگوں میں واپس گئے کہ (ان کو) نصیحت کریں. کہنے لگے کہ اے قوم ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے. جو (کتابیں) اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں ان کی تصدیق کرتی ہے (اور) سچا (دین) اور سیدھا راستہ بتاتی ہیں.اے قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی بات قبول کرو. اور اس پر ایمان لاؤ اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دکھ دینے والے عذاب سے پناہ میں رکھے گا.‘‘
سورۃ الجن میں فرمایا:

قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ وَ لَنۡ نُّشۡرِکَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا ۙ﴿۲

’’(اے پیغمبرؐ لوگوں سے) کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو) سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا‘ جو بھلائی کا راستہ بتاتا ہے. سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے.‘‘

رسول اللہ کی مکہ واپسی

آپؐ طائف سے مکہ واپس آنے لگے‘ مگر مسئلہ یہ تھا کہ مکہ میں کفار آپؐ کے قتل کے درپے تھے. اب جائیں تو کہاں جائیں؟ کس طرف جائیں‘ کدھر دیکھیں‘ کسے آواز دیں. مکہ تو جاسکتے نہیں تھے‘ مگر پھر بھی یہ عالم اسباب ہے. یہاں تدبیریں تو کرنی پڑتی ہیں. چنانچہ آپؐ نے اخنس بن شریق کو پیغام بھیجا کہ وہ آپؐ کو پناہ دے دے. مگر اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ دینے کا اختیار نہیں رکھتا. اس کے بعد آپؐ نے سہیل بن عمرو کے پاس یہی پیغام بھیجا. مگر اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کردی کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنوکعب پر لاگو نہیں ہوتی. اس کے بعد آپؐ نے مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا. مطعم نے کہا: ہاں‘ میں آپ کو پناہ دیتا ہوں اور پھر ہتھیار پہن کر اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلایا اور کہا تم لوگ ہتھیار باندھ کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہو جاؤ. کیونکہ میں نے محمد ( ) کو پناہ دے دی ہے. اس کے بعد مطعم نے رسول اللہ  کے پاس پیغام بھیجا کہ مکے کے اندر آجائیں. آپؐ پیغام پانے کے بعد حضرت زیدؓ بن حارثہ کو ہمراہ لے کر مکہ تشریف لائے‘ اور مسجد حرام میں داخل ہوگئے. اس کے بعد مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو! میں نے محمد ( ) کو پناہ دے دی ہے. اب اُنہیں کوئی اذیت نہ دے. ادھر رسول اللہ  سیدھے حجر اسود کے پاس پہنچے‘ اسے چوما‘ پھر دورکعت نماز پڑھی‘ اور اپنے گھر کو پلٹ آئے. اس دوران مطعم بن عدی اور ان کے لڑکوں نے ہتھیار بند ہوکر آپؐ کے ارد گرد حلقہ باندھے رکھا‘ تاآنکہ آپؐ اپنے مکان کے اندر تشریف لے گئے. 

کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ابوجہل نے مطعم سے پوچھا تھا کہ تم نے پناہ دی ہے یا پیروکار (مسلمان) بن گئے ہو؟ مطعم نے جواب دیا تھا کہ پناہ دی ہے. اس جواب کو سن کر ابوجہل نے کہا تھا کہ جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی. رسول اللہ  نے مطعم بن عدی کے اس حسن سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا. چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہو کر آئی اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے حضرت جبیر بن مطعم آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: 

لوکان المطعم بن عدی حیا ثم کلمنی فی ھٰؤلآءِ النتنی لترکتھم لہ (۱
’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا‘ پھر مجھ سے ان بدبودار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑدیتا.‘‘

اِسی دور کا جس میں حضور کو پروٹیکشن حاصل ہوگئی تھی واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل اپنے حواریوں کے ساتھ خانہ کعبہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں حضور تشریف لائے اور آپؐ نے نماز پڑھنی شروع کی. آپؐ کو نماز پڑھتے دیکھ کر دشمن اسلام آپؐ کو ایذا پہنچانے کی نیت سے آپؐ کی طرف بڑھا. ابھی آپؐ کے قریب نہ پہنچا تھا کہ اچانک خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹ گیا اور اُس کا رنگ اڑا ہوا تھا. ابوجہل کے ساتھیوں نے یہ منظر دیکھا تو اُس سے کہنے لگے: ابوالحکم کیا بات ہوئی؟ کہنے لگا‘ مجھے میرے اور محمد ( ) کے درمیان آگ کی ایک کھائی نظر آئی‘ جس میں ایک پروں والی مخلوق تھی. چنانچہ میں گھبرا کر پلٹ آیا. حضور فرماتے تھے کہ اگر وہ (ملعون) آگے بڑھتا تو فرشتے اُس کی بوٹی بوٹی جدا کردیتے. بہرحال یوم طائف جو آپؐ کی ذاتی پراسیکیوشن کی انتہا ہے کے بعد آپؐ کی معجزانہ انداز میں حفاظت ہوئی. یہ گویا اللہ کی نصرت خصوصی ہے. یہ نصرت کب حاصل ہوتی ہے؟ اللہ کی مدد کا قاعدہ کیا ہے؟ یہ بھی جان 
(۱) صحیح البخاری‘ ح:۴۰۲۴. الراوی جبیر بن مطعمؓ . لیجئے. اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے پیغمبروں کو بھیج کر حق و باطل کا معرکہ برپا کرایا ہے. اُس کی سنت یہ ہے کہ باطل جب آخری حد تک پورا زور دکھا چکتا ہے اور بندگان خدا ایک ایک کرکے تمام مراحل استبداد سے صبر جمیل کے ساتھ گزرتے ہوئے اپنے تمام وسائل راہ خدا میں جھونک دیتے اور مقدور بھر تکالیف جھیل لیتے ہیں تو پھر نصرت الٰہی کی صبح طلوع ہوجاتی ہے. طائف کے تجربے کے بعد گویا حضور اس آخری امتحان سے گزر گئے. قانونِ الٰہی کے تحت ضروری تھا کہ اب نصرت الٰہی کے دروازے کھل جائیں‘ لہذا آپؐ کو خصوصی پروٹیکشن حاصل ہوگئی. اس سے پہلے آپؐ کو یہ پروٹیکشن حاصل نہ تھی. دوسرے لفظوں میں طائف کے واقعہ کے بعد حضور کی ذاتی طور پر معجزانہ انداز میں حفاظت ہوئی. 

اسلام کی کرنیں مدینہ منورہ میں

مطعم بن عدی کی پناہ میں آنے کے بعد آپؐ نے یہاں افراد اور قبائل کو پھر سے اسلام کی دعوت دینی شروع کی. اب آپؐ آزادانہ طور پر تبلیغ کرتے تھے. موسم حج قریب تھا. چنانچہ آپؐ ایام حج میں حسب معمول منیٰ تشریف لائے‘ تاکہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں. آپؐ جمرۃ عقبہ کے پاس پہنچے تو آپؐ کو مدینہ سے آئے ہوئے قبیلہ خزرج کے کچھ لوگ نظر آئے. آپؐ نے اُن سے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے عرض کیا: ہم قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں. آپؐ نے اُن کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور قرآن مجید کی چند آیات تلاوت فرمائیں. مدینہ میں بالعموم لوگ یہودیوں کو دبا کرر کھتے تھے. جب باہم جھگڑا ہوتا تھا تو یہودی اُن کو دھمکی دیتے تھے کہ آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے. جب وہ آئیں گے تو ہم اُن کے ساتھ مل کر تمہیں عاد وارم کی طرح قتل کریں گے. چنانچہ رسول اللہ کی دعوت جب خزرج کے لوگوں نے سنی تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے‘ اللہ کی قسم یوں لگتا ہے یہی وہ نبی کریم ہیں جن کے بارے میں یہودی تمہیں دھمکیاں دیتے رہتے ہیں. کہیں وہ تم سے آپؐ کی پیروی میں سبقت نہ لے جائیں. اس لیے انہوں نے آپؐ کی دعوت قبول کرلی اور اسلام لے آئے. آپؐ پر ایمان لانے کے بعد یہ لوگ آپؐ سے رخصت ہو کر مدینہ چلے گئے.

مدینہ النبی کا تاریخی پس منظر

اب یہاں تھوڑا سا مدینہ کا تاریخی پس منظر بھی بتا دیا جائے. مدینہ کا پرانا نام یثرب تھا. اسے بنیادی طور پر چند یہودی قبائل نے آباد کیا تھا‘ جو "Lost tribes of the Jews" (بنی اسرائیل کے کھوئے ہوئے قبیلے) کہلاتے ہیں. پہلے پہل یہود کے تین قبیلے‘ بنوقینقاع‘ بنونضیر‘ بنو قریظہ یہاں آباد ہوئے. اُن کے یہاں آباد ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان کے پاس یہ پیشین گوئی تھی کہ کھجوروں کی اس سر زمین میں آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے‘ اس لئے وہ آخری نبی پر ایمان لانے کے لیے فلسطین سے آکر یہاں آباد ہوئے. پھر جوں جوں یہودیوں کی نسل پھیلتی گئی‘ مدینہ کے آس پاس اُن کی نئی بستیاں قائم ہوتی گئیں. مدینہ کی آبادی کا دوسرا عنصر انصار تھے. اِن کا اصل وطن یمن تھا‘ اور یہ قحطان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے. جس زمانے میں سیل العرم نامی خوفناک سیلاب نے تباہی مچائی اور یمن کا مشہور ڈیم سدّمآرب ٹوٹا‘ اُس زمانے میں بچے کھچے لوگ ادھر اُدھر منتشر ہوگئے. بہت سے قبائل عراق میں جاکر آباد ہوگئے. اُسی زمانے میں قحطان قبیلے میں سے دو بھائی اوس اور خزرج یثرب آپہنچے اور یہود سے اجازت لے کر یہاں آباد ہو گئے. اس طرح یثرب پانچ قبیلوں کا شہر تھا. دو عرب قبائل تھے اوس اور خزرج اور تین یہودی قبائل بنو قینقاع‘ بنو نضیر اور بنو قریظہ. 

مدینہ کے مخصوص ماحول میں یہودی اور عرب قبائل کے درمیان مناقشت چلی آتی تھی اور باہمی تعلقات میں حریفانہ جذبات کام کررہے تھے. یہودی اپنی سازشوں سے جنگ و فساد کی آگ بھڑکاتے رہتے تھے. وہ اتنی مہارت سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ اِن قبائل کو احساس ہی نہ ہوتا. اس کے بعد اِن قبائل میں جنگ مسلسل جاری رہتی اور یہ اُن کا تماشا دیکھتے. البتہ بھاری بھر کم سودی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمایہ کی کمی سے لڑائی بند نہ ہو جائے. اوس اور خزرج میں جنگ ہوتی رہتی تھی. بعض لڑائیاں نسل در نسل چلتی رہتی تھیں جیسے ہمارے ہاں قتل در قتل کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے. ادھر یہودی کسی نہ کسی عرب قبیلے کے حلیف بن گئے تھے. پھر جب کبھی عرب اور یہودی قبائل میں جھگڑا اور جدال ہوتا‘ یہودی اکثر مار کھاتے تھے. یہ بنیے ٹائپ لوگ تھے‘ جیسے ہمارے ہاں بنیا کسی گاؤں کے اندر جا کر کوئی چھوٹی سی دکان کھول لیتا. کچھ عرصہ کے بعد اس کا محل بنا ہوتا تھا اور باقی لوگوں کی زمینیں اس کے پاس رہن ہوتی تھیں. لیکن اگر کہیں جھگڑا ہوتا تھا‘ وہی مار کھاتا تھا. اس لیے کہ وہ لڑنے کے قابل نہیں ہوتا تھا. یہی معاملہ ان یہودیوں کا تھا. انہیں بھی اکثر مار پڑتی رہتی تھی. یہودیوں کو جب بھی مار پڑتی تو وہ دھمکی آمیز انداز میں کہتے تھے کہ دیکھو‘ آخری نبی کے ظہور کا وقت قریب ہے. جب وہ نبی آئے گا تو ہم اس کے ساتھ ہو کر تم سے جنگ کریں گے‘ پھر تم ہمیں کبھی شکست نہیں دے سکو گے. یہودی یہ
پیشین گوئیاں اس لئے کرتے تھے کہ ان کے پاس سرمایۂ اعتقاد تھا. وہ پڑھے لکھے لوگ تھے‘ صاحب کتاب تھے. ان کے پاس کتاب تورات اور شریعت تھی. ان میں علماء‘ مفتی اور قاضی تھے. ان کی عدالتیں تھیں. یہود کے برعکس اوس اور خزرج اجڈ اور گنوار لوگ تھے. ان کے پاس کوئی کتاب تھی‘ نہ تعلیم. لہذا ان پر یہودیوں کا ایک رعب تھا. یہود کی آخری نبی کی پیشین گوئی نے اوس و خزرج قبائل کو بھی آخری پیغمبر موعود کا منتظر بنا دیا تھا. اوس اور خزرج یہ بھی محسوس کرتے تھے کہ اگر آپس میں لڑتے مرتے رہے‘ تو ختم ہو جائیں گے. لہذا کوئی ثالث (orbitrator) ہونا چاہیے ‘جو ہمارے معاملات کو کنٹرول کرے‘ لہذا طے کر لیا گیا تھا کہ خزرج جو بڑا قبیلہ تھا‘ اس کے سردار عبد اللہ بن ابی کو بادشاہ بنالو. اس کے لئے ایک سونے کا تاج تیار کر لیا گیا تھا. تاج پوشی کی نوبت ابھی نہیں آئی کہ حضور یثرب تشریف لے گئے‘ یعنی بے تاج بادشاہ بن کر وہاں آگئے. اِس اجمال سے معلوم ہوا کہ مدینہ کی فضا آپؐ کی یثرب آمد کے لئے پہلے سے ہموارتھی.

بیعت عقبہ اولیٰ:

جمرۂ عقبہ میں اسلام قبول کرنے والے لوگوں نے مدینہ واپس آکر اپنی قوم کے سامنے رسول اللہ  کی تعلیمات کا تذکرہ کیا. نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ سال ۱۱نبوی کے موسم حج میں انصار کے بارہ آدمی جمرۃ عقبہ کے پاس آپؐ سے ملے اور آپؐ کے دست مبارک پر بیعت کی. یہ پہلی بیعت تھی. اِسے بیعت عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے. اِس میں آپؐ نے اِن لوگوں سے شرک‘ چوری‘ زنا‘ بچوں کے قتل‘ جھوٹے الزام اور اپنی اطاعت کی بیعت لی. اِس پہلی بیعت کے بعد رسول اللہ  نے اِن اسلام لانے والوں کی درخواست پر اُن کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیر رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھیجا‘ تاکہ وہ اہل مدینہ کو قرآن سکھائیں. حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے ہاں قیام کیا. اُن کی تبلیغی مساعی اور بہترین انداز تعلیم سے اسلام کا نور پھیلنے لگا. حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو اپنے قبیلے کے سردار تھے‘ مسلمان ہو گئے‘ پھر اور لوگ بھی اسلام قبول کرتے گئے.

بیعت عقبہ ثانیہ :

اگلے سال ۱۲نبوی کے موسم حج میں مدینہ سے ستر افراد آئے اور آپؐ سے عقبہ کی گھاٹی میں ملاقات کاپروگرام طے کیا. اِن لوگوں نے آپؐ کو بایں الفاظ مدینہ تشریف آوری کی دعوت دی: یا رسول اللہ ہم آپؐ سے کن شرئط پر آپؐ کی مدینہ تشریف آوری کا معاہدہ کریں. آپؐ نے فرمایا: یہ معاہدہ اس بات پر ہوگا کہ تم ہر پسند و ناپسند میں میری اطاعت پر کاربند ہوگے. نیکی کا حکم دو گے‘ برائی سے روکو گے‘ اللہ کی بات کرو گے‘ اللہ کے مقابلے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرو گے او رجب میں تمہارے ہاں آجاؤں تم میری مدد کرو گے اور اپنے جان و مال اور بیوی بچوں کی طرح میری حفاظت کرو گے. اس کے نتیجے میں تمہیں جنت ملے گی. اِس پر سب انصار اُٹھے اور آپؐ کی بیعت کرلی. اس بیعت کے حوالے سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ملاحظہ کیجئے جو بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہیں. فرماتے ہیں:

(بَایَعْنَا رَسُولَ اللہِ  عَلَی السَّمْعِ وَ الطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَ الْیُسْرِ وَ الْمَنْشَطِ وَ الْمَکْرَہِ‘ وَ عَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَ عَلٰی اَنْ لَا نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہ‘ وَ عَلٰی اَنْ نَّقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘ لاَ نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ) (۱

’’ہم نے رسول اللہ  سے بیعت کی تھی کہ ہم (آپؐ کا) حکم سنیں گے اور مانیں گے‘ خواہ مشکل ہو خواہ آسان ‘ خواہ ہماری طبیعت کو خوش گوار لگے خواہ نا گوار ہو‘ خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے. اور جس کو بھی ہم پر امیر بنا دیا جائے گا ہم اس سے جھگڑیں گے نہیں‘ اور ہم حق بات کہتے رہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں اور اللہ کے معاملہ میں (حق کہنے سے) کسی ملامت گرکی ملامت سے ہر گز نہیں ڈریں گے. ‘‘

بیعت کرلینے کے بعد حاضرین میں سے حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے آپؐ کا دست مبارک پکڑا اور عرض کی‘ قسم ہے اُس ذات کی‘ جس نے آپؐ کو نبی ٔبرحق بنا کر بھیجا‘ ہم اپنی ذات سے بڑھ کر آپؐ کی حفاظت کریں گے. اللہ کی قسم ہم نسل در نسل جنگجو لوگ رہے ہیں اور اسلحہ کا استعمال خوب جانتے ہیں. اس کے بعد انصار نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ساتھ آپؐ کو غلبہ نصیب ہو جائے تو کہیں آپؐ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کے پاس واپس نہ آجائیں. اِس پر آپؐ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں‘ اب تو زندگی اور موت تمہارے ساتھ ہے. میں اور تم ایک ہوں گے‘ جس سے تمہاری جنگ ہوگی اس سے میری بھی جنگ ہوگی اور جس سے تمہاری صلح ہوگی اس سے میری صلح ہوگی.‘‘ 
عقبہ میں ہونے والی پہلی اور دوسری بیعت کے الفاظ مختلف ہیں. پہلی بیعت دراصل توحید اور اخلاقی تعلیمات کے حوالے سے تھی کہ ہم شرک نہیں کریں گے‘ زنا نہیں کریں گے‘ چوری نہیں کریں گے وغیرہ. دوسری بیعت اسلامی نظم جماعت کی بنیاد ہے. اس کی بنیاد پر مسلمانوں کا نظم قائم ہوتا ہے. 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء.

رسول اللہ کی مدینہ ہجرت

۱۴نبوی میں آپؐ نے مدینہ ہجرت فرمائی. اس سے پہلے آپؐ نے ایک متبادل مرکز کی حیثیت سے طائف کا انتخاب کیا تھا لیکن طائف والوں کی قسمت میں یہ سعادت نہیں تھی. اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت اور خوش بختی یثرب کے لیے رکھی تھی. چنانچہ اہل یثرب چل کر آپؐ کے پاس گئے اور آپؐ کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دے آئے بلکہ اس کی منظوری لے آئے. اب حضور کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اُس گھڑی کی اجازت ملنے کا انتظار تھا جس گھڑی ہجرت کرنا تھی. یہ گھڑی اُس وقت آئی جب مشرکین نے اسلامی دعوت کا چراغ گل کرنے کے لیے آپؐ کے قتل کا منصوبہ بنایا. جب مشرکین نے دیکھا کہ یثرب میں اسلامی دعوت جڑ پکڑنے لگی ہے اور یہ ہمارے لیے نہایت خطرناک ہوگی تو انہوں نے مکہ کی پارلیمنٹ دارالندوہ میں تاریخ کا سب سے خطرناک اجتماع منعقد کیا‘ جس میں قریش کے تمام قبائل کے نمائندوں نے شرکت کی. موضوع بحث یہ تھا کہ (نعوذ باللہ) اسلامی دعوت کے علمبردار محمد رسول اللہ  کا قصہ بہ عملیت تمام پاک کردیا جائے. اس سلسلے میں مختلف تجاویز پیش کی گئیں‘ مگر پارلیمنٹ نے رد کردیں. بالآخر ابوجہل نے ایک انتہائی مجرمانہ تجویز پیش کی‘ جس سے تمام ممبران نے اتفاق کیا. اُس نے کہا: اس شخص کے بارے میں میری ایک رائے ہے. میں دیکھتا ہوں کہ اب تک تم لوگ اس پر نہیں پہنچے. لوگوں نے کہا: ابوالحکم وہ کیا ہے؟ ابوجہل نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ ہم ہر ہر قبیلے سے ایک مضبوط‘ صاحب ِنسب اور بانکا جوان منتخب کرلیں. پھر ہر ایک کو ایک تیز تلوار دیں. اس کے بعد سب کے سب اس شخص کا رُخ کریں اور اس طرح یکبارگی تلوار مارکر قتل کردیں‘ جیسے ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہو. یوں ہمیں اس شخص سے چھٹکارا مل جائے گا. اور اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا‘ اور بنوعبدمناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں گے. لہذا دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہو جائیں گے. اور ہم دیت ادا کریں گے. شیخ نجدی نے کہا: بات یہ رہی جو اس جوان نے کہی. اگر کوئی تجویز اور رائے ہوسکتی ہے تو یہی ہے. باقی ہیچ ہے. اس کے بعد پارلیمان مکہ نے اس مجرمانہ قرارداد پر اتفاق کرلیا‘ اور ممبران اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس گئے کہ اس قرارداد کی فوری تنفیذ کرنی ہے. 

جب نبی  کے قتل کی مجرمانہ قرارداد طے ہوچکی تو حضرت جبریل علیہ السلام اپنے 
رب تبارک و تعالیٰ کی وحی لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے. اور آپؐ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو یہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے. جوں ہی اجازت آئی‘ حضور عازم ہجرت ہوئے اور سوئے یثرب کوچ فرمایا. 

تصادم کا مرحلہ ثانی : اقدام

مدینہ میں آپؐ کی حیات دنیوی کا ایک نیاورق شروع ہوتا ہے. یہاں اسلامی تحریک تصادم کے مرحلہ اول صبر محض سے نکل کر راست اقدام اور مسلح تصادم کے مراحل میں داخل ہوگئی. اقدام تصادم کا دوسرا مرحلہ ہے .اس مرحلے میں قدم رکھنے کا فیصلہ نہایت نازک ہوتا ہے.حضور کے معاملے میں اس مرحلے میں داخل ہونے کا فیصلہ اللہ کی طرف سے تھا. لہذاغلطی کا کوئی امکان ہی نہیں تھا. لیکن آئندہ جو بھی تحریک ہو گی اس کی قیادت یہ فیصلہ کرے گی اور اس میں غلطی کا امکان موجود رہے گا. یہ الگ بات ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ غلطی کی صورت میں بھی دنیا میں ناکامی کے باوجود آخرت کی کامیابی یقینی ہے. 

ابتدائی اقدامات : اگرچہ آپؐ نے ہجرت کے بعد اقدام 
(active resistance) کا فیصلہ کیا. لیکن چھ مہینے میں آپؐ نے اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کی خاطر تین کام کئے. اولاً مسجد نبویؐ تعمیر فرمائی‘ جو عبادت گاہ بھی تھی‘ خانقاہ اور درس گاہ بھی تھی‘ پارلیمنٹ اور مشاورت کی جگہ بھی تھی. یہی گورنمنٹ ہاؤس کا مقام بھی رکھتی تھی. یہیں پر وفود بھی آرہے تھے. گویا مسلمانوں کا ایک مرکز وجود میں آ گیا. 

دوسرے آپؐ نے مہاجرین اور انصار کے مابین ’’مواخات‘‘ قائم فرما دی اور ہر مہاجر کو کسی ایک انصاری کا بھائی قرار دے دیا. چنانچہ انصارِ مدینہ نے اپنے ان مہاجربھائیوں کو اپنے گھروں اور دکانوں میں سے حصے دیئے اور اپنے ذرائع معاش میں ان کو شریک کیا.اس مواخات میں ایسی ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ انصاری بھائیوں نے اپنے مکانوں اور دکانوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرکے انہیں نصف نصف تقسیم کرکے مہاجر بھائیوں کو دے دیا. یہاں تک کہ ایک انصاری کی دو بیویاں تھیں. اُس وقت پردے کے احکام ابھی نہیں آئے تھے‘ وہ تو کہیں پانچ چھ سال بعد آئے. وہ انصاری اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے گئے‘ اور کہا کہ یہ میری دو بیویاں ہیں‘ ان میں سے جو تمہیں پسند ہو اشارہ کرو‘ میں اسے طلاق دے 
دوں گا‘ تم اس سے شادی کر لینا. رسول اللہ نے تمہیں میرا بھائی قرار دیا ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تمہارا گھر آباد نہ ہو اور میرے گھر میں دو دو بیویاں ہوں. یہ مواخات کا وہ عظیم درس تھا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ پیش نہیں کرسکتی. 

رسول اللہ نے تیسرا اہم کام یہ کیا کہ مدینہ میں آباد یہودی قبائل کے ساتھ مشترکہ دفاع کے معاہدے کر لئے. آپؐ کے اس اقدام کی منٹگمری واٹ اور ٹائن بی نے بہت زیادہ تعریف کی ہے اور اسے آپؐ کے حسن تدبر اور 
statesmanship کا عظیم مظہر قرار دیا ہے. مدینہ میں آباد یہودی قبائل بنو قینقاع‘ بنونضیر اور بنوقریظہ بڑی strategic پوزیشن میں تھے. مدینے کے باہر ان کی گڑھیاں اور قلعے تھے. رسول اللہ نے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے ان تینوں قبائل سے مشترکہ دفاع کا معاہدہ کر لیا .آج بعض لوگ احمقانہ طور پر میثاقِ مدینہ کو اسلامی ریاست کے دستور کا نام دیتے ہیں‘ حالانکہ یہ مشترکہ دفاع کا ایک معاہدہ (joint defence pact) تھا کہ اگرمدینے پر حملہ ہوا تو مسلمان اور یہودی مل کر حملہ آور کا مقابلہ کریں گے. اس معاہدے سے رسول اللہ کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی.

چھاپہ مار مہمات اور ان کے مقاصد

مدینہ میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کے بعد آپؐ نے active resistance کے طور پر چھوٹے چھوٹے چھاپہ مار قسم کے گروپ بھیجنے شروع کر دیئے. غزوۂ بدر سے پہلے پہلے آپؐ نے ایسی آٹھ مہمات روانہ کیں‘ جن میں سے چار میں حضور خود بھی شریک ہوئے اور چار میں آپؐ شریک نہیں ہوئے. لہذا ان میں سے چار غزوات اور چار سرایا کہلاتی ہیں. اس عرصے میں مکہ والوں کی طرف سے کوئی حرکت نہیں ہوئی. یعنی اب جو initiative لیا گیا وہ حضور کی طرف سے لیا گیا. افسوس کہ اس بات کو چھپانے کے لئے ہمارے ہاں سیرتِ نبویؐ میں تحریف کی گئی ہے. اس لئے کہ جس طرح آج کل مغربی میڈیا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے‘ اسلام تو خونی مذہب ہے‘ اسلام دہشت گردی کا درس دیتا ہے‘ اسی طرح جب یورپ کی استعماری طاقتیں عالم اسلام پر قابض ہوئیں تو مستشرقین نے اسلام کے خلاف اسی طرح کا زہریلا پروپیگنڈا شروع کر دیا. اس پرہمارے مصنفین نے معذرت خواہانہ (apologetic) انداز اختیار کیا کہ نہیں نہیں‘ حضور نے کوئی جنگ خود شروع نہیں کی تھی‘ یہ تو حضور نے اپنے دفاع میں جنگیں کی تھیں. حالانکہ یہ بات سوفیصد جھوٹ ہے. اصل بات یہ ہے کہ باطل مشرکانہ نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے مکہ کے پرسکون تالاب میں ہلچل حضور نے پیداکی تھی ؎ 

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادیؐ 
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی! 

ورنہ وہاں کے لوگ سب کے سب اپنی قسمت پر صابر و شاکر رہ رہے تھے. اسی طرح ہجرت کے بعد مکہ والوں کے خلاف راست اقدام (active resistance) اور بالآخر مسلح تصادم (armed conflict) کا آغاز بھی محمد رسول اللہ نے فرمایا. 

اب یہاں فلسفہ ٔانقلاب اور فلسفۂ سیرت کے حوالے سے ایک نقطہ پر غور کیجیے. آپؐ نے یہ آٹھ مہمات کیوں بھیجیں؟ غرض و غایت کیا تھی؟ آپؐ کے پیش نظر کیا مقصد تھا؟ نبی اکرم نے جو مہمات بھیجیں اور مکہ کے خلاف جو اقدام کیا اس کے دو مقاصد دکھائی دیتے ہیں. آپؐ کا پہلا مقصد مکہ کی معاشی ناکہ بندی 
(economic blockade) تھا. اہل مکہ اور قریش کی معاشی زندگی کا دارومدار تجارت پر تھا. مکہ کا اپنا حال بالفاظ قرآن ’’بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ ‘‘ تھا. وہاں کسی نوع کی پیداوار نہیں ہوتی تھی. وہ تو کھانے پینے کی چیزوں کے لیے باہر کی منڈیوں کے محتاج تھے. وہاں ایک دانہ تک نہیں اُگتا تھا. البتہ ان کے ہاں بھیڑ بکریاں اور اونٹ تھے‘ جن کا دودھ اور گوشت انہیں حاصل تھا. لہذا ان کی معیشت کا سارادارومدار تجارت پر تھا‘ اور اُس دور کے مشرقی اور مغربی ملکوں کے مابین تجارت میں قریش کو ایک اہم کڑی اور واسطہ (link) کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی. مشرق و مغرب کی تجارت حضور کی بعثت کے دور میں عرب کے راستہ سے ہوتی تھی. ہوتا یہ تھا کہ ہندوستان‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور دوسرے مشرقی ممالک کا سارا سامانِ تجارت بڑی بڑی کشتیوں کے ذریعے یمن کے ساحل تک پہنچتا تھا. اُدھر مغرب کے ممالک یعنی یونان‘ اٹلی اور بلقان کی ریاستوں کا سارا سامانِ تجارت شام کے ساحلوں پر اتر جاتا تھا. اس طرح یورپ کے ممالک کا سامانِ تجارت بحیرۂ روم سے ہوکر اِدھر پہنچتا تھا اور اِدھر بحیرۂ عرب اور بحیرۂ ہند سے ہوکر مشرقی ممالک و جزائر کا سامان تجارت یمن پہنچ جاتا تھا‘ اب اُن کے مابین کاروبار کی جو ساری نقل و حرکت (transfer and transport) تھی وہ صرف قریش کے ہاتھ میں تھی‘ جس کا قرآن مجید میں سورۃ القریش میں بڑے اہتمام سے ذکر فرمایا گیا ہے: لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿۱﴾اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ ۚ﴿۲﴾ ان کے قافلے سردیوں میں یمن کی طرف جاتے تھے اور گرمیوں میں شمال یعنی شام کے ساحلوں کی طرف سفر کرتے تھے. ایک بڑا تجارتی سفر سردیوں میں اور ایک بڑا تجارتی سفر گرمیوں میں ان کے معمولات میں شامل تھا اور انہیں ان دونوں اَسفار میں مکمل امن حاصل رہتا تھا. جبکہ عرب کے دوسرے قبائل کو یہ امن میسر نہ تھا‘ بلکہ ان کے قافلے اکثر لوٹ لیے جاتے تھے‘ کیونکہ عرب کے اکثر قبائل کا پیشہ ہی لوٹ مار‘ رہزنی اور غارت گری تھا. تو کسی اور قبیلہ کا قافلہ شاذ ہی لوٹ مار سے بچ کر نکلتا تھا‘ سوائے قریش کے. ان کے قافلہ کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا. وجہ یہ تھی کہ قریش کعبہ کے متولّی تھے‘ جسے تمام عرب اللہ کا گھر تسلیم کرتے تھے. ظاہر ہے کعبہ میں رکھے تین سو ساٹھ بُت سارے کے سارے قریش کے تو نہیں تھے بلکہ صورت یہ تھی کہ تمام عرب قبائل کے ’’خدا‘‘ قریش کے پاس بطور ’’یرغمالی‘‘ رکھے ہوئے تھے. اگر ان کے قافلہ پر کوئی قبیلہ ہاتھ ڈالے تو قریش اس قبیلہ کے ’’خدا‘‘ کی گردن مروڑ سکتے تھے. یہ وہ اصل سبب تھا کہ قریش کے قافلوں کو تحفظ حاصل تھا. ان کے قافلوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا. لیکن اب حضور نے ان پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا. اور آپؐ نے اب ایک قوت ہونے کے اعتبار سے اپنی موجودگی ثابت فرمادی. حضور نے درحقیقت قریش کی رگِ جان (lifeline) پر ہاتھ ڈالا اور ان کے تجارتی قافلوں کے راستوں کومخدوش بنا دیا. اس طرح ان کی معاش کے لیے ایک خطرہ پیدا فرمادیا. 

قریش کی معاشی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ حضور  کا دوسرا مقصد قریش کی سیاسی ناکہ 
(isolation or political containment) تھا. قریش کے اِس علاقے میں آباد دوسرے قبائل سے معاہدے تھے اور وہ ایک دوسرے کے حلیف تھے. حضور نے اس علاقے میں متعدد سفر کئے‘ جن میں اپنی قوت کا مظاہرہ بھی فرمایا اور دعوت و تبلیغ کا کام بھی کیا. دونوں کام ساتھ ساتھ ہورہے تھے. بقول اقبال ؏ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِبے بنیاد تو تبلیغ و دعوت کے ساتھ طاقت بھی شامل ہوجائے تو گویا سونے پر سہاگہ ہے. سورۂ بنی اسرائیل میں جہاں ہجرت کا ذکر آرہا ہے‘ وہاں حضور  کو یہ دعا تلقین کی گئی تھی: وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۰﴾ ’’اے اللہ! جہاں تو مجھے داخل کرنے والا ہے‘ وہاں میرا داخلہ سچائی کے ساتھ کر اور جہاں سے مجھے نکالنا چاہتا ہے راست بازی کے ساتھ نکال‘ اور اپنے خاص خزانۂ فضل سے قوت و طاقت کے ساتھ میری مدد فرما.‘‘ یہ ہے وہ قوت اور طاقت جو حضور کو مدینہ میں تشریف لانے کے بعد حاصل ہوگئی تھی تو اب حضور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ نکلتے تھے. کسی قبیلہ میں جاکر آپؐ نے دس بیس دن قیام فرمایا‘ ان کے ساتھ معاہدے کئے‘ اول تو ان کو اپنا حلیف بنا لیا ورنہ کم از کم انہیں غیر جانب دار ضرور بنا لیا کہ اگر تمہارا قریش کے ساتھ معاہدہ ہے تو ہمارے ساتھ بھی کرو‘ ہمارے خلاف ان کی مدد نہ کرو اور ان کے خلاف ہماری مدد نہ کرو‘ بالکل غیر جانب دار ہو جاؤ. یہ ہیں حضور کے وہ اقدامات جن کو جدید اصطلاحات کے حوالے سے قریش کی معاشی اور سیاسی ناکہ بندی کہا جاسکتا ہے. 

کفر و اسلام کا پہلا معرکہ :غزوۂ بدر

ہر قوم میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں. آج کی اصطلاح میں انہیں عقابی مزاج کے لوگ (Hawks) اور فاختائی مزاج کے لوگ (Doves) کہا جاتا ہے. مکہ میں بھی ہر دو طرح کے لوگ موجود تھے. جوشیلے اور مشتعل مزاج لوگوں میں ابوجہل اور عقبہ بن ابی معیط بہت نمایاں تھے‘ جبکہ ٹھنڈے مزاج اور بردبار طبیعت کے حامل لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ اور حکیم بن حزام نمایاں تھے. اول الذکر لوگوں کا کہنا تھا کہ چلو اب مدینے پر حملہ کرو اور محمد( ) اور ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کر دو. جبکہ مؤخر الذکر اس طرح کے اقدام کے حق میں نہیں تھے. عتبہ بن ربیعہ بہت زیرک انسان تھا. اس نے رسول اللہ کی ہجرت کے بعد قریش سے کہا تھا کہ دیکھو محمدؐ اور اس کے ساتھی یہاں سے چلے گئے‘ اب مدینہ جا کر بھی محمد( ) آرام سے تو نہیں بیٹھے گا بلکہ اپنے دین کی تبلیغ کرے گا. اس سے عرب اس کے خلاف ہوں گے اور بقیہ عربوں سے اس کی کشمکش ہو گی. تو اگر باقی عرب کو محمد ( ) نے فتح کر لیا تو ہمارا کیا نقصان ہے. وہ ہمارا قرشی بھائی ہے. اس کی جیت ہماری جیت ہے. اس کی فتح سے عرب پر ہماری حکومت قائم ہو جائے گی‘ اور اگر عربوں نے محمد ( ) کو ہلاک کر دیا تو جو تم چاہتے ہو وہ ہو جائے گا بغیر اس کے کہ تم اپنے بھائیوں کے خون سے اپنی تلواریں آلودہ کرو. آخر ابوبکر کون ہے؟ ہمارا بھائی نہیں ہے کیا؟ عمر کون ہے؟ اور یہ عثمان کون ہے؟ بنو امیہ میں سے ہے . حمزہ کون ہے؟ عبدالمطلب کا بیٹا ہے. اور محمد ( ) کون ہے؟ عبدالمطلب کا پوتا ہے. تم اپنی تلواروں سے ان کی گردنیں اڑاؤ گے؟ تم محمد ( ) کو اور عربوں کو آپس میں نمٹنے دو. اگر محمد( ) جیت گیا تو ہمارا راج پورے عرب پر ہوجائے. یہ وہ بات تھی جو فی الحقیقت ہو کر رہی. خلافت راشدہ کے بعد دورِملوکیت میں پھر وہی عرب تھے جن کی حکومتیں قائم ہوئیں‘ چاہے بنواُمیہ تھے‘ چاہے بنو عباس تھے. اس قدر گہری بات اُس شخص نے کہی جس نے اہل مکہ کو متاثر بھی کیا.

جنگ کے فوری دو اسباب

ان فاختائی مزاج لوگوں (Doves) کا مکہ میں خاصا اثر و رسوخ تھا‘لیکن دو واقعات ایسے وقوع پذیر ہوگئے کہ جنگجو اور مشتعل مزاج لوگوں (Hawks) کا پلڑا بھاری ہو گیا اور یہ Doves بالکل خاموش ہو گئے. ایک تو یہ کہ ابوسفیان کا وہ قافلہ جس کا حضور نے پیچھا کیا تھا اور وہ بچ کر نکل گیا تھا‘ اب مالِ تجارت سے لدا پھندا شام سے واپس آ رہا تھا. ابوسفیان نے قریش کو SOS کال بھیج دی کہ مجھے خطرہ ہے کہ محمد( )کے آدمی قافلے پر حملہ کریں گے اور ہمیں لوٹ لیں گے‘ لہذا فوری طور پر مدد بھیجی جائے. ابوسفیان کا پیغام لے کر ایک آدمی چیختا چلاتا ہوا مکہ پہنچا کہ تمہارا قبیلہ‘تمہارا خاندان اور تمہارا مال خطرے میں ہے‘ لہذا فوراً مدد کو پہنچو. 

دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ حضور نے بارہ افراد کا ایک چھوٹا سا دستہ نخلہ بھیجا تھا جو طائف اور مکہ کے درمیان ایک مقام ہے اور انہیں ہدایت کی تھی کہ وہاں قیام کرو اور ہمیں وہاں سے مکہ کے لوگوں کی نقل و حرکت سے مطلع کرتے رہو. وہاں ایسی صورت حال پیش آئی کہ مکہ والوں کے ایک قافلے کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہوگئی‘ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک مشرک مارا گیا‘ دو کو وہ گرفتار کر کے لے آئے اور ایک بھاگ گیا. مسلمان کئی اونٹوں پر لدا ہوا مال بطور غنیمت لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے. اس پر حضور ناراض ہوئے کہ میں نے تمہیں جنگ کا حکم نہیں دیا تھا. لیکن اب جو ہونا تھا ‘ہو چکا تھا. جو مشرک مسلمانوں کے ہاتھوں بچ کر بھاگا تھا وہ کپڑے پھاڑ کر چیختا چلاتا ہوا مکہ پہنچا کہ لوگو دیکھو محمد ( ) کے آدمیوں نے ہمارا آدمی مار دیا. یہ دو خبریں بیک وقت مکہ پہنچیں‘ ایک شمال سے اور دوسری جنوب سے.

لشکر کفار کی روانگی

یہ دو اسباب تھے جن کی وجہ سے مکہ میں مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا گیا. ایک عام چیخ و پکار شروع ہوگئی کہ قتل کا بدلہ قتل‘ خون کا بدلہ خون. مکہ میں جو آگ لگی ہوئی تھی‘ اُس کا اندازہ اُس وقت ہوسکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ کسی قبائلی معاشرے میں یہ معاملہ کس قدر جذباتی اور اہم ہوتا ہے. ان دونوں باتوں کی بنا پر مکہ میں وہ لوگ جو جنگجو‘ مشتعل مزاج اور جوشیلے تھے‘ وہ قابو سے باہر ہوگئے تھے. اُن کے ہاتھ ایک دلیل آگئی تھی. مکہ کے ٹھنڈے مزاج‘ بردبار طبیعت کے حامل اور شریف النفس لوگ نہیں چاہتے تھے کہ خانہ جنگی ہو. ان میں نمایاں شخصیتیں عتبہ بن ربیعہ اور حکیم بن حزام کی تھیں. آخر الذکر بعد میں ایمان لے آئے. ابوجہل جو Hawks کا سرخیل تھا‘ چاہتا تھا کہ فوری اقدام کیا جائے. عمر بن عبد اللہ الخضرمی کے قتل سے جوشیلے اور جنگ پسند لوگوں کو تقویت حاصل ہوگئی کہ ہمارا آدمی مارا گیا ہے اور دوسری طرف ہمارے تجارتی قافلے کو شدید خطرہ درپیش ہے. لہذا ان بہانوں سے ایک ہزار جنگجوؤں کا کیل کانٹے سے لیس لشکر ایک ہزار اونٹوں اور سو گھوڑوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ روانہ ہوا‘ جس کے نتیجہ میں غزوۂ بدر ہوا. 

ابوسفیان کی عدم موجودگی میں قریش کی سرداری عتبہ بن ربیعہ کے پاس تھی. لہذا اس لشکر کا سپہ سالار بھی وہی تھا. ابوجہل امیہ بن خلف‘ نضر بن حارث‘ عقبہ بن ابی معیط‘ شیبہ بن عتبہ اور بہت سے وہ لوگ جو اہل حق کے خون کے پیاسے تھے‘ سب کے سب نکلے. سردارانِ قریش میں سوائے ابولہب کے کوئی پیچھے نہ رہا. وہ بزدل انسان تھا. اُس نے اپنی جگہ ایک کرائے کا فوجی بھیج دیا. ابوجہل نے کہہ دیا تھا کہ یہ یوم الفرقان ہوگا اور ثابت ہوجائے گاکہ حق کس کے ساتھ ہے.

رسول اللہ کا صحابہ ؓ سے مشورہ

صحیح اور معتبر روایات کے مطابق مدینہ میں حضور نے کسی جنگ کا اعلان کیا‘ نہ تیاری فرمائی بلکہ پیشِ نظر صرف یہ تھا کہ جو قافلہ آرہا ہے اسے روکنا ہے. یہی وجہ ہے کہ لوگ بغیر کسی خاص اہتمام اور تیاری کے نکل کھڑے ہوئے. یاد رہے کہ غزوۂ ذوالعشیرہ میں شامل ڈیڑھ سو افراد تمام مہاجرین ہی تھے‘ جبکہ غزوۂ بدر میں صرف ساٹھ یا تراسی مہاجرین ساتھ تھے. تعداد کے متعلق دونوں روایات موجود ہیں. اگر حضور کے پیش نظر جنگ کا پروگرام ہوتا تو آپؐ خصوصی انتظام فرماتے اور تعداد زیادہ ہوتی. پھر یہ پہلی بار ہوا کہ انصاری صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ساتھ نکلے‘ بلکہ تعداد میں وہ زیادہ تھے. حضور نے مدینہ میں بھی مشورہ کیا تھا اور پھر مدینہ کے باہر بھی ایک مجلس مشاورت منعقد فرمائی‘ لیکن مدینہ کی مشاورت میں جنگ کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا‘ لہذا آپؐ نے کسی سے تاکیداً نہیں فرمایا کہ ساتھ چلو. انصارؓ بھی خود اپنی مرضی سے ساتھ ہوگئے تھے. حضور  کی طرف سے کوئی خصوصی ترغیب نہیں تھی. 

آپؐ جب مدینہ سے کچھ دور پہنچے تو آپؐ کو معلوم ہوا کہ مکہ سے ایک ہزار افراد پر مشتمل کیل کانٹے سے لیس لشکر مدینہ کی طرف نکل پڑا ہے او رمنزل پر منزل طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے. اب صورت یہ ہوگئی کہ شام کی طرف سے قافلہ آرہا ہے اور جنوب سے لشکر چلا آرہا ہے. چنانچہ اب یہاں مدینہ سے باہر مشاورت ہوئی جو اہم ترین مشاورت ہے. قرآن مجید ایسے معاملات کو عموماً اختصار سے بیان کرتا ہے‘ لہذا سورۃ الانفال کی آیات کے بین السطور یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حضور نے ازراہِ مشورہ ہی یہ بات پیش کی ہوگی کہ مسلمانو! ایک قافلہ شمال سے آرہا ہے جس کے ساتھ صرف تیس یا پچاس محافظ ہیں‘ مال تجارت بہت ہے‘ اور ایک لشکر جنوب سے آرہا ہے جو کیل کانٹے سے لیس ہے‘ اور اللہ تعالیٰ نے ان دو میں سے ایک پر فتح کا 
وعدہ کرلیا ہے‘ بتاؤ کدھر چلیں؟ ان حالات میں کچھ لوگوں نے اپنی مخلصانہ سوچ کے مطابق تجویز کیا کہ حضور قافلہ کی طرف چلئے. غالب گمان یہ ہے کہ یہ تجویز پیش کرنے والوں کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ قافلہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پچاس کی نفری ہے‘ وہ آسانی سے قابو میں آجائیں گے‘ ساز و سامانِ تجارت بھی بہت ہاتھ لگے گا اور اسلحہ بھی‘ جو آئندہ جنگ میں کام آئے گا. لیکن حضور جیسے کچھ منتظر سے تھے. تب لوگوں نے اندازہ کیا کہ منشائے مبارک کچھ اور ہے‘ حضور کا اپنا رجحان طبع کچھ اور ہے. چنانچہ اس مرحلے پر مہاجرین نے تقریریں شروع کیں کہ حضور ! آپؐ ہم سے کیا پوچھتے ہیں‘ جو آپؐ کا ارادہ ہو‘ بسم اللہ کیجئے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تقریر کی‘ لیکن حضور نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی تقریر کی‘ لیکن حضور نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. محسوس ہورہا تھا جیسے حضور کسی خاص بات کے منتظر ہیں. حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بھی مہاجرین میں سے تھے. انہوں نے کھڑے ہوکر یہ الفاظ کہے کہ ’’حضور جو آپؐ کا ارادہ ہو بسم اللہ کیجئے‘ ہمیں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں پر قیاس نہ کیجیے جنہوں نے اپنے نبی (موسیٰ علیہ السلام ) سے یہ کہہ دیا تھا کہ فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ (پس آپ اور آپ کا رب دونوں جائیں اور جنگ کریں‘ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں) آپؐ بسم اللہ کیجئے‘ ہم آپ ؐ کے ساتھ لڑیں گے. کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے ذریعہ آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما دے.‘‘ لیکن حضورپھر بھی کچھ انتظار کی کیفیت میں تھے. اب حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ رسول اللہ  کا روئے سخن دراصل انصار کی جانب ہے.

انہوں نے کھڑے ہوکر تقریر کی کہ ’’حضور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کا روئے سخن ہماری طرف ہے…‘‘ اس خیال کی وجہ کیا تھی؟ یہ کہ حضور نے بیعت ِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر مدینہ (یثرب) تشریف لانے کی جو دعوت قبول کی تھی اس میں یہ طے ہوا تھا کہ ’’اگر قریش مدینہ پر حملہ کریں گے تو ہم آپؐ کی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنے اہل و عیال کی کرتے ہیں‘‘. گویا انصار اس معاہدہ کی رُو سے اس کے پابند نہیں تھے کہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کریں. قافلہ کا راستہ روکنا اور بات ہے اور باقاعدہ ایک لشکر جرار سے جا ٹکرانا یہ بالکل دوسری بات ہے. حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کو فوراً خیال آگیا کہ ہو نہ ہو حضور ہماری تائید کے منتظر ہیں. چنانچہ اس موقع پر انہوں نے اپنی تقریر میں کہا: ’’اِنَّا اٰمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ‘‘ یعنی ’’حضور ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے آپؐ کی تصدیق کی ہے.‘‘ ہم نے آپؐ کو اللہ کا رسول مانا ہے. (اُس وقت معاہدے میں کیا طے ہوا تھا‘ کیا نہیں ہوا تھا اِس وقت وہ بات غیر متعلق ہے) آپؐ جو بھی حکم دیں گے سرآنکھوں پر سِرْبِنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ…’’اے اللہ کے رسول( ) لے چلئے ہم کو جہاں بھی لے جانا ہو. خدا کی قسم اگر آپؐ ہمیں اپنی سواریاں سمندر میں ڈالنے کا حکم دیں گے تو ہم اپنی سواریاں ڈال دیں گے. اگر آپؐ ہمیں حکم دیں گے تو ہم برک الغماد (یمن) تک جاپہنچیں گے اور اس کے لیے ہم اپنی سواریوں کو دبلا کردیں گے.‘‘ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی یہ تقریر سن کر رسول اللہ  کا چہرۂ مبارک کھِل اُٹھا. (۱)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس جماعت میں حضور کی بیعت ثانوی چیز تھی. اس کی اصل بنیاد تو یہ تھی کہ جو آپؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کی تصدیق کرے وہ اس جماعت میں شامل ہے. جس نے بھی آپؐ کو اللہ کا رسول مانا ہے‘ اُس پر آپؐ کی اطاعت لازم ہے. جیسے فرمایا گیا: فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۶۵(النساء) ’’سو تیرے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں‘ پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں‘‘. ایمان کہاں رہ جائے گا اگر حضور کا حکم نہ مانیں؟

اسلامی لشکر کا بدر میں پڑاؤ:

اِس مشاورت کے بعد نبی اکرم  نے پیش قدمی فرمائی اور پھر بدر پہنچ کر جب معلوم ہوگیا کہ قریش کا لشکر وادی کے دوسرے سرے تک پہنچ چکا ہے تو وہاں آپؐ نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالنے کے لیے فرمایا. وہاں کا ایک واقعہ بھی بڑا اہم ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض تجربہ کار حضرات نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر یہاں پڑاؤ ڈالنے کا فیصلہ وحی کی بنا پر ہے تو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘ لیکن اگر یہ آپؐ کی ذاتی رائے ہے تو ہمیں یہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ جنگی مہارت اورحکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اِس مقام کی بجائے دوسرے مقام پر کیمپ ہونا چاہیے. حضور نے ان حضرات کی رائے کو قبول فرمایا.

کفار کے صلح جو ُلوگوں کی جنگ سے بچاؤ کی کوشش

جس روز جنگ ہوئی اُس سے ایک رات قبل خبر پہنچ گئی کہ ابوسفیان کا قافلہ بچ کر نکل گیا ہے. اب کفارقریش کے ہاں چہ میگوئی شروع ہوئی کہ اب جنگ کا کیا فائدہ ہے؟ ہم تو اپنے قافلہ کی حفاظت کے لیے آئے تھے. اس (۱) البدایہ والنہایہ لابن کثیر‘ ج۳‘ص۲۶۱‘ الراوی محمد بن اسحاق . صورت حال سے مشتعل مزاج لوگوں (hawks) کے مقابلہ میں صلح جو (doves) کے ہاتھ میں ایک مرتبہ پھر ایک دلیل آگئی کہ ہمارا مقصد تو قافلہ کی حفاظت تھا‘ قافلہ بچ کر نکل گیا‘ پھر جنگ کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ قریش کے دو گھرانے بنو زہرہ اور بنوعدی یہ کہہ کر لشکر کو چھوڑ کر چلے گئے کہ اب ہمیں جنگ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی. اس موقع پر حکیم بن حزام عتبہ کے پاس گئے جو اس لشکر کا سپہ سالار تھا اور اس سے کہا: عتبہ! تم اس وقت نیکی کا ایک ایسا کام کرسکتے ہو کہ تاریخ میں تمہارا نام لکھا جائے کہ تم نے بہت بڑا کام کیا. عتبہ کے استفسار پر انہوں نے وہی تجویز رکھی کہ ہمارا قافلہ بچ کر نکل چکا ہے‘ اب اس ہونے والی خونریزی کو تم روک سکتے ہو.عمرو بن عبد اللہ الخضرمی کا باپ عبد اللہ حرب بن اُمیہ کا حلیف تھا. اگر تم اس کی دیت یا خون بہا ادا کردو تو وہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا. قافلہ بچ کر نکل ہی چکا ہے. اس طرح جنگ کی ضرورت نہیں ہوگی. عتبہ بن ربیعہ نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بہت مناسب تجویز ہے. وہ خود اسی مزاج کا آدمی تھا. لیکن اصل میں hawks کے سرغنہ ابوجہل کو سمجھانا مقصود تھا. چنانچہ دونوں اس کے پاس گئے اور اسے قائل کرنے کی کوشش کی. عتبہ نے کہا کہ دیکھو خونریزی کی کوئی ضرورت نہیں ہے. ہمارا قافلہ بچ کر چلا گیا ہے‘ عمرو کا خون بہا میں ادا کردیتا ہوں. مگر جنگ کو ٹالنے کی کوئی بھی تجویز ابوجہل گوارا نہیں کرسکتا تھا. لہذا اُس نے چالاکی سے ایک تو عتبہ کو بزدلی کا طعنہ دیا کہ تم اپنے بیٹے کو سامنے دیکھ کر گھبرا گئے ہو(یاد رہے کہ عتبہ کے بڑے بیٹے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ حضور کے ساتھ تھے‘ جو سابقون الاولون میں سے تھے‘ جبکہ عتبہ کا دوسرا بیٹا اس کے ساتھ تھا). ابوجہل نے مزید نمک پاشی کرتے ہوئے کہا: معلوم ہوتا ہے کہ محبت ِ پدری تمہیں بزدل بنا رہی ہے کہ بیٹا مد مقابل ہے‘ اسی لیے تم جنگ ٹالنا چاہتے ہو. عتبہ اِس طعنہ کو برداشت نہ کرسکا. اُس نے کہا کل کا دن بتا دے گا کہ بزدل کون ہے!

دوسری جانب ابوجہل نے عمرو بن عبد اللہ الخضرمی کے بھائی کو بلایا اور اس سے کہا کہ دیکھو ہم تمہارے بھائی کے خون کا بدلہ کل لے سکتے ہیں‘ لیکن یہ صلح پسند لوگ آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جنگ نہ ہو. یہ سن کر اُس شخص نے عرب جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑے‘ بالکل عریاں ہوگیا اور شور مچا دیا: 
وَاعَمرواہ ‘ وَاعَمرواہ. اسے قبائلی زندگی میں خونی پکار کہتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ مشتعل کرنے والا نعرہ ہوتا ہے. نتیجہ یہ ہوا کہ پورے لشکر میں آگ سی لگ گئی اور جنگ کا فیصلہ ہوگیا. یوں صلح جو لوگوں (doves) کی جانب سے جنگ کو ٹالنے کی آخری کوشش بھی ناکام ہوگئی. 

لشکر اسلام اور لشکر کفار آمنے سامنے:

اگلی صبح جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو سب سے پہلے عتبہ اپنے بھائی شیبہ اور اپنے بیٹے ولید کو لے کر نکلا اور مبارزت طلب کی. اہل ایمان کے لشکر سے تین انصاری صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین مقابلہ کے لیے نکلے. عتبہ نے چیخ کر پوچھا: ’’مَنْ اَنْتُمْ؟ مَنِ الْقَوْمُ؟‘‘ انہوں نے اپنے نام بتائے. عتبہ نے کہا کہ تم ہمارے برابر کے نہیں ہو‘ ہم تم سے لڑنے نہیں آئے. پھر چیخ کر پکارا: محمد( ) ہماری توہین نہ کرو‘ ہم ان کاشت کاروں سے لڑنے کے لیے نہیں آئے ہیں. ہمارے مقابلے کے لیے انہیں بھیجو جو ہمارے برابر کے ہیں‘ جو ہمارے مدمقابل ہیں. ایک روایت میں آتا ہے کہ اس موقع پر باپ کے مقابلہ میں بیٹا یعنی عتبہ کے مقابلے میں حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے نکلنا چاہا‘ لیکن نبی اکرم  نے انہیں روک دیا. پھر تین صحابی حضرت حمزہ‘ حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب رضوان اللہ علیہم اجمعین مقابلہ کے لیے نکلے. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے عتبہ کو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شیبہ کو جلد ہی واصل جہنم کردیا‘ لیکن حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کا ولید بن عتبہ سے شدید مقابلہ ہوا. دونوں کا بیک وقت ایک دوسرے پر کاری وار ہوا. حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کی ٹانگیں کٹ گئیں اور وہ گرپڑے تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آگے بڑھے‘ ولید کو ختم کیا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو جان بلب تھے‘ اُٹھا کر لے آئے. انہوںؓ نے کہا مجھے نبی اکرم  کے قدموں میں لے چلو. وہاں پہنچ کر انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ میرے متعلق فرمائیے. حضور نے فرمایا:’’تمہیں یقینا جنت ملے گی‘‘ تو ان کے چہرہ پر بشاشت آئی اور ان کی زبان سے نکلا ’’کاش! آج ابوطالب زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے ان کی بات سچ کر دکھائی ہے کہ اپنی جان حضور پر نچھاور کردی ہے‘‘. بات یہ تھی کہ جب مشرکین مکہ کا ابوطالب پر شدید دباؤ پڑتا تھا کہ تم اور بنوہاشم محمد( ) کی حمایت سے دست کش ہو جاؤ ‘ تاکہ ہم ان سے نمٹ لیں یعنی (نعوذ باللہ) آپؐ کو قتل کردیں تو عام طور پر ابوطالب اُس وقت ایک شعر پڑھا کرتے تھے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ : ’’تم محمد( ) پر اُس وقت تک قابو نہیں پاسکو گے جب تک انؐ کی حفاظت میں ہمارا بچہ بچہ کٹ نہ مرے گا.‘‘

حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کا انتقال میدانِ بدر میں نہیں ہوا بلکہ فتح کے بعد جب اسلامی لشکر مدینہ منور واپس جارہا تھا تو راستہ میں اُن کا انتقال ہوگیا. چنانچہ ان کی قبر میدانِ بدر سے آگے 
مدینہ منورہ کے راستے میں ہے. 

جنگ کا نتیجہ

بہرحال۱۷رمضان المبارک۲ ہجری میں میدانِ بدر میں باقاعدہ اور دُو بدو جنگ کی صورت میں اندرونِ عرب انقلابِ محمدی (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں تصادم کے آخری مرحلہ یعنی مسلح کشمکش(armed conflict) کا آغاز ہوگیا. اس غزوہ میں قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے ابوسفیان اور ابولہب کے علاوہ باقی قریباً تمام ہی کھپ رہے. واضح رہے کہ ابوسفیان چونکہ تجارتی قافلے کے ہمراہ تھے‘ لہذا وہ اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے. اسی طرح ابولہب بھی جنگ میں شریک نہیں تھا اور اُس نے اپنی جگہ کرائے کا فوجی بھیج دیا تھا. قریش کے کل ستر سربرآوردہ لوگ قتل ہوئے. ابوجہل جہنم واصل ہوگیا. عتبہ بن ربیعہ‘ اس کا بھائی اور بیٹا قتل ہوئے. اسی طرح نضر بن حارث‘ اُمیہ بن خلف‘ عقبہ بن ابی معیط جیسے مشرکین جو نبی اکرم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے خون کے پیاسے تھے‘ گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیئے گئے. مزید یہ کہ ستر مشرکین کو اہل ایمان نے قید بھی کرلیا. مسلمانوں کی جماعت میں سے میدان بدر میں تیرہ حضرات نے جام شہادت نوش کیا اور حضرت عبیدہؓ جو زخمی تھے‘ واپسی کے سفر کے دوران راستے میں انتقال فرماگئے. اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے چودہ افراد نے اپنے رب کے حضور جان کا نذرانہ پیش کردیا. ابوجہل نے کہہ دیا تھا کہ یہ یوم الفرقان ہوگا. اللہ نے فی الواقع اُسے یوم الفرقان بنا دیا. ۳۱۳نہتے اہل ایمان کو ۱۰۰۰ کے مسلح لشکر پر فتح عطا فرمائی.

غزوۂ بدر تصادم کے آخری مرحلہ مسلح کشمکش کا آغاز تھا. یہاں سے پھر وہ جنگی سلسلہ شروع ہوا جو چھ سال کو محیط ہے. اس میں حق وباطل کے درمیان کئی معرکے ہوئے.

غزوۂ احد

غزوۂ بدر ۲ ہجری میں وقوع پذیر ہوا تھا. اِس کے اگلے ہی سال شوال ۳ہجری میں غزوۂ احد ہوا. مشرکین مکہ کے ایک لشکر جرار نے مدینہ پر چڑھائی کردی. دراصل مکہ والوں نے غزوۂ بدر کے بعد ایک دن بھی چین اور آرام سے نہیں گزارا. اُن میں انتقامی جذبات لاوے کی طرح کھول رہے تھے. ابوسفیان نے قسم کھالی تھی کہ جب تک مقتولین ِبدر کا انتقام نہیں لیا جائے گا‘ نہ خوشبو لگاؤں گا‘ نہ چارپائی پر سوؤں گا. اِسی طرح اِس ایک سال کے دوران ہندہ کا جو حال رہا‘ وہ بھی ناقابل تصور ہے‘ کہ اِس جنگ میں جس کا باپ مارا گیا‘ چچا مارا گیا‘ بھائی قتل ہوا. ہندہ ابوسفیان کی بیوی‘ عتبہ کی بیٹی اور حضرت ابوحذیفہؓ جو سابقون الاولون میں سے ہیں کی بہن تھیں اور فتح مکہ کے موقع پر ایمان لے آئی تھیں. چنانچہ معرکہ بدر کے بعد ہی اہل مکہ نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں سے ایک بھرپور جنگ لڑ کر اپنی شکست اور اشراف کے قتل کا بدلہ لیں اور اپنے غیظ و غضب کو تسکین دیں. اس کے ساتھ اِس طرح کی معرکہ آرائی کے لیے تیاری بھی شروع کردی تھی. اس معاملے میں عکرمہ بن ابی جہل‘ صفوان بن اُمیہ‘ ابوسفیان بن حرب جیسے سرداران قریش آگے آگے تھے. اِن لوگوں نے اِس سلسلہ میں پہلا کام یہ کیا کہ ابوسفیان کا وہ قافلہ جو غزوۂ بدر کا باعث بنا تھا‘ اور جسے ابوسفیان بچا کر نکال لائے تھے‘ اُس کا سارا مال جنگی اخراجات کے لیے روک لیا‘ اور یہ جن لوگوں کا مال تھا اُن سے کہا کہ اے قریش کے لوگو تمہیں محمدؐ نے سخت دھچکا لگایا ہے اور تمہارے سرداروں کو قتل کرڈالا ہے. لہذا اپنے اس مال کے ذریعے ان سے جنگ میں ہماری مدد کرو‘ ممکن ہے ہم بدلہ چکالیں. لوگوں نے پھر بات مان لی. چنانچہ یہ سارا مال جس کی مقدار ایک ہزار اونٹ اور پچاس ہزار دینار تھی جنگ کی تیاری کے لیے فروخت کردیا گیا. جنگی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد کفار کے تین ہزار جنگجوؤں پر مشتمل لشکر نے مدینہ پر چڑھائی کردی. قریش اپنی اور اپنے حلیفوں کی جو ممکنہ قوت اور طاقت جمع کر کے لا سکتے تھے وہ لے کر میدان میں آگئے. 

رسول اللہ کی صحابہ ؓ سے مشاورت

اس موقع پر بھی نبی اکرم  نے مدینہ منورہ میں ایک مشاورت منعقد فرمائی کہ اندریں حالات کیا حکمت عملی اختیار کیا جائے‘ جبکہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کرنے آ رہا ہے. حضور  کی ذاتی رائے تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مقابلہ کیا جائے. عجیب اتفاق ہے کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی کی رائے بھی یہی تھی. لیکن ایک تو اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض حضرات کھلے میدان میں جنگ کرنے کے حامی تھے‘ جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا بھی نام شامل ہے. دوسرے یہ کہ نوجوانوں کی طرف سے بھی یہی مطالبہ تھا‘ خاص طور پر ان حضرات کی طرف سے جو غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے‘ کیونکہ غزوۂ بدر کے موقع پر نفیر عام نہیں تھی. نبی اکرم  نے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے فیصلہ فرما دیا کہ کھلے میدان میں جنگ ہو گی. اس کے بعد ایک غیر معمولی واقعہ یہ ہوا کہ نبی اکرم  اپنے حجرۂ مبارک میں تشریف لے گئے. جب آپ ؐ باہر تشریف لائے تو آپ ؐ نے زرہ زیب تن فرمائی ہوئی تھی. یہ ایک غیر معمولی بات تھی جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ماتھا ٹھنکا… قبل ازیں حضور  نے خواب بھی دیکھا تھا کہ ایک گائے ذبح ہوئی ہے‘ اور بھی چند باتیں خواب میں ایسی دیکھی تھیں‘ جن کی بنا پر حضور  کو اندازہ تھا کہ میدان اُحد میں چند غیر معمولی اور نا خوشگوار واقعات ظہور پذیر ہوں گے. حضور کو زرہ پہنے دیکھ کر لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں‘ آپ ؐ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کیجئے اور اقدام فرمائیے. لیکن حضور  نے فرمایا کہ نہیں‘ یہ فیصلہ برقرار رہے گا. نبی کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار باندھنے کے بعد بغیر جنگ کئے انہیں اتار دے. 

اسلامی لشکر کی جبل احد کی جانب روانگی

نبی اکرم  نے ایک ہزار کی نفری لے کر مدینہ سے جبل اُحد کی جانب کوچ فرمایا‘ لیکن راستے ہی میں عبد اللہ بن اُبی تین سو افراد کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ واپس لے کر چلا گیا کہ جب ہمارے مشورے پر عمل نہیں ہوتا اور ہماری بات نہیں مانی جاتی تو ہم ساتھ کیوں دیں اور اپنی جان جوکھوں میں کیوں ڈالیں؟ اب آپ اندازہ کیجئے کہ مدنی دَور کے قریباً اڑھائی سال کے اندر اندر جنگ کے قابل مسلمانوں کی کل نفری کا لگ بھگ ایک تہائی حصہ منافقین پر مشتمل ہو چکا تھا. معاملہ کی نزاکت کا اندازہ کیجئے کہ جو تین سو واپس چلے گئے ان کے منافق ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا. یہ جو سات سو افراد باقی رہ گئے تھے‘ ان میں کمزور اور ضعیف ایمان والے بھی تھے. لیکن وہ تھے بہر حال اصحاب ایمان! جب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سنبھال لیا. لیکن جو محمد رسول اللہ  کا ساتھ چھوڑ کر راستہ ہی سے عبداللہ بن اُبی کے ساتھ واپس مدینہ چلے گئے‘ ظاہر ہے ان کے نفاق میں کوئی شک نہیں ہو سکتا. گویا ایک ہزار میں سے تین سو کی نفری منافقین پر مشتمل تھی. کہاں وہ تین ہزار کا لشکر اور کہاں یہ سات سو افراد! قریش کے ساتھ سواری اور باربرداری کے لیے تین ہزار اونٹ دو سو گھوڑوں کار سالہ بھی تھا. عرب کے اس دور کے حالات کے اعتبار سے یہ بہت بڑی بات تھی. دو سو گھڑ سواروں کا دستہ اور ان پر خالد بن ولید بن مغیرہ سپہ سالار تھے.

مسلمانوں کی صف بندی

نبی اکرم  نے اُحد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھا اور اس کے دامن میں صفیں بنوائیں. سامنے مشرکین تھے. جبل اُحد کے ساتھ ایک دَرہ ایسا تھا کہ اُحد کے پیچھے سے چکر لگا کر اس دَرہ سے گزر کر مسلمانوں کے لشکر پر حملہ ہو سکتا تھا. نبی اکرم نے اسی اندیشہ کے پیش نظر کہ کہیں اِدھر سے حملہ نہ ہو جائے‘ اس دَرہ پر پچاس تیر اندازوں کو حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی سر کردگی میں تعینات فرمایا. حضور  نے نہایت تاکیدی اسلوب سے فرمایا کہ تم لوگ یہاں سے نہیں ہلنا. اگر ہم سب ہلاک ہو جائیں اور تم یہ دیکھو کہ پرندے ہماری بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی تم لوگ یہاں سے نہ ہٹنا. آپ اس تاکید اور شدت کا اندازہ کیجئے جو اس حکم میں نظر آتی ہے. جنگ شروع ہوئی تو پہلے ہی ہلے میں اللہ کی مدد و نصرت آئی اور بالکل بدر کا سا نقشہ سامنے آ گیا. مشرکین کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا شروع کیا. کچھ مسلمان کفار کا تعاقب کر رہے تھے اور اکثر مال غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے تھے.

ڈسپلن کی خلاف ورزی کا نتیجہ

ادھر جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دَرہ پر تعینات تھے ان میں اختلاف رائے ہو گیا. ان پچاس تیر اندازوں میں سے اکثر نے کہا کہ چلو‘ ہم بھی چلیں‘ مال غنیمت جمع کریں‘ اب تو فتح ہوگئی ہے. ان کے کمانڈر حضرت عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ہر گز نہیں‘ حضور  نے فرمایا تھا کہ یہاں سے نہ ہلنا‘ لہذا میں کسی کو اجازت نہیں دیتا‘‘. لیکن ہوا یہ کہ اکثر نے اپنے کمانڈر کی بات نہ مانی اور اس دَرے کو چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فتح شکست میں بدل گئی. انہوں نے آپؐ کے حکم کی یہ تاویل کی کہ حضور  نے تو شکست کی صورت میں اتنا زور دیا تھا کہ چاہے ہم سب ہلاک ہو جائیں اور تم دیکھو کہ پرندے ہماری بوٹیاں نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی تم یہاں سے مت ہٹنا. اب تو فتح ہو گئی ہے‘ لہذا اب یہاں سے ہلنے میں کیا ہرج ہے. درّہ چھوڑ کر چلے جانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے مقامی امیر کی حکم عد ولی کی تھی. اصل بات یہ تھی کہ جو اس دستہ کا امیر ہے وہ تو اجازت نہیں دے رہا. چلئے انہوں نے نبی اکرم  کے حکم کی تاویل کر لی. لیکن یہاں ان کے اور حضور  کے مابین ایک لوکل کمانڈر موجود ہے جس کو محمد ٌرسول اللہ  نے امیر مقرر فرمایا ہے. اس امیر کی تو نا فرمانی ہو گئی! ڈسپلن تو بہر حال ٹوٹ گیا! نظم کی اہمیت کے بارے میں بیعت عقبہ ثانیہ کے وہ الفاظ یاد کیجئے جو حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں. اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم اپنی اپنی صحیح میں لائے ہیں. سند کے اعتبار سے حدیث کے صحیح ہونے کا اس سے اونچا کوئی مقام نہیں ہے. حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

بَایَعْنَا رَسُولَ اللہِ ا عَلَی السَّمْعِ وَ الطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَ الْیُسْرِ وَ الْمَنْشَطِ وَ الْمَکْرَہِ‘ وَ عَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَ عَلٰی اَنْ لَا نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہ‘ وَ عَلٰی اَنْ نَّقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘ لاَ نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (۱)

’’ہم نے رسول اللہ  سے بیعت کی تھی کہ ہم (آپؐ کا) حکم سنیں گے اور مانیں گے‘ خواہ مشکل ہو خواہ آسان ‘ خواہ ہماری طبیعت کو خوش گوار لگے خواہ نا گوار ہو‘ خواہ دوسروں (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء کو ہم پر ترجیح دی جائے. اور جس کو بھی ہم پر امیر بنا دیا جائے گا ہم اس سے جھگڑیں گے نہیں‘ اور ہم حق بات کہتے رہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں اور اللہ کے معاملہ میں (حق کہنے سے) کسی ملامت گرکی ملامت سے ہر گز نہیں ڈریں گے. ‘‘

دَرّے پر متعین تیراندزوں نے اپنے مقامی امیر کی جو حکم عدولی کی تھی تو یہ اصل میں محمد رسول اللہ  کی نافرمانی تھی‘ کیونکہ عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو حضور  نے پچاس تیر اندازوں کے دستہ پر امیر اور کمانڈر مقرر کیا تھا. لہذا نظم کے اعتبار سے کمانڈر کی نا فرمانی خود حضور  کی نافرمانی ہو گئی. بہرحال نظم کی خلاف ورزی اور موجود الوقت امیر کی نا فرمانی کی سزا کیا ملی! یہ کہ خالد بن ولیدؓ نے جواس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے‘ درہ خالی دیکھ کر اُحد کی پشت کا چکر کاٹا اور دو سو گھڑ سواروں کا دستہ لے کر اس درہ سے مسلمانوں کی پیٹھ سے اُن پر حملہ آور ہوگئے جس سے یکلخت جنگ کا پانسہ پلٹ گیا. حالانکہ اِس سے پہلے کفار کی فوج مار کھا چکی تھی‘ اور اُسے شکست ہوگئی تھی. درہ پر صرف پندرہ تیر انداز رہ گئے تھے‘ لہذا ان کے لئے دو سو گھڑ سواروں کو اپنے تیروں کی بوچھاڑ سے یا تلواروں سے روکنا ممکن نہیں تھا. پچاس کی نفری بر قرار رہتی تو خالد بن ولیدؓ کا اپنے دستہ کے ساتھ درہ کو پار کرنا ممکن نہیں تھا. یہاں پندرہ کے پندرہ اصحاب رسول ؐ نے جام شہادت نوش فرمایا رضی اللہ تعالیٰ عنہم وار ضاھم. خالد بن ولیدؓ کے اس عقبی حملہ نے مسلمانوں کو سراسمیہ کر دیا. ان کی صفیں تو پہلے ہی درہم برہم تھیں‘ کچھ لوگ کفار کا پیچھا کر رہے تھے اور اکثر مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے. بھاگنے والے کفار نے جب خالد بن ولیدؓ اور اس کے دستہ کے لوگوں کے نعرے سنے تو انہوں نے پلٹ کر زور دار حملہ کر دیا. اب مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آگئے اور فتح شکست سے بدل گئی. سورۂ آل عمران میں اس صورت حال کے بارے میں فرمایا:

وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ۚ ثُمَّ صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ لِیَبۡتَلِیَکُمۡ ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۵۲
’’(مسلمانو! تم اپنی شکست کا اللہ کو کوئی الزام نہیں دے سکتے) اللہ نے تو (تائید و نصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ پورا کر دکھایا تھا‘ جبکہ (ابتدا میں) تم اس کے حکم سے اپنے دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے. مگر جب تم ڈھیلے پڑے (تم نے کمزوری دکھائی) اور تم نے معاملہ میں اختلاف کیا‘ اور تم اپنے امیر کی حکم عدولی کر بیٹھے‘بعد اس کے کہ اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھائی یعنی فتح جو تمہیں محبوب تھی اس لئے کہ تم‘میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے. تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلے میں پسپا کر دیا‘ تاکہ تمہاری آزمائش کرے. اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان پر بڑا فضل کرنے والا ہے. ‘‘ 

’’مَّا تُحِبُّوۡنَ‘‘سے کیا مراد ہے؟

بعض مفسرین نے ’’مَّا تُحِبُّوۡنَ‘‘ سے مراد مال غنیمت کی چاہت لی ہے اور بعض نے سورۃ الصف کی آیت ۱۳ کے اس حصہ سے کہ: وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ استدلال کرتے ہوئے وہ فتح مرادلی ہے جو پہلے ہلے میں اہل ایمان کے لشکر کو حاصل ہو گئی تھی. میں اس آخرالذ کر رائے سے اتفاق کرتا ہوں. لہذا یہ بات کہ وہ مال غنیمت پر جھٹپے تھے‘ یہ بالکل غلط ہے. مال غنیمت کا معاملہ بدر میں طے ہو چکا تھا. عربوں کے ہاں دستور تھا کہ جنگ میں جو مال جس کے ہاتھ آیا وہ اُسی کا ہو گا. اس لئے کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ مال سمیٹا جائے. مگر غزوۂ بدر کے بعد قانون آ گیا کہ جو مال غنیمت ہے وہ خود اللہ کا ہے. اور باقی سب میں برابر تقسیم ہو جائے گا. یہ نہیں کہ جو کسی کے ہاتھ لگے وہ اس کا ہے. جب یہ قانون آ چکا تھا تو پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تو اس کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کا کہ کہیں ہم محروم نہ رہ جائے کوئی امکان نہیں تھا. میں نے اس کی یہ تعبیر کی جس کی دہلی کے ایک رسالے میں بہت تحسین ہوئی. اور ایک رسالے نے اس پر تنقید بھی کی کہ یہ شخص خواہ مخواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے اتنی معذرت کر رہا ہے‘ اور ان کی کمی اور کمزوری کو چھپا رہا ہے. میں نے کہا‘ یہ بات نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں آیا ہے: وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ (الصف:۱۳’’ایک اور شے جو تمہیں بہت پسند ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے مدد آجائے اور فتح قریب ہو.‘‘ تو فتح کی محبت کی وجہ سے ان کے اندر ایک ڈھیل پیدا ہوئی‘ مال غنیمت کی وجہ سے انہوں نے اپنی جگہ نہیں چھوڑی. اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب مقابلہ جاری رہتا ہے تو اعصاب tense ہوتے ہیں مگر جب فتح ہو جاتی ہے تو اعصاب ڈھیلے ہو جاتے ہیں. یہی ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ہوا. اصل بات کیا ہے؟ یہ کہ بندہ مومن کے لئے فتح و شکست کی کوئی حیثیت نہیں‘ اصل چیز اپنے فرض کی ادائی ہے. اگر اُس نے فرض ادا کردیا‘ جان دے دی‘ تووہ کامیاب ہو گیا‘ خواہ ظاہری اور دنیوی اعتبار سے نتائج نہ بھی نکلے ہوں. کیا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ناکام ہوگئے؟ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ناکام ہو گئے؟ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حارث رضی اللہ عنہ ناکام ہو گئے؟ کہ ان کو تو اسلام کا غلبہ دیکھنا نصیب نہ ہوا. ہر گز نہیں‘ وہ شہید ہیں‘ سیدھے جنت میں جائیں گے. انہیں میدان قیامت کے حساب کتاب سے بھی نہیں گزرنا پڑے گا. 

فتح شکست میں کیوں تبدیل ہوئی؟

غزوۂ اُحد کی فتح کا شکست میں بدلنا در حقیقت فشل‘ تنازع فی الامر اور معصیت امیر کی پاداش میں اللہ کی طرف سے سزا تھی. اندازہ کیجئے کہ سزا کتنی کڑی تھی کہ سات سو میں سے ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوگئے‘ یعنی دس فیصد نفری شہید ہو گئی‘ حالانکہ خطاء صرف پانچ فی صد کی تھی. پھر شہداء میں محمد رسول اللہ  کے کیسے کیسے جاں نثار اور کیسے کیسے ہیرے اور موتی تھے جو کیسی کیسی محنت سے جناب محمد رسول اللہ  نے جمع کئے تھے. ان ہی میں ’’اَسَدُ اللہِ وَ اَسَدُ رَسُوْلِہٖ‘‘ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں. ان ہی میں المُقرِی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہیں کہ جن کی دعوت و تبلیغ اور تعلیم قرآنی سے مدینہ منورہ میں اسلام کو فروغ حاصل ہوا اور اوس و خزرج کے قبیلوں کے اکثر لوگ دولت ایمان سے مشرف ہوئے. حضرت حمزہ اور حضرت مصعب بن عمیر کے علاوہ مہاجرین و انصار میں سے اڑسٹھ(۶۸) دوسرے مجاہدین اور جان نثار ان محمد صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جام شہادت نوش کیا. حضور  خود بھی مجروح ہوئے. آپؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے. خود کی دو کڑیاں حضور  کے رخسار مبارک میں اس طور سے گھس گئیں کہ نکالنے کے لئے زور لگایا تو نہیں نکلیں . پھر دوسرے اصحابؓنے بمشکل ان کو نکالا. حضور  پر غشی بھی طاری ہوئی. کفار نے ایک موقع پر حضور  کو نرغے میں لے لیا اور تیروں کی بارش برسائی. جاں نثاروں نے اپنے جسموں کو حضور  کے لئے ڈھال بنایا کہ جو تیر آئیں وہ ہمارے سینوں میں تراز ہوں‘ محمد  کے سینہ مبارک تک نہ پہنچیں. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے. 

حضور  ان کو تیر دیتے اور فرماتے جاتے ’’سعد‘‘ تم پر میرے ماں باپ قربان‘ تیر چلاتے جاؤ‘‘ صرف حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہی وہ خوش بخت صحابی ہیں جن کے لئے حضور  نے یہ محبت بھرا کلمہ ارشاد فرمایا. 

غزوۂ اُحد کے بعد کے دو سال نبی اکرم  اور اہل ایمان کے لئے نہایت پریشان کن اور تکلیف دہ رہے ہیں. اس لئے کہ اہل عرب پر مسلمانوں کے رعب‘ ہیبت اور دھاک کی جو 
فضا بن گئی تھی وہ بہت حد تک ختم ہو گئی. اب عین مدینہ کے قریب آ کر قریش جو اتنا بڑا چرکہ لگا گئے تو اس سے ایک تو مسلمانوں کے دل زخمی تھے. ان کا حوصلہ اب اتنا اونچا نہیں رہا جتنا غزوۂ بدر کے بعد ہو گیا تھا. دوسرے گردو پیش کے مشرکین کے قبائل پر مسلمانوں کی جو دھاک بیٹھ گئی تھی وہ باقی نہیں رہی‘ بلکہ وہ اسلامی انقلاب کی دعوت و تحریک کے مقابلہ میں دلیر ہو گئے اور ان کی طرف سے مخالفت و مزاحمت کے اندیشے پیدا ہوگئے. 

غزوۂ احزاب

ذیقعدہ ۵ھ میں یعنی غزوۂ احد کے دو سال اور ایک ماہ بعد قریش اور دیگر قبائل جن میں یہود بھی شامل تھے‘ متحد ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے. عرب میں اس سے پہلے کبھی اتنا بڑا لشکر جمع نہیں ہوا تھا. بارہ ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کے لئے جمع ہو گیا. جنوب سے قریش آ گئے. 

مشرقی جانب سے کئی قبائل آ گئے جن میں بنو فرازہ اور بنوغطفان بھی تھے‘ جو نجد کے علاقے کے بڑے جنگجو اور خونخوار قبیلے تھے. شمال سے وہ یہودی قبائل حملہ آور ہو گئے جو خیبر میں آباد تھے. اس طرح اِن قبائل نے ایک مقررہ وقت کے تحت مدینے کا رُخ کیا. چنانچہ مدینہ کے پاس دس ہزار کا ایک زبردست لشکر جمع ہو گیا. اگر یہ لشکر کفار مدینہ کی چار دیواری تک پہنچ جاتا تو مسلمانوں کے لئے سخت خطر ناک ثابت ہوتا. ہو سکتا ہے کہ اس سے ان کا صفایا ہو جاتا. 

رسول اللہ کی صحابہ ؓ سے مشاورت:

محمد رسول اللہ  کفار کے عزائم‘ ارادوں اور سازشی ذہنیت سے آگاہ تھے. چنانچہ کفار کا یہ لشکر جیسے ہی اپنی جگہ سے حرکت میں آیا‘ مدینہ کے مخبرین نے آپؐ کو اس کی اطلاع دے دی. اس پر رسول کریم نے مجلس شوریٰ منعقد کی اور دفاعی منصوبے پر صلاح مشورہ کیا. اس موقع پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر مدینہ سے باہر خندق کھودنے کی تجویز پیش کی ’’اے اللہ کے رسول  فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم اپنے اردگرد خندق کھود دیتے تھے.‘‘ آپ ؐ نے اِس تجویز کو پسند کیا اور فوراً اس پر عمل درآمد شروع فرمایا. ہر دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ خندق کھودنے کا کام سونپ دیا. مسلمانوں نے بڑی دلچسپی سے خندق کی کھدائی شروع کر دی. آپ ؐ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کی ترغیب بھی دیتے تھے اور عملاً اس کام میں پوری طرح شریک بھی رہتے تھے. حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ  کے ساتھ خندق میں تھے. لوگ کھود رہے تھے‘ اور ہم کندھوں پر مٹی ڈھورہے تھے کہ اس دوران میں رسول اللہ  فرماتے:

اَللّٰھُمَّ لَاعَیْشَ اِلَّاعَیْشُ الْاٰخِرَۃِ
فَـــــاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَـــــاجِرَۃ 

(اے اللہ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے. پس مہاجرین اور انصار کو بخش دے.)
اس کے جواب میں جس شعر کا تذکرہ روایات میں آتا ہے وہ نظم جماعت کی اساس کے حوالے سے بہت اہم ہے. صحابہؓ فرماتے تھے: 

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَــعُوْا مُحَمَّـــــدًا 
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِـیْنَا اَ بَدًا
(۱

(ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد  سے جہاد کی بیعت کی ہے. اب یہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک جان میں جان ہے. )

منافقین اور مؤمنین کی کیفیات:غزوۂ احزاب کا نقشہ سورۃ الاحزاب میں کھینچا گیا ہے‘ اور یہ دوسرے او رتیسرے پورے دو رکوعوں پر پھیلاہوا ہے. کفار و مشرکین کی ہمہ جہت یلغار کے بیان میں فرمایا:

اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ 
’’یاد کرو جب لشکر آ گئے تھے تم پر تمہارے اوپر سے بھی اور تمہارے نیچے سے بھی‘‘ 

چونکہ مدینہ سے مشرق کی طرف اونچائی ہوتی چلی جاتی ہے‘ اسی لئے اس علاقہ کو نجد کہتے ہیں‘ جس کے معنی ہیں اونچائی والا علاقہ. لہذا جو دشمنانِ اسلام مشرق سے آئے ان کے لئے 
’’ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ ‘‘ کے الفاظ آئے اور مغربی ساحل کی طرف ڈھلان اور اترائی ہے. چنانچہ قریش اور ان کے حلیف مغرب یعنی نیچائی اور اتار کے راستہ سے آئے. لہذا ان کے لئے ’’ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ ‘‘ فرمایا گیا. مزید برآں مدینہ کے شمال مغرب کی جانب سے یہودی قبائل بھی جمع ہو کر آگئے تھے. 
اس کٹھن موقع پر منافقین اور کمزور ایمان والوں کی کیفیت اسی آیت میں آ گے ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: 

وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا ﴿۱۰
’’اور یاد کرو جب آنکھیں (وحشت وحیرت سے) پھرنے لگیں اور(خوف و ہراس سے) دلوں کا یہ حال تھا کہ وہ گویا گلوں میں آ اٹکے ہیں اور تم اللہ کے بارے میں طرح (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب غزوۃ الاحزاب وھی الخندق طرح کی بد گمانیاں کرنے لگے.‘‘ 

یہ تبصرہ ہے اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے اس امتحان پر جو غزوۂ احزاب کی صورت میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گیا تھا. امتحان یقینا شدید تھا. 
منافقین کے دلوں میں جو خبث‘ نجاست اور گندگی تھی‘ وہ اس ابتلاء و آزمائش کو دیکھ کر ان کی زبانوں پر آ گئی‘ جس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۱۲﴾ (الاحزاب)
’’اور جب کہنے لگے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سب فریب تھا.‘‘

انہوں نے (نعوذ باللہ) کہا کہ ہمیں تو دھوکا دے کر مروا دیا گیا. ہم سے تو کہا گیا تھا کہ قیصرو کسریٰ کی سلطنتیں تمہارے قدموں میں ہوں گی‘ جبکہ اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہم رفع حاجت کے لئے بھی باہر نہیں جا سکتے. کھانے کو کچھ نہیں. ہمارے باغات حملہ آوروں نے اجاڑ دیئے. چاروں طرف سے محاصرہ ہے‘ اندر کوئی چیز نہیں ہے. منافقین کی یہ باتیں ان کے دلوں سے اچھل کر زبانوں پر آ گئیں . ان باتوں کا تذکرہ سیرت النبی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ و السلام اور کتب احادیث میں ملتا ہے. 
ادھر مؤمنین صادقین کی کیفیت کیا تھی‘ اس بارے میں آیت ۲۳ فرمایا: 

وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ 
’’اور حقیقی مؤمنین کا اُس وقت حال یہ تھا کہ جب انہوں نے دشمنوں کے لشکروں کو دیکھا تو وہ پکار اُٹھے کہ یہی تو وہ بات ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول  نے ہم سے وعدہ کیا تھا‘ اور اللہ اور اس کے رسول  کی بات بالکل سچی تھی.‘‘

یہ کون سا وعدہ ہے جس کی طرف یہ صادق القول مؤمنین اشارہ کر رہے ہیں؟ یہ ابتلا و آزمائش کا وہ وعدہ ہے جس کا قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے. مثلاً سورۃ العنکبوت میں فرمایا:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں. اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں!‘‘ 

چنانچہ غزوئہ احزاب کے مصائب کو دیکھ کر مؤمنین صادقین کے ذہن ان پیشگی تنبیہات کی طرف منتقل ہو گئے اور ان کی زبانوں پر فی الفور آ گیا:

ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ 

غزوۂ احزاب میں کفار و مشرکین کے لشکروں کا محاصرہ خاصا طول پکڑ گیا اور اس دوران اہل مدینہ پر بڑے ہی سخت قسم کے حالات پیش آئے. جب خندق کھودی جا رہی تھی تو نبی اکرم  بھی اس کام میں بنفس نفیس شریک تھے اور پتھر اُٹھا اُٹھا کر خندق سے باہر پھینک رہے تھے. 

چونکہ ان دنوں شدید قحط کا عالم تھا‘ لہذا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے پیٹوں پر چادروں کے ساتھ کس کر پتھر باندھ رکھے تھے‘ تاکہ کمریں دوہری نہ ہو جائیں. اس لئے کہ شدید بھوک کی وجہ سے معدہ تشنج میں آتا ہے. دراصل یہ معدے کو بہلانے کی ایک شکل ہے کہ اگر اس پر بھاری بوجھ باندھ دیا جائے تو اس کو وہ بھوک کا تشنج 
(hunger pain) نہیں ہو گا. اس موقع پر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کُرتے اٹھا کر اپنے پیٹ دکھائے اور عرض کیا کہ حضور  اب فاقہ نا قابل برداشت ہو رہا ہے‘ ہم نے اسی لئے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھے ہیں. اس پر نبی اکرم  نے اپنا کرتہ اُٹھا کر دکھایا تو وہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے.
 

نصرت الٰہی کا ظہور:

کفار کے متحدہ لشکر کا یہ محاصرہ بیس دن جاری رہا. پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی مدد اور نصرت و تائید سے اہل ایمان کو کفار کے اس نرغہ اور محاصرہ سے نجات دلائی. ہوا یوں کہ ایک شب بہت زبردست آندھی آئی‘ جس سے کفار و مشرکین کے لشکر تلپٹ ہو گئے. اکثر خیمے اکھڑ کر آندھی کے ساتھ تتربتر ہو گئے. بڑے بڑے چولہوں پر چڑھی ہوئی بڑی بڑی دیگیں اُلٹ گئیں. ان چولہوں کی وجہ سے ان کے خیموں میں آگ لگ گئی. یہ گویا ایک غیبی تدبیر تھی‘ جس سے ان کے حوصلے اس درجہ پست ہو گئے کہ صبح تک تمام لشکر منتشر ہو چکا تھا. تمام قبائل اپنے اپنے علاقوں کی طرف کوچ کر گئے…اسی کا ذکر ہے سورۃ الاحزاب کی آیت ۹میں:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹
’’اے اہل ایمان! اللہ کا احسان یاد کرو جو تم پر ہوا‘ جب چڑھ آئیں تم پر فوجیں‘ پھر ہم نے ان پر بھیج دی ہوا(آندھی) اور (فرشتوں کی) وہ فوجیں جو تم نے نہیں دیکھیں. اور اللہ تمہارے تمام اعمال کو دیکھنے والاہے. ‘‘ 

اہل ا یمان آزمائش میں سرخرو ہو گئے

نبی اکرم  نے چند اور تدابیر بھی اختیار فرمائی تھیں‘ لیکن ان کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے. ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس غزوۂ احزاب کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کا امتحان لینا اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دینا مقصود تھا‘ تاکہ نظر آ جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے! سب جان لیں کہ کون ان میں سے منافق ہیں اور کون وہ ہیں جو کڑی سے کڑی آزمائش اور سخت سے سخت امتحان میں بھی ثابت قدم رہ سکتے ہیں!!… جب یہ امتحان ہو گیا تو مد مقابل دشمنوں کے لئے ایک آندھی اور فرشتوں کا ایک لشکر کافی تھا. کفار و مشرکین کا بارہ ہزار کا لشکر اللہ کی قدرت کے مقابلہ میں توپر کاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا تھا. بارہ ہزار کیا بارہ لاکھ کا لشکر بھی ہوتا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی. ایک آندھی نے معاملہ تلپٹ اور تتربتر کر دیا اور کفار و مشرکین جو ایک زبردست جمعیت کی شکل میں بڑے ناپاک عزائم اور بڑی تیاریوں کے ساتھ دور دراز کا سفر کر کے ہدایت کے چراغ کو بجھانے آئے تھے‘ ایک ہی رات میں منتشر ہو گئے. معاملہ ختم ہو گیا اور صبح صادق سے قبل ہی ہر ایک نے اپنی اپنی راہ پکڑی. صبح ہوئی تو مسلمانوں نے دیکھا تو میدان خالی تھا. اس موقع پر نبی اکرم نے جو تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے‘ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول  کو کتنی دوررس نگاہ اور کتنی بصیرت و فراست عطا فرمائی تھی. فرمایا:

لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشُ بَعْدَ عَا مِکُمْ ھٰذَا وَ لٰکِنَّکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ (۱
’’اس سال کے بعد اب قریش تم پر حملہ آور نہیں ہو سکتے بلکہ اب تم ان پر چڑھائی کروگے.‘‘

میرے نزدیک سورۃ الصف بھی اسی موقع پر نازل ہوئی ہے جس میں یہ آیت مبارکہ موجود ہے:

وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾ 
’’اور (اے مسلمانو!) ایک دوسری چیز جو تمہیں محبوب ہے‘ یعنی اللہ کی مدد‘ تو وہ آیا ہی چاہتی ہے اور اب فتح دور نہیں ہے (تمہارے قدموں کو چومنے والی ہے) اور اے نبی ؐ ! اہل ایمان کو بشارت سنا دیجئے‘‘ 

راقم کے نزدیک نبی اکرم  نے جو یہ الفاظ فرمائے کہ: 
لَنْ تَغْرُوْکُمْ قُرَیْشُ بَعْدَ عَامِکُمْ ھٰذَا وَ لٰکِنَّکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ سورۃ الصف کے اس حکم وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کے امتثال امر میں فرمائے تھے. (واللہ اعلم!) (۱) تفسیر القرآن‘ لابن کثیر‘ ج۶‘ ص ۳۹۶. راوی محمد بن اسحاق

رسول اللہ  کی عمرہ کے لیے مکہ روانگی

غزوۂ احزاب کے اگلے ہی سال ۶ھ میں رسول اللہ  نے خواب دیکھا کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھی اہل ایمان عمرہ ادا کررہے ہیں. چونکہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے‘ لہذا نبی اکرم  نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیبی اشارہ اور حکم سمجھ کر اعلان عام کرا دیا کہ ہم عمرہ کے لیے جائیں گے‘ جو ہمارے ساتھ جانا چاہیں وہ چلیں. چنانچہ چودہ سو یا اٹھارہ سو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپؐ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے. ہدی کے جانور بھی ساتھ لیے. جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اُس وقت رسول اللہ  کے ساتھ جانے کا قصد کیا وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وہ گویا موت کے منہ میں جارہے ہیں. عمرہ کے لیے جانے کا مطلب ہی یہ تھا کہ شیر کی کچھار میں جانا ہے. اس لیے کہ وہ اگرچہ عمرہ کی نیت سے جارہے تھے‘ لیکن قریش کے نزدیک تو یہ ایک نوع کی چڑھائی تھی. وہ اہل ایمان کو عمرہ کے لیے مکہ میں داخل ہونے دیں تو گویا یہ ان کے لیے اپنی رہی سہی ساکھ اور بچا کھچا وقار بھی ہمیشہ کے لیے خود اپنے ہاتھوں خاک میں ملانے کے مترادف تھا. یہ تو ان کے لیے ایک نوع کی شکست تھی کہ وہ مسلمانوں کو عمرہ ادا کرنے دیتے. اس کے بعد تو عرب میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہ رہتی. 

ذوالخلیفہ کا مقام جو مدینہ سے تقریباً سات آٹھ میل باہر ہے‘ اور یہاں سے عمرہ یا حج کے لیے احرام باندھنے کی حد شروع ہو جاتی ہے‘ حضور اور آپؐ کے تمام ساتھیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عمرہ کا احرام باندھااور ہدی (قربانی) کے جو جانور ساتھ تھے‘ ان کے گلوں میں پٹے ڈال دیئے گئے‘ جو اس بات کی علامت تھی کہ یہ جانور قربانی کے ہیں. ان کاموں سے فارغ ہوکر آپؐ نے مکہ کی طرف سفر جاری رکھا‘ حتیٰ کہ حدیبیہ کے مقام پر جاکر پڑاؤ کیا. 

اُدھر جب قریش کو علم ہوا کہ حضور عمرہ کے ارادہ سے تشریف لائے ہیں تو انہوں نے اعلان کردیا کہ ہم محمد ( ) اور ان کے ساتھیوں (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو کسی صورت بھی مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے‘ بلکہ انہوں نے اپنے تمام حلیفوں کو پیغام بھیج دیا کہ وہ سب آکر قریش کی مدد کریں‘ تاکہ سب مجتمع ہوکر اپنی پوری قوت کے ساتھ محمد( ) کا راستہ روک سکیں. نبی اکرم کو بھی یہ خبریں پہنچ رہی تھیں. بدیل بن ورقہ خزاعی قبیلہ بنو خزاعہ سے تعلق رکھتے تھے‘ جو مکہ اور مدینہ کے مابین آباد تھا. اس قبیلہ کا کچھ دوستانہ تعلق قریش کے علاوہ نبی اکرم  کے ساتھ بھی تھا. چنانچہ حضور نے بدیل بن ورقہ کو اس کام کے لیے مامور کیا 
کہ وہ مکہ والوں کی خبرلاکر دیں کہ صورت حال کیا ہے. انہوں نے آکر خبر دی کہ قریش نے ایک بہت بڑا لشکر جمع کرلیا ہے اور ان کا عزمِ مصمم ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی آپؐ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے. حضور نے ان سے فرمایا کہ تم مکہ جاکر ہماری طرف سے قریش سے کہو کہ ہمارا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘ ہم محض عمرہ کے لیے آنا چاہتے ہیں‘ اور قریش کو سمجھاؤ کہ انہیں پہلے بھی ان جنگوں کے سلسلہ نے بہت نقصان پہنچایا ہے‘ اب بہتر یہی ہے کہ ہمارے اور ان کے مابین کچھ عرصہ کے لیے صلح ہو جائے اور قریش ہمیں عرب کے دوسرے قبائل سے نمٹنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں‘ تاکہ ہم بقیہ عرب کے ساتھ اپنے معاملات طے کرلیں. اسی میں خیر ہے‘ اسی میں ہماری اور ان کی بہتری ہے. چنانچہ وہ مزاحمت کا ارادہ ترک کردیں اور ہمیں پُرامن طور پر عمرہ ادا کرنے دیں.

حضور کے اس پیغام کے ساتھ بُدَیل بن ورقہ مکہ پہنچے. وہاں ایک بڑی چوپال میں جاکر‘ جہاں قریش کے بڑے بڑے گھرانوں کے سردار جمع تھے‘ انہوں نے کہا کہ میں محمد ( ) کی طرف سے ایک پیغام لایا ہوں‘ اگر آپ حضرات اجازت دیں تو عرض کروں! انہوں نے یہ انداز شاید اس لیے اختیار کیا ہوگا کہ پہلے یہ اندازہ ہوجائے کہ قریش مکہ کا رجحان کیا ہے! چنانچہ ان میں 
Hawks (یعنی مشتعل مزاج اور جنگجو لوگوں) نے فوراً کہا کہ ہم نہ تو کوئی بات سننے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت اور حاجت ہے. مگر Doves (یعنی صلح پسند افراد) نے کہا کہ نہیں! ہمیں بات سننی چاہیے اور بدیل سے کہا سناؤ کہ محمد( ) کہتے کیا ہیں! انہوں نے حضور کا پیغام من و عن سنادیا. 

اب قریش نے مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے عروہ بن مسعود ثفقی کو اُن کی اپنی تجویز پر حدیبیہ بھیجا. عروہ حضور نبی کریم  سے ملا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کیفیات کا جائزہ لیا‘ واپس مکہ جاکر اُس نے قریشی سرداروں کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اُس میں مسلمانوں کے نظم و ضبط‘ جوش و خروش اور جان سپاری کا ذکر کیا‘ اُس نے کہا:

’’اے قریش کے لوگو! دیکھو‘ میں قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں گیا ہوں‘ میں نے ان کے دربار دیکھے ہیں‘ ان کا ٹھاٹھ باٹھ دیکھا ہے‘ لیکن خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو اس کی اپنی قوم میں ایسا محترم نہیں دیکھا جیسا کہ محمد( ) کو اپنے اصحاب میں دیکھا ہے. میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جو لوگ محمد( ) کے ساتھ ہیں ان کو جتنی محبت محمد ( ) سے ہے اور جتنی عقیدت و توقیر اور عزت محمد( ) کی ان کے 
دلوں میں ہے‘ اور اپنے دین کی جو حمیت اور فدایانہ جذبہ ان کے دلوں میں ہے‘ وہ مجھے پوری زندگی میں کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آیا. میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ جب محمد ( ) وضو کرتے ہیں تو لوگ اُنؐ کے وضو کا پانی تبرک کے طور پر لینے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں. اگر وہ تھوکتے ہیں یا ان کے دہن سے بلغم نکلتا ہے تو لوگ اسے جھپٹ لیتے ہیں اور اس کو اپنے ہاتھوں اور چہروں پر مل لیتے ہیں. یہ محبت میں نے کسی قوم میں اپنے سردار اور قائد حتیٰ کہ کسی بادشاہ تک کے لیے نہیں دیکھی. لہذا بہتری اسی میں ہے کہ تم ان سے مت بھڑو‘ ان سے جنگ کا ارادہ ترک کردو اور مصالحت کرلو.‘‘

عروہ کے اس اظہارِ خیال پر وہاں بڑا شوروغوغا ہوا کہ ہم مصالحت کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں. ہم محمد( ) کو کسی صورت بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے. محمد( ) کو واپس جانا پڑے گا ورنہ خون کی ندیاں بہہ جائیں گی. اس کے بعد قریش کے چند مشتعل مزاج 
(hawks) لوگ آپؐ کے پاس آئے‘ لیکن ان کا رویہ مصالحانہ نہیں تھا‘ بلکہ جارحانہ اور رعب ڈالنے والا تھا. اس پر نبی اکرم  نے خود سلسلۂ جنبانی شروع کرنے اور اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کو مکہ والوں کے پاس افہام و تفہیم کے لیے بھیجنے کا ارادہ فرمایا. سب سے پہلے آپؐ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میرا خیال ہے آپ مکہ جائیں اور قریش سے مصالحت کی کوشش کریں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور اب مکہ میں میرا کوئی ایسا رشتہ دار نہیں ہے جس کی امان و حمایت میں مَیں مکہ میں داخل ہوسکوں. ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے دیکھتے ہی بغیر بات چیت کے قتل کردیں. لہذا میں تجویز کرتا ہوں کہ میری بجائے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بھیجئے. ان کا قبیلہ بنو امیہ بہت مضبوط ہے. ان کے بہت سے قریبی رشتہ دار بھی وہاں موجود ہیں‘ جن میں سے کسی کی بھی امان و حمایت میں وہ مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں. نبی اکرم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مکہ جانے کا حکم فرمایا. چنانچہ وہ تعمیل حکم میں مکہ کی طرف روانہ ہوگئے. 

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ابھی مکہ میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ باہر ہی ان کو اپنے چچا زاد بھائی ابان بن سعید بن عاص مل گئے. انہوں نے آنجناب کو اپنی پناہ اور حمایت میں لے لیا اور اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قریش کے پاس پہنچ گئے. گفت و شنید کا سلسلہ دو تین روز تک چلتا رہا‘ اگرچہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا. قریش کسی صورت مصالحت پر آمادہ نہیں ہوئے. تاہم انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب جب تم مکہ میں آہی گئے ہو تو ہم تمہیں اجازت دیتے ہیں 
کہ تم کعبہ کا طواف کرلو‘ لیکن آپؓ نے نبی اکرم کی معیت کے بغیر طواف کی یہ پیشکش قبول نہیں فرمائی. گفت و شنید میں جو دیر لگی تو اس طرح گویا وہ کیفیت پیدا ہوگئی جسے آج کل کی سیاسی اصطلاح میں ’’نظر بندی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے. اندریں حالات یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا ہے.
 

بیعت رضوان

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر جب نبی اکرم  کو پہنچی تو آپؐ نے اپنے ساتھیوں سے وہ بیعت لی جو کتب سیر میں ’’بیعت رضوان‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہے اور جس کا ذکر سورۃ الفتح کی آیت۱۸میں ہے: 

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸
’’(اے نبیؐ ) بے شک اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے اور اسے ان کے دلوں کا حال معلوم تھا. لہذا اس نے ان پر قلبی اطمینان و سکون نازل فرمایا اور انعام میں ان کو فتح قریب بخشی.‘‘

حدیبیہ کے مقام پر کوئی چھوٹا سا درخت تھا‘ جس کے سایہ میں نبی اکرم  تشریف فرما ہوگئے اور وہاں آپؐ نے فرمایا کہ اب ہر مسلمان مجھ سے بیعت کرکے ایک عہد کرے اس بیعت کے بارے میں دو روایات ہیں. ایک تویہ کہ یہ بیعت علی الموت تھی. حضور نے فرمایا کہ ’’ہر مسلمان میرے ہاتھ پر موت کی بیعت کرے کہ چاہے ہم سب ہلاک ہو جائیں لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لیے بغیر ہرگز یہاں سے نہیں ہٹیں گے. دوسری روایت ہے کہ اس بات پر بیعت لی گئی کہ ہم یہاں سے پیٹھ نہیں موڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے. بہرحال اس بیعت کا مقصد یہ سامنے آتا ہے کہ کسی حالت پر پیٹھ نہیں دکھانی اور میدانِ جنگ سے جان بچا کر نہیں جانا. گویا یہ بیعت علی الموت تھی کہ ہر شخص میدان میں ڈٹا رہے گا‘ صرف موت ہی اسے اس جنگ سے رستگاری دے سکے گی. 

جب قریش نے ایک طرف یہ دیکھا کہ رسول اللہ  کسی دھمکی سے مرعوب ہونے والے نہیں ہیں‘ دوسری طرف ان کے حلیم الطبع اشخاص نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور قریش کے سامنے خون ریزی کے ہولناک نتائج رکھے تو بالآخر ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اگر کوئی مصالحت ہوجائے تو بہتر ہوگا. قریش کو بیعت رضوان کی خبر بھی پہنچ چکی تھی‘ جس پر ان میں کافی 
سراسیمگی پھیل گئی تھی. اسی لیے انہوں نے سہیل بن عمرو کو اپنی طرف سے نمائندہ بنا کر بھیجا‘ تاکہ وہ ایسی شرائط پر مصالحت کرلیں جو قریش کے لیے آبرو مندانہ ہوں‘ سبکی کا باعث نہ ہوں. سہیل بن عمرو کا شمار ان کے بڑے متحمل اور مدبر سرداروں میں ہوتا تھا. چنانچہ ر وایات میں آتا ہے کہ جب نبی اکرم  کو خبر ملی کہ اس مرتبہ سہیل بن عمرو گفتگو کے لیے آئے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ قریش مصالحت پر آمادہ ہوگئے. 

معاہدہ صلح حدیبیہ

سہیل حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مصالحت کا عندیہ ظاہر کیا. اسی مقام پر نبی اکرم  اور مشرکین قریش کے مابین وہ صلح ہوئی جو تاریخ میں ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور جسے قرآن حکیم نے سورۃ الفتح میں ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا ہے.

گفت و شنید کے بعد جب طے ہوا کہ صلح نامہ تحریر کرلیا جائے. چنانچہ نبی اکرم نے صلح نامہ تحریر 
(dictate) کرانا شروع کیا. حضرت علی رضی اللہ عنہ کاتب کے فرائض انجام دے رہے تھے. حضور نے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم. سہیل بن عمرو نے فوراً ٹوک دیا کہ نہیں! ہم ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے واقف نہیں ہیں‘ ہم تو ہمیشہ ’’باسمک اللّٰھم‘‘ استعمال کرتے رہے ہیں‘ لہذا یہی الفاظ لکھے جائیں گے‘ ہم آپ کے الفاظ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں حضور نے فرمایا ’’ٹھیک ہے‘ لکھ دو بِاِسْمِکَ اللّٰھُمَّ کوئی فرق واقع نہیں ہوتا‘‘. اس کے بعد حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لکھو کہ ’’یہ وہ صلح ہے جو محمد ٌرسول اللہ ( ) اور قریش کے مابین منعقد ہوئی.‘‘ سہیل بن عمرو نے فوراً دوسرا اعتراض جڑ دیا کہ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ نہیں لکھے جاسکتے. اس لیے کہ اسی بناء پر تو ہمارا سارا تنازع ہے. ظاہر ہے‘ صلح نامہ کے نیچے فریقین کے دستخط ہوں گے تو یہ پوری عبارت گویا دونوں کے مابین متفق علیہ ہوگی‘ اور اس میں اگر آپؐ کا نام رسول اللہ  لکھا ہوا ہے تو گویا ہم نے آپ کو اللہ رسول مان لیا. پھر تو ہمارے اور آپ کے مابین کوئی جھگڑا اور کوئی تنازعہ ہی باقی نہ رہا. پھر صلح کا کیا سوال! پس آپؐ کے نام کے لیے ’’رسول اللہ‘‘ نہیں لکھا جائے گا.‘‘سہیل بن عمرو کے اس اعتراض سے اندازہ ہوتا ہے وہ کتنے ذہین اور مدبر شخص تھے نبی اکرم نے اس اعتراض پر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم مانو یا نہ مانو‘ میں اللہ کا رسول ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ’’علی! محمد ٌرسول اللہ کے الفاظ مٹا دو اور اس کی جگہ محمدبن عبد اللہ لکھ دو.‘‘ ( ). حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں عرض کیا کہ ’’حضور ! یہ کام میں نہیں کرسکتا‘‘. کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس موقع پر نبی اکرم  کی حکم عدولی کررہے ہیں. حضور فرما رہے ہیں کہ ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ مٹا دو اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میں نہیں مٹا سکتا. مگر ایسا ہرگز نہیں‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تو حضور کا نام لکھنے کے بعد اسے مٹانا سُوءِ ادب خیال کرتے تھے. بہرحال حضور نے پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کہاں ہیں وہ الفاظ؟کیونکہ آپؐ تو اُمّی تھے. دنیوی طور پر لکھنا پڑھنا آپؐ نے نہیں سیکھا تھا. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ مقام بتایا اورحضور نے اپنے دست مبارک سے وہ الفاط مٹا دیئے. پھر وہاں لکھا گیا کہ یہ معاہدہ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب اور قریش کے مابین طے پایا. 

صلح حدیبیہ کی شرائط اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اضطراب

اس معاہدہ کی بعض شرائط نبی اکرم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے بظاہر نہایت سبکی کا باعث اور توہین آمیز تھیں. سہیل نے سب سے پہلے تو یہ شرط پیش کی کہ ہم یہ برداشت کرہی نہیں سکتے کہ اس سال مسلمان عمرہ کریں. اس سال عمرہ کرنے کی اجازت دینے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ پورے عالم عرب میں یہ بات مشہور ہوجائے کہ محمد( ) کی بات پوری ہوگئی اور قریش کو جھکنا پڑا اور ہتھیار ڈالنے پڑے. لہذا اس سال تو آپؐ کو یہیں سے واپس جانا ہوگا. البتہ اگلے سال آپؐ تشریف لے آئیے‘ ہم تین دن کے لیے مکہ کو خالی کردیں گے‘ ہم پہاڑوں پر چلے جائیں گے اور مکہ آپؐ کی disposal پر ہوگا. آپؐ وہاں رہیے اور عمرہ کیجیے‘ مکہ والے وہاں رہیں گے ہی نہیں‘ تاکہ کوئی شخص جذبات سے مشتعل ہوکر کوئی اقدام نہ کربیٹھے. اس تصادم کے امکان کو بھی روک دیاجائے گا. البتہ آپؐ کے ساتھ تلواریں اگر ہوں گی تو وہ نیام میں ہوں گی اور نیام بھی تھیلوں میں بند ہوں گے. 

یہ نہیں ہوگا کہ تلواریں نیام میں ساتھ لٹکی ہوئی ہوں. دوسری شرط یہ تھی کہ دس سال تک ہمارے اور آپؐ کے مابین بالکل امن رہے گا‘ کوئی جنگ نہیں ہوگی. تیسری شرط یہ طے ہوئی کہ عرب کے دوسرے قبائل میں سے جو چاہے ہمارا حلیف بن جائے اور جو چاہے آپؐ کا حلیف بن جائے. فریقین کے حلیف بھی امن و امان سے رہیں گے اور ان کے مابین بھی جنگ و جدال بالکل نہیں ہوگی بنو خزاعہ کے سردار بدیل بن ورقہ نے وہیں پر اعلان کیا کہ ہم محمد( ) کے ساتھ ہیں. ایک دوسرا قبیلہ بنوبکر‘ جس کو بنو خزاعہ سے پرانی دشمنی تھی‘ اس نے فوراً دوسرا رخ اختیار کرلیا کہ ہم اس معاہدہ کی رو سے قریش کے 
حلیف ہیں معاہدہ کی چوتھی شرط مسلمانوں کے لیے بظاہر بہت توہین آمیز اور دل آزاری کا باعث تھی. وہ یہ کہ اگر مکہ کا کوئی شخص اپنے والی یا سرپرست کی اجازت کے بغیر مدینہ جائے گا تو مسلمانوں کو اِسے واپس لوٹانا ہوگا‘ لیکن مدینہ سے اگر کوئی شخص مکہ آجائے گا تو اسے ہم واپس نہیں کریں گے. یہ بڑی غیر منصفانہ (un-equal) شرط تھی جس پر سہیل بن عمرو کا اصرار تھا. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پر بڑے جزبز ہوئے اور ان کے جذبات میں جوش و ہیجان پیدا ہوا کہ ہم یہ صورت کیوں گوارا کررہے ہیں؟ ہم دب کر اور گر کر کیوں صلح کریں؟ ہم اِس وقت چودہ سو کی تعداد میں موجود ہیں اور ہمیں تو شہادت کی موت مطلوب ہے‘ ہم بیعت علی الموت کرچکے ہیں اور ہم سب کے سب کلمۂ حق کے لیے اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہی نہیں‘ بے تاب ہیں. لہذا ہم ان شرائط پر صلح کیوں کریں جو سہیل منوانا چاہتے ہیں؟ یہ بظاہر احوال گر کر اور دب کر صلح کرنے کے مترادف معاملہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ جذبات تھے لیکن سب کے سب مہربلب تھے. 

یہ معاہدہ ابھی لکھا ہی جا رہا تھا کہ اِس دوران سہیل ابن عمرو کے بیٹے ابوجندلؓ جو ایمان لے آئے تھے اور اِس کی پاداش میں گھر میں لوہے کی رنجیروں میں باندھے ہوئے تھے‘ انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ محمد( ) قریب آئے ہوئے ہیں‘ اور چند میل کے فاصلے پر حدیبیہ میں ہیں‘ تو انہوں نے جیسے تیسے اپنی زنجیریں توڑوائی‘ اور بیڑیوں سمیت حدیبیہ آپہنچے اور رسول اللہ کے قدموں میں گر پڑے. سہیل نے کہا کہ محمد ( ) معاہدہ ہو چکا ہے‘ لہذا اِسے واپس کرو. حضور نے کہا ابوجندل تم جاؤ. وہ رو پڑے. فریاد کی‘ مسلمانو‘ مجھے پھر بھیڑیوں کے حوالے کررہے ہو. حضورنے کہا دیکھو بیٹا ہم معاہدہ کرچکے ہیں. ہمارے ہاتھ بندھ چکے ہیں. 

یہ وہ لمحات ہیں جن کے متعلق ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جذبات کا کیا عالم ہوگا! یہ وہ وقت ہے کہ دینی حمیت و غیرت کے باعث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اضطراب اتنا بڑھا کہ ان کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر حضور سے وہ مکالمہ کیا جو سیرت کی تمام مستند کتابوں میں مذکور ہے. دنیا جانتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قدرت کی طرف سے جلالی طبیعت ودیعت ہوئی تھی. اسلام کی دولت سے مالا مال ہونے کے بعد آپؓ کی اس کیفیت میں کافی اعتدال آگیا تھا لیکن کبھی کبھار دین کی حمیت کے باعث اس جلالی طبیعت کا غلبہ ہوجاتا تھا. دراصل یہی سبب تھا کہ انہوں نے ذرا تیکھے انداز میں نبی اکرم  سے اس موقع پر گفتگو کی‘ جس کا ان کو ساری عمر تاسف رہا اور انہوں نے اپنے اس انداز گفتگو کے کفارہ 
کے طور پر نہ معلوم کتنی نفلی عبادات کی تھیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم  سے عرض کیا’’حضور کیا آپؐ حق پر نہیں ہیں اور کیا آپؐ اللہ کے نبی نہیں ہیں؟‘‘ نبی اکرم نے مسکراتے ہوئے جواب میں ارشا فرمایا: ’’یقینا میں حق پر ہوں اور میں اللہ کا نبی ہوں.‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ’’حضور ! پھر ہم اس طرح کا معاملہ کیوں کررہے ہیں؟ کیا اللہ ہمارے ساتھ نہیں ہے؟؟‘‘ حضور نے پھر مسکراتے ہوئے فرمایا ’’اللہ میرے ساتھ ہے اور میں اس کا نبی ہوں اور میں وہی کچھ کررہا ہوں جس کا مجھے حکم ہے‘‘. نبی اکرم کا تبسم کے ساتھ جوابات کا انداز بتا رہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس انداز تخاطب سے آپؐ قطعاً ناراض نہیں ہوئے تھے. ظاہر ہے کہ نبی اکرم  کے جوابات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضور سے تو مزید کچھ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی‘ لیکن طبیعت میں جو ایک تلاطم ‘ ایک طوفان اور ایک ہیجانی کیفیت تھی وہ کسی قدر برقرار رہی. چنانچہ وہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جو اس وقت اس خیمہ میں موجود نہیں تھے. انؓ سے بھی اسی نوع کا مکالمہ ہوا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا محمد  اللہ کے رسول نہیں ہیں؟‘‘ انہوں نے فرمایا کہ ’’کیوں نہیں‘ یقینا ہم حق پر ہیں اور حضور اللہ کے رسول ہیں‘‘. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر وہی بات کہی جو حضور سے عرض کرچکے تھے کہ ’’پھر یہ کیا ہورہا ہے اور ہم کیوں دب کر صلح کررہے ہیں؟‘‘ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب میں بعینہٖ وہی الفاظ کہے کہ ’’بے شک ہم حق پر ہیں اور محمد  اللہ کے رسول ہیں اور آپؐ وہی کرتے ہیں جس کا آپؐ کو حکم ہوتا ہے‘‘. یہ ہے مقام صدیقیت اور یہ کہ نبی اور صدیق کے مزاج میں بہت قرب ہوتا ہے. 

صلح ہو جانے کے بعد نبی اکرم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ ’’اب اُٹھو‘ قربانی کے لیے جو جانور ساتھ لائے ہو ان کی یہیں پر قربانیاں دے دو اور احرام کھول دو.‘‘ اس وقت مسلمانوں کے جذبات کا جو عالم تھا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا یہ سیرت کا عجیب مقام ہے. صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک شخص بھی نہیں اُٹھا. جذبات کی یہ کیفیت تھی کہ گویا ان کے اعصاب و اعضاء بالکل شل ہوگئے اور ان میں حرکت کرنے کی بھی طاقت نہیں رہی‘ ان کے دل اس درجہ بجھے ہوئے تھے. ان کا جوش و خروش تو یہ تھا کہ وہ جاں نثاری اور سرفروشی دکھائیں اور اللہ کے دین کی راہ میں گردنیں کٹوا کر سرخرو ہو جائیں. روایات میں آتا ہے کہ نبی اکرم  کچھ ملول ہوکر اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے‘ اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہاسے ذکر کیا کہ میں نے مسلمانوں سے تین مرتبہ کہا کہ ’’اُٹھو‘ قربانیاں دے دو اور احرام کھول دو. لیکن کوئی ایک شخص 
بھی نہیں اُٹھا‘‘ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ حضور آپ زبان سے کچھ نہ فرمائیے‘ آپؐخیمہ سے باہر تشریف لے جائیے‘ قربانی دیجئے‘ اور حلق کراکے احرام کھول دیجئے نبی اکرم  نے اس مشورہ پر عمل کیا‘ باہر تشریف لائے‘ قربانی دی‘ سر کے بال منڈوائے اور اِس کے بعد احرام کھول دیا. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو اب سب کے سب کھڑے ہوگئے‘ اور جو ہدی کے جانور ساتھ لائے تھے انہوں نے قربانیاں دیں اورتمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حلق یا قصر کرایا اور احرام کھول دیئے. 

اس صورت حال کی تاویل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ابھی تک ایک حالت ِ منتظرہ طاری تھی. وہ اس خیال میں تھے کہ شاید صورت حال بدل جائے. شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی وحی آجائے!! جب تک یہ صورت سامنے نہیں آئی کہ نبی اکرم  نے خود قربانی دینے اور حلق کرانے کے بعد احرام کھول دیا تو اُس وقت تک ان کے ذہنوں میں صورت حال کی تبدیلی کا ایک امکان برقرار تھا کہ جس کے وہ شاید انتظار میں تھے. لیکن جب نبی  نے احرام کھول دیاتو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جان گئے کہ یہی آخری فیصلہ ہے. چنانچہ حالت منتظرہ ختم ہوگئی اور سب نے احرام کھول دیئے. عمرہ کی جو نیت کی ہوئی تھی اسے اگلے سال کے لیے مؤخر کرتے ہوئے نبی اکرم  اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حدیبیہ سے مدینہ کی طرف مراجعت فرمائی.

صلح حدیبیہ کے اثرات و نتائج

معاہدہ حدیبیہ کے اہم واقعہ کو قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا. چنانچہ حدیبیہ سے واپسی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ (الفتح) ’’بے شک ہم نے (اے محمد ) آپ کے لیے تابناک اور کھلی فتح کا فیصلہ فرمایا‘‘. صلح حدیبیہ کو رسول اللہ  کی انقلابی جدوجہد کے ضمن میں ایک نہایت اہم موڑ (turning point) کی حیثیت حاصل ہے. درحقیقت اس معاہدۂ صلح کا مطلب یہ تھا کہ قریش نے نبی اکرم  کو ایک ’’طاقت‘‘ کی حیثیت سے تسلیم کرلیا. سیاسیات اور بین الاقوامی معاملات میں دراصل یہی بات فیصلہ کن ہوتی ہے کہ کسی فریق کی قانونی و آئینی حیثیت تسلیم کرلی جائے. یہ اس کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے. کیونکہ اس سے اُس فریق کو بہت سے حقوق و تحفظات حاصل ہو جاتے ہیں. مثال کے طور پر عربوں نے طویل عرصے تک یہود کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنا تو کجا ایک کمرے میں بیٹھنا بھی قبول نہ کیا تھا‘ لیکن اب وہ ایک ایک کرکے اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں. بہرکیف قریش کی طرف سے مصالحت پر آمادہ ہو جانے اور نبی اکرم کے ساتھ تحریری شکل میں صلح کا معاہدہ کرلینے کا مطلب تھا کہ گویا قریش نے یہ تسلیم کرلیا کہ محمد( ) عرب کی ایک سیاسی اور عسکری طاقت ہیں‘ جن سے انہوں نے صلح کا معاہدہ کیا ہے. یعنی قریش کو تسلیم کرنا پڑا کہ محمد( ) اب ایک ایسی طاقت ہیں جنہیں تسلیم کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں. اس صورت حال کے پس منظر میں مدینہ منورہ کی واپسی کے سفر کے دوران سورۃ الفتح کی درج ذیل آیات نازل ہوئیں:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ (آیت:۱۰
’’بے شک جو لوگ (اے محمد ) آپؐ سے بیعت کرتے ہیں وہ (درحقیقت) اللہ سے بیعت کرتے ہیں. اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھ کے اوپر…‘‘

اور 

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸
’’(اے نبیؐ ) تحقیق اللہ راضی ہوگیا ایمان والوں سے جب وہ بیعت کرنے لگے آپؐ سے درخت کے نیچے. اور جو (صدق و خلوص) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا. تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی.‘‘
آیت۲۷ میں فرمایا:

لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ
’’بے شک اللہ نے سچ کر دکھایا اپنے رسول کو خواب حق کے ساتھ. تم لازماً داخل ہوکر رہو گے مسجد حرام میں اگر اللہ نے چاہا آرام سے اپنے سروں کے بال مونڈتے اور کترتے ہوئے‘ بے کھٹکے…‘‘

جب یہ آیات نازل ہوئیں اور اہل ایمان کے سامنے ان کی تلاوت کی گئی تو ان آیات نے گویا ان کے زخمی دلوں پر مرہم کے پھاہے کا کام کیا. اہل ایمان جس چیز کو اپنے خیال میں شکست سمجھتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے اس کو فتح مبین قرار دیا. اس سے مسلمانوں کے دل مسرت و شادمانی سے باغ باغ ہوگئے.

اس صلح کے بعد نبی اکرم  کو یک سو ہوکر اپنی دعوتی سرگرمیوں پر پوری توجہ دینے کا موقع مل گیا. یہی وہ زمانہ ہے کہ اصحاب صُفّہ کی جو جماعت تیار ہو رہی تھی‘ حضور نے ان 
کے وفود بنا بنا کر مختلف قبائل کی طرف بھیجنے شروع فرمائے. مزید برآں اب تک مسلمانوں اور مشرکین کا آپس میں کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا. اس صلح کے بعد یہ روک ٹوک اُٹھ گئی تو آمدورفت شروع ہوئی. خاندانی اور تجارتی تعلقات و روابط کی وجہ سے کفار مکہ مدینہ منورہ آتے‘ وہاں طویل عرصہ تک قیام کرتے. اس طرح مسلمانوں سے میل جول رہتا اور باتوں باتوں میں اسلام کی دعوتِ توحید اور دیگر عقائد و مسائل کا تذکرہ ہوتا اور ان پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا. ہرمسلمان اخلاص اور حسن عمل کا پیکر‘ نیکو کاری‘ حسن معاملات اور پاکیزہ اخلاق کی زندہ تصویر تھا. جو مسلمان مکہ جاتے تھے‘ ان کی صورتیں‘ ان کے اعمال‘ ان کے اخلاق اور ان کے معاملات یہی مناظر پیش کرتے. ان اوصاف کی وجہ سے مشرکین مکہ کے دل خودبخود اسلام کی طرف کھنچے چلے آتے. الغرض‘ اس صلح کے نتیجہ میں اسلام جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگا. چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد ہی حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماجیسے لوگوں نے اسلام قبول کیا. مؤرخین اور سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ اس صلح سے لے کر فتح مکہ تک اس کثرت سے لوگ اسلام لائے کہ اس سے قبل نہیں لائے تھے. 

صلح حدیبیہ کو اللہ تعالیٰ نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا ہے‘ لیکن یہ اجسام کی نہیں قلوب کی فتح و تسخیر تھی. اس مرحلہ پر اسلام کو اپنی دعوت کی اشاعت کے لیے امن درکار تھا جو اس صلح سے حاصل ہوگیا. دعوتِ توحید کی وسعت کو دیکھ کر خود قریش یہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ ہماری شکست اور جناب محمد رسول اللہ  کی فتح ہے. اس صلح کے ثمرات و فوائد بہت سے ہیں‘ مختصراً یہ کہ درحقیقت صلح حدیبیہ ہی فتح مکہ کی تمہید بنی. نبی اکرم  کو۶ھ سے ۸ ھ تک امن و سکون کے جو دو سال ملے‘ اِن میں توحید کی انقلابی دعوت نے نہایت سرعت کے ساتھ وسعت اختیار کی اور مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت فراہم ہوگئی. 

صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ  نے پہلی مرتبہ جزیرہ نمائے عرب سے باہر متعدد سلاطین کو اپنے دعوتی مکتوبات ارسال فرمائے. اس سے پہلے آپؐ نے بیرون عرب نہ کوئی نامہ مبارک لکھا اور نہ ہی کوئی ایلچی بھیجا. حضور کی تمام دعوتی و تبلیغی سرگرمیاں جزیرۂ نمائے عرب کے اندر اندر تھیں‘ لیکن صلح حدیبیہ کے بعد حضور نے دعوتی سرگرمیاں عرب کی حدود سے باہر بھی شروع فرمائیں اور آپؐ نے مختلف صحابہؓ کو ایلچی بنا کر عرب کے اطراف و جوانب میں تمام سربراہانِ سلطنت کی جانب بھیجا اور انہیں اسلام لانے کی دعوت دی. دوسرے لفظوں میں صلح حدیبیہ کے بعد حضور کی دعوتی سرگرمیاں دو شاخوں میں بٹ گئیں. ایک 
اندرونِ ملک عرب اور دوسری بیرونِ ملک عرب آخر الذکر مرحلہ انقلاب محمدی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کا تیسرا مرحلہ ہے. 

یہود خیبر کی طاقت کا قلع قمع

جب قریش سے حدیبیہ کے مقام پر دس سال کے لیے صلح ہوگئی اور رسول اللہ  کو اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو ۶ھ کے اواخر میں آپؐ نے جزیرہ نمائے عرب میں یہود کی اس طاقت کے خلاف اقدام کرنے کا فیصلہ فرمایا جو خیبر کے مقام پر مجتمع ہوگئی تھی. رسول اللہ  نے کوشش فرمائی کہ یہود خیبر سے کوئی معاہدہ ہو جائے. چنانچہ آپؐ نے صلح حدیبیہ سے پہلے اور بعد میں کئی سفارتی وفود اُن کے پاس بھیجے لیکن وہ اپنے ارادوں سے باز نہیں آئے. ان کے چھوٹے چھوٹے چھاپہ مار دستے مدینہ کے باہر متفرق چھوٹی چھوٹی آبادیوں پر حملے کرتے اور غارت گری کے بعد بھاگ جاتے. بالآخر نبی اکرم  نے ان کی طاقت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے غرض سے ذوالحجہ ۶ھ میں مسلمانوں کے ایک لشکر کے ساتھ خیبر کی طرف کوچ فرمایا. لیکن خیبر کا معرکہ ۷ھ کے اوائل میں پیش آیا‘ کیونکہ اس غزوہ نے کافی طول کھینچا. خیبر میں یہود کی بڑی قوت مجتمع تھی‘ جہاں یکے بعد دیگرے ان کے بڑے مضبوط قلعے تھے. چنانچہ ہر قلعہ پر زبردست جنگ ہوئی. آخری مضبوط ترین قلعہ (قموص) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہوا. یہود کے بڑے بڑے سردار اِن معرکوں میں مارے جاچکے تھے. چنانچہ انہوں نے کامل شکست تسلیم کرلی. اہل اسلام نے فتح کے بعد مفتوحہ علاقہ پر قبضہ کرلیا‘ البتہ یہود کی درخواست پر زمین ان کے قبضہ میں اس شرط کے ساتھ رہنے دی گئی کہ وہ پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو ادا کیا کریں گے. چنانچہ جب بٹائی کا وقت آتا‘ نبی اکرم  اپنے کسی صحابیؓ کو بھیجتے‘ جو آکر غلہ کو دوبرابر حصوں میں تقسیم کرکے یہود سے کہا کرتے تھے کہ انتخاب کا حق تمہیں حاصل ہے‘ جو حصہ چاہو تم لے لو. یہود اس عدل پر متحیر ہوکر کہتے تھے کہ ’’زمین و آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں.‘‘

غزوۂ خیبر پہلا غزوہ ہے جس میں غیر مسلموں کو رعایا بنایا گیا. گویا صلح حدیبیہ اور یہود کا رعیت کی حیثیت قبول کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اسلامی طرزِ حکومت کی بنیاد بھی قائم ہوگئی اور اس کا عملی ظہور بھی شروع ہوگیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت کے آغاز تک یہ سلسلہ چلتا رہا. نبی اکرم  مرض وفات میں وصیت فرما گئے تھے کہ یہود جزیرہ نمائے عرب میں رہنے نہ پائیں. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مدعیانِ نبوت‘ مانعینِ زکوٰۃ اور فتنۂ ارتداد سے کامل طور 
پر نمٹنے میں مصروف ہو جانے کی وجہ سے اس معاملہ کی طرف توجہ دینے کا موقع نہیں ملا. اگرچہ خلافت صدیقی ؓ کے دَور ہی میں یہ تمام فتنے ختم ہو چکے تھے‘ لیکن ساتھ ہی توحید کی اس انقلابی دعوت کی توسیع کے عمل کا بیرون عرب آغاز ہوچکا تھا اور قیصر و کسریٰ سے باقاعدہ لڑائیاں شروع ہوچکی تھیں. چنانچہ جزیرہ نمائے عرب سے یہود کے مکمل اخراج کا معاملہ دورِ خلافت صدیقی ؓ کی بجائے دَورِخلافت فاروقی ؓ کے آغاز میں شروع ہوا اور ایک قلیل عرصہ میں تمام یہود جزیرہ نمائے عرب سے جلا وطن کردیئے گئے. ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی اور ان کو کامل آزادی دی گئی کہ وہ اپنا جملہ منقولہ سازوسامان ساتھ لے جاسکتے ہیں. اس طرح جزیرہ نمائے عرب یہود جیسی سازشی قوم کے وجود سے پاک ہوگیا. 

عمرۂ قضا کی ادائی

ذیقعدہ ۷ھ میں نبی اکرم  نے عمرۂ قضا ادا فرمایا. آپؐ نے اعلان کرادیا کہ جو اصحاب پچھلے سال حدیبیہ میں موجو دتھے ان میں سے کوئی رہ نہ جائے‘ سب کے سب چلیں. چنانچہ اس دوران جو لوگ فوت ہوگئے تھے ان کے سوا سب نے آپؐ کی پکار پرلبیک کہا اور عمرے کی سعادت حاصل کی. صلح حدیبیہ میں طے شدہ شرائط کے مطابق نبی اکرم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جلو میں حالت ِ احرام میں مکہ تشریف لائے. حضور اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بآوازِ بلند تلبیہ کہتے ہوئے حرم شریف کی طرف بڑھے. حضرت عبد اللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ نبی اکرم  کے اونٹ کی مہار پکڑے یہ رجز پڑھتے جاتے تھے. ان اشعار کو امام ترمذیؒ نے شمائل میں نقل کیا ہے: 

خلُّوا بنی الکفّار عن سبیلہ
الیوم نضربکم علیٰ تنزیلہ
ضربًا یزیل الھام عن مقیلہ
ویذھل الخلیل عن خلیلہ 

’’ کافرو! آج سامنے سے ہٹ جاؤ. آج تم نے اترنے سے روکا تو ہم تلوار کا وار کریں گے. وہ وار جو سر کو خوابگاہِ سر سے الگ کردے اور دوست کے دل سے دوست کی یاد بھلا دے.‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جم غفیر تھا اور وہ کعبہ شریف کی دید سے شاد کام ہورہے تھے اور عمرہ ادا کرنے کی تمنا و آرزو کو پورے جوش و خروش اور چشم تر سے بجا لارہے تھے. شرط کے مطابق حضور اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تین دن تک مکہ میں مقیم رہے. قریش کے تمام بڑے بڑے لوگ مکہ سے نکل گئے کہ نہ ہم اہل ایمان کو دیکھیں نہ ہمارا خون کھولے اور نہ اس کے نتیجے میں کوئی تصادم اور حادثہ وقوع پذیر ہو. لہذا وہ سب کے سب پہاڑوں پر چلے گئے. 

حقیقی نہیں تو معنوی طور پر یہ قریش کی زبردست شکست تھی اور حضور اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادائے عمرہ سے ان کی ساکھ کو بڑا شدید نقصان پہنچا تھا. کیونکہ اُس وقت صورت حال یہ تھی کہ اگرچہ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت نہیں تھی لیکن پورے عرب کی سیاسی‘ مذہبی اور معاشی سیادت و قیادت قریش کے ہاتھ میں تھی. گویا باقاعدہ اور تسلیم شدہ نہ سہی لیکن بظاہر احوال درحقیقت 
(de facto) قریش کو پورے عرب پر ایک نوع کی حکمرانی حاصل تھی. اگرچہ کوئی باضابطہ اعلان شدہ (declared) حکومت نہیں تھی اور کوئی تحریری معاہدہ یا دستور و آئین موجودنہیں تھا. اس لیے کہ وہاں قبائلی نظام تھا‘ لیکن قدیم روایات موجود تھیں جس کے مطابق معاملہ چل رہا تھا.

فتح مکہ اور اُس کا پس منظر

صلح حدیبیہ کے موقع پر ہی بنو خزاعہ نبی اکرم  کے حلیف بن گئے تھے اور ان کے حریف بنوبکر قریش کے حلیف ہوگئے تھے. بنوبکر نے صلح حدیبیہ کے قریباًدو سال بعد بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں اچانک حملہ کردیا. قریش کے چند بڑے بڑے سرداروں نے بھی بھیس بدل کر بنوبکر کا ساتھ دیا اور اس طرح اس حملے کے نتیجے میں بنو خزاعہ کے بہت سے آدمی مارے گئے. بنوخزاعہ نے حرم میں پناہ لی‘ لیکن بنوبکر کے رئیس نوفل کے اکسانے پر وہاں بھی انہیں نہیں چھوڑا گیا او رعین حدودِ حرم میں خزاعہ کا خون بہایا گیا. اس پر بنو خزاعہ کے چالیس افراد نبی اکرم  کی خدمت میں حاضر ہوئے. آپؐ مسجد نبویؐ میں رونق افروز تھے. انہوں نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے‘ اب صلح حدیبیہ کی رُو سے اے محمد( ) آپؐ اس کے پابند ہیں کہ ہمارا بدلہ بنوبکر اور قریش سے لیں. 

نبی اکرم  کو یہ واقعات سن کر سخت رنج ہوا. تاہم حضور نے قریش پر حجت قائم کرنے کے لیے ان کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرائط پیش کیں: (۱)مقتولوں کا خون بہا ادا کردو.(۲) اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہو تو بنوبکر کی حمایت سے الگ ہو جاؤ تاکہ ہم بنو خزاعہ 
کے ساتھ مل کر بنوبکر سے بدلہ لے لیں. (۳) اگر یہ بھی منظور نہیں ہے تو اعلان کردو کہ صلح حدیبیہ ختم ہوگئی. قریش کے مشتعل مزاج اور جنگ پسند لوگوں نے نبی اکرم  کے قاصد کی زبانی آپؐ کی شرائط سنتے ہی فوراً کہا کہ ہمیں تو صرف تیسری شرط منظور ہے. بس آج سے صلح حدیبیہ ختم !! حضور کے ایلچی یہ جواب سن کر مدینہ واپس چلے گئے. 

جوشیلے لوگوں نے صلح حدیبیہ کے خاتمہ کا اعلان تو کردیا‘ مگر قریش کے مدبر اور صلح پسند لوگوں کو غلطی کا احساس ہوا. وہ بخوبی جانتے تھے کہ اب محمد کی طاقت کتنی ہے اور قریش کا حال کیا ہے! ان کی پختہ رائے یہ تھی کہ قریش کسی صورت میں بھی اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ رسول اللہ  کا مقابلہ کرسکیں. ابوسفیان نے‘ جسے قریش کے سردار کی حیثیت حاصل تھی جلد ہی محسوس کرلیا کہ چند جوشیلے لوگوں سے جذبات میں آکر بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے‘ اگر ہم نے صلح حدیبیہ کی تجدید نہ کرائی تو پھر قریش کے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی. چنانچہ وہ خود چل کر تجدید صلح کی درخواست لے کر مدینہ گیا‘ لیکن بارگاہِ رسالت سے کوئی جواب نہیں ملا. اِس پر مسجد نبویؐ میں جاکر اُس نے خود ہی تجدید صلح کا یک طرفہ اعلان کردیا کہ میں قریش کا سردار ابوسفیان صلح حدیبیہ کی تجدید کرتا ہوں. نبی اکرم  کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا‘ لیکن یہ اعلان کرکے وہ فوراً اپنے اونٹ پر سوار ہوکر واپس مکہ روانہ ہوگیا. 

اہل مکہ کے لیے اب عجیب صورتحال تھی. وہ شش و پنج میں تھے کہ ابوسفیان جو کچھ کرکے آئے ہیں اسے کیا سمجھا جائے! اِدھر نبی اکرم نے مدینہ منورہ میں تیاریاں کرنے کا حکم دے دیا اور اپنے حلیف قبائل کے پاس قاصد بھیج دیئے کہ تیار ہوکر مدینہ آجائیں. لیکن احتیاط یہ کی گئی کہ اعلان نہیں فرمایا کہ مکہ کا قصد ہے. رسول اللہ  مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا لشکر حضور کے ہمرکاب تھا. یہ رمضان ۸ھ کا واقعہ ہے جبکہ واقعہ ہجرت کو دس برس اور مسلّح تصادم 
(armed conflict) کے مرحلے کو شروع ہوئے صرف چھ سال بیتے تھے. 
سیرتِ مطہرہ میں بہت سے غزوات اور سرایا کا ذکر ملتا ہے لیکن ان تمام جنگوں میں جانی نقصان مجموعی طور پر چند سو سے زیادہ نہیں ہوا. کفار کی طرف سے جو لوگ قتل ہوئے اور مسلمانوں کی طرف سے جو شہید ہوئے ان کی مجموعی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوگی. اگرچہ کئی بار خوں ریزی ہوئی‘ لیکن اموات کی گنتی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک غیرخونیں 
(bloodless) انقلاب تھا. سب سے زیادہ خون ریزی اگر ہوسکتی تو فتح مکہ کے وقت ہوتی. اس لیے کہ جو خون کے پیاسے تھے‘ جو جانی دشمن تھے‘ وہ سب کے سب مکہ میں موجود تھے. ان میں وہ وحشی بھی تھا جس کے دھوکہ سے پھینکے ہوئے برچھے پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے‘ ان میں وہ ہندہ زوجہ ابوسفیان بھی تھی کہ جس نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کا مثلہ بھی کرایا تھا اور آپؓ کے کلیجہ چبانے کی کوشش بھی کی تھی. چنانچہ اُس وقت مکہ والوں کو یہ اندیشے لاحق تھے کہ اب کیا ہوگا! ان پر شدید خوف اور اضطراب طاری تھا. 

دس ہزار قدسیوں اور جان نثاروں کے جلو میں جب کوکب ِ نبویؐ نہایت عظمت و شان کے ساتھ مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر خیمہ زن ہوا تو تحقیق کے لیے قریش کی طرف سے ابوسفیان‘ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقہ چھپ چھپا کر اہل ایمان کے لشکر تک پہنچے. ابوسفیان کو مسلمانوں نے پہچان لیا اور گرفتار کرکے دربارِرسالت میں پیش کیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیمہ میں آکر عرض کیا کہ حضور! اللہ اور اس کے رسول کے اس دشمن کے قتل کا حکم دیجئے‘ تاکہ کفر کے بالکل استیصال کا آغاز ہو جائے. حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے جان بخشی کی درخواست کی ابوسفیان کا سابقہ کردار اور ان کی اسلام دشمنی سب کے سامنے عیاں تھی. ان کا ایک ایک فعل انہیں قتل کے مستوجب ثابت کرتا تھا. لیکن ان سب سے بالاتر ایک اور چیز تھی اور وہ تھی حضور کی رافت‘ رحمت اور عفو کا جوہر جو ابوسفیان کو دل ہی دل میں اطمینان دلا رہا تھا کہ خوف کا مقام نہیں ہے. نبی اکرم  کے اخلاق حسنہ سے دل پہلے سے گھائل تھا. حق کا بول بالا اور اسلام کی فتح و سر بلندی نگاہوں کے سامنے تھی. حضرت عباس رضی اللہ عنہ اُن کے جگری دوست تھے‘ ان کی ترغیب اور ان تمام چیزوں نے اس آہنی چٹان کو پگھلا دیا اور وہ بالآخر دولت ِ اسلام سے مشرف ہوئے اور مؤمن صادق ثابت ہوئے. 

علی الصبح جب لشکر اسلام مکہ کی طرف بڑھا تو رسول اللہ  نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر کھڑا کردو تاکہ وہ افواج ِالٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھیں. نیز مکہ میں داخل ہوتے ہی اعلان کردیا جائے کہ جوشخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر میں پناہ لے گا یا حرمِ کعبہ میں داخل ہو جائے گا تو اس کو امن دیا جائے گا. اہلِ ایمان کی فوجیں الگ الگ پرچموں تلے نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتی ہوئی مکہ کی طرف بڑھ رہی تھیں اور حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ان کو دیکھ دیکھ کر محو حیرت تھے. جب انصار کے قبیلہ خزرج کا لشکر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں گزرا جن کے ہاتھ میں علم تھا اور 
انہوں نے ابوسفیان کو دیکھا تو بے اختیار پکار اُٹھے:

اَلْیَومَ یَومُ المَلْحَمَۃِ
اَلْیَومَ تَسَتَحِلُّ الْــکَعْبَۃُ 

(آج خون بہانے کا دن ہے. آج کعبہ حلال کردیا جائے گا.)
مختلف لشکروں کے پیچھے کوکب نبویؐ نمودار ہوا. حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ علمبردار تھے. حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی نظر جب جمال مبارک پر پڑی تو پکار اُٹھے کہ حضور ! آپؐنے سنا کہ سعدؓ یہ کہتے ہوئے گزرے ہیں کہ 
’’الیوم یوم الملحمۃ . الیوم تستحل الکعبۃ‘‘ نبی رحمت نے ارشاد فرمایا: نہیں‘ سعدؓ نے صحیح نہیں کہا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ

اَلْیَومَ یَومُ الْمَرحَمَۃِ 
اَلْیَومَ یَومُ تُعْظَمُ فِیْہِ الْــکَعْبَۃُ 
(۱

(آج کا دن رحمت کا دن ہے اور آج کا دن وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی.)
اللہ کی شان دیکھئے‘ جس مکہ میں آٹھ سال قبل حضور  کے قتل کا فیصلہ ہوگیا تھا اورجہاں سے نبی اکرم  نے راتوں رات چھپ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی‘ پھر غارِ ثور میں تین دن پناہ لینی پڑی تھی جس کے دہانے تک کھوجی کفارِ مکہ کو لے آئے تھے اور جہاں سے اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر حضور کو بچا یا تھا اور آپؐ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اضطراب دیکھ کر ان سے وہ جملہ فرمایا تھا جو توکل علی اللہ کا شاہکار ہے کہ : 
لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (۲اسی مکہ میں آٹھ سال بعد رمضان المبارک ۸ھ میں حضرت محمد رسول اللہ  بحیثیت فاتح داخل ہورہے تھے. فرط تواضع اور عجز و انکساری کا یہ عالم تھا کہ روایات میں آتا ہے کہ حضور کی پیشانی مبارک گھوڑے کے ایال کو مس کررہی تھی. زبان مبارک پر ترانۂ حمد جاری تھا. دنیا نے اس سے قبل ایسا کوئی فاتح نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ قیامت تک دیکھ سکے گی. 

رسول اللہ  انصار و مہاجرین کے جلو میں مسجدِحرام کے اندر تشریف لائے‘ اُس وقت آپؐ کے دستِ مبارک میں ایک کمان تھی. وہ حرمِ محترم جو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسے بُت شکن نے اللہ وحدہ لاشریک کی پرستش کے لیے تعمیر کیا تھا‘ اس کے آغوش میں تین سو ساٹھ بُت موجود تھے. لیکن اب رسول اللہ  کے لیے موقع تھا کہ اپنے جدِّ امجد کی سُنت کی تجدید فرمائیں. 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب المغازی ‘ باب رکز النبی .
(۲) صحیح البخاری ‘ کتاب فضائل صحابہ ؓ ‘باب مناقب المھاجرین وفضلھم. 
چنانچہ حضور ایک ایک بُت کو اپنی کمان سے ٹہوکے دے کر گراتے جاتے اور زبان مبارک سے پڑھتے جاتے تھے: 

جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ (بنی اسرائیل)
’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ اور باطل مٹنے ہی کی چیز تھی.‘‘

چند دنوں بعد اُن تمام بتوں کو بھی پاش پاش کرا دیاگیا جن کے استھان اطرافِ مکہ میں مختلف مقامات پر قائم تھے. اس طرح عرب میں اسلام کی انقلابی دعوتِ توحید کی تکمیل ہوگئی. شرک اور بُت پرستی کا طلسم ٹوٹ گیا اور شرک کی بنیاد پر قائم استحصالی نظام کا قلع قمع ہوگیا.

خانہ کعبہ کی بتوں سے تطہیر کے بعد آپؐ نے اس کے اندر نماز ادا کی‘ پھر دروازہ کھول کر کھڑے ہوگئے اور مسجد حرام میں کھچا کھچ بھرے ہوئے قریش سے خطاب فرمایا. مکہ میں داخلہ کے بعد عرب کے بے تاج بادشاہ‘ سرورِ عالم ‘رحمۃٌ لِلعالمین  نے خلافت ِالٰہی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جو پہلا خطاب فرمایا‘ اس کے مخاطب درـ حقیقت صرف اہل مکہ ہی نہیں بلکہ سارا عالم تھا. آپؐ نے فرمایا:

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ اَلَاکُلُّ مَاثَرَۃٍ اَوْدَمٍ اَوْ مَالٍ یُدْعٰی فَھُوَ تَحْتَ قَدَمَیْ ھَاتَیْنِ اِلَّا سُدَانَۃَ البَیْتِ وَسِقَایَۃَ الحَاجِّ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ اِنَّ اللہَ قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ نَخْوَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَتَعَظَّمُھَا بِالْآبَاءِ‘ اَلنَّاسُ مِنْ آدَمَ و آدَمُ مِنْ تُرَابٍ 

’’ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اس کا کوئی شریک نہیں ہے. اس نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا. اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس نے تنہا تمام جتھوں کو توڑ دیا. آگاہ ہو جاؤ! (اب) تمام مفاخر‘ تمام انتقامات‘ خون بہائے قدیم سب میرے قدموں کے نیچے ہیں. صرف حرم کعبہ کی تولیت اور حجاج کی آب رسانی اس سے مستثنیٰ ہے. اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار اللہ نے مٹا دیا.تمام لوگ آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں.‘‘
پھر آپؐ نے سورۃ الحجرات کی یہ آیت پڑھی: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۳﴾ ’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے‘ تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے پہچان لیے جاؤ. تحقیق اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ (اللہ کا) تقویٰ رکھتا ہو. (یعنی اس کے فرامین کی خلاف ورزی سے سب سے زیادہ بچتا ہو.) بے شک اللہ دانا اور واقف کار ہے.‘‘

آپؐ کا یہ خطبہ نہایت مختصر تھا‘ مگر اس میں اسلام کی انقلابی دعوت و پیغام کے چند اہم اصول بیان ہوگئے. دین اسلام کا اصل الاصول توحید ہے. اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ کوئی حاکم نہیں‘ کوئی مقنن نہیں‘ کوئی دستگیر نہیں‘ کوئی خالق و مالک نہیں لفظ ’’الٰہ‘‘ میں یہ تمام مفاہیم موجود ہیں. ساتھ ہی شرک جیسے اکبر الکبائر کی تردید بھی آگئی. 
لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ کا بیان بھی آگیا. پرانی عداوتوں اور انتقام کی پُرزور مذمت بھی آگئی. مفاخر قومی و نسبی کی بیخ کنی بھی ہوگئی. اور آپؐ نے جاہلیت کی ان تمام جہالتوں کے متعلق فرمادیا کہ ’’میں نے ان تمام چیزوں کو پاؤں تلے کچل دیا.‘‘ ظہور اسلام سے پہلے عرب ہی نہیں تمام دنیا میں نسل‘ قوم اور خاندان کی تمیز کی بنا پر فرق و تفاوت اور امتیازات و مراتب قائم تھے. اسلام کا یہ احسان ہے کہ اس نے دنیا کو کامل مساوات کے اصول سے روشناس کرایا اور نبی اکرم  اور خلفاءِ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس اصول پر اسلامی حکومت کو عملاً چلا کر دنیا کے سامنے حجت پیش کردی کہ نسل‘ رنگ‘ زبان‘ وطن‘ پیشے اور جنس کی بنیاد پر کوئی اونچا ہے نہ نیچا ہے‘ وحدت خالق اور وحدت آدم کی بنیاد پر سب برابر ہیں. 

خطبہ کے بعد فاتح مکہ  نے مجمع کی طرف دیکھا. جبارانِ قریش سامنے تھے. فرمایا کہ تمہارا کیا گمان ہے کہ میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ یہ لوگ اگرچہ شقی القلب‘ بے رحم اور ظالم تھے‘ لیکن مزاج شناس بھی تھے. لہذا بے اختیار پکار اُٹھے: 
اَخٌ کَرِیمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ ’’ آپؐ شریف اور بامروت بھائی ہیں اور ایک شریف اور بامروت بھائی کے بیٹے ہیں.‘‘ رحمۃٌ للعالمین  نے ارشاد فرمایا کہ میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف ( علیہ السلام ) نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ (۱’’ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں ہے‘‘ اور اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء ’’جاؤ تم سب آزاد ہو.‘‘ لیکن (۱) تخریج الاحیاء للعراقی‘ج۳‘ ص ۲۲. الراوی سہیل بن عمروؓ . چند لوگ ایسے بھی تھے جن کو معافی نہ دی گئی. اُن کے جرائم اِس قدر سنگین تھے کہ اُن کے متعلق یہ حکم تھا کہ جہاں ملیں قتل کردیئے جائیں. 

مکہ کے فتح ہو جانے سے اندرونِ ملک عرب انقلاب محمدی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کی تکمیل ہوگئی. اور سورۃ الصف میں جو غزوۂ احزاب اور سورۃ الاحزاب سے متصلاً بعد نازل ہوئی‘ میں دی گئی یہ بشارت 
وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾ پوری ہوگئی. اللہ اور اس کے رسول  پر پختہ ایمان رکھنے والوں اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں اور اللہ کی راہ میں صفیں باندھ کر اس طرح قتال کرنے والوں کو جیسے سیسہ پلائی دیوار ہوں‘ آخرت میں لغزشوں اور خطاؤ ں کی مغفرت‘ دخول جنت اور جناتِ عدن کے پاکیزہ گھروں میں خلود و سکونت کے وعدوں کے ساتھ ساتھ جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اصل کامیابی ہے‘ اس دنیا میں بھی نصرتِ الٰہی اور فتح قریب کی نوید جاں فزا سنائی گئی تھی جو فطری اعتبار سے انسان کو بڑی محبوب ہوتی ہے. چنانچہ فتح مکہ کی صورت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نگاہوں کے سامنے اس بشارت کا ظہور ہوگیا. 

قریش مکہ سے آپؐ کی چھ سالہ طویل جنگ ۱۷؍رمضان المبارک سن ۲ ہجری کو شروع ہوئی اور ۱۰ رمضان المبارک ۸ ہجری کو فتح مکہ پر اختتام پذیر ہوئی. اس دوران بہت سے اتار چڑھاؤ آئے.مختلف غزوات میں سینکڑوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جانوں کی قربانی دینی پڑی. غزوۂ احد میں حضور خود بھی مجروح ہوئے اور دندانِ مبارک بھی شہید ہوئے. تلوار کا وار چہرہ مبارک پر پڑا تو جو خود آپؐ پہنے ہوئے تھے‘ اس کی دو کڑیاں رخسار مبارک کی ہڈی کے اندر گھس گئیں. ایک صحابی ؓ نے دانتوں سے پکڑ کر کھینچ کر نکالنا چاہا تو ان کے دانت اکھڑ گئے مگر وہ نہیں نکلیں. کسی طریقے سے انہیں نکالا گیا تو خون کا فوارہ چھوٹ پڑا. اتنا خون بہا کہ آپؐ بے ہوش ہو کر گر گئے اور مشہور ہو گیا کہ حضور شہید ہو گئے. ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین شہید ہوئے‘ جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے. ان کے حضور کے ساتھ کئی رشتے تھے وہ آپ کے چچا بھی تھے‘ خالہ زاد بھائی بھی اور دودھ شریک بھائی بھی. پھر وہ آپؐ کے بچپن کے ہم جولی اور دوست تھے.اور ان کی لاش اس حالت میں آئی کہ ناک کٹی ہوئی ہے‘ کان کٹے ہوئے ہیں‘ پیٹ چاک کر کے کلیجہ چبایا گیا ہے. لہذا یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ انقلاب برپا کرنے کا یہ کام گھر بیٹھے نہیں ہوا. اس کے لئے بڑی قربانیاں دی گئی ہیں. بہرحال چونکہ یہ کام 
بھرپور تیاری کے بعدکیا گیا تھا‘ لہذا چھ سال کے عرصے پر محیط اس مسلح تصادم کا نتیجہ فتح مکہ کی صورت میں نکلا اور انقلابِ نبویؐکی تکمیل ہو گئی. جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ 

فتح مکہ کے بعد رسول اللہ نے غزوۂ حنین‘ غزوۂ طائف وغیرہ جو جنگیں لڑیں‘ ان کی حیثیت ملٹری کی اصطلاح میں mopping-up operation کی تھی‘ جس کے ذریعے مخالف قوتوں کا آخری قلع قمع مقصود ہوتا ہے. فتح مکہ پر اندرونِ عرب انقلاب کی تکمیل ہو گئی. 

جزیرۂ نمائے عرب میں شرک کے مکمل قلع قمع کا آخری اقدام

مکہ فتح ہوجانے کے بعد رسول اللہ  کا تدبر ملاحظہ کیجئے. اگرچہ آپؐ کو یہ پہلے سے اندازہ تھا کہ قریش میں بالکل دم خم نہیں ہے کہ وہ اسلامی فوج کا مقابلہ کرسکیں‘ ان کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا کوئی امکان ہی نہیں تھا‘ اسی وجہ سے آپؐ نے صلح کی تجدید سے اعراض فرمایا تھا لیکن فتح مکہ کے بعد آپؐ نے ایسا نہیں کیا کہ وہاں کے پورے نظام کو یکسر بدل دیا ہو. اس کے بالکل برعکس آپؐ نے ان مختلف ذمہ داریوں کو جو قریش کے مختلف خاندانوں کے سربراہوں کی تحویل میں تھیں انہی کے سپرد رہنے دیا‘ قطع نظر اس سے کہ وہ ایمان لائے ہوں یا نہ لائے ہوں. آپؐ نے وہاں کے انتظامی معاملات کو قطعاً نہیں چھیڑا. یہاں تک کہ آپؐ نے اپنا کوئی امیرِ حج تک مقرر نہیں کیا کہ اب اس کی سرکردگی میں حج ہوگا‘ حالانکہ دو ماہ بعد حج ہونے والا تھا. بلکہ آپؐ نے نہایت نرم روش اختیار کی اور فتح مکہ کے بعد ذوالحجہ ۸ھ میں جو پہلا حج آیا وہ حسب سابق مشرکین ہی کے زیر انتظام و انصرام ہوا صرف اس فرق کے ساتھ کہ مشرکین اپنے طریق سے حج کررہے تھے اور رسول اللہ کے اُمّتی موحدین اسلامی طریق پر حج کررہے تھے. 

فتح مکہ کے دوسرے سال ۹ھ میں جب حج کا موقع آیا تو اس میں رسول اللہ  نے مشرکین کی شرکت کی اجازت تو برقرار رکھی کہ وہ بھی حج کریں اور مسلمان بھی حج کریں‘ لیکن حج کے جملہ انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے. حضور حج کے لیے خود تشریف نہیں لے گئے بلکہ آپؐ 
نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیرِ حج بنا کر ان کے ہمراہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک قافلۂ حج بھیج دیا. 

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں قافلۂ حج روانہ ہوچکا تھا کہ چند دنوں بعد ہی سورۃ التوبہ کی پہلی چھ آیات نازل ہوئیں‘ جو اِس بات کے اعلان کی حیثیت رکھتی ہیں کہ دراصل اندرون عرب انقلاب محمدی علیٰ صا حبہ الصلوٰۃ والسلام پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے. اب اہل عرب میں سے مشرکین کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے. فرمایا: 

بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾فَسِیۡحُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُخۡزِی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲﴾وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیۡٓءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ۬ۙ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ۙ﴿۳﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ثُمَّ لَمۡ یَنۡقُصُوۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَمۡ یُظَاہِرُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴﴾فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۶

’’اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا (اعلانِ) بیزاری ہے. تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھرلو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہ کرسکو گے. اور یہ بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے. اور حج اکبر کے دن اللہ اور اُس کے رسولؐ کی طرف سے لوگوں کو آ گاہ کیا جاتا ہے اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دست بردار ہے). پس اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر نہ مانو(اور اللہ سے مقابلہ کرو) تو جان رکھو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکو گے. اور (اے پیغمبرؐ ) کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا دو. البتہ جن مشرکوں کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو اور انہوں نے تمہارا کسی طرح کا قصور نہ کیا ہو اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو جس مدت تک ان کے ساتھ عہد کیا ہو اسے پورا کرو(کہ) اللہ پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے.جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو. اور پکڑ لو‘ اور گھیر لو‘ اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو. پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو. بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے. اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام اللہ سننے لگے. پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو. اس لیے کہ یہ بے خبر لوگ ہیں. ‘‘

قابل غور بات یہ ہے کہ حضور  کی دو بعثتیں ہیں. ایک بعثتِ خصوصی جو اہل عرب (یعنی بنی اسمٰعیل) کی طرف ہے‘ جن میں سے نبی اکرم  خود تھے‘ جن کی زبان میں حضور پر اللہ کا کلام نازل ہوا. دوسری بعثتِ عمومی ہے 
’’اِلٰی کَافَّۃِ لِّنَّاسِ‘‘ یعنی پوری نوعِ انسانی کی طرف. یہ اس وقت موضوع بحث نہیں البتہ جن کی طرف رسول اللہ  کی بعثت خصوصی تھی تو ان پر دعوت و تبلیغ‘ وعظ و نصیحت‘ انذار و تبشیر‘ تذکیر و موعظت کے ذریعہ حضور رسالت کی تمام ذمہ داریاں بنفس نفیس ادا فرماچکے تھے. اس طرح ان پر اتمامِ حجت کیا جاچکا تھا‘ لہذا ان کے لیے اب رعایت کا کوئی سوال نہیں تھا. ان پر اللہ کا جو عذاب آیا اس کی پہلی قسط غزوۂ بدر کی صورت میں ظاہر ہوئی‘ جہاں ان کے بڑے بڑے سردار کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی مانند پڑے ہوئے تھے. جیسے ابوجہل‘ عقبہ بن ابی معیط‘ عتبہ بن ربیعہ اور اس کا بھائی وغیرہ. پھر انہی میں نضر بن حارث بھی تھا جو پکڑا گیا تھا اور بعد میں حضور نے اسے قتل کرایا تھا. پھر مختلف غزوات میں بہت سے صنادید مشرکین بتدریج اس دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں مقتول ہوکرواصلِ جہنم ہوتے رہے. سورۃ التوبہ کی اِن ابتدائی چھ آیات میں درحقیقت عرب سے شرک کے مکمل خاتمہ اور قلع قمع (mopping up operation) کا اعلانِ عام ہے اور یہ بات کھول کر بتا دی گئی کہ اب اہلِ عرب میں سے مشرکین کے لیے کوئی رعایت نہیں ہوگی‘ اب ان سے کوئی نئی صلح نہیں ہوگی. صلح کے جو معاہدے پہلے ہوچکے ہیں‘ ان میں سے کسی کی بھی مدّت ختم ہو جانے کے بعد آئندہ تجدید نہیں ہوگی. کسی نے صلح توڑ دی‘ معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو وہ اسی وقت ختم اور کالعدم ہو جائے گا. پھر یہ کہ چارمہینے گزرنے کے بعد پورے عرب میں مشرکین کا قتل عام شروع ہو جائے گا‘ کسی کی کوئی رُو رعایت نہیں کی جائے گی‘ کسی کی جاں بخشی نہیں کی جائے گی‘ سوائے اس کے جو ایمان لے آئے. اسے اپنے ایمان کا اقرار و اعلان اور ارکان اسلام پہ عمل کرنا ہوگا. جو بھی ان شرائط کو پورا کردے گا اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے گا‘ اُس کے جان و مال کی حفاظت کی جائے گی. رہا یہ معاملہ کہ ان کے دلوں میں ایمان داخل ہوا یا نہیں‘ اس کا فیصلہ اللہ کرے گا. کیونکہ دلوں کا حال وہی جانتا ہے کہ وہ ’’عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘ ہے. پس مشرکین مکہ کی جاں بخشی کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں تھی کہ وہ کلمۂ شہادت ادا کریں‘ نماز قائم کریں اور زکو ٰۃ ادا کریں. چنانچہ اسی مضمون پر مشتمل رسول اللہ  کی بڑی پیاری حدیث ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے. وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:

اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ و َیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُوْتُوا الزَّکَاۃَ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَاءَ ھُمْ وَاَمْوَا لَھُمْ اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللہِ عَزَّوَجَلَّ

’’مجھے (اللہ کی طرف سے) یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں حتیٰ کہ وہ لااِلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں‘ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں. پس جب وہ یہ (کام) کریں گے تو وہ مجھ سے اپنے خون اور اپنے اموال بچا لیں گے‘ سوائے اس کے کہ کوئی اسلام کے قانون کی زد میں آجائے (باقی رہا) ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے.‘‘
ان چار مہینوں کے اختتام پر مشرکین عرب میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اسلام نہ لے آیا ہو. گنتی کے چار افراد کے بارے میں یہ صراحت ملتی ہے کہ وہ آخر وقت تک کفر پر قائم رہے‘ لیکن ایسے لوگ معین وقت ختم ہونے سے پہلے ہی سرزمینِ عرب کو چھوڑ کر جاچکے تھے. چنانچہ کوئی حبشہ چلا گیا اور کسی نے شام یا مصر میں پناہ لی بہرحال خونریزی کا مرحلہ نہیں آیا. لیکن اصل میں اس اعلان کی حیثیت جزیرۂ نمائے عرب سے کفر و شرک کے استیصال کی ہے کہ اگر اہلِ عرب بنی اسمٰعیل میں سے کوئی بھی انکار کرتا تو اس کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جاتی. 

یہ چھ آیات اور نبی اکرم  کی طرف تفویض کردہ ذمہ داری لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے اور راستہ ہی میں قافلۂ حج کو جالیا. جب وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے سلام و دعا کے بعد دریافت فرمایا: 
’’اَمِیْرٌ اَوْ مَاْمُوْرٌ‘‘ یعنی یہ بات واضح کردیجئے کہ رسول اللہ  نے آپ کو امیر بنا کر بھیجا ہے یا مامور بنا کر؟ کسی اسلامی (۱) صحیح بخاری، کتاب الایمان ، باب فاِنْتابواواقامواالصلوۃ… جماعت میں کسی بھی فرد کے لیے دو ہی صورتیں ممکن ہیں‘ یا تو وہ خود صاحب امر یعنی امیر ہوگا‘ یا پھر کسی امیر کے تابع (مامور) ہوگا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں فوراً کہا: مَاْمُوْرٌ یعنی میں امیر بن کر نہیں آیا‘ میں مامور ہی ہوں‘ اس قافلۂ حج کے امیر آپ ہی ہیں. البتہ رسول اللہ  نے میرے ذمہ یہ کام سپرد کیا ہے کہ آپؓ کی روانگی کے بعد جو چھ آیات نازل ہوئی ہیں ان کا اعلانِ عام حج کے مجمع میں رسول اللہ  کے نمائندہ کی حیثیت سے کردوں. 

پوچھا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی بحیثیت ِ امیر قافلہ حضور  کی جانب سے اعلان فرماسکتے تھے تو یہ ذمہ داری خصوصیت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیوں کی گئی؟ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں دستور تھا کہ کوئی اہم اور خاص اعلان کسی قبیلہ کے سردار کی عدم موجودگی میں اس کا کوئی قریب ترین عزیز ہی کیا کرتا تھا جو اسی قبیلہ سے تعلق بھی رکھتا ہو. اِسی صورت میں اس اعلان کی اہمیت مسلّم ہوتی تھی. اگرچہ رشتہ داری کے اعتبار سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور کے خسر تھے‘ لیکن آپؓ بنو ہاشم میں سے نہیں تھے جبکہ ابھی تک قبائلی نظام بڑی حد تک باقی 
(Intact) تھا. حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آپؐ کے قریب ترین عزیز بھی تھے اور قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے‘ لہذا یہ ذمہ داری اُن کو سونپی گئی. 

انقلابِ محمدی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے 
Mopping up Operation کے اِس مرحلے میں ہر نوع کی مزاحمت و رکاوٹ (Resistance) ختم کرکے اور آخری وارننگ دے کر جزیرۂ نمائے عرب کی حد تک اسلامی انقلاب کی تکمیل کردی گئی. اس بات کا اشارہ سورۃ المائدہ میں بھی ملتا ہے‘ جہاں فرمایا گیا:

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (المائدہ:۳
’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے.‘‘

سورۃ المائدہ کی یہ آیت نہایت اہم‘ عظیم اور مہتم بالشان مطالب و مفاہیم کی حامل ہے. یہودی بڑی حسرت کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ اگر اس مفہوم کی کوئی آیت ہمیں عطا ہو جاتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو اپنی سالانہ عید کے طور پر مناتے. اس آیت میں تکمیل دین کا اعلان ہے. یعنی نوعِ انسانی کو ایک ایسا مستقل اور بھرپور نظامِ زندگی عطا کردیا گیا ہے کہ جس میں 
قیامت تک کے لیے بنی نوعِ انسان کے جملہ انفرادی و اجتماعی گوشوں سے متعلق نہایت معتدل تفصیلی یا اصولی ہدایات موجود ہیں. پھر اسی آیت میں اتمامِ نعمت کا اعلان بھی ہے. یعنی نہ صرف یہ کہ دین مکمل ہوگیا بلکہ نعمت کی تکمیل بھی ہوگئی. اور نعمت سے یہاں مراد سلسلۂ وحی اور نبوت و رسالت ہے. نبوت و رسالت کا بنیادی مقصد لوگوں تک اللہ کے دین کو پہنچانا اور اپنے قول و فعل سے لوگوں پر حجت قائم کرنا ہے. رسول اللہ  نے بنفسِ نفیس یہ کام کرکے دکھایا اور جزیرہ نمائے عرب کی حد تک دین کو بالفعل غالب فرماکر گویا اتمامِ حجت کا حق ادا کردیا. اور اس طرح سلسلۂ نبوت و رسالت بھی اپنے کمال کو پہنچ گیا. اب چونکہ اللہ کا آخری اور مکمل پیغام بنی نوعِ انسان تک پہنچ گیا تھا اور اس آخری وحی کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ نے لے لیا تھا اور دوسری جانب حضور کی ذات میں سلسلۂ رسالت بھی اپنے کمال کو پہنچ چکا تھا اور اس میں مزید کسی اضافے (improvement) کی گنجائش نہیں تھی‘ لہذا سلسلۂ وحی اور نبوت و رسالت کو اب ہمیشہ کے لیے منقطع کردیا گیا اس پہلو سے یہ آیت اتمام و اختتامِ نبوت و رسالت کی بھی دلیل ہے. 

بیرون عرب دعوت اسلام اور سلاطین کا رد عمل

۷ھ کے اوائل ہی میں رسول اللہ  نے اپنی دعوت کے بین الاقوامی مرحلے کا آغاز فرمایا. آپؐ اپنے دعوتی و تبلیغی نامہ ہائے مبارک دے کر چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قیصر روم‘ کسریٰ ایران‘ عزیزِ مصر‘ شاہِ حبشہ اور ان رؤسائے عرب کی طرف بھیجا جو جزیرہ نمائے عرب کی سرحدوں پر آباد تھے اور جنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا. ان میں سے بعض قبائل قیصر روم کے اور بعض کسریٰ ایران کے باج گزار تھے. سیرت کی تمام مستند کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ رسول اللہ  نے اپنے نامہ ہائے مبارک کی ترسیل سے قبل مسجد نبویؐ میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا. اس خطبہ میں حضور نے اسی حقیقت کو بیان کیا کہ میری بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے. مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام جہان والوں کے لیے رحمت اور رسول بنا کر بھیجا ہے‘ بفحوائے آیت قرآنی: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ (الانبیاء) میں نے اب تک دعوت تمہیں پیش کی ہے. اب اے مسلمانو! تمہارے ذمہ ہے کہ تم اس دعوت اور پیغام کو لے کر تمام اطراف و اکناف عالم میں پھیل جاؤ اور اللہ کی توحید کو عام کرو. گویا نبی اکرم  نے اپنی دعوت کے بین الاقوامی مرحلہ کا افتتاح اس خطبہ کے ذریعہ سے فرمایا. 

خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد رسول اللہ  نے ملوک و سلاطین کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خطوط تحریر کرائے اور یہ نامہ ہائے مبارک اپنے مختلف اصحاب کے ہاتھ آس پاس کے علاقوں کے حکمرانوں اور سرداروں کو ارسال فرمائے. قیصر روم کے دربار میں حضرت دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نامۂ مبارک دے کر بھیجے گئے. حضرت عبد اللہ بن حذیفہ سہمی رضی اللہ عنہ کو خسرو پرویز کسریٰ ایران کی طرف بھیجا گیا.حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ عزیز مصر کی طرف بھیجے گئے. حضرت عمرو بن اُمیہ رضی اللہ عنہ کو شاہِ حبش نجاشی کی طرف بھیجا. حضرت سلیط بن عمر بن شمس رضی اللہ عنہ رؤسائے یمامہ کی طرف بھیجے گئے. یمامہ جزیرہ نمائے عرب ہی کا شمال مشرقی علاقہ ہے. آج کل یہ علاقہ نجد میں شامل ہے. حضرت شجاع بن وہب الاسدی رضی اللہ عنہ حدودِ شام میں حارث غسانی کے پاس بھیجے گئے. شام اُس وقت سلطنت روما کے زیرِ حکومت تھا اور وہاں قیصر کی طرف سے غسانی خاندان حکمران تھا. ان کے علاوہ بعض دیگر رؤساء و سرداران عرب کو بھی حضور نے نامۂ ہائے مبارک ارسال فرمائے. اُن میں منذر بن ساوی (حاکم بحرین)‘ ہوذہ بن علی (حاکم یمامہ)‘ جیفر (شاہ عمان)‘ حارث بن ابی شمر غسانی (حاکم دمشق) وغیرہ شامل ہیں. ان نامہ ہائے مبارک کے نتیجہ میں سلاطین کی جانب سے مختلف رد عمل سامنے آئے. کوئی تو اِن کے جواب میں ایمان لے آیا تو کسی نے کفر کیا‘ لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ کفر و انکار کی روش اپنانے والوں کی توجہ بھی اسلام کی طرف مبذول ہوگئی.

فلسفۂ انقلاب کے حوالے سے یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ حضور نے یہ خطوط پہلے ہی دن کیوں نہیں بھیجے؟ دراصل ایک انقلابی تحریک اور ایک تبلیغی تحریک میں بڑا فرق ہوتا ہے. تبلیغی تحریک پہلے دن سے ہی زمین پر پھیلتی ہے‘ بالکل اُسی طرح جیسے خربوزے کی بیل زمین پر پھیلتی چلی جاتی ہے‘ اوپر نہیں اُٹھتی. اُٹھنا اس کی فطرت میں شامل ہی نہیں ہے. اس کے برعکس انقلابی تحریک اوپر اُٹھتی ہے. یہ آم کے درخت کی طرح ہوتی ہے. آم کے درخت پر دو پتیاں لگیں گی تواوپر کی طرف رُخ ہوگا. یہ درخت اپنے بل پر کھڑا ہوتا ہے اور اوپر جاکر پھیلتا ہے. یہ سایہ بھی دیتا ہے اور پھل بھی دیتا ہے. حضور نے ۱۰ برس تک مکے سے باہر قدم نہیں نکالا. وہیں کام کیا. مبلغین کا کوئی وفد باہر نہیں بھیجا. کسی کو کوئی خط نہیں لکھا. مدینہ میں آنے کے بعد بھی آپؐ نے عرب کے اندر کوئی تبلیغی جماعت نہیں بھیجی. ہاں جب آپؐ کی بات پھیل 
گئی اور یہ تقاضا آنے لگا کہ آپؐ اپنا کوئی آدمی بھیجئے جو ہمیں بتائے کہ آپؐ کا دین کیا ہے‘ تب آپؐ اصحاب صفہ میں سے کسی کو بھیجتے تھے. دیکھئے‘ ایک مشنری ورک ہے‘ جیسے عیسائی مشنری کام کرتے ہیں. یہ کام تبلیغی انداز میں ہوتا ہے اور پھیلتا چلا جاتا ہے. اس کے برعکس انقلابی تحریک کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ یہ اوپر اُٹھتی ہے. یہ پہلے ایک خطے میں انقلاب برپا کرتی ہے اور پھر اس انقلاب کی تصدیر ہوتی ہے. جیسے کمیونسٹوں نے پہلے روس میں انقلاب برپا کیا. پھر یہ مشرقی یورپ میں آگیا. لاطینی امریکہ چلا گیا. یہی چیز حضور کے طریقہ انقلاب میں تھی. جب آپؐ نے عرب میں ایک طرح سے انقلاب کی تکمیل فرمادی تو اب آپؐ نے بیرون عرب دعوتی خطوط بھیجے. 

حضور  نے جن رؤساء عرب کے نام نامہ ہائے مبارک ارسال فرمائے تھے اور جو عرب اور شام کے سرحدی علاقوں میں آباد تھے‘ ان میں غسان کا قبیلہ تعداد میں بھی بڑا تھا اور کافی طاقتور بھی تھا. اس قبیلہ کے لوگ اگرچہ عرب تھے‘ لیکن ایک مدت سے عیسائی تھے. یہ قبیلہ قیصر روم کے ماتحت ا ور اس کا باج گزار تھا. اس وقت قبیلہ کا رئیس و حکمران شُرَحْبِیل بن عمرو نامی شخص تھا. اس کے پاس حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ بطورِ قاصد حضور  کا نامہ مبارک لے کر گئے تھے. اس بدبخت نے حضور کے قاصد کو شہید کردیا. حضور نے انؓ کے خون کے قصاص کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کرکے جمادی الاولیٰ۸ھ میں شام کی طرف بھیجا. اس لشکر کا سپہ سالار حضور نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور پہلے ہی سے معین کردیا کہ اگر وہ شہید ہوجائیں تو حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سپہ سالار ہوں گے. اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو پھر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سپہ سالار ہوں گے.

اِدھر مدینہ میں مسلمانوں کا لشکر ترتیب پارہا تھا اور اُدھر جاسوسوں نے شُرَحبِیْل کو خبر کردی. چنانچہ شُرحبیل نے اس لشکر کا مقابلہ کے لیے قریباً ایک لاکھ کی فوج تیار کی‘ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ معاملہ قصاص اور انتقام کا ہے‘ لہذا جنگ ضرور ہوگی. پھر خود قیصر روم (ہرقل) ایک بہت بڑی فوج لے کر غسانیوں کے دارالحکومت بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر آکر بیٹھ گیا‘ تاکہ اگرغسانی شکست کھائیں تو وہ ان کی مدد کے لیے اپنی فوج لے کر پہنچ جائے. اہل ایمان کے لشکر کو جب غسانیوں کی تیاری اور اس کی پشت پر ہرقل کی فوج کی موجودگی کا علم ہوا تو مشورہ ہوا کہ ان حالات میں کیا طرزِعمل اختیار کیا جائے. کہاں صرف تین ہزار اور کہاں ایک لاکھ! یہ 
ایک اور تینتیس کی نسبت تھی. مشورہ ہوا کہ آیا اندریں حالات مقابلہ کا خطرہ (risk) مول لینا چاہیے یا حضور کو اطلاع دی جائے اور توقف کرکے آپؐ کے حکم کا انتظار کیا جائے. امیر لشکر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہی تھی کہ ہمیں سردست مقابلہ نہیں کرنا چاہیے اور حضور کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے. لیکن حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ مقابلہ کیا جائے. چنانچہ وہ اُٹھے اور انہوں نے تقریر کی کہ مسلمانو! ہم دنیا کے طالب ہوکر نہیں نکلے‘ فتح اور شکست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘ ہم تو شہادت کے متمنی ہیں‘ اللہ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے تو ہم تاخیر کیوں کریں؟ اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ فیصلہ ہوگیا کہ مقابلہ کیا جائے گا چنانچہ تصادم ہوگیا. اب کہاں تین ہزار کہاں ایک لاکھ! لیکن جوشِ ایمانی اور شوقِ شہادت سے سرشار یہ مختصر سا لشکر ایک لاکھ کی فوج پر حملہ آور ہوا. حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو ان کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عَلَم سنبھالا اور لشکر ان کی قیادت میں آیا تو گھوڑے سے اتر کر پہلے خود اپنے گھوڑے کی ٹانگوں پر تلوار ماری اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں‘ تاکہ گھوڑے پر بیٹھ کر فرار ہونے کا خیال بھی دل میں نہ آئے. پھر نہایت بے جگری سے دشمنوں کی فوج پر ٹوٹ پڑے. ایک ہاتھ قلم ہوا تو دوسرے ہاتھ میں عَلَم تھام لیا. وہ بھی قلم ہوا تو باقی ماندہ بازؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا‘ تاکہ عَلم ان کے جیتے جی زمین پر گرنے نہ پائے. یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا. حضرت جعفر رضی اللہ عنہ زخموں سے چور چور ہوکر زمین پر گرے اور جام شہادت نوش کرگئے.

اُدھر رسول اللہ  نے خواب دیکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتایا کہ جعفر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے کٹے ہوئے دو بازوؤں کی جگہ دو پر عطا فرمادیئے ہیں‘ جن سے وہ جنت میں اُڑتے پھر رہے ہیں. اسی وقت سے آپ کا لقب ’’طیار‘‘ قرار پایا اور وہ جعفر طیار کے نام سے موسوم ہوئے. ان کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے. جناب رسول اللہ  نے ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یکے بعد دیگرے سپہ سالار نامزد کیا تھا‘ لیکن مزید کوئی ہدایت نہیں دی تھی. چنانچہ جب وہ تینوں شہید ہوگئے تو اب مسلمانوں کے لشکر میں سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر کمان سنبھالی اور نہایت بہادری اور بے جگری سے لڑے. صحیح بخاری میں ہے کہ اس جنگ میں ان کے ہاتھ سے آٹھ تلواریں ٹوٹ ٹوٹ کر گریں. لیکن ایک لاکھ سے تین ہزار کا مقابلہ تھا. اس نازک صورت حال سے خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے 
حکمت عملی تبدیل کی کہ ایک جنگی چال کے ذریعے رومیوں کو مرعوب کرکے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹالیا کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہوئی. 

غزوۂ تبوک :اہل ایمان کا سخت ترین امتحان

جنگ موتہ کے معرکے نے غسانیوں اور رومیوں کو ہلاکر رکھ دیا اور ان کو خوف لاحق ہوگیا کہ مسلمان چین سے بیٹھنے والے نہیں ہیں. وہ یقینا دوبارہ حملہ کریں گے. چنانچہ ایک طرف غسانیوں نے فوجی تیاریاں شروع کردیں‘ دوسری طرف انہوں نے قیصر روم کو لکھا کہ اس اُبھرتی ہوئی طاقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے‘ امسال پورا عرب قحط میں مبتلا ہے‘ لہذا یہ بہترین موقع ہے کہ مسلمانوں کو کچل دیا جائے. 

نبی اکرم  کو بھی یہ خبریں برابر مل رہی تھیں. چنانچہ آپؐ نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا. یہ پہلا موقع تھا کہ حضور کی طرف سے نفیر عام ہوئی. یعنی ہر مسلمان جس کو کوئی عذر شرعی لاحق نہ ہو‘ اس کا اس غزوہ کے لیے نکلنا اور فوج میں شامل ہونا لازم قرار دے دیا گیا. اس سے قبل یہ ہوتا تھا کہ جب بھی کہیں کوئی مہم بھیجنی ہوتی تھی‘ نبی اکرم  مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع فرماتے اور مہم کے لیے مطلوبہ تعداد کے مطابق یا خود انتخاب فرماتے یا اُن اصحاب کو شامل فرما لیتے جو خود کو اس مہم کے لیے پیش کرتے. لیکن اس مرتبہ صورتحال مختلف تھی. لہذا نفیر عام ہوئی. جس کے نتیجہ میں تیس ہزار کی فوج تیار ہوگئی اور آپؐ اس لشکر کو لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے. 

غزوۂ تبوک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے نہایت سخت امتحان کا موقع تھا. اس لیے کہ اب ٹکراؤ وقت کی دو عظیم ترین طاقتوں میں سے ایک طاقت یعنی سلطنت روما سے درپیش تھا. اب بات عربوں کی باہمی جنگ کی نہیں تھی جہاں ایک اور تین چار یا ایک اور دس یا بیس کی نسبت ہو. سلطنت ِ روما کے پاس لاکھوں کی تعداد میں ہروقت باقاعدہ فوجیں تیار رہتی تھیں‘ جو اُس دور کے اعتبار سے اعلیٰ ترین ہتھیاروں سے لیس تھیں. غسانیوں نے لاکھوں کا لشکر تیار کررکھا تھا‘ جس کی پشت پر خود ہرقل قیصر روم اپنی کثیر فوج کے ساتھ شام میں موجود تھا اور وہ کسی طرح بھی اپنے ان مقبوضات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا تھا. ایک طرف یہ صورتحال تھی‘ دوسری طرف عالم یہ تھا کہ رسول اللہ  نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتنا سخت امتحان لیا کہ ہر 
مسلمان کا جنگ کے لیے نکلنا لازم قرار دیا‘ اِلّا یہ کہ وہ ضعیف یا بیمار ہو. اِس پر مستزاد قحط کا عالم اور شدید گرمی کا موسم تھا جس کی بنا پر لوگوں پر ویسے بھی گھر سے نکلنا شاق گزرتا تھا. ان حالات میں طویل سفر گویا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف تھا. یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر منافقین کا پردہ چاک ہوگیا. وہ خود بھی جنگ کے لیے نکلنے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے کہ لَا تَنۡفِرُوۡا فِی الۡحَرِّ ’’گرمی میں نہ نکلو‘‘. پھر یہ بات بھی تھی کہ کھجوروں کی فصل تیار تھی اور یہ اندیشہ لاحق تھا کہ اگر اب چلے گئے تو یہ کھجوریں درختوں ہی پر گل سڑ کر ختم ہوجائیں گی. انہیں کون اتارے گا. پہلے ہی کھانے کے لالے پڑے ہیں‘ یہ فصل بھی اگر برباد ہوگئی تو پھر کیا ہوگا؟ اِن سب پر مستزاد یہ کہ طویل ترین سفر اور سلطنت روما سے ٹکراؤ کامرحلہ درپیش تھا‘ لہذا سازو سامان بھی کافی درکار تھا. چنانچہ نبی اکرم  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ترغیب دے رہے تھے کہ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مالی انفاق بھی کرو. 

نبی اکرم  کی اس ترغیب کے نتیجہ میں پرستارانِ حق نے سازوسامان کی فراہمی میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا. جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آسودہ حال تھے اُنہوں نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں. یہی وہ موقع ہے جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا نصف سازو سامان اور اثاثہ جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سارے کا سارا اثاثہ نذر کردیا اور گھر میں جھاڑو پھیر دی. غریب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محنت مزدوری کرکے جو کچھ کمایا‘ لاکر حاضر کردیا. ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے رات بھر ایک باغ میں پانی سینچا اور اس کے معاوضہ میں انہیں جو کھجوریں ملیں وہ لاکر خدمت ِ اقدس میں پیش کردیں. عورتوں نے اپنے زیور اُتار کر دے دیئے. الغرض تمام اہل ایمان میں جوش جہاد کی لہر دوڑ گئی. 

یہ نفیر عام اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب منافقوں کے لیے کسوٹی بن گئی. اس موقع پر پیچھے رہ جانے اور انفاق سے ہاتھ روکنے کے معنی یہ تھے کہ ایسے شخص کا اسلام کے ساتھ تعلق مشتبہ ہوجاتا. چنانچہ منافقین کے لیے یہ موقع ان کے نفاق کا پردہ چاک کرنے کا سبب بن گیا. دوسری طرف بعض ایسے اہل ایمان بھی تھے جو سواریوں کی کمی اور سامان کی قلت کی وجہ سے باوجود شدید خواہش کے تبوک کے سفر پر جانے سے معذور تھے. وہ حضور کی خدمت میں رو رو کر کہتے کہ اگر آپؐ ہمیں بھی لے چلیں تو ہماری جانیں قربان ہونے کے لیے حاضر ہیں. ان مخلصین کی بے تابیوں کو دیکھ کر حضور کا دل بھر آتا تھا. 
رجب۹ ہجری میں نبی اکرم  نے تیس ہزار مجاہدین کے ساتھ مدینہ سے شام کی طرف کوچ فرمایا اور تبوک کے مقام پر قیام فرمایا‘ جو شام اور جزیرہ نمائے عرب کا سرحدی مقام ہے. اس سفر میں دس ہزار گھڑ سوار آپؐ کے ہمراہ تھے. اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے. دوسری جانب غسانیوں نے لاکھوں کی فوج تیار کررکھی تھی اور قیصر نے چالیس ہزار رومی سپاہ ان کی مدد کے لیے بھیج رکھی تھی. اس کے علاوہ وہ خود بھی ایک لشکر جرار کے ساتھ غسانیوں کی مدد کے لیے حمص میں موجود تھا. 

جب قیصر کو یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا جو لشکرمدینہ سے آرہا ہے اور اس کی قیادت خود جناب محمد رسول اللہ  فرمارہے ہیں تو اس نے غسانیوں اور رومی فوجوں کو حکم بھیجا کہ سرحد سے تمام فوجیں واپس چلی آئیں. اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ حضور اللہ کے رسولؐ ہیں اور یہ کہ اللہ کے رسول سے مقابلے کا نتیجہ شرمناک شکست کے علاوہ اور کچھ نہیں نکل سکتا. پھر جنگ موتہ میں ایک جانب تین ہزار اوردوسری جانب ایک لاکھ فوج کے مقابلہ کی جو کیفیت اس کے علم میں تھی‘ اس کے بعد اس کی ہمت نہ پڑی کہ وہ تیس ہزار فدائین کے اس لشکر سے مقابلہ کرے جس کی کمان خود نبی اکرم  فرمارہے تھے. حالانکہ اُس وقت اس کے پاس غسانیوں اور رومیوں کی دو لاکھ سے بھی زیادہ فوج موجود تھی. چنانچہ وہ طرح دے گیا اور اس نے سرحد سے تمام فوجیں واپس ہٹا کر مسلح تصادم کا ہر امکان روک دیا. 

نبی اکرم  نے اس مرحلہ پر قیصر کے اعراض اور پسپائی کو کافی سمجھا اور از خود تبوک سے آگے بڑھ کر شام کی سرحد میں داخل ہونے کی بجائے اس بات کو ترجیح دی کہ اس طرح لشکر اسلام کو جو اخلاقی اور نفسیاتی فتح حاصل ہوئی تھی‘ اس سے زیادہ سے زیادہ سیاسی اور جنگی فوائد حاصل کیے جائیں. حضور وہاں بیس دن تک مقیم رہے‘ تاکہ اگر قیصر مقابلہ میں آتا ہے تو آئے اس عرصہ کے دوران آپؐ نے سرحدی قبائل کے رئیسوں اور سرداروں سے معاہدے کیے اور اس طرح اس علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط بنالی. گویا ہجرت کے بعد غزوۂ بدر سے قبل حضور نے قریش کے خلاف جو راست اقدام 
(active resistance) کیا اور قریش کی سیاسی ناکہ بندی (political isolation) کی‘ وہی کام حضور  نے تبوک کے بیس روزہ قیام کے دوران انجام دیا. اس کے بعد آپؐ مدینہ واپس تشریف لے آئے. 
۱۰ہجری میں نبی اکرم  نے فریضہ حج ادا فرمایا. اس موقع پر آپؐ نے سوا لاکھ صحابہؓ کے 
مجمع میں یہ گواہی لے لی کہ میں نے اللہ کا دین تم تک پہنچا دیا یا نہیں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تین مرتبہ یہ اقرار و اعلان کیا کہ آپؐ نے حق تبلیغ‘ حق نصیحت اور حق امانت ادا کردیا. اِسی موقع پر آپؐ نے اپنا مشن اُمت کے حوالے کیا اور فرمایا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الغَائِبَ ’’جو یہاںموجود ہیں وہ (اِس دین کو) اُن لوگو ں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں.‘‘ آپؐ کے اِس ارشاد گرامی میں یہ بات ازخود مضمر ہے کہ میں نے جزیرۂ نما عرب کی حد تک اسلام کو غالب کردیا. اب اسلامی انقلاب کی عالمی سطح پر تکمیل تمہاری ذمہ داری ہے. (۱)

الغرض یہ ہیں سیرت کے وہ اہم واقعات (یعنی سلاطین و رؤساء کو نامہ ہائے مبارکہ کی ترسیل‘ جنگ موتہ اور غزوۂ تبوک) جن سے انقلاب محمدیؐ کی بین الاقوامی تصدیر (export) کے کام کا آغاز ہوا. 

قیام خلافت کے ضمن میں غور طلب سوال!

جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر اب اطراف و اکنافِ عالم میں حضور کی انقلابی دعوت پہنچانے اور توحید کا عَلَم کرۂ ارضی پر بلند کرنے کا جو کام اُمت کے سپرد تھا‘ اُس کا راستہ حضور نے بنفس نفیس کھول دیا. یہی وجہ ہے کہ جب آپؐ کا انتقال ہوگیا اس وقت جیش اسامہ تیار کھڑا تھا. اس کے بعد کیا ہوا؟ خلافت راشدہ کا دور آیا‘ تو اللہ کا یہ دین اس قدر پھیلا کہ دریائے جیحوں سے لے کرatlantic ocean تک پہنچ گیا. مگر پھرعبداللہ بن سبا یہودی نے ایک بڑا فتنہ برپا کیا تھا‘ جس کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہیدہوئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سارا دور خلافت خانہ جنگی میں گزر گیا. ایک لاکھ مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں اور تیروں سے ختم ہوگئے. اِس خوفناک فتنہ کے نتیجے میں فتوحات کا وہ سلسلہ ٹوٹ گیا اور زوال کا آغاز ہوگیا. اگرچہ مسلمانوں کا عروج تو باقی رہا‘ مگر خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد سے اسلام کا بتدریج زوال شروع ہوگیا. یہ زوال اپنی انتہا کو اب پہنچاہے‘ جبکہ پوری دنیا میں زمین کے ایک انچ پر بھی اللہ کا دین قائم نہیں ہے. اس وقت دنیا میں مسلمان۵۶ء۱بلین یعنی ایک ارب ۵۶کروڑ ہیں. اور وہ ’’مذہب‘‘ اسلام کے ساتھ وابستہ بھی ہیں. چنانچہ ہر سال تیس تیس لاکھ مسلمان حج کرتے ہیں. رمضان میں تیس تیس لاکھ عمرے ہوتے ہیں. مگر دین نام کی شے کہیں (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘باب الخطبۃ ایام منیٰ . موجود نہیں. ایک انچ زمین پر بھی ہم نے اسلام قائم نہیں کیا. یہ کیا ہے؟ یہ اسلام کا زوال ہے. 

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو اس سے پہلے مسلمانوں پر دو عروج اور دو ہی زوال کے ادوار آئے ہیں. مسلمانوں پر پہلا دور عروج عربوں کے زیر قیادت آیا‘ جب سلطنت عباسیہ قائم ہوئی. یہ دنیا کی عظیم ترین سلطنت تھی‘ لیکن یہ خلافت نہیں تھی‘ ملوکیت تھی. پھر ان کا زوال ہوا ہے. مسلمانوں کی پٹائی پہلے صلیبیوں کے ہاتھوں‘ اور پھر تاتاریوں کے ہاتھوں ہوئی. ۸۵ لاکھ مسلمان تاتاریوں کے ہاتھوں قتل ہوئے. پورا خراسان‘ پورا ایران اور آدھا عراق تہس نہس کردیا گیا. 

مسلمانوں پر دوسرا دور عروج ترکوں کی قیادت میں آیا. ہندوستان میں جنہیں ہم مغل کہتے ہیں‘ یہ ترک ہیں‘ اور ترکان تیموری کہلاتے ہیں. اسی طرح ایران میں ترکان صفوی‘ مڈل ایسٹ میں ترکان سلجوقی اور ترکی میں ترکان عثمانی حکمران رہے. اس دور میں مغربی ایشیا‘ پورا شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ کا بڑا رقبہ عظیم سلطنت عثمانیہ کے زیر نگین آگیا تھا. خلافت چار سو(۴۰۰) سال ان ترکوں کے پاس رہی. پھر ان پر بھی زوال آیا. چنانچہ ۱۹۲۴ء میں خلافت ختم اور سلطنت عثمانیہ تحلیل ہوگئی. اس کے تحت تمام ممالک بکھر گئے‘ بلکہ بلقنائزیشن ہوگئی. بالٹک ریاستیں ساری کی ساری ترکوں کے پاس تھیں. کوسوو‘ چیچنیا‘ بوسنیا اور البانیہ یہ سب علاقے ترکوں کے پاس تھے. یہاں ترکوں کی حکومت تھی. جب زوال آیا تو یہ علاقے بتدریج ترکوں کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے. 

اب ایک مرتبہ پھر تاریخ مسلمانوں کے ایک اور دور عروج کی منتظر ہے. اب مسلمانوں اور اسلام دونوں کی اُٹھان ہونے والی ہے. اُمت پر ایک دفعہ زوال کے بعد عروج آیا اور پھر دوسری مرتبہ زوال کے بعد عروج آیا. پھر زوال آیا. اب ایک مرتبہ پھر اُس پر عروج آنے والا ہے. گویا اب جو اُٹھان ہوگی وہ اُمت کی نشاۃِ ثالثہ اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ہوگی. دین زوال کے بعد آج تک جہاں پہنچا ہے‘ ایک مرتبہ پھر دنیا میں غالب ہوگا. 

خلافت کا دوبارہ اُبھرنا یقینی ہے. اِس کی خبریں صادق المصدوق نے دی ہیں. مگر ہمارے لیے غورطلب سوال یہ ہے کہ خلافت کیسے آئے گی. ہمیں اِس امر سے آگاہ ہونا ضروری ہے. خلافت محنت و مشقت سے آئے گی‘ جدوجہد اور کوشش سے آئے گی‘ جان و مال کی قربانیوں سے آئے گی. یہ کام نہ محض دُعائیں کرنے سے ہوجائے گا‘ نہ محض تبلیغ کرنے سے ہوگا‘ اور نہ ہی محض علمی کام کرنے سے ہوگا. خلافت کے اس طریق سے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. اسی طرح نظام خلافت الیکشن کے ذریعے بھی نہیں آئے گا. اگر ہم اسلامی خلافت کے قیام میں سنجیدہ ہیں تو اس کے لیے ہمیں اُس طریق کار کو اپنانا ہوگاجو نبی اکرم  چھوڑ گئے. ہمیں طریق انقلاب سیرت نبویؐ سے لینا ہوگا. نبویؐ طریق انقلاب کیا ہے‘ اس کی وضاحت ہوچکی ہے. اسی کو میں نے اپنی کتاب ’’منہج انقلاب نبویؐ ‘‘ میں اور بھی تفصیل سے واضح کیا ہے‘ اس کا مطالعہ کیجئے‘ تاکہ معلوم ہوسکے وہ فلسفہ کیا تھا؟ آپؐ نے جنگوں کا آغاز کیوں کیا؟ اِس سے آپؐ کے پیش نظر کیا بات تھی. ہمارے ہاں اسلام کے غلبہ کے لیے جذبے کی کمی نہیں ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ ذہنوں میں طریق کار واضح ہو اور اُس کو اختیار کیا جائے. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کفر عالم اسلام پر یلغار کررہا ہے. وہ اسلام کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آگیا ہے. علامہ اقبال نے کہا تھا ؎ 

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

ہمارا کام یہ ہے کہ اسلام کے غلبہ و اقامت کے لیے کمر کسیں‘ اس مشن کو لے کر آگے سے آگے بڑھیں‘ اور اس کے لیے سیرت محمد سے طریق کار اخذ کریں. یہ بات بھی یاد رکھئے کہ اسلام اُس راستے سے بھی نہیں آئے گا جو اِس وقت مجاہدین نے اپنا رکھا ہے کہ جماعت بنی نہیں‘ تربیت ہوئی نہیں‘ اور فوج کے خلاف لڑرہے ہیں. یہ انقلاب کا صحیح راستہ نہیں. ہاں یہ کہا جائے گا کہ یہ اُس ظلم کا ردعمل ہے جو امریکہ ڈھا رہا ہے. امریکی بے قصور لوگوں کو مارتے ہیں. اُن کے ڈرون حملوں میں آئے روز بے گناہ لوگ مرتے ہیں. امریکہ نے باجوڑ میں ایک مدرسے پر میزائل مارا جس سے۸۰بچے شہید ہوگئے تھے. آخر اُن معصوم اور بے گناہ بچوں کے کوئی چچا‘ بھائی‘ باپ‘ رشتہ دار ہیں یا نہیں. اور کیا ان لوگوں میں غصہ اور انتقام کے شعلے نہیں بھڑکیں گے‘ اور وہ پاکستانی فوج کے خلاف نہیں لڑ یں گے. ظاہر ہے‘ انہوں نے تو فوج کے خلاف لڑنا ہے اور یہی کہنا ہے کہ تم تو امریکہ کے کرائے کے فوجی ہو‘ تم نے امریکہ کی جنگ کو افغانستان سے اُٹھا کر پاکستان میں داخل کرلیا. اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نام نہاد 

دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی جنگ ہے‘ یہ ہماری جنگ ہرگز نہیں ہے. اگر یہ ہماری جنگ ہوتی تو اِس میں ہم دوسروں سے مدد مانگتے‘ جبکہ یہاں صورت یہ ہے کہ مدد ہم نے نہیں‘ امریکہ نے ہم سے مانگی. اگر یہ اُن کی جنگ نہ ہوتی تو بُش اور پاول ہم سے کبھی مدد نہ مانگتے. وہ ہمیں کبھی یہ دھمکی نہ دیتے کہ ".You are with us or against us" بہرحال یہ حالات خطرناک اور بہت ہی خطرناک ہیں. لیکن جب تک سانس تب تک آس. ہمیں تو بہرصورت امید کا دامن تھامے رکھنا ہے. ہمیں غلبۂ اسلام کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینی ہے اور یہ طے کرنا ہے کہ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) ’’بے شک میری نماز‘ میری قربانی‘ میرا جینا مرنا اللہ کے (دین کے) لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.‘‘

اسلام کے غلبہ و اقامت کا یہ عظیم کام اکیلا فرد انجام نہیں دے سکتا‘ یہ کام جماعت سے ہوگا. اس مقصد کے لیے مختلف دینی جماعتیں کام کر رہی ہیں. ہم نے بھی اسی غرض سے تنظیم اسلامی قائم کی ہے. آپ سے اپیل ہے کہ اس کام میں ہمارے دست و بازو بنئے‘ ہمارے ساتھی بنئے. ہمارے ساتھ مل کر کام کیجئے. یہ تنظیم ہمارا 
base ہے. اگر یہ وسیع ہوگا تو پھر ہم اقدام کے مرحلے میں داخل ہوں گے ان شاء اللہ. تنظیم اسلامی یا بالفاظ دیگر اسلامی انقلاب کے لیے اُسی منہج پر عمل پیر ا ہے جو سیرت مطہرہ علی صاحبھاالصلوٰۃ والسلام سے ہمارے سامنے آتا ہے.

دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو سیرت طیبہ کی کرنوں سے منور فرمائے اور دین حق کے غلبہ کی راہ میں اپنا تن من دھن لگانے کی توفیق مرحمت فرمائے. (آمین)

بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم