’’طالب و مطلوب‘‘ کی نسبت کے حوالے سے فلسفہ ٔ دین کی اہم بحث

حقیقت ِ جہاد سے متعلق بعض بنیادی باتوں کی وضاحت پچھلے سبق میں ہو چکی ہے. اب ہمیں مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے چوتھے حصے کے پہلے باقاعدہ درس کا آغاز کرنا ہے جو سورۃ الحج کے آخری رکوع پر مشتمل ہے. اگرچہ ہمارے اس منتخب نصاب کے اس مرحلے پر جو مضمون زیر بحث ہے اس سے اصلاً اس رکوع کی صرف آخری آیت ہی متعلق ہے‘ لیکن یہ پورا رکوع‘ جوچھ آیات پر مشتمل ہے‘ قرآن مجید کے انتہائی جامع مقامات میں سے ہے. اور اس مرحلے پر کوشش یہ ہو گی کہ اختصار کے ساتھ اس پورے رکوع کے مفہوم کو کسی درجے میں بیان کر دیا جائے. اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہمارے اس منتخب نصاب میں اب تک جتنے مضامین آئے ہیں ان کا ایک مختلف انداز اور اسلوب میں اجمالی اعادہ ہوجائے گا.

اس سے پہلے کہ اس رکوع کی آیات کا مطالعہ کیا جائے‘ دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے. ان کا مستحضر رکھنا قرآن حکیم سے ایک ذہنی مناسبت پیدا کرنے کے لیے بہت مفید ہو گا. ایک بات تو اجمالاً پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کی اکثر سورتوں کی ابتدائی اور اختتامی آیات نہایت جامع ہوتی ہیں. یہ ویسے بھی ایک عام قاعدہ ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کسی غزل کا مطلع اور مقطع خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں. یہی معاملہ قصیدے کا ہوتا ہے. اسی طرح کسی خطبے کا اگر آغاز ایسا ہو کہ خطیب اپنے سامعین کی توجہ کو جذب کرے اور اختتام ایسا ہو کہ وہ اپنے سامعین پر کوئی دائمی تأ ثر چھوڑ جائے تو وہ خطبہ کامیاب ہو گا. قرآن مجید اصلاً خطبے کے اسلوب پر نازل ہواہے اور اس کی اکثر سورتوں کی حیثیت خطبوں کی سی ہے. چنانچہ ان کے آغاز میں آنے والی آیات اور جن آیات پر ان سورتوں کا اختتام ہوتا ہے‘ بالعموم بہت جامع‘ بہت مؤثر اور توجہ کو جذب کر لینے والی ہوتی ہیں. اس سے پہلے ہم سورۂ آل عمران کے آخری رکوع کی چند آیات پڑھ چکے ہیں. ان آیات کے حوالے سے بھی یہ حقیقت سامنے آئی تھی‘ لیکن سورۃ الحج کے اس آخری رکوع کے حوالے سے یہ حقیقت مزید مبرہن ہو جائے گی.

اس رکوع کی چھ آیات میں جامعیت کا جو عالم ہے اس کا انداز آپ اس سے کیجیے کہ پہلی چار آیات میں خطاب 
’’یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ‘‘ (اے لوگو! سے ہے. اور ان میں گویا کہ قرآن مجید کی وہ دعوتِ عام ہے جو وہ ہر فرد نوعِ بشر کے سامنے پیش کرتا ہے. ان آیات میں ان اصولوں کا خلاصہ آ گیا ہے جن کو ماننے کی وہ دعوت دیتا ہے. ظاہر بات ہے کہ یہ وہی اصولِ ثلاثہ ہیں : (۱) توحید (۲) معاد (۳) رسالت. اسلام کا پورا قصر انہی تین بنیادوں پر استوار ہوا ہے. لہذا پہلی چار آیات میں ’’یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ‘‘ سے خطاب کا آغاز کر کے ان تینوں باتوں کا ایک ایسا جامع ملخص پیش کر دیا گیا ہے کہ واقعتا قرآن مجید کے اعجاز کے سامنے گردنیں جھک جاتی ہیں.

اس کے بعد کی دو آیات میں خطاب ہے: 
’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا‘‘ کے الفاظ سے. یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے‘ جنہوں نے باتوں کو مان لیا . اب اگلی دعوت جو ہے وہ دعوتِ عمل ہے. گویا کہ پہلی چار آیات میں دعوتِ ایمان دی گئی اور اب ماننے والوں پر جو فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان کے جو تقاضے ہیں انہیں بیان کر دیا گیا. اور بڑی منطقی بات ہے کہ جنہوں نے مانا ہی نہیں ان سے کسی عمل کا مطالبہ نہیں ہے. ان کے سامنے کسی عملی تقاضے کا پیش کیا جانا بے معنی ہے. جنہوں نے خدا کو‘ یا رسول کو‘ یا آخرت کو نہیں مانا‘ اب ان سے کیا کہا جائے کہ نماز پڑھو یا دین کے لیے محنت اور جدوجہد کرو. یہ سارے تقاضے دعوتِ عمل کے ہیں. یہاں ان کو دو آیات میں سمولیا گیا. اس پہلو سے جب آپ اس پر مزید غور فرمائیں گے تو یہ حقیقت مزید واضح ہو کر سامنے آئے گی کہ یہ مقام اس اعتبار سے قرآن مجید کا جامع ترین مقام ہے.

دوسرے یہ کہ اگرچہ یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ نبی اکرم کا اصل معجزہ قرآن مجید ہے‘ اور ’’وجوہِ اعجاز القرآن‘‘ پر بھی بہت بڑی بڑی محنتیں ہوئی ہیں‘ ان موضوع پر بڑی ضخیم تصانیف موجود ہیں‘ اور میرے نزدیک اعجازِ قرآن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وجوہِ اعجازِ قرآن کا احاطہ بھی ناممکن ہے. یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا احاطہ کیا جائے کہ قرآن کن کن اعتبارات سے معجزہ ہے. لیکن یہاں ایک خاص پہلو کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے. قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو آج سے چودہ سو برس قبل نازل ہوئی . اس کے اوّلین مخاطب ایک خاص قوم کے افراد اور ایک خاص معاشرہ میں بسنے والے لوگ تھے. ان کے کچھ نظریات و عقائد تھے‘ کچھ مذہبی رسوم تھی‘ اپنے خاص حالات اور معاملات تھے. قرآن حکیم کی گفتگو کے پس منظر میں حالات کے اس تانے بانے کو خاص اہمیت حاصل ہے. اگر قرآن ان سے صرف اصولی باتیں کہتا اور بڑے منطقیانہ اور فلسفیانہ انداز میں اونچی اونچی عقلی باتیں ان کے سامنے رکھتا تو شاید وہ انہیں اپنے سے اتنی زیادہ متعلق معلوم نہ ہوتیں. قرآن جس پس منظر میں اور جن ظروف و احوال میں نازل ہوا ہے اس کا عکس قرآن کے اسلوب میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے. بالکل ایسے محسوس ہوتا ہے کہ قرآن انہی سے مخاطب ہے‘ ساری بات انہی سے ہو رہی ہے. اسی ماحول اور 
environment سے اپنی گفتگو اور تمام دلائل کے لیے بنیاد فراہم کی جا رہی ہے‘ لیکن دوسری طرف یہی کتاب ایک ابدی ہدایت نامہ ہے. چنانچہ بڑے سے بڑے فلسفی‘ بڑے سے بڑے سائنس دان اور بڑے سے بڑے حکیم و دانا انسان کی علمی تشفی‘ اس کی علمی پیاس کی سیری اور اس کی عقل اور ذہن و فکر کی رہنمائی تاقیامِ قیامت اسی کتاب کو کرنی ہے.

اب آپ غور کیجیے کہ یہ کس قدر کٹھن مسئلہ ہے. چودہ سو برس پہلے کے زمانے میں نازل ہونے والی ایک کتاب جو ایک طرف ایک ان پڑھ قوم کو اپنے مخاطبینِ اوّل کی حیثیت سے اس طرح خطاب کرتی ہے کہ وہ قوم بھی یہ محسوس نہ کرے کہ اس کی کوئی بات ہمارے سروں کے اوپر ہی سے گزرتی چلی جا رہی ہے اور ہم سے متعلق نہیں ہے‘ دوسری طرف چودہویں صدی ہجری اور بیسویں صدی عیسوی کے کسی نابغہ فرد کو‘ کسی علامہ اقبال کو اس درجہ 
possess کرتی ہے کہ وہ پکار اٹھتا ہے کہ مجھے اگر کہیں کوئی تشفی میسر آئی ہے‘ میری علمی پیاس کے لیے اگر کوئی تسکین کا سامان میسر آیا ہے تو صرف قرآن مجید میں! یہ قرآن کا عظیم اعجاز ہے کہ وہ بات کرتا ہے تو اس انداز میں کہ جو قوم اس کی اوّلین مخاطب تھی گویا اسی سے بات ہو رہی ہے‘ لیکن اسی کے بین السطور میں اس طرح کی چیزیں موجود ہیں جو بڑے سے بڑے فلسفی اور بڑے سے بڑے فہیم و دانا انسان کی عقلی اور فکری رہنمائی کے لیے اپنے اندر پورا سامان لیے ہوئے ہیں. اس اعتبار سے اس رکوع کے بعض پہلوؤں کی طرف بعد میں توجہ دلائی جائے گی.