یہاں ایک بات اور سمجھ لینی چاہیے اور اس کا تعلق ہمارے اس منتخب نصاب میں شرک کی بحث سے جڑ جاتا ہے. شرک کے بارے میں یہ خیال بڑا عامیانہ اور سطحی سا ہے کہ اس کا تعلق محض مخصوص مذہبی امور کے ساتھ ہے. واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں تاریخ نسل انسانی کے دوران ہر دَور میں اور ہر خطہ زمین میں شرک کے دو نظام ہمیشہ قائم رہے ہیں‘ ایک مذہبی شرک اور دوسرا سیاسی شرک. انہی دو ‘راستوں سے درحقیقت نوعِ انسانی کا استحصال ہوتاچلا آیا ہے. مذہبی شرک کی شکل تو یہ ہے کہ کوئی پنڈت‘ کوئی پروہت‘ کوئی پادری‘ کوئی پجاری یا کوئی پیر کسی آستانے کا مجاور بن کر یا کسی بت کدے کا پروہت یا پجاری بن کر لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوتا ہے اور مذہب کے نام پر عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی میں سے نذرانے اور چڑھاوے وصول کرتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشی استحصال (economic exploitation) کی انتہائی مکروہ صورت ہے. بقولِ اقبال ؏ 

مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج!

دوسری جانب بادشاہت کے نظام کی صورت میں سیاسی شرک کا نظام تاریخ انسانی کے ہر دَور میں قائم رہا ہے. چنانچہ تاریخ کے اَوراق پر نظر دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ کہیں یورپ میں بادشاہوں کے خدائی اختیارات 
(Divine Rights of Kings) کا راگ الاپا جا رہا ہے اور کہیں ہندوستان میں سورج بنسی اور چندربنسی خاندانوں کی حکمرانی کا سلسلہ رواں ہے. یہ بادشاہ اور ملوک اپنے اقتدار و اختیار کے بل پر عوام سے خراج اور نذرانے وصول کرتے تھے. اس طرح انسانی تاریخ میں یہ دونوں مشرکانہ نظام ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے سے تعاون کرتے نظر آتے ہیں. اِدھر مذہبی طبقات کی طرف سے بادشاہِ وقت کو ’’His Holiness‘‘ کا خطاب مل رہا ہے تو اُدھر سے انہیں ’’Defenders of the Faith‘‘ کے خطاب سے نوازا جا رہا ہے. گویا ؏ ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا ملابگو!‘‘یہ مذہبی شرک اور سیاسی شرک کے دو نظام جو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایک دوسرے کے متوازی چلتے رہے اور جنہوں نے انسانوں کی گردنوں پر اپنی خدائی کا جوا ڈالے رکھا‘ ظاہر بات ہے وہ کبھی گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ یہ سارا تانا بانا ٹوٹ کر رہ جائے اور یہ سارے مفادات آنِ واحد میں ختم ہو جائیں. علامہ اقبال نے اسی پس منظر میں کہا تھا : ؎

میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو!
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو!

اسلام ہے وہ نظام جو اِن درمیانی واسطوں کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے‘ جو یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ جہاں چاہواور جب چاہو خدا سے ہم کلام ہو جاؤ:

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾ (البقرۃ) 

’’اور (اے نبیؐ !) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (انہیں بتا دیں کہ) میں قریب ہی ہوں‘ میں ہر پکارنے والے کی پکار (کو سنتا اور اس) کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے‘ تو چاہیے کہ وہ بھی میرا کہا مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں‘ تاکہ رشد و کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں.‘‘

وہ انسان پر سے انسان کی خدائی کا نام ونشان مٹانا چاہتا ہے . ؏ ’’تمیز بندہ و آقا فسادِ 
آدمیت ہے‘‘. یہاں کوئی کسی کا آقا نہیں اور کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا بندہ نہیں. رسول اللہ کا ارشاد ہے : کُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ اِخْوَانًا (۱’’سب اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ‘‘. تمہارے مابین قوم‘ نسل اور رنگت کے اعتبار سے کوئی اونچ نیچ نہیں ہے‘ کوئی تفریق نہیں ہے. یہ ہے وہ انقلابی پیغام جو محمد رسول اللہ لے کر آئے. ان اصولوں پر مبنی نظام کا قیام ظاہر بات ہے کہ اس مشرکانہ اور باطل نظام کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے‘ جہاں اس نظام سے لوگوں کے مفادات وابستہ ہوں. اس لیے فرمایا: وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ کہ مشرکین کی طرف سے تو مخالفت ہو کر رہے گی . وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ نظامِ عدل و قسط دنیا میں قائم اور برپا ہو جائے‘ انسانوں کی گردنوں پر سے دو طرفہ غلامی کے جوئے اٹھا دیے جائیں‘ اور ان کی گردنوں میں سے وہ طوق اتار دیے جائیں جن کے بوجھ تلے نوعِ انسانی ہمیشہ دبی اور سسکتی رہی ہے. سورۃ الاعراف میں رسول اللہ کی یہ شان ان الفاظ میں بیان ہوئی : وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ