آخری بات ان سورتوں کے بارے میں یہ نوٹ کر لیجیے کہ ان دس سورتوں میں سے پانچ وہ ہیں کہ جن کا آغاز ’’سَبَّحَ لِلّٰہِ‘‘ یا ’’یُسَبِّحُ لِلّٰہِ‘‘ کے الفاظ سے ہوتا ہے. اور حقیقت یہ ہے کہ اس دس کے گلدستے میں یہ پانچ سورتیں ایک اضافی اور نرالی شان کی حامل ہیں. ان سورتوں کو مجموعی طور پر ’’المُسَبِّحات‘‘ کا نام دیا گیا ہے. یعنی وہ سورتیں جن کا آغاز تسبیح باری تعالیٰ سے ہوتا ہے. ان میں سے تین وہ ہیں کہ جن میں آغاز میں ’’سَبَّحَ لِلّٰہِ‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے . یعنی تسبیح کا ذکر فعل ماضی کی شکل میں کیا گیا ہے‘ جبکہ دو سورتوں کا آغاز ہوتا ہے ’’یُسَبِّحُ لِلّٰہِ‘‘ کے الفاظ سے. یہاں فعل مضارع لایا گیا ہے جو حال اور مستقبل دونوں کو محیط ہے. اس معاملے میں بھی ایک عجیب توازن نظر آتا ہے کہ سورۃ الحشر کی آخری آیت میں بھی یہ لفظ ’’یُسَبِّحُ‘‘ شامل ہے. اس طرح گویا تین مرتبہ ’’سَبَّحَ‘‘ اور تین ہی مرتبہ’’یُسَبِّحُ‘‘ کے الفاظ ان سورتوں میں وارد ہوئے ہیں. دورانِ مطالعہ آپ محسوس کریں گے کہ اُمت مسلمہ کو جھنجوڑنے‘ مسلمانوں کو ان کے فرائض ِ دینی سے آگاہ کرنے اور بالخصوص انہیں آمادۂ عمل کرنے میں ان ’’مُسبِّحات‘‘ کی تأثیر دوسری سورتوں سے بڑھ کر ہے. چنانچہ ان پانچ ’’مُسبِّحات‘‘ میں سے چار اس منتخب نصاب میں شامل ہیں. اس سلسلے کی پہلی سورۃ سورۃ الحدید ہے.

وہ یوں سمجھئے کہ ہمارے اس منتخب نصاب کا نقطہ ٔ عروج ہو گی. گویا اس کا نقطہ آغاز اگر سورۃ العصر ہے تو اس کی چوٹی (climax) سورۃ الحدید ہے. یا یوں کہہ لیجیے کہ شجر ہدایت کا بیج اگر سورۃ العصر ہے تو اس کا پھل ہے سورۃ الحدید‘جس پر ہمارا یہ منتخب نصاب اِن شاء اللہ تکمیل پذیر ہو گا. یہ چند باتیں اگر ذہن نشین کر لی جائیں تو امید ہے کہ قرآن مجید سے ایک عمومی تعارف میں بھی ممدو معاون ہوں گی اور خاص طور پر ان سورتوں کی اہمیت کو سمجھنے میں ان سے مدد ملے گی. اِن شاء اللہ!