فرمایا: ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا ’’رکوع کرو اور سجدہ کرو!‘‘ قرآن مجید میں اکثر و بیشتر آپ دیکھیں گے کہ نماز کے مختلف ارکان کا ذکر ہوتا ہے‘ لیکن ان سے نماز مراد لی جاتی ہے. جیسے سورۃ المزمل میں فرمایا گیا: قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ ’’کھڑے رہا کرو رات کو سوائے اس کے کچھ حصے کے‘‘. اب ظاہر بات ہے کہ کھڑے ہونے سے یہاں نماز میں کھڑے ہونا مراد ہے. اسی طرح سورۃ الدھر کی آیت ہے : وَ مِنَ الَّیۡلِ فَاسۡجُدۡ لَہٗ وَ سَبِّحۡہُ لَیۡلًا طَوِیۡلًا ﴿۲۶﴾ ’’اور رات کے ایک حصے میں اللہ کے سامنے سربسجود رہا کرو اور تسبیح کیا کرو!‘‘یہاں تسبیح اور سجدہ سے مراد درحقیقت نماز ہی ہے. چنانچہ سورۃ الحج کی اس زیر نظر آیۂ مبارکہ میں بھی رکوع اور سجود سے مراد نماز ہے. اور نماز درحقیقت ارکانِ اسلام میں رکن رکین ہے. یہ صحیح ہے کہ ارکانِ اسلام میں سے پہلا رکن کلمۂ شہادت ہے‘ لیکن وہ آپ سے آپ یہاں گویا understood ہے‘اس لیے کہ جب گفتگو کا آغاز ہو رہا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے الفاظ سے توسیدھی سی بات ہے کہ وہی لوگ یہاں مخاطب ہیں جو کلمۂ شہادت ادا کر چکے ہیں. اس کے بعد ارکانِ اسلام میں سے اہم ترین رکن بلاشبہ نماز ہے. جیسا کہ حضور اکرم نے فرمایا: 

بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ تَرْکَ الصَّلَاۃُ (صحیح مسلم)
’’کفر و شرک اور بندے کے درمیان نماز کا معاملہ حائل ہے.‘‘

لہذا اوّلاً اسی کا حوالہ دیا گیا کہ نماز قائم کرو. گویا نماز کی حیثیت تمام ارکانِ اسلام میں نمائندہ رکن کی ہے اور اس کے ذیل میں زکو ٰۃ ‘ روزہ اور حج آپ سے آپ مندرج ہیں‘ خواہ لفظاً وہ مذکور 
نہ ہوں. یہ حقیقت اگلی آیت کے آخر میں جا کر کھل جائے گی کہ یہاں رکوع و سجود سے مراد صرف نماز نہیں بلکہ تمام ارکانِ اسلام مراد ہیں. بہرحال یہ بات بالکل منطقی ہے اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ جو شخص ایمان کا اقرار کرتا ہے اُس پر سب سے پہلی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ارکانِ اسلام کی پابندی کرے. یہ پہلی سیڑھی ہے. اس پر قدم جماؤ تب دوسری سیڑھی کی طرف بڑھو!