پہلی چیز جو اِن دس سورتوں میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے‘ یہ ہے کہ تقریباً ان سب کا زمانۂ نزول مدنی دَور کا نصف ِ آخر ہے. یہ وہ دَور ہے جب مسلمانوں کا 
معاشرہ باقاعدہ وجود میں آ چکا تھا اور مسلمانوں کو غلبہ اور اقتدار بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو چکا تھا. گویا مسلمانوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی. چنانچہ ان سورتوں میں دوسری قدرِ مشترک آپ یہ دیکھیں گے کہ ان سورتوں میں خطاب کُل کا کُل مسلمانوں سے ہے‘ بحیثیت اُمت مسلمہ. ان میں یہود و نصاریٰ سے یا مشرکین ِ مکہ سے خطاب نہیں ملے گا‘ نہ بطرزِ دعوت و تبلیغ نہ بطورِ ملامت و زجر و توبیخ! خطاب کل کا کل اُمت مسلمہ سے ہے‘ اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ کا اگر کہیں حوالہ آیا بھی ہے تو محض نشانِ عبرت کے طور پر. ان میں بھی نصاریٰ کی طرف reference ان سورتوں میں محض دو مقامات پر ہے‘ جبکہ اکثر سورتوں میں یہود کو بطورِ نشانِ عبرت پیش کیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! جس مقام پر آج تم فائز کیے جا رہے ہو اس مقام پر اس سے پہلے بنی اسرائیل فائز تھے. تم سے پہلے کتابِ الٰہی کے حامل وہ تھے‘ انہیں توراۃ عطا کی گئی تھی جس میں ہدایت بھی تھی اور قانون وشریعت بھی‘ تم سے پہلے وہ قوم اللہ کی نمائندہ اُمت تھی جسے اڑھائی ہزار برس تک یہ مقامِ بلند حاصل رہا‘ لیکن جب انہوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے دین کے ساتھ غداری کی تو وہ اللہ کے غضب کا نشانہ بنے اور انہیں اس مقام سے معزول کر دیا گیا. اس سابقہ اُمت میں کن کن راستوں سے گمراہیاں آئیں‘ کس کس پہلو سے ان میں اخلاقی‘ اعتقادی یا عملی اضمحلال پیدا ہوا‘ اس کو اپنے سامنے بطورِ نشانِ عبرت رکھو! اس لیے کہ اُمتوں کی تاریخ ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہوتی ہے. نبی اکرم نے اس حقیقت کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے. 

آپؐ ارشادفرماتے ہیں:
لَـیَأْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا أَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّـعْلِ بِالنَّعْلِ (۱) ’’میری اُمت پر بھی وہ تمام حالات لازماً وارد ہو ں گے جو اس سے پہلے بنی اسرائیل پر آئے ہیں‘ بالکل ایسے جیسے کہ ایک جوتا دوسرے جوتے سے مشابہ ہوتا ہے.‘‘

دونوں اُمتوں کے حالات میں مشابہت کے بیان میں اس سے زیادہ بلیغ تمثیل ممکن 
(۱) سنن الترمذی‘ ابواب الایمان‘ باب ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ. نہیں. رسول اللہ نے اس معاملے کو اس کی انتہا تک پہنچانے کے لیے یہ مثال بھی دی کہ اگر وہ (یعنی بنی اسرائیل) گوہ کے بل میں گھسے تھے تو تم بھی ضرور گھسو گے‘ اور اگر ان میں سے کوئی بدبخت اور شقی ایسا پیدا ہوا تھا کہ اس نے اپنی ماں سے بدکاری کی تھی تو تم میں سے بھی کوئی ایسا بدبخت پیدا ہو کر رہے گا . تو ان سورتوں میں درحقیقت اُمّت مسلمہ کے سامنے بطورِ نشانِ عبرت یہود اور نصاریٰ کے حالات بار بار لائے گئے. اوراس طرح مسلمانوں کو پیشگی متنبہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھنا کہیں تم ان گمراہیوں کا شکارنہ ہوجانا!