آیت کا یہ مفہوم اُمت مسلمہ کے تمام افراد سے متعلق ہے‘خواہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں‘ لیکن بالخصوص وہ لوگ جو قرآن کے اوّلین مخاطب تھے‘ جن سے اس اُمت محمدؐ کا نیوکلیس تیار ہوا‘ جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور اس ناطے سے ان کا رشتہ جڑتا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ‘ ان کے لیے اس پہلو سے بھی اس دین میں کوئی تنگی نہیں ہے کہ یہ تو ان کے جدامجد ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے. یہ بیت اللہ جس سے محبت و عقیدت انہیں وراثتا ً بھی ملی تھی انہی کا بنایا ہوا گھر ہے جس کے گرد طواف کا سلسلہ ان کے ہاں دورِ جاہلیت میں بھی جاری رہا‘ قربانی کا سلسلہ جاری رہا‘ منیٰ اور عرفات کا قیام جاری رہا‘ یہ سب چیزیں تو تمہاری نسلی اور قومی روایات کا جزو بن چکی ہیں. اس پہلو سے تمہارے لئے تو کوئی تنگی نہیں‘ اس دین کے اور تمہارے درمیان اجنبیت کا کوئی پردہ حائل نہیں. ہاں‘ جو غلط باتیں تم نے اس میں شامل کر دی تھیں ان کو ہٹا دیا گیا ہے. اسی طرح تمہارے جو اپنے رواج اور معاشرتی طور طریقے تھے بنیادی طو رپر انہی کی اساس پر شریعت محمدیؐ کا تانا بنا تیار ہوا ہے . ان میں جو چیزیں غلط تھیں انہیں کاٹ پھینکا گیا اور جو صحیح تھیں انہیں برقرار رکھا گیا . لہذا یہاں خطاب کے اعتبار سے جو لوگ نبی اکرم اور قرآن حکیم کے اوّلین مخاطب تھے ان کے حوالے سے کہا گیا : مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم کا طریقہ ہے‘‘.تمہارے لیے اس کے قبول کرنے میں یا اس کے علمبردار اور پرچارک بننے میں کہیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘ کوئی اجنبیت کا پردہ حائل نہیں.

آگے ارشاد ہوتا ہے: 
ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا ’’اس نے تمہارا نام رکھا مسلمان‘ پہلے بھی اور اس میں بھی‘‘. اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس اُمت کے لیے لفظ مسلمان تجویز کیا تھا. خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھاتے ہوئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی زبان پر یہ دعا جاری رہی: رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ ’’اے ہمارے ربّ!ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار (مسلمان) بنائے رکھ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک اُمت مسلمہ برپا کیجیو!‘‘ تو تمہارا یہ نام تمہارے جد امجد نے رکھا ہے. اللہ نے بھی اس کتاب میں‘ اس کلام پاک میں تمہیں اسی نام سے موسوم کیا ہے : اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ اس پہلو سے گویا ایک مرتبہ پھر اعادہ ہو گیا اسی حقیقت کا جو اس سے پہلے سورۃ حٰمٓ السجدۃکے درس میں آ چکی ہے کہ ایک داعی حق اور ایک داعی الی اللہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا تعارف صرف بطور مسلمان کرائے : اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ کسی اور گروہی نسبت یا کسی تعلق کو نمایاں کرنا درحقیقت دعوتِ اسلامی یا دعوت الی اللہ کے مزاج کے منافی ہو جائے گا.