مستشرقین نے بالخصوص اس معاملے میں بڑا دھوکہ کھایا ہے . ان کے سامنے نبوت و رسالت کے آئیڈیل حضرت مسیح یا حضرت یحیی علیہما السلام ہیں اور ان کی زندگی میں کسی قتال یا جنگ کا سراغ نہیں ملتا. چنانچہ مغربی مفکرین اور مستشرقین کو جنگ و قتال کا معاملہ منصب ِ رسالت سے بڑا ہی متصادم نظر آتا ہے. وہ ان دونوں کو ایک دوسرے کی ضد سمجھتے ہیں. چنانچہ مشہور مؤرخ ٹائن بی کا یہ جملہ بہت مشہور ہے:

".Muhammad failed as a prophet but succeeded as a statesman" 

ان کے نزدیک نبی اکرم کی زندگی کا جو نقشہ مکی دَور میں سامنے آتا ہے صرف وہی نبوت و رسالت سے مطابقت رکھتا ہے‘ جبکہ وہاں سے آپؐ کو ہجرت کرنا پڑی. گویا ان کے خیال میں بحیثیت نبی اور رسول آپ ناکام ہو گئے. (معاذ اللہ). اس کے برعکس مدنی دَور میں جو نقشہ ان کے سامنے آتا ہے اس میں انہیں آنحضور ایک حکمران‘ ایک مدبر ‘ ایک سیاست دان اور ایک سپہ سالار کی حیثیت میں نظر آتے ہیں اور اس پہلو سے وہ دیکھتے ہیں کہ آپؐ کامیابی کی انتہاؤں کو چھورہے ہیں. اور واقعہ یہ ہے کہ کون اندھا ہو گا کہ جس کی نگاہیں آپؐ کی عظمت کے احساس سے جھک نہ جائیں کہ کامیابی گویا اپنے آخری اور تکمیلی درجے میں محمد کے قدم چومتی نظر آتی ہے. لیکن یہاں مغربی مؤرخین اور مستشرقین نے یہ گرہ لگا دی کہ یہ کامیابی بحیثیت ِمدبر (statesman) تھی‘ بحیثیت نبی نہیں تھی. اسی مغالطے کو پیدا کرنے کے لیے سرمنٹگمری واٹ نے سیرتِ نبویؐ پر جو کتاب لکھی اسے دو حصوں میں تقسیم کیا: ’’Mohammad at Mecca‘‘ اور ’’Mohammad at Madina‘‘اور اس طرح اس نے مکی اور مدنی دَور کے ظاہری تضاد کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے.

اگرچہ نبی اکرم کی تعریف میں اس نے کہیں بخل سے کام نہیں لیا‘ بلکہ اس نے نبی اکرم کو نسل آدم کے عظیم ترین افراد میں شمار کیا ہے. آپؐ کے تدبر‘ آپؐ کی فراست‘ آپؐ کی معاملہ فہمی‘ آپؐ کی پیش بینی‘ آپؐ کی دُور اندیشی‘ ان تمام اعتبارات سے اس نے آپؐ کی صلاحیتوں کا لوہا مانا ہے اور آپؐ کی تعریف میں آخری حد تک چلا گیا ہے. لیکن اس مٹھاس کے اندر اس نے بڑے لطیف پیرائے میں ایک زہر بھی شامل کر دیا ہے. وہ زہر یہی ہے کہ وہ لوگ یہ تصور دینا چاہتے ہیں کہ آپؐ کی یہ تمام کامیابیاں ایک سیاست دان اور ایک مدبر کی حیثیت سے تھیں‘ نبی کی حیثیت سے نہیں تھیں. یہ سارا مغالطہ اسی بنیاد پر ہے کہ ختم نبوت اور تکمیل رسالت کے لازمی اور منطقی تقاضے کو نہیں سمجھا گیا. اس اعتبار سے حقیقت یہ ہے کہ سیرتِ محمدیؐ کے صحیح فہم کے لیے یہ آیۂ کریمہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے.