دین ہے ہی وہ کہ جو غالب ہو. اگر مغلوب ہے تو وہ دین نہیں رہے گا‘ بلکہ ایک مذہب کی صورت میں سمٹ اور سکڑ جائے گا‘ اس کی اصل حیثیت مجروح ہو جائے گی. اس پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ نظام بھی اگر صرف نظری اعتبار سے پیش کیا جا رہا ہو‘ صرف کتابی شکل میں نسل انسانی کو دیا گیا ہو تو وہ ایک خیالی جنت (utopia) کی شکل تو اختیار کر سکتا ہے‘ لیکن حجت نہیں بن سکتا. نوعِ انسانی پر حجت وہ صرف اُس وقت بن سکتا ہے جب اسے قائم کر کے ‘ نافذ کر کے اور چلا کر دکھا دیا جائے. یہ ہے بعثت نبویؐ کی وہ امتیازی شان اور کٹھن ذمہ داری جو محمد ٌرسول اللہ پر عائد ہوئی کہ آپؐ جو دین حق دے کر بھیجے گئے ہیں اسے پورے نظامِ زندگی پر غالب و قائم اور نافذ و رائج فرما دیں. ایک حدیث مبارک میں اس حقیقت کو یوں تعبیر فرمایا گیا کہ: لِتَـکُوْنَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا (۱’’تاکہ اللہ کی بات ہی سب سے بلند ہو.‘‘ اس کی مرضی سب سے بالاتر ہو اور اس کا جھنڈا سب سے اونچا ہو جائے.

سورۃ المدثر میں اس اہم مضمون کو دوالفاظ میں سمو دیا گیا ہے: 
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ کہ اے لحاف میں لپٹ کر لیٹنے والے ( )! کھڑے ہو جاؤ‘ کمر بستہ ہو جاؤ‘ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے جدوجہد کا آغاز کرو! اور اس کا نقطہ ٔ آغاز کیا ہے؟ اِنذار. یعنی خبردار کرو ‘ اُن نیند کے ماتوں کو جگاؤ‘ جو بھول گئے ہیں اس حقیقت کو کہ اصل زندگی موت کے بعد ہے. وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب من سأل وھو قائم عالما جالسا. وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللہ. لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ (العنکبوت) ’’اور یقینا آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے‘ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا‘‘.یہ ہے نبی اکرم کے مشن کا نقطہ آغاز! اور اس کا ہدفِ مقصود اور اس کی غایت قصویٰ کیا ہے؟ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ ’’اور اپنے ربّ کو بڑا کرو!‘‘ تکبیر کے معنی صرف یہ نہیں کہ بڑائی کا اعلان یا اعتراف کرلیا جائے‘ زبان سے اللہ اکبر کہہ دیا جائے‘ بلکہ تکبیر سے مقصود یہ ہے کہ اس کی بڑائی نافذ ہو جائے‘ اس کی کبریائی کے اعتراف پر مبنی نظام بالفعل قائم ہو جائے‘ اسی کی بات سب سے اونچی اور اسی کا حکم سب سے بالاہو. یہ ہے تکبیر ربّ کا حقیقی مفہوم. علامہ اقبال نے بڑے خوبصورت انداز میں تکبیر ربّ کے اس انقلابی تصور کو شعر کا لبادہ اوڑھایا ہے : ؎

یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مسلک مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات 

اسی مضمون کو انہوں نے کسی قدر ظریفانہ انداز میں یوں بیان کیا: ؎ 

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اَذاں اور ‘ مجاہد کی اَذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور 

تکبیر ربّ کا کچھ یہی مفہوم حضرت مسیح علیہ السلام کے ان الفاظ میں بھی سامنے آتا ہے کہ’’اے ربّ! جیسے تیری مرضی آسمانوں پر پوری ہوتی ہے ویسے ہی زمین پر بھی پوری ہو.‘‘