اس کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’تاکہ وہ غالب کر دے اُس کو‘‘. اس میں جو ضمیریں وارد ہوئی ہیں ان کے بارے میں مفسرین کے ہاں ایک سے زائد آراء موجود ہیں. چنانچہ اس لفظ کا ہمیں تفصیلاً تجزیہ کرنا ہو گا. ایک ترجمہ اس کا یہ کیا گیا ہے :’’تاکہ اللہ غالب کر دے اس دین کو‘‘. اسی طرح یہ ترجمہ بھی کیا گیا ہے : ’’تاکہ اللہ غالب کر دے محمد(ﷺ ) کو‘‘. اور ایک ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے: ’’تاکہ محمدؐغالب کر دیں اس دین کو‘‘. ضمیر فاعلی اور ضمیرِ مفعولی کے مراد مختلف معین کرنے کی وجہ سے درحقیقت ترجموں میں یہ فرق واقع ہوا ہے.لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظی فرق کے باوجود اس کے اصل مفہوم اور معنی میں ہرگز کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. لفظ ’’اظہار‘‘ پر غور کیجیے. ظَھَرَ ‘ یَظْھَرُ کا مفہوم ہے کسی چیز کا ظاہر ہو جانا.اور اسی میں ایک مفہوم غالب ہو جانے کا بھی شامل ہے‘ اس لیے کہ کوئی چیز نمایاں اور ظاہر اُس وقت ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے ماحول پر غالب ہوتی ہے. اسی سے بابِ افعال میں مصدر بناہے ’’اِظہار‘‘ یعنی غالب کر دینا. اس کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ عربی زبان میں ظَھْر کہتے ہیں پیٹھ کو. کسی کی پیٹھ پر سوار ہو جانا اُس پر غالب ہونے کے مترادف ہے. تو اِظہار کا یہ مفہوم مسلم ہے.
لِیُظْہِرَہ ٗ کی ضمیرِ فاعلی کے بارے میں جو دو‘ رائیں ہیں ان پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان کا مدلول ایک ہی ہے. چنانچہ ’’غالب کرنے والا‘‘ خواہ اللہ کو قرار دیا جائے خواہ رسول اللہﷺ کوحقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. اس لیے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ فاعل حقیقی تو صرف اللہ ہی ہے. اگرچہ اس دنیا میں بظاہر ہم محنت و مشقت سے روزی کماتے ہیں ‘لیکن ہمارا رازق اللہ ہی ہے. انسان تو محض کاسب اعمال ہے‘ خالق اعمال صرف اللہ ہے. چنانچہ اس عمل ’’اظہار‘‘ کے کرنے والے عالم اسباب میں محمد ٌرسول اللہﷺ ہیں‘ اور عالم حقیقت میں اس کا فاعل اللہ ہے. لہذا مراد اور معنی کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے. جس طرح کہ سورۃ الانفال میں غزوۂ بدر کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا : فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ (آیت ۱۷) کہ اے مسلمانو! یہ ستر سردارانِ قریش جو تمہارے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے ہیں‘ انہیں تم نے قتل نہیں کیا‘ بلکہ درحقیقت اللہ نے انہیں قتل کیا ہے‘ اور اے نبی ؐ !وہ مٹھی بھر کنکرجو آپ نے لشکر کفار کی طرف پھینکے تھے تو وہ آپؐ نے نہیں پھینکے تھے‘ اللہ نے پھینکے تھے.معلوم ہوا کہ عالم واقعہ میں یا بالفاظِ دیگر عالم اسباب میں غلبہ دین کے لیے محنت‘ جدوجہد‘ سرفروشی اور جہاد و قتال کرتے نظر آتے ہیں محمدﷺ اور آپؐ کے جان نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین‘ لیکن حقیقت کی سطح پر فاعل حقیقی صرف اللہ ہے.
اسی طرح کا معاملہ لِیُظْہِرَہٗ میں شامل ضمیرمفعولی کا ہے. چنانچہ اس سے خواہ دین کو غالب کرنا مراد لیا جائے چاہے محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کو‘ مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہو گا. اس لیے کہ آنحضورﷺ کی جدوجہد کا مقصود ہرگز اپنی ذات کا غلبہ نہ تھا. یہ بھاگ دوڑ اور سعی و جہد اپنی یا اپنے خاندان کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہرگز نہ تھی. رسول اللہﷺ کا غلبہ درحقیقت اللہ کے دین کا غلبہ تھا. لہذا لفظی ترجمہ چاہے جو بھی کیا جائے اور ضمیروں کے مراجع کے بارے میں خواہ کوئی بھی رائے قائم کی جائے‘ مفہوم ایک ہی رہے گا.
اب تک اس آیہ مبارکہ میں جو کچھ مضمون آیا ہے اسے ذہن میں تازہ کر لیجیے . اللہ نے بھیجا اپنے رسولﷺ کو دو چیزیں دے کر: (۱) الہدیٰ اور (۲) دین حق. کیوں بھیجا؟ اس کا جواب درحقیقت اس لفظ لِیُظْہِرَہٗ میں بیان ہوا ہے.یعنی اس لیے بھیجا تاکہ اس دین حق کو غالب کر دے پورے نظامِ زندگی پر ( عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ).
لفظ ’’دین‘‘ کے ترجمہ میں بھی ہمارے ہاں کچھ اختلاف رہا ہے. بعض لوگوں نے ’’تمام اَدیان‘‘ ترجمہ کر دیا ہے‘ بعض نے ’’سب دین‘‘ ترجمہ کیا ہے‘ اسی طرح بعض لوگوں نے اس سے ’’کل دین‘‘ اور بعض نے ’’جنس دین‘‘ مراد لیا ہے. یہ مؤخر الذکر ترجمہ درحقیقت اصل مفہوم سے سب سے زیادہ قریب ہے. گویا اس کا اصل مفہوم اور معنی یہ ہو گا کہ یہ دین حق غالب ہو جائے پورے جنس دین پر. پورے نظامِ زندگی پراللہ کا نظام اس شان سے قائم ہو جائے کہ انسانی زندگی کا کوئی گوشہ اس سے مستثنیٰ نہ رہے. اللہ کا عطا کردہ نظامِ عدل و قسط زندگی پر بحیثیت ایک وحدت اور ایک ’’organic whole‘‘ کے نافذ و غالب ہو جائے. یہ ہے مقصد محمد ٌرسول اللہﷺ کی بعثت کا.