یہاں یہ عجیب بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ قرآن مجید میں وہ آیت جس میں نبی اکرم کے مقصد ِبعثت کا بیان ہے‘ تین مرتبہ وارد ہوئی ہے. دو مرتبہ اِس شان کے ساتھ آئی ہے کہ اس میں ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہے : ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾ یہی الفاظ سورۃ التوبۃ کی آیت ۳۳ میں وارد ہوئے ہیں اور بعینہٖ انہی الفاظ میں یہ آیت سورۃ الصف کے وسط میں وارد ہوئی ہے. اسی طرح سورۃ الفتح کے آخری رکوع میں آیت ۲۸ کا مرکزی حصہ بھی انہی الفاظ پر مشتمل ہے‘ یعنی : ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ یہاں تک الفاظ بالکل وہی ہیں جو سورۃ التوبۃ اور سورۃ الصف میں وارد ہوئے ہیں‘ البتہ آیت کے آخری حصے میں یہاں وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾ کی بجائے وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ کے الفاظ لائے گئے ہیں.