وہ بلند تر سطح یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی زندگی غلط رُخ پر پڑ گئی ہے اور وہ لوگ کہ جو اپنی غفلت اور نادانی کے باعث ہلاکت اور بربادی کی طرف بگٹٹ دوڑے جا رہے ہیں‘ ان کی عاقبت سنوارنے کی فکر کرنا. جیسے کہ حضور نے فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے جیسے کہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ ہے‘ تم اس میں گر پڑنا چاہتے ہو اور مَیں تمہارے کپڑے پکڑ پکڑ کر تمہیں گھسیٹ کر اس ہلاکت خیز انجام سے بچانا چاہ رہا ہوں. چنانچہ خلقِ خدا کو خدا کی بندگی کی دعوت دینا اور بھولے اور بھٹکے ہوؤں کو صراطِ مستقیم اور سواء السبیل پر لے آنے کی کوشش کرنا درحقیقت خدمتِ خلق کی بلند ترین سطح ہے. موٹی سی بات ہے ‘ ہم خود سوچ سکتے ہیں‘ ایک انسان کے پیٹ میں لگی ہوئی بھوک کی آگ کو اگر آپ نے بجھا بھی دیا تو کیا حاصل اگر وہ سموچا آگ کا نوالہ بننے والا ہے! آپ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے. اس کا دار و مدار دراصل اس بات پر ہے کہ آیا آخرت پر یقین ہے یا نہیں؟ اگر یقین ہے تو جیسا کہ ہم سورۃ التحریم میں پڑھ آئے ہیں کہ کسی شخص کو اگر آخرت کا یقین ہے تو وہ اپنی اولاد اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں سب سے بڑھ کر جس چیز کے لیے کوشاں ہو گا وہ ان کی آخرت کی بھلائی ہو گی. اگر آخرت نگاہوں کے سامنے ہے ہی نہیں تو ظاہر بات ہے کہ اپنے اہل و عیال کی صرف دنیوی منفعت ہی پیشِ نظر رہے گی. یہی معاملہ یہاں بھی ہے. ایک ایسے شخص کے نزدیک جس کی باطنی آنکھ کھل چکی ہے اور جسے آخرت کی حقیقت نظر آ گئی ہے اصل خدمتِ خلق کا کام خلقِ خدا کو راہِ ہدایت پر لانا ہو گا کہ جس سے ان کی ابدی زندگی ‘ ہمیشہ کی زندگی سنور جائے. اگرچہ ظاہر بات ہے کہ ایساشخص اس دنیا میں بھی کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھے گا. آیۂ بر میں ہم تفصیل کے ساتھ پڑھ چکے ہیں: 
وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ 
اسی حقیقت کو حضور نے یوں تعبیر فرمایا تھا: 

مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقَ فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہٗ 
کہ جو شخص دل کی نرمی سے‘ درد مندی سے محروم ہے وہ گویا کُل کے کُل خیر سے محروم ہو گیا. تو خدمتِ خلق کے اس درجے کی اپنی جگہ اہمیت ہے.

ہمیں رسول اللہ کی سیرتِ مطہرہ میں خدمتِ خلق کے یہ دونوں پہلو بتمام و کمال 
نظر آتے ہیں. وحی کے آغاز سے قبل بھی آپ انسانیت ِ کاملہ کی معراج پر فائز تھے. انسانی ہمدردی کا مادہ آپؐ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا. آپ یتیموں کی خبرگیری کرنے‘ بیواؤں کی سرپرستی فرمانے‘ مساکین اور محتاجوں کی امداد کرنے اور مسافروں کی مہمان نوازی فرمانے میں پیش پیش تھے‘ جس کی سب سے بڑی شہادت آپؐ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہانے اس موقع پر دی تھی جب پہلی وحی کے بعد آپؐ پر بربنائے طبع بشری کچھ گھبراہٹ کی کیفیت طاری تھی.جب آپ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے : وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ تو اب آپؐ کی پوری زندگی‘ آپؐ کی تمام توانائیاں‘ آپؐ کا ایک ایک لمحہ بسر ہو رہا ہے خلقِ خدا کو آخرت کے برے انجام سے بچانے کی کوشش میں. یہی خدمتِ خلق کی معراج ہے. یہ اس کی بلند ترین منزل ہے.