’’اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری!‘‘

مہاتما گاندھی کے بارے میں غالباً جارج برنارڈ شا نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ:

" .He is a saint among politicians and a politician among saints"
اگرچہ ؏ ’’چہ نسبت خاک را با عالم ِ پاک‘‘ کے مصداق ان الفاظ کی یا ان جیسے الفاظ کی کوئی دُور کی نسبت بھی آنحضور کی ذاتِ گرامی سے نہیں ہو سکتی‘ تاہم واقعہ یہ ہے کہ سیرتِ نبویؐ کے فہم کے لیے اگر یوں تعبیر کیا جائے تو شاید بات غلط نہ ہو گی کہ :

".He was a revolutionary among prophets and a prophet among revolutionaries"
یعنی نبیوں اور رسولوں میں آپ کی امتیازی شان یہ ہے کہ آپؐ ایک عظیم انقلابی رہنما ہیں‘ اور انقلابی رہنماؤں میں آپؐ کی منفرد شان یہ ہے کہ آپؐ اللہ کے نبی اور رسول ہیں. آپ نے صرف دعوت و تبلیغ کا کام نہیں کیا‘ بلکہ اس دعوت کی بنیاد پر ایک انقلاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا. دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے سے کام کا آغاز کیا اورکل تیئیس(۲۳ )برس میں اس جدوجہد کو ایک نظام کے باقاعدہ قیام اور باضابطہ نفاذ کے تکمیلی مرحلے تک پہنچا دیا. اگرچہ یہ امر واقعہ ہے کہ اس جدوجہد میں آپؐ کو ان تمام مراحل سے گزرنا پڑا جو کسی بھی انقلابی جدوجہد میں آتے ہیں. زمین پر قدم بقدم چل کرنبی اکرم نے وہ مرحلے طے کیے.آپؐ کو فقر و فاقے کی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑی.شعب ِ بنی ہاشم میں تین سال کی قید کو ذہن میں لایئے کہ جس میں وہ وقت آیا کہ فقر و فاقے کی شدت سے بنی ہاشم کے دودھ پیتے بچے بلک رہے تھے اور ان کے کھانے کے لیے کوئی چیز میسر نہ تھی‘ سوائے اس کے کہ سوکھے چمڑوں کو اُبال کر اس کا پانی ان کے حلق میں ٹپکا دیا جائے. طائف میں آپ کو شدید پتھراؤ کا سامنا کرنا پڑا. مکے کی گلیوں میں آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے تھے. یہ منظر بھی چشم فلک نے دیکھا کہ آپ سربسجود ہیں اور ایک شقی انسان عقبہ بن ابی معیط ابوجہل کے کہنے سے اٹھتا ہے اور اونٹ کی نجاست بھری اوجھڑی لا کر شانۂ مبارک پر رکھ دیتا ہے. پھر غارِ ثور کا مرحلہ بھی آیا. 

میدانِ بدر کا وہ نقشہ بھی ذہن میں لایئے کہ اللہ کا رسولؐ ان دونوں لشکروں کے درمیان گھاس پھونس کی ایک جھونپڑی میں سربسجود ہے اور اللہ سے گڑگڑا کر نصرت کی درخواست کر رہا ہے. پھر اُحد کا سخت مرحلہ بھی آیا. آپؐ کے دندانِ مبارک شہید اور چہرۂ انور لہولہان ہو گیا ہے. آپؐ پر کچھ دیر کے لیے غشی طاری ہو جاتی ہے.

آپؐ کے انتہائی جاں نثار ساتھی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا لاشہ بے گورو کفن پڑا ہے کہ جسم پر موجود چادر اتنی چھوٹی تھی کہ اگر سر کو ڈھانپتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں کو ڈھانپتے تو سر کھل جاتا تھا.نبی اکرم کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو آپؐنے فرمایا کہ سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پاؤں پر گھاس ڈال دو.اسی میدانِ اُحد میں آپؐ کے انتہائی قریبی عزیز حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا اعضاء بریدہ لاشہ پڑا ہوا ہے. آپ کے قلب مبارک کی جو کیفیت ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچنے پر جب آپؐ نے دیکھا کہ گھر گھر سے رونے کی آوازیں آ رہی ہیں‘ شہداء پر اُن کی رشتہ دار خواتین بین کر رہی ہیں‘ تو آپ کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ آگئے : لٰــکِنَّ حَمْزَۃَ لَا بَوَاکِیَ لَــہٗ (۱’’ہائے حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والی بھی نہیں!‘‘یہ تمام صدمے نبی اکرم نے دیکھے اور یہ سب سختیاں جھیلی ہیں ‘ تب یہ انقلاب آیا ہے. گویا ؏ ’’اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری‘‘ کے مصداق اس عظیم انقلابی جدوجہد میں نبی اکرم کو اُن تمام مراحل اور مشکلات و موانع کا سامنا کرنا پڑا جو دنیا کی کسی بھی انقلابی جدوجہد میں پیش آتے ہیں. بہرکیف یہاں صرف اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ بعثت محمدیؐ کی یہی امتیازی شان ہمارے سامنے رہنی چاہیے جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی کہ : ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ یعنی پورے کے پورے دین (نظامِ اطاعت) پر اس دین حق کو غالب و قائم کردینا یہ ہے بعثت محمدیؐ ‘کی غرض و غایت!