ہمارے لیے اصل قابل توجہ بات یہ ہے کہ خطبۂ حجۃ الوداع میں حضور نے صحابہ کرامؓ سے گواہی لینے کے بعد آخری بات جو ارشاد فرمائی وہ یہ تھی : ’’فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبِ‘‘ کہ اب پہنچائیں وہ جو یہاں ہیں ان کو جو یہاں موجود نہیں ہیں. اللہ کے پیغام کو نوعِ انسانی تک پہنچانے کا جو فریضہ انبیاء سرانجام دیتے تھے وہ اب اس اُمت کے ذمے ہے. قرآن جو ابی ہدایت نامہ ہے‘ اس کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے لے لیا. اب کسی نئی وحی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پیغامِ ربانی اپنے اتمامی اور تکمیلی درجے کو پہنچ چکا: اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (المائدۃ:۳)

چنانچہ تکمیل دین اور اتمامِ نعمت کے ساتھ ہی بعثت انبیاء و رسل کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا. نبی اکرم خاتم النبیین اور آخر المرسلین قرار پائے اور اب اللہ کے پیغام کو خلق خدا تک پہنچانے کی ذمہ داری اُمت کے کاندھوں پر ڈال دی گئی. گویا اب کارِ نبوت‘ کارِ تبلیغ‘ کارِ دعوت‘ فرائض رسالت اور نوعِ انسانی پر اتمامِ حجت یہ تمام کام اب تاقیامِ قیامت اُمت کے ذمے ہیں.یہ فرضِ منصبی‘ اے مسلمانو اب تمہارے کاندھوں پر اجتماعی حیثیت سے عائد کر دیا گیا. یہ ہے وہ عظیم فریضہ اور یہ ہے نبوت و رسالت کے اس ’’سلسلۃ الذہب‘‘ (سنہری زنجیر) میں ایک مستقل کڑی کی حیثیت سے شامل کیے جانے کا مقام اور مرتبہ جو اے اُمت محمد ( ) اب تمہیں حاصل ہوا ہے:

ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ