یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ یہ چیز بعثت انبیاء کے اساسی مقصد سے جدا نہیں ہے. دیکھئے‘ بعثت ِ انبیاء کا اصل مقصد نوعِ انسانی پر اتمامِ حجت ہے. اور یہ اسی اتمامِ حجت کا تکمیلی مرحلہ ہے کہ انسان کو اجتماعی نظام کے ضمن میں رہنمائی کے لیے عدل و قسط پر مبنی نظام کا ایک مکمل نمونہ دکھا دیا جائے. صرف نظری سطح پر پیش کر دینے سے وہ حجت مکمل نہیں ہو گی‘ بلکہ اتمامِ حجت کے لیے ضروری ہو گا کہ اس نظام کو بالفعل قائم و نافذ کر کے اور عملاً چلا کر دکھا دیا جائے. اس معاملے کی اہمیت کا حوالہ رواں صدی کے دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے. جب ہندوستان میں پہلی بار مختلف صوبوں میں کانگریس کی حکومتیں بنی تھیں اُس وقت گاندھی نے اپنے کانگریسی ساتھیوں اور زعماء کے سامنے ایک عجیب بات کہی تھی ‘ اور وہ یہ کہ ’’میں اس موقع پر تمہارے سامنے حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) اور (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب ما جاء فی الجنائز‘ باب ما جاء فی البکاء علی المیت. حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کی مثال رکھتا ہوں‘ اس مثال کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو!‘‘غور کیجیے گاندھی نے یہ بات کیوں کہی! اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ اس عہد جدید کے انسان کو جس نوع کے اجتماعی نظام کی ضرورت ہے اس نظام کا ایک کامل نقشہ اور ایک مکمل ماڈل اگر درکار ہے تو اس کی نظیر تاریخ انسانی میں صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے دورِ خلافت راشدہ‘ یعنی وہ نظامِ عدلِ اجتماعی جو قائم فرمایا تھا محمد عربی نے.
ایک دوسرا واقعہ جو اس کے دوسرے رُخ پر روشنی ڈال رہا ہے‘ مولانا عبید اللہ سندھی کے حوالے سے ہے. اس واقعہ سے دین حق کے قیام و نفاذ کی اہمیت سامنے آتی ہے. مولانا عبیداللہ سندھی جب شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ علیہ کی ریشمی رومالوں کی تحریک کے سلسلے میں ہندوستان چھوڑ کر افغانستان گئے‘ اور جب افغانستان سے بھی گرفتاری کے خطرے کے پیش نظر سرحد عبور کر کے انہیں روس جانا پڑا تو اُس وقت بالشویک انقلاب ابھی نیا نیا آیا تھا.

انہوں نے محسوس کیا کہ اس موقع پر انقلاب کے مرکزی رہنماؤں کے سامنے اگر اسلام کا انقلابی پروگرام رکھا جائے تو کیا عجب کہ وہ اس کو قبول کر لیں‘ ابھی ان میں انقلابی جذبہ بھی ہے اور انقلاب کے نقطہ نظر سے فضا سازگار بھی ہے. چنانچہ اس اُمید پر انہوں نے لینن سے بات کرنا چاہی‘ لیکن لینن بستر مرگ پر تھا. اس نے کہلا بھیجا کہ ٹراٹسکی سے بات کیجیے‘ چنانچہ مولانا عبیداللہ سندھی کی ٹراٹسکی سے مفصل گفتگو ہوئی. گفتگو کے آخر میں اس نے پوچھا کہ مولانا! یہ نظام جو آپ پیش کر رہے ہیں بظاہر بہت عمدہ معلوم ہوتا ہے‘ لیکن کیا آپ نے دنیا میں کہیں اسے قائم بھی کیا ہے؟ مولانا عبیداللہ سندھی کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری نگاہیں زمین میں گڑی کی گڑی رہ گئیں‘ دوبارہ میں اس سے آنکھیں چار نہیں کر سکا. سیدھی سی بات ہے کہ کوئی نظام حجت تب بنتا ہے جب اسے چلا کر دکھادیا جائے. نبی اکرم نے اس اتمامِ حجت کو اپنے تکمیلی درجے تک پہنچا دیا. آپؐ نے جہاں نظری‘ فکری اور اعتقادی ہدایت دی‘ انسان کی سوچ کو صحیح رُخ پر ڈالا‘ جہاں آپؐ نے انفرادی اخلاق کے ضمن میں انسان کی سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے ایک مکمل ہدایت نامہ عطا فرمایا‘ خود اپنی سیرت و کردار اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار کو اس رُخ پر ڈھال کر انفرادی اخلاق کے ضمن میں ہمیشہ ہمیش کے لیے نوعِ انسانی پر حجت تمام کی‘ وہاں آپؐ نے ایک جاں گسل جدوجہد کے ذریعے تیئیس سالہ محنت ِ شاقہ کے نتیجے میں اس نظامِ عدل وقسط کو عملاً برپا کر دیا جس میں انفرادی آزادی بھی ہے‘ لیکن اجتماعیت کے حقوق بھی پورے طور پر محفوظ ہیں‘ جس میں مساواتِ انسانی بھی ہے‘ لیکن وہ انفرادی آزادی کی قیمت (cost) پر نہیں کہ مساوات تو ہو لیکن انسان شخصی آزادی سے یکسر محروم کر دیا جائے‘ بلکہ یہ دونوں اعلیٰ اقدار اس نظام میں بیک وقت موجود ہیں . حقیقت تو یہ ہے کہ انسان جس اعلیٰ قدر کا تصور کرے گا اسے وہ اس نظام میں موجود پائے گا. علامہ اقبال نے اس حقیقت کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے : ؎

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آنکہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفےٰ ؐ او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفےٰ ؐ ست 

یہ ہے اصل کارنامہ حیاتِ محمد رسول اللہ کا جس کو سمجھنے کے لیے رسول اللہ کے مقصدِ بعثت کی اس امتیازی شان کا فہم ضروری ہے جو اس آیۂ مبارکہ میں وارد ہوئی:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ