یہاں ایک بات ذہن میں رہے کہ ’’وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ‘‘ کے الفاظ میں ایک اجمال ہے. قرآن مجید کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے: (اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہٗ بَعْضًا) تو وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ کی مزید شرح ہمیں سورۂ آل عمران میں ملے گی : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ (آیت ۱۰۲اب یہاں دیکھئے کہ ’’حَقَّ تُقٰتِہٖ ‘‘ میں لفظی مناسبت موجود ہیں. اگلی آیت میں فرمایا: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا(آیت۱’’اللہ کی رسی کو مضبوط سے تھام لو. گویا وہاں اللہ سے چمٹنے اور اس کے دامن سے وابستہ رہنے کے لیے اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے. لیکن یہ سوال پھر باقی رہ گیا کہ اللہ کی وہ مضبوط رسّی کون سی ہے؟ اس سوال کا قرآن مجید میں جواب نظر نہیں آتا.قرآن مجید کے اس اجمال کی مزید تفصیل ہمیں ملتی ہے محمد رسول اللہ کے فرمودات میں. اس لیے کہ قرآن حکیم کے کسی اجمال کی تفصیل اور تبیین کرنا نبی اکرم کا صرف حق نہیں آپؐ کا فرضِ منصبی ہے. وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ ’’اور نازل کیا ہم نے یہ ذکر آپ کی طرف تاکہ اے نبی آپ توضیح کر دیا کریں (مزید وضاحت کر دیا کریں) اُس کی کہ جو لوگوں کے لیے نازل کیا گیا‘‘. چنانچہ مذکورہ بالا سوال کا جواب ہمیں نبی اکرم کے ایک فرمان میں ملتا ہے جس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے. وہ ایک طویل روایت ہے جس میں قرآن مجید کی عظمت کا بیان ہے. اسی میں یہ الفاظ بھی آپؐ نے ارشاد فرمائے : ھُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ! یہ قرآن ہے اللہ کی مضبوط رسّی!

سلسلۂ مضمون کو ذہن میں جوڑ لیجیے : 
’’ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ‘‘ کی شرح مزید ہوئی ’’وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ سے. اور وہ حبل اللہ کون سی ہے؟ اس کا جواب ملا حدیثِ نبویؐ کے ذریعے کہ ’’ھُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ‘‘ اس سے اشارہ ہو گیا کہ اس سارے عمل یعنی مجاہدہ فی سبیل اللہ اور شہادت علی الناس کی ادائیگی کے لیے مرکز و محور دراصل قرآن مجید ہو گا. یہ مضمون ہمارے منتخب نصاب کے اسی جزو میں سورۃ الجمعۃ کے ضمن میں تفصیل سے زیر بحث آئے گا. 

واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین