اب اگلی آیت میں خطاب ان لوگوں سے ہے جو ان حقائق کو مان چکے ہوں‘ ان پر ایمان لاچکے ہوں. چنانچہ آغاز ہو رہا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے الفاظ سے. ’’اے اہل ایمان!‘‘ یعنی اے وہ لوگو جنہوں نے مان لیا توحید کو‘ جنہوں نے تسلیم کر لیا آخرت کو‘ جو ایمان لے آئے رسالت پر‘ آؤ کہ تمہیں بتایا جائے کہ اب تمہیں کیا کرنا ہے! دین تم سے کن باتوں کا مطالبہ کرتا ہے‘ تمہاری دینی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آپ دیکھیں گے کہ اس مقام پر دو آیتوں میں دین کے عملی تقاضوں کو نہایت جامعیت اور اختصار کے ساتھ جمع کر دیا گیا. اور پے بہ پے فعل امر کا استعمال ہے کہ یہ کرو اور یہ کرو اور یہ کرو! یہ ہیں دین کے عملی تقاضے! فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ہُوَ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ ﴿٪۷۸(الحج:۷۷،۷۸)

’’اے اہل ایمان! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے ربّ کی پرستش کرو‘ اور نیک کام کرو‘ تاکہ تم فلاح پاؤ. اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا کہ اس کی راہ میں جہاد کا حق ہے. اس نے تمہیں چن لیا ہے ‘ اور تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی. یہ تمہارے باپ ابراہیم کا طریقہ ہے. اُس نے تمہارا نام رکھا مسلمان‘ اس سے پہلے بھی اور اس میں بھی‘ تاکہ ہوجائیں رسولؐ گواہ تم پر اور ہو جاؤ تم گواہ پوری نوعِ انسانی پر. پس قائم کرو نماز اور ادا کرو زکو ٰۃ اور اللہ سے چمٹ جاؤ! (اللہ کے دامن سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ) وہ تمہارا حامی ہے‘ (مددگار ہے‘ پشت پناہ ہے.) تو کیا ہی اچھا ہے وہ ساتھی اور مددگار اور کیا ہی اچھا ہے وہ پشت پناہ اور حمایتی!‘‘. 

پہلا تقاضا : ارکانِ اسلام کی پابندی

ان دو آیات پر غور کیجیے. پہلی آیت میں چار اوامر وارد ہوئے اور ان میں ایک بڑی خوبصورت معنوی ترتیب نظر آتی ہے. اس حقیقت کو اختصار کے ساتھ سمجھنے کے لیے ایک ایسی سیڑھی کا نقشہ اپنے ذہن میں لایے جس کے چار قدمچے (steps) ہوں. دیکھئے‘ کسی بھی مدعی ایمان سے دین کا پہلا تقاضا یہ ہو گا کہ وہ ارکانِ اسلام کی ‘ شعائرِ دین کی اور فرائض کی پابندی کرے. ان میں اوّلین فریضہ‘ کہ جس کو اسلام اور کفر میں امتیاز قرار دیا گیا ہے اَلْفَرْقُ بَیْنَ الْکُفْرِ وَالْاِسْلَامِ الصَّلَاۃُ نماز ہے. یہ عماد الدین‘ یعنی دین کا ستون ہے.ارکانِ اسلام میں سے رکنِ رَکین یہی نماز ہے. اس آیت میں نماز کے دو ارکان یعنی رکوع اور سجود کے حوالے سے مراد درحقیقت نماز ہے اور یہ نماز گویا نمائندگی ہو گی تمام ارکانِ اسلام کی. اس لیے کہ یہ ان میں سرفہرست ہے. لہذا مطالباتِ دینی کی پہلی سیڑھی مشتمل ہے ارکانِ اسلام کی پابندی پر. 

دوسرا تقاضا : عبادتِ ربّ

اب دوسری سیڑھی کی طرف قدم بڑھاؤ وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ صرف نماز روزہ ہی مطلوب نہیں ہے‘ ربّ کی پرستش‘ اس کی بندگی اور اس کی اطاعتِ کلی پوری زندگی میں درکار ہے. یہ اطاعت بلا چون و چرا ہونی چاہیے اور بلااستثناء بھی! زندگی کو حصوں اور اجزاء میں تقسیم نہ کر دیا گیا ہو کہ ایک حصے میں اس کی اطاعت کی جاتی ہو اور زندگی کے بعض گوشے اس اطاعت سے یکسر خالی ہوں. احکامِ خداوندی کی تفریق نہ ہو جائے کہ کوئی سر آنکھوں پر اور کوئی پاؤں تلے! وہ بندگی اور اطاعتِ کلی مطلوب ہے جو محبت خداوندی کے جذبے سے سرشار ہو کر کی جائے. یہ دوسری سیڑھی ہے مطالباتِ دین کی. اور درحقیقت ارکانِ اسلام سے بھی مطلوب یہ ہے کہ ایک مسلمان کے اندر یہ صلاحیت و استعداد پیدا ہو جائے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اپنے ربّ کی اطاعت کے سانچے میں ڈھال سکے. نماز و روزہ اور زکو ٰۃ و حج سب اسی لیے ہیں کہ انسان پوری زندگی بندگی ٔ رب کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہل بن سکے! یہ دوسرا تقاضا ہوا. 

تیسرا تقاضا : بھلائی کے کام اور خدمتِ خلق

اس سلسلے کی تیسری سیڑھی کا بیان اس آیۂ مبارکہ میں وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ کے الفاظ میں ہوا ہے کہ نیک کام کرو‘ بھلے کام کرو. یہاں ظاہر بات ہے کہ خدمتِ خلق کے کام مراد ہیں کہ انسان کا وجود اپنے ہم نوع افراد کے لیے‘ پوری نوعِ انسانی کے لیے سراپا خیر کا موجب اور سبب بن جائے. اس کے بھی دو درجے ذہن میں رکھئے‘ ایک درجہ وہ ہے جسے آپ خدمتِ خلق کا بنیادی تصور کہہ سکتے ہیں اور جس سے سب لوگ واقف ہیں‘ یعنی یہ کہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے‘ اگر کوئی لباس سے محروم ہے تو اسے کپڑے پہنائے جائیں‘ کوئی بیمار ہے تو اس کی دوا دارو کا اہتمام کر دیا جائے‘ کسی راہ چلتے کو راستہ بتا دیا جائے. اسی طرح یتیموں‘ بیواؤں‘ مسکینوں اور محتاجوں کی خبر گیری اور سرپرستی کا شماربھی خدمتِ خلق کے کاموں میں ہو گا. آیۂ بر میں یہ بحث ہم پڑھ آئے ہیں

وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ