لیکن اسی پر بس نہیں‘ ابھی اس سے آگے ایک تقاضا اور بھی ہے : وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ نیک کام کرو‘ بھلے کام کرو‘ خلقِ خدا کی خدمت پر کمربستہ ہو جاؤ. خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسِ اسے یوں سمجھئے کہ اللہ کی عبادت کا تقاضا تو اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے سے پوراہو جائے گا‘ لیکن اس سے آگے بھی انسان کے لیے نیکی کا‘ خیر کا‘ بھلائی کا ایک وسیع و عریض میدان ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا سورۃ البقرۃ میں : وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ؃ کہ ہر کسی نے اپنا کوئی نہ کوئی ہدف بنایا ہوا جس کی طرف اُس کا رُخ ہے‘ پس اے اہل ایمان!تم نیکیوں میں‘ بھلائیوں میں‘ حسنات میں‘ خیرات میں‘ صدقات میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو. تو جہاں تک عبادت کا تقاضا ہے وہ تو احکامِ خداوندی پر عمل کرنے سے پورا ہوگیا‘ لیکن اب آگے بڑھو‘ یہ خدمتِ خلق کا میدان کھلا ہوا ہے. یہ ہے مفہوم ’’وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ ‘‘ کا.

البتہ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے. خدمتِ خلق کا ابتدائی درجہ یقینا وہی ہے جس سے سب واقف ہیں‘ یعنی بھوکے کو کھانا کھلانا‘ کسی کے پاس تن ڈھانپنے کو اگر کچھ نہیں ہے تو اس کا تن ڈھانپ دینا‘ کسی بیمار کے علاج معالجے اور دوا دارو کا اہتمام کر دینا‘ کسی کی عیادت یا مزاج پرسی کر دینا وغیرہ. حضور اکرم نے تو اس کو یہاں تک وسعت دی ہے کہ فرمایا: 
تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ’’اپنے کسی ملاقاتی سے کشادہ روئی اور متبسم چہرے کے ساتھ ملاقات کر لینا بھی صدقہ ہے‘‘. یہ بھی خیر اور نیکی کا کام ہے کہ وہ آئے تو آ کر پشیمان نہ ہو کہ میں خواہ مخواہ کیوں آیا‘ بلکہ وہ محسوس کرے کہ تمہیں اس سے مل کر ایک فرحت ہوئی ہے‘ تاکہ اس کی طبیعت میں بھی ایک انبساط پیدا ہو. تو یقینا خیر‘ بھلائی‘ نیکی اور خدمتِ خلق کا بنیادی تصور یہی ہے‘ لیکن ا سے ایک بلند تر سطح بھی ہے.