ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ 

سورۃ الصف کی یہ آیت‘ جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے‘ باعتبارِ مضمون اس سورۂ مبارکہ کی مرکزی آیت ہے. اسی سے اس سورۃ کا عمود معین ہوتا ہے. یہ بات بھی عرض کی جا چکی ہے کہ اس آیۂ مبارکہ کا بڑا اور مرکزی حصہ جوں کا توں قرآن مجید میں تین مقامات پر وارد ہوا ہے. اس تکرار اور اعادے سے دراصل اس مضمون کی اہمیت کی جانب راہنمائی ہوتی ہے. یقینا قرآن مجید میں بعض الفاظ یا مضامین کا بار بار آنا ان کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے. اس آیۂ مبارکہ کو امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’اِزَالَۃُ الْخِفَاءِ عَنْ خِلَافَۃِ الْخُلَفَاءِ‘‘ میں قرآن کریم کی اہم ترین آیات میں سے شمار کیا ہے.بلاشبہ نبی اکرم کے مقصد بعثت کے تعین میں اس آیۂ مبارکہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے. مولانا عبید اللہ سندھی نے اسے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کے لیے عنوان قرار دیا تھا. بعض حضرات نے یہ بات نقل کی ہے‘ اگرچہ میں خود اس کی تصدیق نہیں کر پایا‘ کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے اس آیۂ مبارکہ کو پورے قرآن مجید کے لیے بمنزلہ عمود قرار دیا ہے. اور اس میں تو ہرگز شک نہیں کہ سیرتِ محمدیؐ کو سمجھنے اور نبی اکرم کے کارنامہ حیات کا صحیح صحیح اندازہ کرنے کے لیے کہ آپؐ کی عملی جدوجہد کن کن مراحل سے ہو کر گزری‘ کہاں سے سفر شروع ہوا اور کہاں پر ختم ہوا‘ اس آیت کا سمجھنا ناگزیر ہے. اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ سیرتِ نبویؐ کو سمجھنے میں لوگوں نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں. نبی اکرم کو اگر صرف دوسرے انبیاء پر قیاس کیا جائے تو بہت سی چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں.