یہ تو ہوا اس شرک کا ابطال جو اُس وقت معاشرے میں بالفعل موجود تھا. اب جو ٹکڑا آیا ہے : ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿۷۳﴾ واقعہ یہ ہے کہ یہ حکمت ِ قرآنی کا ایک بہت بڑا خزا نہ ہے. حقیقت یہ ہے کہ ان تین الفاظ کی ترکیب سے قرآن مجید نے نوعِ انسانی کے لیے ایک بہت بڑی بنیادی رہنمائی فراہم کر دی ہے. غور کیجیے کہ وہ ہدایت و رہنمائی کیا ہے. اس سلسلے میں چند باتیں نمبروار اپنے ذہن میں رکھنا مفید رہے گا.

سب سے پہلی بات یہ کہ درحقیقت انسان کہلانے کا مستحق وہی انسان ہے جس کا کوئی نہ کوئی ہدف‘ کوئی نہ کوئی نصب العین‘ کوئی نہ کوئی آدرش‘ کوئی نہ کوئی آئیڈیل ہے. اگر انسان بغیر کسی مقصد اور نصب العین کے زندگی بسر کر رہا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ وہ انسان نما حیوان ہے اور حیوانی سطح پر زندگی بسر کررہا ہے. حیوان کا کوئی مقصدِ زندگی نہیں. زندگی برائے زندگی کا نظریہ انسان کے لیے نہیں ہے‘ یہ صورت بالفعل حیوانات کے لیے ہے. وہ اپنے حیوانی داعیات کے تحت زندہ یں. انسان ان سے مقصد برآری کرتا ہے‘ انہیں اپنے کام میں لاتا ہے‘ لیکن ان کا اپنا کوئی مقصدِ حیات نہیں. انسانوں میں سے بھی جو اس سطح پر زندگی بسرکررہے ہوں وہ قرآن مجید کے الفاظ میں : 
اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ ’’وہ چوپایوں کی مانند ہیں‘ بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘.انسان وہی قرار پائے گا جس کا کوئی مقصد اور نصب العین معین ہو‘ جس کے لیے وہ محنت اور جدوجہد کر رہا ہو.

دوسری بات یہ کہ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ اگر مقصد اور نصب العین اعلیٰ ہے تو اس کے لیے جدوجہد کر کے انسان خود بھی ایک بلند تر اور اعلیٰ شخصیت کی تعمیر کر سکے گا. کسی رفیع الشان اور بلند نصب العین کے لیے جدوجہد کر کے اسے خود بھی ترفع حاصل ہو گا. لیکن اگر مقصد پست ہے‘ آئیڈیل پست ہے تو انسان خود بھی پستی کا مکین رہے گا. اس کی اپنی شخصیت بھی پستی ہی کی جانب مائل رہے گی. اس کی اپنی سیرت و کردار کی کسی اعلیٰ سطح پر تعمیر ممکن نہ ہو گی. یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے کسی اونچی فصیل پر چڑھنے کے لیے آپ کو ایک کمند دے دی جائے تو آپ کو پہلے وہ کمند پھینکنا ہو گی. اس کمند کے پھینکنے کا دار و مدار آپ کی قوتِ بازو پر ہے. آپ اسے جتنا اونچا پھینک سکیں گے اتنا ہی اونچا پھر آپ چڑھ بھی سکیں گے. اگرچہ پھر بھی چڑھنا آپ کو اپنی محنت سے ہو گا‘ لیکن اس کمند کو اونچا پھینک کر آپ نے اپنے اونچا چڑھنے کا امکان پیدا کر لیا. اور اگر کمند ہی کہیں نیچے 
اٹک کر رہ گئی تو ظاہر ہے کہ آپ اگر اس پر چڑھیں گے بھی تو صرف اتنی ہی بلندی تک پہنچ سکیں گے جہاں تک کہ وہ کمند جا سکی. چنانچہ اگر آپ کاآدرش‘ آپ کا نصب العین ارفع و بلند ہے تو آپ خود بھی رفعت اور بلندی تک رسائی حاصل کر سکیں گے اور اگر آدرش اور نصب العین ہی پست ہے تو اس سے ایک پست شخصیت اور پست سیرت و کردار ہی وجود میں آئے گا.

فرض کیجیے کہ ایک شخص نے صرف اپنی ذات ہی کو اپنا مقصود بنا لیا ہے‘ بقول جگر مراد آبادی ؏ ’’اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں!‘‘ وہ اپنے ہی حریمِ ذات کے گرد چکر لگا رہا ہے تو یہ شخص انتہائی خود غرض اور کٹھور دل ہو گا. اس شخص کے اندر سے تمام محاسنِ اخلاق نکلتے چلے جائیں گے. اس سے بلند تر نصب العین ہو گا اس شخص کا جو اپنی قوم کو یا اپنے وطن کو اپنا آئیڈیل بنائے‘ اس کے لیے محنتیں کرے‘ اس کے لیے جدوجہد کرے. ظاہر بات ہے کہ اس نسبتاً بلند تر نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے والا شخص خود بھی نسبتاً ایک بہتر شخصیت کا مالک ہو گا. اس میں اپنی قوم کے لیے ایثار اور قربانی کا مادہ ہو گا. وہ اپنی قوم کو اپنی ذات سے مقدم رکھے گا. اس کے سینے میں ایک وسعت ہو گی اور اس کی سوچ کے اندر بھی ایک وسعت پیدا ہو جائے گی. یہ ایک بلند تر شخصیت ہے جو اس پہلے نصب العین یعنی صرف اپنی ذات یا شخص پرستی یا خود پرستی کے مقابلے میں قوم پرستی یا وطن پرستی کے نصب العین سے وجود میں آئے گی. اس سے بلند تر نصب العین انسان دوستی کا نصب العین ہے. یعنی قوم وطن کے امتیاز کے بغیر انسان کی خدمت‘ انسان سے محبت. یہ یقینا پہلے دو سے اعلیٰ تر اور بلند تر نصب العین ہے. اس کی بنا پر ایک اعلیٰ تر اور عمدہ تر شخصیت وجود میں آئے گی.