چوتھی آیت میں یہ مضمون اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گیا. فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ 
’’اللہ کو تو محبت اُن سے ہے (۱جو جنگ کرتے ہیں اس کی راہ میں صفیں باندھ کر‘ ایسے گویا کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں.‘‘

یہاں جہاد فی سبیل اللہ کے بلند ترین مقام یعنی قتال فی سبیل اللہ کا ذکر ہے. جہادایک وسیع اصطلاح ہے. دین کے لیے جدوجہد‘ محنت‘ کوشش اور دعوت وتبلیغ‘ سب جہاد ہی کی صورتیں ہیں. اسی طرح دین کی نشر واشاعت کے لیے محنت کرنا‘ لوگوں سے گفتگو کر کے انہیں ہم خیال بنانے کی ہر ممکن صورت کا اختیار کرنا‘ پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کریں انہیں منظم کرنا اور ان کی مناسب تربیت کا اہتمام کرنا‘ یہ تمام کام جہاد فی سبیل اللہ میں شامل ہیں‘ لیکن اس تصادم اور کشمکش کا آخری مرحلہ اور اس کا نقطہ عروج ہے قتال فی سبیل اللہ! یہاں اس کا ذکر کیا گیا ‘تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ راستہ جا کدھر رہا ہے! جہاد فی سبیل اللہ کے جس راستے پر تم نے قدم دھرے ہیں اس کی آخری منزل کون سی ہے! چنانچہ فرمایا: 
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا (۱) غالباً علامہ اقبال نے اپنے اس شعر کا اسلوبِ بیان اسی آیت مبارکہ سے اخذ کیا تھا کہ ؎

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند! 
کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ قدم اس طرح سے جمے ہوئے ہوں اور صف بندی ایسی مضبوط ہو کہ جیسے کوئی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو کہ نہ اسے اپنی جگہ سے ہٹایا جا سکے‘ نہ اس میں کہیں کوئی رخنہ پیدا کیا جاسکے.