قرآن حکیم کے اسلوب سے متعلق اس اہم حقیقت کا بیان اس سے پہلے بھی متعدد بار ہوا ہے کہ اہم مضامین قرآن میں دو مرتبہ ضرور ملیں گے‘ تلاش کرنا آپ کا کام ہے. اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے مقام پر وہی مضمون بالعموم عکسی ترتیب کے ساتھ آتا ہے. اس کی ایک بڑی نمایاں مثال ہمیں یہاں نظر آتی ہے چنانچہ یہی مضمون سورۃ البقرۃ میں بھی آیا ہے.نوٹ کیجیے کہ سورۃ الحج کی اس آیت میں جو ہمارے زیر درس ہے‘ لفظ اُمت وارد نہیں ہوا ہے‘ گو اس کی تشریح میں مَیں نے بار بار لفظ اُمت استعمال کیا ہے‘ جبکہ سورۃ البقرۃ میں یہ مضمون لفظ اُمت کے حوالے سے وارد ہوا ہے : وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا (آیت۱۴۳اے مسلمانو‘ غور کرو‘ تمہیں اُمت کیوں بنایا گیا! لغت میں ’’اَمَّ یَؤُمُّ‘‘ کے معنی قصد کرنے اور ارادہ کرنے کے ہیں.اس اعتبار سے اُمت کے معنی ہوئے ہم مقصد لوگوں کا گروہ! ایک ایسی اجتماعیت اُمت کہلائے گی جو کسی ایک مقصد یا کسی ایک نصب العین کے گرد جمع ہو. اس اُمت مسلمہ کو‘ جسے سورۂ آل عمران میں ’’خیر اُمت‘‘ بھی کہا گیاکُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ (آیت۱۱۰یہاں سورۃ البقرۃ میں اُمت وسط قرار دیا گیا ہے.

اُمت وسط کے دو معنی کیے گئے ہیں‘ ایک تو اس اعتبار سے کہ جو شے درمیانی ہوتی ہے‘ جو وسط کی ہوتی ہے‘ وہ بہترین ہوتی ہے. اس معنی میں اس کا ترجمہ ہو گا بہترین اُمت. سورۂ آل عمران کی آیت ۱۱۰ اس مفہوم کی مزید تائید کر رہی ہے : 
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ایک دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ’’وسط‘‘ درحقیقت دو چیزوں کے مابین کڑی (Link) کو کہتے ہیں. گویا اب تم ایک کڑی (Link)کی حیثیت رکھتے ہو محمد کے اور پوری نوعِ انسانی کے مابین. جس طرح جبرئیل علیہ السلام کڑی تھے اور محمد کے درمیان! محمد نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا کر اتمامِ حجت کر دیا‘ اس پر تم سے شہادت اور گواہی بھی لے لی. اب تم واسطہ اور ذریعہ (Link) ہو اس پیغام کے آگے پہنچنے کا. اب تمہارے ذریعے اس پیغام کو آگے پہنچنا اور پھیلنا ہے. نوعِ انسانی پر اتمامِ حجت تمہارے ذریعے ہونی ہے. تو یہ ہے وہ مقصد جس کے لیے اے مسلمانو! تمہیں ’’اُمتِ وسط‘‘ بنایا گیا ہے.
سورۃ الحج میں پہلے رسول کا ذکر تھا : 
لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ اور اس کے بعد اُمت کا ذکر آیا : وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ جبکہ سورۃ البقرۃ میں ترتیب الٹ دی گئی ہے. یہاں اُمت کے ذکر سے بات شروع کی گئی:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (آیت۱۴۳)
تمہیں بھی قیامت کے روز بطورِ گواہ پیش ہونا ہو گا اور اللہ کے دربار میں یہ گواہی دینی ہو گی کہ اے اللہ نوعِ انسانی کے نام تیرا جو پیغام قرآن حکیم کی شکل میں محمد رسول اللہ کے واسطے سے ہم تک پہنچا تھا ہم نے خلق خدا تک پہنچا دیا تھا‘ ہم نے حق تبلیغ ادا کر دیا تھا. اگر ہم نے اپنے اس فرضِ منصبی میں کوتاہی کی اور روزِ محشر ہم یہ گواہی نہ دے پائے تو سوچیے کہ دوسروں کے جرم سے بڑھ کر جرم ہمارا ہو گا. ہماری پکڑ پہلے ہو گی اور سب سے پہلے ہم مسئول اور ذمہ دار قرار دیے جائیں گے کہ تم اس ہدایت کے خزانے کے اوپر سانپ بن کر بیٹھے رہے‘ تم نے اس کو دوسروں تک پہنچانے کا حق ادا نہیں کیا.