ان سورتوں میں ایک اور قدرِ مشترک یا وصف مشترک یہ نظر آتا ہے کہ اُمت مسلمہ سے خطاب میں بالعموم کچھ ملامت کا سا اور جھنجوڑنے کا سا انداز جھلکتا نظر آتا ہے. یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُمت کے بعض طبقات کے جذباتِ ایمانی اور جوشِ جہاد میں کچھ کمی واقع ہو گئی تھی‘ ان کا جذبہ ٔ انفاق کچھ سرد پڑ رہا تھا اور اب انہیں جھنجوڑا جا رہا ہے‘ کچھ سرزنش کے انداز میں بھی اور کہیں کہیں ملامت اور زجر کے انداز میں بھی. یہ انداز ان تمام سورتوں میں مشترک ہے. اس کی بہت سی مثالیں دورانِ مطالعہ ہمارے سامنے آئیں گی . سورۃ الصف میں فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾ ’’اے اہل ایمان ! کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟‘‘ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ ’’یہ چیز اللہ کے غضب کو بھڑکانے والی ہے کہ تم کہو جو کرتے نہیں ہو‘‘. اسی طرح سورۃ الجمعہ میں ڈانٹ کے سے انداز میں تنبیہہ کی گئی ہے کہ اے نبی! یہ کیا معاملہ ہے کہ آپؐ کھڑے خطبہ دے رہے تھے اور مسلمان آپ کو چھوڑ کر چلے گئے! کیا خطبے اور نمازِ جمعہ کے مقابلے میں کاروبارِ دُنیوی انہیں زیادہ عزیز ہو گیا ہے؟ سورۃ الحدیدمیں یہی انداز ہے: اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ... (آیت ۱۶’’کیا اہل ایمان کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد میں اور جو کچھ نازل ہوا ہے اللہ کی طرف سے اس کے سامنے…؟‘‘ سورۃ التحریم میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک معاملے میں ازواج ِمطہرات رضی اللہ عنھن کو سرزنش کی گئی ہے اور کم از کم ظاہر الفاظ کے اعتبار سے اس میں بڑی سختی موجود ہے . تو ان سورتوں میں یہ انداز بتکرار ملتا ہے.