یہاں ایک بات کی جانب توجہ دلانا غیر مفید نہ ہو گا جو بڑی بنیادی اہمیت کی حامل ہے. ہر اُس شخص کو جو دین کے ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کا کچھ بھی احساس و شعور رکھتا ہو اور اپنے ان فرائض کی ادائیگی پر کمربستہ ہو‘ اس حقیقت کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ دین کی سربلندی کی جدوجہد میں یہ دونوں باتیں بہت اہم ہیں:(i)مقصد کا تعین اور (ii)اس مقصد کے حصول کے لیے صحیح راہ کا تعین. دونوں انتہائی ضروری ہیں. اگر مقصد کا تعین صحیح نہیں ہے‘ ہدف غلط معین ہو گیا ہے‘ یا بلامقصد کسی ایک دائرے (circle) میں حرکت جاری ہے تو لاکھ محنت اور کوشش کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا‘ خواہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ گھروں سے نکلیں اور چالیس چالیس دن بلکہ اس سے بھی زیادہ وقت دین کی محنت میں صرف کریں. اگر یہ ساری محنت بغیر ہدف کے ہو رہی ہے تو غلبہ دین کی راہ میں کوئی مؤثر پیش رفت اس ذریعے سے نہیں ہو سکتی.منزل اور ہدف کا تعین بہت ضروری ہے لیکن ہدف کے تعین کے ساتھ ہی اس طے شدہ منزلِ مقصودتک پہنچنے کے صحیح منہج عمل اور طریق کار کا تعین بھی از حد ضروری ہے. اس لیے کہ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ منزل کے صحیح تعین کے باوجود انسان کسی غلط راستے پر پڑ جاتا ہے. صحیح منہجِ عمل اگر سامنے نہ ہو تو منزل تک پہنچنے کی جلدی میں بعض اوقات انسان کسی راہِ قصیر (short cut) کو آزمانے کی غلطی کر بیٹھتا ہے‘ لیکن پھروہ شارٹ کٹ کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا. پھر تمام محنتوں‘ کوششوں اور قربانیوں کے باوجود منزل دُور سے دُور تر ہوتی چلی جاتی ہے. صحیح منہجِ عمل کو ترک کرنے کا یہ نتیجہ نکل کر رہتا ہے.

یہ موٹی سی بات تو ہر شخص کے سمجھ لینے کی ہے کہ ہر مقصد اور ہر ہدف کے حصول کے لیے ہر طریق کار مفید نہیں ہوتا.ہر مقصد کے حصول کا اپنا ایک معین طریق کار ہوتا ہے. اگر کوئی شخص کہیں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کا خواہش مندہے تو اسے ایک خاص منہجِ عمل اختیار کرنا ہوگا. اسے اپنے معاشرے میں طبقاتی شعور پیدا کرنا ہو گا اور اس طبقاتی شعور کو اُجاگر کرکے طبقاتی تصادم کو جنم دینا ہو گا. لیکن اگر کوئی نیک دل انسان تصادم کو ناپسند کرتا ہو اور اس سے گریز چاہتا ہو تو ظاہر بات ہے کہ وہ اشتراکی انقلاب کی راہ میں آگے نہیں بڑھ سکے گا. اس لیے کہ اس انقلاب کا راستہ اسی وادی
میں سے ہو کر گزرتا ہے.

اسی طرح یہ بات جان لیجیے کہ دین کی اقامت اور اس کا غلبہ نبی اکرم کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ہیں. یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ سورۃ الصف کی مرکزی آیت کے حوالے سے ہمارے سامنے آئے گی: 
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ.... اس ضمن میں اگر کسی کو اشتباہ ہے‘ اور نیک نیتی کے ساتھ اشتباہ ہے تو وہ اللہ کے ہاں تو عذر پیش کر سکے گا‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ پھر قرآن مجید اور اس کے فہم سے اسے کوئی حصہ حاصل نہیں!

دین کو دنیا میں ایک عملی اور ایک زندہ نظام کی حیثیت سے قائم اور برپا کرنا بعثت ِ محمدیؐ کا بنیادی مقصد ہے. اسی کے لیے محنت‘ اسی کے لیے جدوجہد‘ اسی کے لیے کوشش‘ اسی کے لیے جینا‘ اسی کے لیے مرنا‘ اسی میں مال اور جان کا کھپانا بندۂ مؤمن کے ایمان کا لازمی تقاضا ہے. لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس مقصد کی طرف پیش قدمی کا اپنا ایک طریق اور نہج معین ہے. اگر ہم یہ دیکھیں کہ دنیا میں بعض دوسری تحریکیں کسی اور طریقے پر عمل پیرا ہو کر کامیاب ہو گئیں ‘ کوئی وقتی سا نعرہ کسی تحریک کے لیے مفید ثابت ہو گیا یا کسی نے کوئی شارٹ کٹ اختیار کیا اور لیلائے اقتدار سے ہمکنار ہو گیا‘ اور اس قسم کی چیزوں سے متأثر ہو کر ہم بھی ایسا ہی کوئی طریق کار غلبہ ٔ دین کی جدوجہد میں اختیار کریں تو یہ بات ذہن میں رکھیے کہ تمام تر خلوص اور اخلاص کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکے گا اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ محمد ٌرسول اللہ کا اساسی منہجِ عمل وہ ہے جو سورۃ الجمعہ کی مرکزی آیت میں نہایت دو ٹوک الفاظ میں بیان ہوا ہے: 
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ (آیت ۲)