ان تین تقاضوں کے بیان کے بعد فرمایا: لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾ ’’تاکہ تم فلاح پاؤ!‘‘ لَعَلَّ کااس انداز میں ترجمہ ہم اس لیے کرتے ہیں کہ یہ کلامِ الٰہی ہے ‘ ورنہ ’’لَعَلَّ‘‘ کا اصل لفظی مفہوم عربی زبان میں ’’شاید‘‘ کا ہے. گویا لغوی ترجمہ یوں ہو گا ’’شاید کہ تم فلاح پاؤ‘‘ لیکن چونکہ شاہانہ کلام میں لفظ ’’شاید‘‘ اگر آئے تو وہ ایک حتمی وعدے کی صورت ہوتا ہے‘جیسے کوئی بادشاہِ وقت اگر اپنے کسی درباری سے یہ کہے کہ تم یہ کام کرو شاید کہ ہم تمہیں فلاں چیز دیں تو دراصل یہ ایک پختہ وعدہ ہے. اس لیے سورۃ الحج کی اس آیت میں ہم ترجمہ یوں کرتے ہیں: ’’تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘. لیکن اس آیت کے حوالے سے بھی کم سے کم اس حقیقت کی طرف رہنمائی ہو جاتی ہے کہ یہ فلاح ایسے ہی حاصل ہو جانے والی چیز نہیں ہے‘ یہ اتنی بے وقعت شے نہیں ہے کہ بس زبان سے چند کلمات ادا کرنے سے حاصل ہو جائے. اگر اسلام اور ایمان کا صرف زبانی اقرار کافی ہوتا تو ان الفاظ مبارکہ کا یہاں لانا کہ ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ یہ سب تحصیل حاصل قرار پائے گا.پھر یہ سارا کلام‘ نعوذ باللہ من ذلک ایک مہمل اور عبث کلام قرار پائے گا‘ اگر کوئی یہ سمجھے کہ فلاح اس کے بغیر بھی حاصل ہوتی ہے.

یہاں گویا کہ اس آیۂ مبارکہ کی شکل میں وہ پورا سبق ایک مرتبہ پھر ہمارے سامنے آ گیا جو سورۃ العصر کا حاصل اور ہمارے اس پورے علمی و ذہنی سفر کا نقطۂ آغاز ہے : 
وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ ’’وہاں وہ بات منفی اسلوب میں تھی. ’’ زمانہ گواہ ہے کہ یقینا تمام انسان خسارے اور گھاٹے میں رہیں گے‘‘ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳’’سوائے اس کے جو ایمان لائیں‘ نیک عمل کریں‘ ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور وصیت کریں اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں‘‘. یہاں دیکھئے وہی بات ایک مثبت اسلوب میں آئی ہے کہ اگر فلاح کے طالب ہو‘ کامیابی چاہتے ہو‘ رشد سے ہم کنار ہونا چاہتے ہو‘ تو تمہیں محنت و مشقت لازماً کرنی ہو گی ؎ 

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ! 

وہ محنت کیا ہے؟ اس کی وضاحت ہے سورۃ الحج کی اس آیت میں کہ : ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا پہلی چیز ہے نماز‘ اور اس کے ساتھ ہی گویا بقیہ ارکانِ اسلام زکو ٰۃ‘ روزہ اور حج بھی اس کے تابع ہیں اور ان کا التزام بھی ضروری ہے. پھر دوسرا تقاضا بندگی ٔ ربّ کا ہے وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ کہ ہر معاملے میں اپنے ربّ کی اطاعت پر کمر بستہ ہوجاؤ‘ پوری زندگی اس کے حوالے کر دو اور اس سے بھی آگے بڑھ کر وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ بھلائی پر‘ خدمت خلق پر کمر بستہ ہو جاؤ. لوگوں کی خیر خواہی ‘ لوگوں کی فلاح‘ خلق خدا کی ابدی بہبود کے لیے اپنی قوتیں‘ اپنی توانائیاں اور اپنی صلاحیتیں صرف کر دو‘ اپنے اوقات لگاؤ اور کھپاؤ!یہ ساری محنت کرو تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ شاید کہ تم کامیاب ہو جاؤ. اس کے بعد دوسری آیت میں جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘ سورۃ العصر میں بیان کردہ نجات کی چار شرائط میں سے آخری دو یعنی وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ کے لیے ایک جامع اصطلاح آ گئی ’’ـ جہاد‘‘.