ایمان اور عمل صالح کی حد تک بحث تو سورۃ الحج کی اس ایک آیت میں مکمل ہو گئی جس کا مطالعہ ہم نے ابھی کیا ہے. اور تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے قائم مقام کے طور پر ‘ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘ سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ کے حوالے سے اب اصطلاح آ رہی ہے یہاں جہاد کی.چنانچہ دوسری جو اس رکوع کی آخری آیت ہے‘ پوری کی پوری جہاد ہی کے موضوع پر ہے. فرمایا: وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ 

’’اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا کہ جہاد کا حق ہے‘‘. آپ دیکھیں گے کہ اس رکوع کے پہلے اور دوسرے حصے کے مابین مضامین کے اعتبار سے بڑا گہرا ربط ہے. یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ترتیبِ مضامین کے اعتبار سے ہمارے اس منتخب نصاب میں اب جہاد ہی کا موضوع چل رہا تھا لیکن اس آخری آیت کے مفہوم کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس پورے رکوع کا مضمون سامنے آ جائے.

رکوع کے دونوں حصوں کا تقابل کیجیے! اوپر لفظ آیا تھا : مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ؕ کہ انہوں نے خدا کو نہ پہچانا جیسے کہ پہچاننا چاہیے تھا. وہ اللہ کے مقام و مرتبہ اور اُس کی صفاتِ جمال و کمال کا کوئی اندازہ نہ کر پائے جیسا کہ اس کے اندازے کا حق تھا. وہی اسلوب یہاں آ رہا ہے : وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ. یہ دو چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں: (۱) خدا کی معرفت جیسا کہ اس کا حق ہے ‘ اور (۲) خدا کے لیے جہاد‘ کوشش‘ جدوجہد اور محنت جیسا کہ اس کا حق ہے. پہلی چیز ایمان کا لبِّ لباب اور ایمان کا اصل حاصل ہے. انسان کی نظری و فکری و عملی قوتوں کی معراج ہے اللہ کی معرفت! اور انسان کا قوائے عملیہ کا جو بہترین ہدف اور ان کا بہترین مصرف ہے وہ ہے جہاد فی اللہ‘ یعنی اللہ کے لیے جہاد. درحقیقت ’’ فِی اللّٰہِ ‘‘ سے مراد بھی کم و بیش وہی ہے جو ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے ہے‘ جس پر مفصل گفتگو پچھلے سبق میں ہو چکی ہے. آیت کے الفاظ پر توجہ کو جمایئے! وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ اور محنتیں کرو‘ کوششیں کرو‘ جدوجہد کرو‘ لگاؤ اس راہ میں اپنی جانیں اور اپنے مال اور کھپاؤ اپنی جسمانی قوتیں اور صلاحیتیں اور صرف کرو اپنے اوقات اس طور سے اور اس شان سے کہ جس شان سے اللہ کے لیے محنت کرنے کا حق ہے.

یہاں ذہن میں رکھیے کہ انسان محنتیں کرتا ہے‘ مشقتیں بھی کرتا ہے‘ لیکن یہ مسئلہ کہ اس کی محنت اور مشقت پر کس کا کتنا حق ہے‘ اس کی صحیح تعیین ہی پر دار و مدار ہے اس کے صحیح یا غلط ہونے کا. ہم میں سے اکثر لوگ وہ ہیں جو اپنے آپ کو گویا کہ ہمہ تن کھپا دیتے (invest کر دیتے) ہیں اپنی اولاد پر. بلکہ ہم میں سے اکثر و بیشتر کے معاملے میں یہ بات شاید غلط نہ ہو گی جو ایک صاحب نے بڑے عجیب پیرائے میں ایک زمانے میں مجھ سے کہی تھی کہ میں تو اپنی بیوی بچوں کا ملازم ہوں کپڑے اور روٹی پر! میری ساری محنت صرف ہوتی ہو کمانے پر. اور اس کمائی کا مصرف کیا ہے؟ میرے یہ گھر والے‘ ان کی ضروریات‘ ان کا پیٹ پالنا‘ ان کا تن ڈھانپنا اور بس! یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ اگر تجزیہ کیا جائے تو ننانوے فیصد لوگوں کی سعی و جہد‘ ان کی بھاگ دوڑ‘ ان کی محنت کا اصل حاصل اس کے سوا کچھ نہیں! سوال یہ ہے کہ انسان اگر اپنے اہل و عیال کے لیے محنتیں اور مشقتیں کر رہا ہے تو وہ اہل و عیال آخر اس کو کیا repay کر سکیں گے؟ اس کی اس محنت اور جدوجہد کی کیا قیمت ادا کر سکیں گے؟ اسے اس کا کیا بدلہ دے سکیں گے؟ اکثر و بیشتر تو وہی اولاد انسان کے بڑھاپے کے وقت اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوتی ہے.

یہ الفاظ بھی زبان سے نکلتے ہیں کہ ابا جان! آپ پرانے زمانے کے لوگ ہیں‘ آپ کو کیا معلوم کہ جدید زمانے کے تقاضے کیا ہیں! اس وقت جس طرح کلیجہ اندر سے کٹتا ہے کہ یہ ہیں وہ کہ جن پر ہم نے اپنے آپ کو نچھاور کر دیا تھا‘ لگا دیا تھا اور کھپا دیا تھا! چنانچہ فرمایا: وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ تم سوچو کہ تمہاری محنت و مشقت اور تمہاری سعی و جہد کا اصل حق دار کون ہے؟ کیا وہی نہیں جو تمہارا خالق ہے‘ تمہارا مالک ہے‘ تمہارا پروردگار ہے‘ تمہارا پالن ہار ہے اور تمہارا رازق ہے! اگر واقعتا تم نے اسے پہچان لیا ہے‘ اگر یہ تمہارا اقرار لسانی محض ایک عقیدہ نہیں ہے جو زبان پر ہو‘ بلکہ اس کی حقیقت بھی کسی درجے میں تمہیں حاصل ہو چکی ہے اور تمہارے دل و دماغ اس حقیقت سے منور ہو چکے ہیں تو اس کا تو پھر ایک ہی نتیجہ نکلنا چاہیے‘ وہ یہ کہ تمہاری سعی و جہد کا اوّلین ہدف اور تمہاری قوتوں اور توانائیوں کا اوّلین مصرف اللہ اور اس کے دین کی سربلندی قرار پانا چاہیے. اور تمہاری قوتوں اور صلاحیتوں کا بہتر اور بیشتر حصہ لگنا چاہیے اور کھپنا چاہیے اللہ کے لیے! اسی کا نام جہاد فی اللہ یا جہاد فی سبیل اللہ! اس طور سے جیسا کہ اس کی راہ میں جہاد کا حق ہے. یہ نہ ہو کہ معمولی سی کوشش یا تھوڑی سی محنت کر کے اور ذرا سا ایثار یا تھوڑا سا وقت لگا کر یا کچھ تھوڑا سا کہیں چندہ دے کر انسان اپنے دل کو مطمئن کر بیٹھے کہ میں نے حق ادا کر دیا‘ میں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی‘ اللہ کے لیے جتنا کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا و ہ میں نے کر دیا! یہاں ’’حَقَّ جِہَادِہٖ ‘‘ کے الفاظ بہت اہم ہیں اور ان کے ذریعے اس عمل کو جس شدّ و مد کے ساتھ اور جس وسعت کے ساتھ ہونا چاہیے اور زندگی میں اس کو جس درجے اہمیت‘ جو مقام اور مرتبہ ملنا چاہیے‘ اس کی طرف اشارہ کر دیا گیا. ابھی یہ مضمون جاریرہے گا جہاد فی سبیل اللہ کا ہدفِ اوّلین یعنی شہادت علی الناس درحقیقت اس آخری آیت کا اصل مضمون ہے‘ جس کے پیشِ نظر اس مقام کو منتخب نصاب کے اس حصے میں شامل کیا گیا ہے.