سورۃ الحج کے آخری رکوع کا جزوِ ثانی جو دعوتِ عمل پر مشتمل ہے‘ یا جس میں یوں کہنا چاہیے کہ ایمان کے عملی مقتضیات کا بیان ہوا ہے کہ ایک بندۂ مؤمن سے اس کا دین کیا تقاضا کرتا ہے‘ دو آیات پر مشتمل ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ہُوَ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ ﴿٪۷۸

’’اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور بندگی کرو اپنے ربّ کی اور بھلے کام کرو تاکہ تم فلاح پاؤ. اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسا کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے. اُس نے تمہیں چن لیا ہے اور تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی. قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم کے طریقے پر. اس نے تمہارا نام رکھا مسلمان‘ پہلے بھی اور اس میں بھی‘ تاکہ ہو جائیں رسول ( ) گواہ تم پر اور ہو جاؤ تم گواہ پوری نوعِ انسانی پر. پس قائم کرو نماز اور ادا کرو زکو ٰۃ اور اللہ سے چمٹ جاؤ. وہی ہے تمہارا پشت پناہ. تو کیا ہی اچھا ہے پشت پناہ اور کیا ہی عمدہ ہے مددگار!‘‘

یہ دو آیات ہیں جن میں ایمان کے مقتضیات کو نہایت جامعیت کے ساتھ سمو دیا گیا ہے. پہلی آیت نسبتاً چھوٹی ہے‘ دوسری طویل‘ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ قرآن مجید کی طویل ترین آیات میں سے ہے تو غالباً غلط نہ ہو گا. ان آیات میں‘ جیسا کہ آپ نے نوٹ کیا ہو گا‘ پے بہ پے فعل امر وارد ہوئے ہیں کہ یہ کرو اور یہ کرو اور یہ کرو. حکمت قرآنی کا یہ اصول پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اسلام کی دعوت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‘ ایک ہے دعوتِ ایمان جو عام ہے پوری نوعِ انسانی کے لیے‘ ہر فردِ نوعِ بشر کے لیے اور دوسری ہے دعوتِ عمل. ظاہر بات ہے کہ اس کے مخاطب صرف وہی ہو سکتے ہیں کہ جو ایمان کا اقرار کر چکے ہوں‘ جو دعویٰ کرتے ہوں اللہ کو ماننے کا‘ آخرت کو ماننے کا اور نبوت و رسالت کو ماننے کا. ایسے ہی لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ اب ایمان کے ان عملی تقاضوں کو پورا کرو! اس ضمن میں یہاں جو چند الفاظ وارد ہوئے ہیں اگر نگاہ کو صرف ان کے ظاہر تک محدود نہ رکھا جائے‘ بلکہ کسی قدر گہرائی میں اتر کر غور کیا جائے‘ تو مطالباتِ دین اور دین کے عملی تقاضوں کے ضمن میں ایک بڑا عمدہ نقشہ سامنے آتا ہے جسے اگر ایک سیڑھی سے مشابہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا. جیسے ایک منبر کے قدمچے (steps) ہوتے ہیں جن پر قدم رکھ کر انسان درجہ بدرجہ اوپر چڑھتا ہے‘ اسی طرح مقتضیاتِ دین یا عملی کے عملی مطالبات کا تدریجاً اور سلسلہ وار بیان ان دو آیتوں میں آیا ہے.