اب آیئے سورۃ الجمعہ کی مرکزی آیت کی طرف جو نبی اکرمﷺ کے مقصد ِبعثت کے بنیادی طریق کار یا بالفاظِ دیگر انقلابِ محمدیؐ کے اساسی منہاج کو معین کر رہی ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ سورۃ الصف کی مرکزی آیت قرآن حکیم میں تین مرتبہ وارد ہوئی تھی تو یہ آیت ترتیب کے ذرا سے فرق کے ساتھ قرآن مجید میں چار مرتبہ وارد ہوئی ہے. اوّلاً یہ آیت سورۃ البقرۃ کے پندرہویں رکوع میں وارد ہوئی ہے ‘جہاں نقشہ کھینچا گیا ہے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا جبکہ وہ خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے: وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ اُس وقت جو دعائیں ان کی زبانوں پر تھیں ان میں ایک دعا تو یہ تھی کہ اے پروردگار! ہمیں اپنا فرمانبرداربنائے رکھ اور ہماری ذُرّیت اور اولاد میں سے ایک اُمت ِ مسلمہ برپاکیجیو! اور پھر ان کی آخری اور نہایت اہم دعا یہ نقل ہوئی کہ: رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ (آیت ۱۲۹)
’’اے ہمارے پروردگار! ان میں ایک رسول مبعوث کیجیو انہی میں سے جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے.‘‘
یہ ہے درحقیقت بعثت ِمحمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا.پھر تین رکوعوں کے بعد سورۃ البقرۃ ہی میں اٹھارہویں رکوع کے اختتام پر اعلان ہوتا ہے:
کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ... (آیت ۱۵۱) ’’جیسا کہ ہم نے بھیج دیا ہے تمہارے اندر ایک رسول تم ہی میں سے جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے…‘‘
اعلان کر دیا گیا کہ محمدﷺ کی بعثت دراصل اُسی دعاءِ ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا ظہور ہے.سورۂ آل عمران میں اس مضمون کی پھر تکرار ہوئی ہے:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ (آیت ۱۶۴) ’’اللہ نے احسان کیا ہے اہل ایمان پر کہ اس نے ان میں ایک رسول مبعوث کیا انہی میں کا‘ جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے.‘‘
ان تین مقامات کے بعد چوتھی باریہی مضمون یہاں سورۃ الجمعہ کی دوسری آیت میں‘ جو اس سورۂ مبارکہ کی مرکزی آیت ہے‘ وارد ہوا ہے. اور اس طرح ان دونوں سورتوں کے باہم مجتمع ہونے سے وہ حسین و جمیل جوڑا وجود میں آیا جو ایک طرف بعثت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مقصد کو معین کر رہا ہے اور دوسری طرف اس مقصد کے حصول کے لیے صحیح منہجِ عمل اور بنیادی طریق کار کو معین کر رہا ہے.
اب ہم ان سورتوں کے مطالعے کا آغاز کرتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں اپنے سابقہ معمول سے قدرے مختلف طریق کار اختیار کرنا ہے‘ اس لیے کہ ان سورتوں کا درس اگر اس نہج پر ہو کہ پہلے ایک ایک آیت پر توجہات کو مرتکز کیا جائے اور پھر ان میں شامل ایک ایک لفظ کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کی جائے تو اندیشہ ہے کہ یہ معاملہ بہت طول اختیار کر جائے گا. ان دونوں سورتوں کے درس میں یہ طریق ملحوظ رہے گا کہ اوّلاً ہر سورۃ کی مرکزی آیت کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا جائے تاکہ وہ اصل سرا یا ڈور ہاتھ میں آ جائے جس میں یہ موتی پروئے ہوئے ہیں. اس مرکزی آیت کو سمجھنے کے بعد پھر مختلف آیات کے ساتھ اس مرکزی مضمون کے ربط و تعلق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے‘ تاکہ بحیثیت ِمجموعی سورۃ کا اصل مفہوم واضح ہو جائے . اسی طریقے سے سورۃ الصف کا مطالعہ ہو گا اور اسی نہج پر‘ اِن شاء اللہ العزیز ‘سورۃ الجمعہ کامطالعہ ہو گا.