قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر یہ نقشہ کھینچا گیا ہے کہ اُس وقت ہر اُمت کی طرف بھیجا جانے والا رسول پہلے سرکاری گواہ (Prosecution Witness) کی حیثیت سے کھڑا ہو گا اور یہ شہادت دے گا‘ testify کرے گا کہ اے ربّ!تیرا جو پیغام مجھ تک پہنچا تھا میں نے بلا کم و کاست پہنچا دیا تھا. اب یہ لوگ اپنے طرزِ عمل کے خود ذمہ دار ہیں‘ یہ خود مسئول ہیں‘ یہ خود جواب دہ ہیں. یہ وہ بات ہے جو سورۃ النساء میں بڑی صراحت سے آئی ہے. اور ایک عجیب واقعہ سیرت النبیؐ کا اس کے ساتھ متعلق ہے کہ حضور نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمائش کی کہ مجھے قرآن سناؤ . انہوں نے عرض کیا حضورؐ ! آپ کو قرآن سناؤں‘ آپ پر تو وہ نازل ہوا ہے. آپؐ نے فرمایا ہاں‘ لیکن مجھے دوسروں سے سن کر کچھ اور کیف اور حظ حاصل ہوتا ہے. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے امتثالِ امر میں سورۃ النساء کی آغاز سے تلاوت شروع کی اور جب آیت نمبر۴۱ پر پہنچے جس کے الفاظ یہ ہیں: 

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ 
’’کیا حال ہو گا اس دن جبکہ ہم ہر اُمت پر ایک گواہ کھڑا کریں گے‘ اور اے نبی آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے ان لوگوں کے خلاف!‘‘

تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: 
حسبک! حسبک! بس کرو! بس کرو! اب جو میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو نبی اکرم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.

یہ ہے وہ نازک ذمہ داری کہ نبی کو میدانِ حشر میں استغاثہ کے گواہ کی حیثیت سے اُمت کے خلاف دینی ہو گی کہ اے ربّ! میں بری ہوں‘ میں نے پہنچا دیا تھا اور اب یہ اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں. جیسے کہ سورۃ المائدۃ کے اختتام پر نقشہ کھینچا گیا ہے کہ روزِ محشر حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال ہو گا: 
ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ (آیت ۱۱۶’’اے مسیح ؑ! کیا تم نے کہا تھا لوگوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو بھی معبود بنا لینا اللہ کے ساتھ؟‘‘ جواب میں وہ عرض کریں گے کہ پروردگار!اگر میں نے یہ کہا ہوتا تو تیرے علم میں ہوتا. میں نے تو وہی کچھ کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا. میں نے تو انہیں تیری بندگی کی دعوت دی تھی. یہ اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہیں. یہ ہے وہ شہادت اور گواہی جس کے لیے قرآنی اصطلاح ’’شہادت علی الناس‘‘. دنیا میں تبلیغ‘ تلقین اور ابلاغ کے ذریعے سے انسانوں پر اللہ کی طرف سے اتمامِ حجت قائم کرنا ‘ قولاً اور عملاً بھی. اور اسی کی بنیاد پر میدانِ حشر میں وہ گواہی ہو گی جس کی تفصیل سورۃ النساء کی آیت نمبر ۴۱ کے حوالے سے ہمارے سامنے آ چکی ہے.