لیکن آیت کے اس ٹکڑے سے پہلے ایک ضمنی بات درمیان میں آئی ہے. یوں سمجھئے کہ ایک ’’subordinate clause‘‘ جملے کے بیچ میں شامل کر دی گئی ہے. چنانچہ جس اُمت پر یہ بھاری ذمہ داری ڈالی جا رہی ہے اس کی ہمت بندھانے کے لیے کچھ ترغیب و تشویق کے انداز میں فرمایا گیا: وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ کہ اس دین کے معاملے میں اللہ نے تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی. ان الفاظِ مبارکہ کا ایک عمومی مفہوم تو یہ ہے کہ یہ دین‘ دینِ فطرت ہے. خلافِ فطرت کوئی حدود اورقیود یہاں عائد نہیں کی گئی.فطری تقاضوں کے اوپر کوئی غیر فطری بندش اور پابندی یہاں نہیں لگائی گئی. اس کی تعلیمات فطرتِ انسانی کے لیے معروف اور جانی پہچانی ہیں. ان سے انسان طبعا ً مانوس ہے. اس پہلو سے یہ دین آسان دین ہے. اس میں کوئی تنگی نہیں‘ کوئی سختی نہیں‘ اس میں رہبانیت کی پابندیاں نہیں‘ اس میں نفس کو کچل دینے والی ریاضتیں نہیں‘ اس میں رسومات کا کوئی لمبا چوڑا طومار نہیں. بہت سادہ دین فطرت ہے.