بہرحال پہلی آیت میں یہ تین سیڑھیاں سامنے رکھ دی گئیں کہ اب تمہیں چڑھنا ہو گا. ایک عجیب آیت قرآن مجید میں سورۃ المدثر میں وارد ہوئی ہے : سَاُرۡہِقُہٗ صَعُوۡدًا ﴿ؕ۱۷﴾ ’’ہم چڑھوائیں گے اُسے بلندی‘‘. ولید بن مغیرہ کے ذکر میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں. آخرت کے عذاب کا نقشہ کھینچا گیا کہ وہاں چڑھایا جائے گا اسے بلندی پر‘ اسے بلندی چڑھوائی جائے گی. یہ بلندی انسان کو بہرحال چڑھنی پڑے گی‘ اس دنیا میں چڑھ لے یا پھر آخرت میں وہ یہ چڑھائی چڑھنے پر مجبور ہو گا. اس دنیا میں اہل ایمان کو عمل صالح کی چڑھائی چڑھنی ہوگی. اسی طرح دین کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے محنت اور جدوجہد درکار ہو گی‘ سیڑھی بہ سیڑھی چڑھنا ہو گا. ہم پر تو ارکانِ اسلام کی پابندی ہی بہت شاق ہے. اس سے اوپر پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت ِ کاملہ ہمارے اعتبار سے بہت بھاری‘ بہت ثقیل‘ بہت مشکل معلوم ہوتی ہے ؎ 

چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ الا را!

پھر اس سے اوپر بھی ایک تقاضا ہے دین کا. اپنے آپ کو ہمہ تن خلق خدا کی خدمت میں صرف کر دینا‘ اس کے لیے وقف کر دینا‘ اور لگا دینا. یہ ہے مطالباتِ دینی کی تیسری منزل.