’’اَلْھُدٰی‘‘ اور ’’دِیْنِ الْحَقِّ‘‘

اب آگے بڑھیے : بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ ’’الہدیٰ اور دین حق دے کر‘‘. حرفِ ’’ب‘‘ عربی میں کسی چیز کی معیت کے لیے استعمال ہوتا ہے. چنانچہ مفہوم یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے رسول محمد کودو چیزیں دے کر بھیجا ہے: (۱) الہدیٰ اور (۲) دین الحق. الہدیٰ سے مراد ہے ہدایت ِکاملہ‘ وہ کتابِ ہدایت کہ جس نے ہدایت کے تمام پہلوؤں کو اپنے اندر جمع کر لیا ہو‘ سمیٹ لیا ہو‘ سمو لیا ہو. اس کی تعیین کے ضمن میں اگر قرآن مجید ہی کی طرف رجوع کیا جائے تو صاف نظر آجائے گا کہ اس سے مراد خود قرآن ہے. اس لیے کہ اسی قرآن کے لیے سورۃ البقرۃ کے بالکل آغاز میں ’’ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں. اسی کو ’’ہُدًی لِّلنَّاسِ ‘‘ قرار دیا گیا ہے. اور یہی قرآن ہے جس کے بارے میں سورۂ بنی اسراء یل میں ارشاد ہوا: اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ 

یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ ... 
(آیت ۹’’درحقیقت یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے…‘‘ تو معلوم ہوا کہ ’’الہدیٰ ‘‘ سے مراد ہے قرآن حکیم.دوسری چیز جسے آپ کو دے کر بھیجا گیا ‘وہ’’ دین حق‘‘ ہے. یہاں ’’دین الحق‘‘ عربی نحو کے اعتبار سے مرکب اضافی کی صورت میں ہے. اس اعتبار سے اس کے معنی ہوں گے ’’حق کا دین‘‘ تاہم عربی میں بعض اوقات مرکب توصیفی مرکب اضافی کی شکل میں آ جاتا ہے. اس صورت میں اس کا ترجمہ ہو گا: حق دین یا سچا دین. ویسے ان دونوں صورتوں میں مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا‘اس لیے کہ اسے اگر حق کا دین قرار دیں تو بھی درست ہے‘ کیونکہ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر اللہ کو ’’الحَقّ ‘‘ کہا گیا ہے.جیسے : ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ (الحج:۶’’یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے‘‘. مجسم حق اور کامل حق صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے. گویا ’’حق کا دین‘‘ کے معنی ہوں گے اللہ کا دین. اور اگر اسے مرکب توصیفی مان کر ’’سچا دین‘‘ ترجمہ کیا جائے تو بھی بات وہیں جا پہنچے گی‘ اس لیے کہ سچا ترین دین تو اللہ ہی کا ہو سکتا ہے.

اب سوال یہ ہے کہ اللہ کے دین سے کیا مراد ہے؟ لفظ دین پر غور کیجیے! یہ لفظ اس سے پہلے سورۃ الفاتحہ کے درس میں 
’’مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ‘‘ کے ضمن میں زیر بحث آ چکا ہے. وہاں پر عرض کیا گیا تھا کہ اس لفظ کا بنیادی مفہوم ہے جزا و سزا اور بدلہ. مشہور مصرعہ ہے: ؏ دِنَّاھُمْ کَمَا دَانُوْا کہ جیسا انہوں نے ہمارے ساتھ معاملہ کیا تھا ویسا ہی ہم نے ان سے کر دیا.یعنی ہم نے ان کے عمل کا انہیں پور اپورا بدلہ دے دیا ہے. اسی طرح ایک معروف کہاوت ہے : کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ ’’جیسا کرو گے ویسا بھروگے‘‘ .عربی زبان میں ’’دَیْنٌ‘‘ کہتے ہیں قرض کو‘ کہ وہ لوٹ کر آتا ہے. جس طرح کسی عمل کی جزا عمل کرنے والے کی طرف لوٹ کر آتی ہے اسی طرح ’’دَیْن‘‘ (قرض) دینے والے کو واپس ملتا ہے.تو لفظ دِین کے اصل لغوی معنی بدلے اور جزا و سزاکے ہیں.لیکن قرآن مجید نے جب اس لفظ کو اس اصل لغوی اساس سے اٹھا کر اسے اپنی ایک اصطلاح بنایا تو اس میں ایک اضافی مفہوم شامل ہو گیا. چنانچہ قرآنی اصطلاح میں لفظ دین بالعموم قانون‘ ضابطہ اور شریعت کے معنوں میں آتا ہے‘ اس لیے کہ جزا و سزا کے ساتھ کسی نہ کسی قانون اور ضابطے کا تصور لازم و ملزوم ہے. پھر اس میں اضافی مفہوم پیدا ہو ا اطاعت کا.قرآن حکیم میں متعدد بار ’’ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں‘ یعنی ’’اطاعت کو اس(اللہ ہی) کے لیے خالص کرتے ہوئے‘‘.اس لیے کہ کسی قانون یا ضابطے کی اگر اطاعت کی جائے گی تو جزا ملے گی‘ اور اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو سزا ملے گی. اس سے بھی آگے بڑھ کر قرآن مجید نے جب اسے دِیۡنِ اللّٰہِ (النصر:۱کی مرکب شکل میں ایک گھمبیر اصطلاح کا درجہ دیا تو اس میں جو مفہوم پیدا ہوا اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے! کسی ہستی کو مطاعِ مطلق مان کر اس کے قانون کے تحت جو زندگی بسر کی جائے گی وہ زندگی گویا اس کے دین کے اندر رہتے ہوئے گزاری جا رہی ہے. یہ ہے دین کا گھمبیر‘ ہمہ گیر اور جامع تصور جسے قرآن مجید نے ایک بہت اہم اصطلاح کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے.

چنانچہ اس تناظر میں غور کیجیے کہ اگر کسی جگہ بادشاہت کا نظام قائم ہے‘ ایک فردِ واحد کو ہی حاکم ِ مطلق 
(sovereign) ہونے کی حیثیت حاصل ہے‘ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے تو یہ گویا کہ ’’ دِیۡنِ الۡمَلِکِ ‘‘ ہے. اس لیے کہ اس نظام میں بادشاہ مطاعِ مطلق ہے. یہ لفظ بعینہٖ اسی مفہوم میں سورۂ یوسف میں وارد ہوا ہے. حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کے ایک خاص واقعے کے ضمن میں ’’ دِیۡنِ الۡمَلِکِ ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں. یہ واقعہ لمبا ہے‘ مختصراً یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام جب مصر میں ایک بہت بڑے عہدے پر فائزہو چکے تھے اور ان کے بھائی قحط کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُن کے پاس غلہ حاصل کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے اپنے حقیقی بھائی بن یامین کو‘ جسے انہوں نے خاص طور پر فرمائش کر کے بلوایا تھا‘ اپنے پاس روکنا چاہا‘ لیکن چونکہ انہوں نے خود کو اپنے بھائیوں پر ظاہر نہیں کیا تھا ‘ بلکہ بھائی اس حقیقت سے بالکل بے خبر تھے کہ ان کا واسطہ جس ’’عزیز مصر‘‘ سے ہے وہ ان کا بھائی یوسف ہے‘ لہذا بن یامین کو اپنے پاس روکنے کا کوئی معقول سبب بظاہر سجھائی نہیں دیتا تھا‘ تب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص طریقہ سجھایا اور ایک خصوصی تدبیر کے ذریعے وہ اپنے بھائی کو روکنے میں کامیاب ہو گئے. سورۂ یوسف میں اس پورے واقعہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایاگیا: مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ ... (آیت ۷۶یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے اُس بادشاہی نظام کے اندر رہتے ہوئے (جس میں وہ خود ایک اہم عہدہ پر فائز تھے) یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے بھائی بن یامین کو روک سکتے. تو یہ بات واضح ہو گئی کہ کسی فردِ واحد کو مختارِ مطلق اور مطاعِ مطلق مان کر اس کے تحت جو اجتماعی نظام کسی جگہ پر قائم ہو گا اسے دِیۡنِ الۡمَلِک کہا جائے گا. اسی پر قیاس کرتے ہوئے آپ دورِ جدید کے مقبول ترین نظام یعنی جمہوریت کو‘ ’’دِیْنُ الْجَمْہُوْرِ‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں.اس لیے کہ اس نظام میں اصل حاکمیت جمہور کی ہے. ان کے نمائندے کثرتِ رائے سے جس چیز کو چاہیں جائز قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں ناجائزقرار دے دیں. یہ ایک مکمل نظام ہے‘ پورا دین ہے‘ جسے بجا طور پر دین جمہور قرار دیا جا سکتا ہے.

اس پس منظر میں غور کیجیے کہ ’’دین اللہ‘‘ اور ’’دین حق‘‘ کا مفہوم کیا ہوگا! وہ نظام جس میں اللہ ہی کو مطاعِ مطلق تسلیم کیا جائے‘ حاکمیت ِمطلقہ 
(sovereignty) صرف اسی کے لیے ہو . ؎ 

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی ‘ باقی بتانِ آزری!

اس اصول پر مبنی پورے نظامِ زندگی کا جو مکمل ڈھانچہ استوار ہو گا وہ کہلائے گا ’’دین اللہ‘‘. یہ ’’دین اللہ‘‘ یا ’’دین حق‘‘ ہے جو نبی اکرم کو دے کر مبعوث فرمایا گیا تھا. یہ وہ دوسری چیز ہے جو آپؐ کو عطا ہوئی تھی. ذہن نشین کر لیجیے کہ پہلی چیز جو آپؐ کو عطا ہوئی وہ ہے ’’الہدیٰ‘‘ یعنی قرآن حکیم اور دوسری شے جو دے کر آپؐ مبعوث فرمائے گئے اسے قرآن نے ’’ دِیۡنِ الۡحَقِّ ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے. یعنی عدل وقسط پر مبنی ایک مکمل نظامِ اجتماعی‘ ایک مکمل ضابطہ حیات‘ ایک کامل نظامِ اطاعت جس میں زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں ضابطہ و قانون موجود ہے.

یہاں ذہن میں ایک سوال یہ آ سکتا ہے کہ کیا قرآن میں کامل نظام نہیں ہے؟ 
’’الہدیٰ‘‘ کے بعد حرف ’’و‘‘ واوِ عطف ہے اور واوِ عطف مغائرت کا متقاضی ہے. پھر کیا’’دین الحق‘‘ قرآن سے کوئی جداشے ہے؟ تو واقعہ یہی ہے کہ صرف قرآن پر مبنی کوئی نظام نہیں ہو سکتا. قرآن میں صرف اصول دیے گئے ہیں اور زندگی کے ہر گوشے کے متعلق صرف حدود کو معین کر دیا گیا ہے. ایک مکمل نظام اگر بنتا ہے تو وہ قرآن پرسنت ِ رسولؐ کے اضافے سے بنتا ہے. اس خاکے کے اندر اگر رنگ بھرا جا سکتا ہے تو وہ سنت ِ رسولؐ کے اضافے سے بھرا جا سکتا ہے. ایک مکمل نظام کی تشکیل کتاب اور سنت دونوں کے مجموعے سے ہو گی. یہ بات اس سے پہلے بھی عرض کی گئی ہے کہ ہمارے ہاں پاکستان کی جو بھی کبھی کوئی دستوری دستاویز بنی ہے تو اس میں یہ الفاظ صحیح طور پر شامل ہوئے ہیں:

".No legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah" 

اس لیے کہ قرآن و سنت کے اجتماع ہی سے دین حق مکمل ہوتا ہے اور ایک پورا نظام تشکیل پاتا ہے.