فرمایا: مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ؕ ’’انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسے کہ اس کی قدر کا حق تھا‘‘.ایک عجیب نقشہ کھینچا گیا ہے کہ انسان کی یہ کمند ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں الجھ کر کیوں رہ جاتی ہے. اس لیے کہ انسان خدا کے جمال و جلال کا کوئی اندازہ نہ کر پایا جیسا کہ اُسے کرنا چاہیے تھا. اگر وہ اللہ کے حسن و جمال کی کوئی جھلک دیکھ پاتا‘ اس کے مرتبہ کمال کا کہیں کسی انداز میں عُشرِ عشیر ہی کوئی تصور کر پاتا تو یہ دنیا و مافیہا اس کی نگاہوں میں ہیچ ہو گئی ہوتی. وہ نہ صرف یہ کہ ان میں سے کسی کو اپنا مقصود اور آئیڈیل نہ بناتا بلکہ واقعتا اس کا مطلوب ِ حقیقی‘ اس کا مقصودِ اصلی صرف ذاتِ باری تعالیٰ بن جاتی. یہ اگر ہوا ہے تو اس لیے ہوا ہے کہ انسان کی نگاہیں دنیا میں الجھی ہوئی ہیں. علامہ اقبال نے جو مکالمہ لکھا ہے عقاب اور چیونٹی کے درمیان اور اس میں عقاب سے یہ کہلوایا ہے کہ ؎ 

تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں!
میں نُہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں!

اس کے مصدا ق انسان کی توجہات پستی کی طرف ہیں. انسان جو پستی کا مکین ہے اس نے ان پست اشیاء ہی کو اپنا مطلوب و مقصود بنا لیا ہے. اس لیے کہ وہ خدا کے جلال و جمال‘ اس کے کمال‘ اس کے حسن کا کوئی تصور نہ کر سکا.اس نے اللہ کی قدر نہ پہچانی جیسا کہ اس کا حق تھا. اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۷۴﴾ اللہ بذاتہٖ قوی ہے‘ اللہ بذاتہٖ عزیز ہے. وہ القوی ہے اور العزیز ہے.اصل میں اشارہ کیا جا رہا ہے کہ شرک جب بھی ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے فقدان یا اس کی کمی کے باعث ہو گا. اگر اللہ کو پہچان لیا جائے جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے تو شرک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. کون ہے جو گھٹیا کو اعلیٰ کے مقابلے میں قبول کرے گا. چونکہ وہ اعلیٰ اس کے سامنے آیا نہیں‘ اس کا وہ کوئی تصور کر نہیں پایا‘ اُس کی کوئی جھلک اس نے دیکھی نہیں ہے‘ اس لیے وہ عاشق بنا پھرتا ہے اس ادنیٰ کا.اگر کہیں اُس اعلیٰ کی جھلک اُس نے دیکھ لی ہوتی تو یہ دنیا و مافیہا اس کے لیے ہیچ ہو جاتی.

اب آپ ذرا اس کا تجزیہ کیجیے. جاہلیت قدیمہ کا شرک یہ تھا کہ خدا کے تصور اور خدا کی معرفت کی کمی کی وجہ سے انسان نے خدا کو اپنے ذہن کے پیمانوں سے ناپا. اس نے سمجھا کہ خدا ایک بڑا بادشاہ ہے‘ تو بادشاہ کے لیے بھی تو شہزادے شہزادیاں ہونی چاہئیں. بادشاہ کو بھی تو اولاد کی طلب ہوتی ہے کہ کوئی اس کا وارث ہو. لہذا اس کے لیے بیٹے یا بیٹیاں تجویز کر دیے گئے. پھر یہ کہ بڑے سے بڑے بادشاہ کے بھی آخر کچھ اعیانِ مملکت اور نائبین سلطنت ہوتے ہیں‘ اس کی حکومت کا تخت انہی کے بل پر قائم ہوتا ہے. لہذا اللہ کے لیے بھی انہوں نے کچھ نائبینِ سلطنت تجویز کر لیے اور ان کو بھی کچھ اختیارات دے دیے گئے کہ یہ فلاں کا دیوتاہے اور یہ فلاں کی دیوی ہے. یہ آگ کا دیوتا ہے‘ یہ پانی کا دیوتا ہے اور یہ دولت کی دیوی ہے. اس طور سے خدائی اختیارات کی تقسیم کر دیگئی. یا یہ کہ بڑے سے بڑے انسان اور بڑے سے بڑے بادشاہ کے بھی کچھ ایسے مقربین بارگاہ اور مصاحبینِ خاص ہوتے ہیں جن کی بات وہ ٹالا نہیں کرتا. لہذا اللہ کے بھی کچھ ایسے دوست ہیں کہ ان کی بات وہ نہیں ٹال سکتا. اگر وہ سفارش کر دیں تو بس بیڑا پار ہو جائے گا. یہ تصورات ہیں جو انسان نے خود کو اپنے پیمانوں پر ناپ کر قائم کر لیے ؎ 

می تراشد فکرِ ما ہر دم خداوندِ دگر
رست از یک بند تا افتاد در بندِ دگر

وہ جو ایک مکالمہ علامہ اقبال نے ایک بُت تراش اور اس کے تراشے ہوئے بُت کے مابین پیش کیا ہے‘ اس میں بُت یہ کہتا ہے کہ تُو تو مجھے خدا بنانے چلا تھا اور بنایا کیا ہے؟ اپنے دو ہاتھ دیکھے تو میرے بھی دو ہاتھ بنا دیئے. تو نے مجھے اپنی ہی صورت پر‘ اپنی ہی شکل پر‘ ڈھال دیا ہے ؎ 

مرا بر صورتِ خویش آفریدی!
برونِ خویش تن آخر چہ دیدی؟

تو نے اپنے سے باہر بھی کچھ دیکھا؟ تیرے سامنے تو اپنا ہی وجود ہے. تو خدا کو جب انسان اپنے پیمانوں اور اپنے وجود کے مطابق ڈھال کر دیکھتا ہے تو اس کے نتیجے میں شرک کا ایک انبار اور طومار وجود میں آتا ہے.

اس وقت کا شرک بھی درحقیقت خدا کی معرفت کے فقدان کا نتیجہ ہے. خدا پرستی کی بجائے وطن پرستی‘ قوم پرستی‘ خود پرستی‘ مفاد پرستی یہ ساری چیزیں کیوں ہیں؟ اس لیے کہ انسان اپنے خول سے باہر نکل کر اللہ کے حسن و جمال کا کوئی مشاہدہ نہ کر پایا. اگر کہیں انسان اس کی کوئی جھلک دیکھ پاتا تو یہ تمام چیزیں ہیچ ہو جاتیں اور ان میں سے کسی کو اس کے مطلوب و مقصود ہونے کی حیثیت حاصل نہ رہتی اور ’’منزلِ ما کبریاست‘‘ کے مصداق ذاتِ باری تعالیٰ ہی اس کا مطلوب و محبوب اور منتہائے مقصود ہوتی. اب اس کا علاج اگر کوئی ہے تو وہ یہی کہ اللہ کی معرفت کی روشنی کو عام کیا جائے‘ خدا کی پہچان لوگوں میں عام کی جائے. اگر انسان خدا کو پہچان لے اور اللہ کی قدر کسی درجے میں کر سکے جیسا کہ اس کی قدر کا حق ہے ‘ اور اگر اس کی قوتوں‘ اس کی توانائیوں‘ اس کے اختیارات‘ اس کے صفاتِ کمال اور اس کے حسن و جمال کا کوئی ہلکا سا اندازہ بھی کر پائے تو ممکن نہیں ہے کہ پھر وہ اس کے مقابلے میں کسی اور کی طرف متوجہ ہو اور کسی اور کو اپنے قلب کے سنگھاسن پر محبوب و مطلوب کا درجہ دے کر بٹھائے. تو یہ ہے شرک کا اصل سبب اور یہ ہے اس کے سدباب کی واحد کوشش. یہ ہے وہ توحید اور شرک کا فلسفہ کہ جوان دو آیات میں انتہائی جامعیت کے ساتھ سمو دیا گیا ہے.