غور کرنا چاہیے کہ حضور نے اس اہتمام کے ساتھ یہ گواہی کیوں لی. درحقیقت منصب نبوت و رسالت سے سرفراز ہونا جہاں ایک طرف باعث عز و شرف ہے وہاں دوسری طرف یہ ایک انتہائی کٹھن اور نازک ذمہ داری بھی ہے.ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر آپ اپنے کسی عزیز کو کوئی پیغام بھیجیں کہ فلاں کام فلاں وقت تک ضرور ہو جائے‘ ورنہ بہت بڑا نقصان ہو جائے گا. آپ نے کسی کی معرفت وہ پیغام بھیجا. گویا درمیان میں ایک ایلچی ہے جو آپ کے پیغام کو آپ کے عزیز تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے. فرض کیجیے وہ کام نہیں ہوا. اب آپ تحقیق و تفتیش کریں گے کہ اس کام کے نہ ہونے کی وجہ سے جو نقصان ہو ا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے! اگر تو پیغام پہنچ گیا تھا اور پھر اس عزیز نے وہ کام نہیں کیا تو آپ کا سارا گلہ شکوہ اس سے ہو گا‘ وہ ایلچی بری قرار پائے گا‘ اور اگر کہیں اس ایلچی نے کوتاہی کی ہے‘ اس نے پیغام پہنچایا ہی نہیں‘ تو ظاہر بات ہے کہ آپ اپنے اس عزیز سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتے‘ سارا بوجھ آئے گا تو اس ایلچی پر کہ جس نے وہ ذمہ داری ادا نہ کی. یہ ہے وہ نازک اور کٹھن ذمہ داری جو انبیاء و رسل کے کندھوں پر آتی ہے. اُن کی جانب سے اگر ابلاغ میں اور پہنچانے میں بالفرض کوئی کمی رہ جائے تو بقیہ انسانوں سے باز پرس کی نوبت تو بعد میں آئے گی‘ پہلے ان کی جواب طلبی ہو جائے گی. یہ بار سورۃ الاعراف کے آغاز میں نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے: 

فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ 
’’ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان لوگوں سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے اور ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے رسولوں سے بھی‘‘.

اور یہ ہے اس آیت کا حاصل کہ :

بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ (المائدۃ:۶۷
’’ کہ اے نبیؐ پہنچا دیجیے جو کچھ نازل ہوا ہے آپؐ پر آپؐ کے ربّ کی جانب سے.

اگر اس میں کوئی کمی ہوئی تو یہ فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی شمار ہو گی.اگرچہ بظاہر احوال اس کا ہرگز کوئی امکان نہیں کہ اس معاملے میں نبی اکرم سے کسی کوتاہی کا صدور ہوتا‘ لیکن یہاں دراصل مقامِ نبوت و رسالت کی نزاکت کا 
اظہار مقصود ہے. 
یہ بات ایک اور انداز میں بالکل آغاز ہی میں ان الفاظ میں واضح کر دی گئی تھی کہ 
اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۵﴾ (المزمل) ’’ہم آپ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں‘‘ . ایک بہت بڑی ذمہ داری آپ کے کاندھے پر آنے والی ہے. یہ ہے وہ بارِ امانت جو نبی اور رسول کے کندھے پر ہوتا ہے. رسول اس کو پہنچا کر بری ہو جاتا ہے. اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے. اس نے گواہی دے دی حق کی ‘ صداقت کی‘ توحید کی اور جو بھی اللہ کا پیغام آیا تھا اس کی.یہ گواہی اس نے قولاً بھی دے دی اور عملاً بھی. اور پھر لوگوں سے بھی یہ گواہی لے لی کہ ’’میں نے پہنچانے کا حق ادا کر دیا!‘‘ اب وہ بری ہو گیا. یہ ہے شہادت علی الناس. اسی کا ظہور ہو گا روزِ قیامت میدانِ حشر میں جب انفرادی محاسبے سے پہلے اُمتوں کے محاسبے کا مرحلہ آئے گا اور اُمتوں کو اجتماعی جواب دہی کے لیے کٹہرے میں آنا پڑے گا.