دین جب مغلوب ہوتا ہے تو ایک مذہب کی شکل اختیار کر لیتا ہے. اس صورت میں وہ دین نہیں رہتا‘ بلکہ مذہب بن جاتا ہے. بالکل اسی طرح جیسے کہ اسلام کے دَورِ عروج میں غالب نظام تو اسلام کا تھا ‘لیکن اس دین کے تابع یہودیت‘ مجوسیت اور نصرانیت مذاہب کی حیثیت سے برقرار تھے.انہیں یہ رعایت دی گئی تھی اور صاف الفاظ میں سنا دیا گیا تھا کہ اگر وہ اسلامی حدود کے اندر رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا ہو گا اور چھوٹے بن کر رہنا ہو گا. ازروئے الفاظِ قرآنی: ...یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ ﴿٪۲۹﴾ (التوبۃ) ’’… وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘. ملکی قانون (law of the land) اللہ کا ہو گا‘ غالب نظام اللہ کا ہو گا‘ اس کے تحت اپنے پرسنل لاء میں اور اپنی ذاتی زندگی میں محدود سطح پر وہ اگر اپنے مذاہب اور اپنے عقائد و رسوم کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہیں تو اس کی انہیں اجازت ہو گی.اسلام کے دَورِ زوال و انحطاط میں یہ صورت برعکس ہو گئی. یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس برعظیم میں دین انگریز کا تھا‘ law of the land اُس کا تھا. دین انگریز کے تحت اسلام نے سمٹ کر ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی تھی کہ نمازیں جیسے چاہو پڑھو‘ انگریز کو کوئی اعتراض نہ تھا‘ اذانیں بخوشی دیتے رہو‘ وراثت اور شادی بیاہ کے معاملات بھی اپنے اصول کے مطابق طے کر لو‘ لیکن ملکی قانون انگریز کی مرضی سے طے ہو گا. یہ معاملہ تاج ِبرطانیہ کی sovereignty کے تحت ہو گا‘ اس میں تم مداخلت نہیں کر سکتے! یہ تھا وہ تصور جس کے بارے میں اقبال نے بڑی خوبصورت پھبتی چست کی تھی : ؎

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

یعنی اسلام آزادکہاں ہے؟ وہ سمٹ سکڑ کر اور اپنی اصل حیثیت سے بہت نیچے اتر کر ایک مذہب کی شکل میں باقی ہے! اللہ اللہ اور خیر صلا!