اب ہم اس آیۂ مبارکہ کے آخری حصے پر پہنچ گئے ہیں جس میں بڑے ہی عملی انداز میں یہ بات سامنے لائی گئی ہے کہ اگر بات سمجھ میں آ گئی‘ اپنے فرائض دینی کا شعور حاصل ہو گیا : ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ اور وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ کے حوالے سے مطالباتِ دین کی چاروں سیڑھیاں اگر نگاہوں کے سامنے آ گئیں‘ تمہیں اگر معلوم ہو گیا کہ ایما ن کا تقاضا کیا ہے تو بسم اللہ کرو! قدم بڑھاؤ اور عمل کا آغاز کر دو! نوٹ کیجیے یہاں گفتگو کا آغاز ہو رہا ہے ’’فَ‘‘ کے حرف سے‘ جیسے دو مرتبہ یہ کلمہ ’’فا‘‘ بڑے بامعنی انداز میں آیا ہے سورۃ التغابن میں.اسی طرح کا معاملہ یہاں ہے :فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ بسم اللہ کرو‘ پہلی سیڑھی پر قدم رکھو‘ یعنی نماز قائم کرو اور زکو ٰۃ ادا کرو‘ سفر کا آغاز کر دو! فرائض دینی میں سے جو پہلا فرض ہے اُس کو تو پوری مضبوطی کے ساتھ پکڑو‘ اس پر تو کاربند ہو جاؤ!

یہاں دیکھئے وہ بات جو میں نے آغاز میں عرض کی تھی کہ 
’’ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا‘‘ میں محض نماز کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ تمام ارکانِ اسلام مراد ہیں.چنانچہ یہاں اُسی نماز کی کوکھ سے زکو ٰۃ برآمد ہو گئی. آگے فرمایا: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ اس پہلی سیڑھی پر قدم جما کر آئندہ کے مراحل کے لیے اللہ سے چمٹ جاؤ. عصمت کہتے ہیں حفاظت کو. اعتصام سے مراد ہے حفاظت کے لیے کسی سے چمٹ جانا. اصل میں یہاں تصویر لفظی ہے کہ کسی بچے کو اگر کہیں کسی طرف سے اندیشہ ہو‘ خوف لاحق ہو تو وہ اپنی ماں سے چمٹ جاتا ہے. وہ سمجھتا ہے کہ میں قلعے میں آ گیا ہوں اور ہر خطرے سے محفوظ ہو گیا ہوں. یہ ہے اعتصام. وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ آئندہ کے مراحل کے لیے اللہ سے چمٹ جاؤ‘ اللہ کی حفاظت میں آ جاؤ‘ اللہ ہی کو اپنا مددگار سمجھو‘ اللہ کی تائید و توفیق پر بھروسہ رکھو! منزلیں بڑی کٹھن ہیں‘ ان فرائض کی ادائیگی آسان نہیں‘ ان میں سے ایک ایک سیڑھی بڑی ہی بھاری اور ایک پر ایک منزل بڑی کٹھن ہے‘ لیکن یہ کہ اللہ کا نام لے کر آغازِ سفر تو کرو وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ نماز اور زکو ٰۃ کے ذریعے بسم اللہ کرو‘ اور آئندہ کے لیے اللہ پر توکل کرو‘ اسی پر بھروسہ رکھو! ہُوَ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ ﴿٪۷۸﴾ ’’وہ تمہارا مولیٰ ہے‘ تمہارا مددگار ہے پس کیا ہی اچھا ہے وہ مددگار اور کیا ہی اچھا ہے وہ پشت پناہ!‘‘جسے اُس کی حمایت میسر آجائے اب اس سے بڑھ کر کسی کو کسی کی حمایت حاصل ہو گی! جس کو اس کی نصرت و تائید مل جائے اس سے بڑھ کر مطمئن اور بے فکر اور کون ہو گا!