اس ضمن میں یہ بات سمجھ لیجیے کہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دَور تو وہ تھا جب کوئی شخص جان اور مال کی بازی کھیل کر ہی کلمہ شہادت زبان پر لاتا تھا. مکی دَور میں یہی کیفیت تھی. ہر شخص جانتا تھا کہ کلمہ شہادت کے زبان پر جاری ہوتے ہی ہر چہار طرف سے مخالفت کا طوفان اُمڈ پڑے گا‘ مصائب اور تکالیف کا سامنا ہو گا. ہو سکتا ہے اس کشمکش میں گھر بار سے تعلق توڑنا پڑے اور تمام پرانے تعلقات اور دوستیوں کو خیر باد کہنا پڑے. لہذا کلمہ شہادت زبان پر لانے کا فیصلہ کوئی شخص اُسی وقت کرتا تھا جبکہ ایمان اس کے دل میں پورے طور پر جاگزیں اور راسخ ہو چکا ہوتا. لیکن یہ صورتِ حال تدریجاً بدل گئی. بالخصوص مدنی دَور کے آخر ی زمانے کا خیال کیجیے. نبی اکرمﷺ کو فیصلہ کن اقتدار حاصل ہے‘ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا ہے اور اب وہ ایک حکمران طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں‘ چنانچہ اب زبان سے کلمہ شہادت ادا کرنا نہ صرف آسان ہو گیا ہے بلکہ یہ کلمہ اب انسان کے جان و مال کے تحفظ کا ضامن بھی ہے. لہذا اب صورتِ حال وہ ہو گئی جس کا نقشہ سورۃ النصر میں بایں الفاظ کھینچا گیا ہے: اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ تو یہ لوگ جو فوج در فوج اور جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہو رہے تھے‘ ظاہر بات ہے کہ ان کے ایمان کی کیفیت وہ نہیں تھی جو سابقون الاوّلون کے ایمان کی تھی. یہ بات اس سے پہلے سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ میں آ چکی ہے. وہاں لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا گیا تھا کہ تم یہ نہ کہو کہ ہم ایمان لے آئے‘ بس یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا. قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ ’’یہ بدو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے. (اے نبیﷺ ! ان سے) کہہ دیجیے کہ تم ایمان ہرگز نہیں لائے ہو‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے ‘ اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘
اب ظاہر بات ہے جب ایک کثیر تعداد میں ایسے لوگ اُمت میں شامل ہو گئے تو اُمت میں بحیثیت ِمجموعی جذباتِ ایمانی‘ جوشِ جہاد اور جذبہ ٔ انفاق کا اوسط کم ہو گیا. یہ وہ اضمحلال ہے جس پر اُسی وقت گرفت کی گئی . اس میں درحقیقت بعد کے اَدوار کے لیے‘ جبکہ اُمت میں بحیثیت مجموعی اضمحلال اور زوال پوری شدت کے ساتھ ظاہر ہونے والا تھا‘ پیشگی رہنمائی کا سامان موجود ہے. اور اس طرح آئندہ کے اَدوار میں یہ سورتیں مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کو للکارنے اور اُن کے جوشِ جہاد اور جذبہ انفاق کو ازسر نو تازہ کرنے میں مہمیز کا کام دیں گی. ان کی تلاوت سے مسلمانوں میں یہ شعور پیدا ہو گا کہ وہ اپناجائزہ لیں‘ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اگر ایمان کے اضمحلال کی متذکرہ بالا کیفیات انہیں اپنے باطن میں محسوس ہوں تو اس ضعف و اضمحلال کو دُور کرنے پر کمربستہ ہو جائیں.