اس آیۂ مبارکہ پر پہلے تو اس اعتبار سے غور کیجیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی اُمت کے ہاتھوں کس نوعیت کے دکھ سہنے پڑے ہوں گے! یقینا کوئی نہ کوئی ذاتی اذیت بھی آپؑ کو پہنچائی گئی ہو گی‘ جیسے کہ خود نبی اکرمﷺ کو اُن لوگوں کی زبان سے جو بظاہر کلمہ گو لیکن حقیقت کے اعتبار سے منافق تھے‘ انتہائی اذیت پہنچتی رہی‘ یہاں تک کہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاپر تہمت لگی. ہم تصور نہیں کر سکتے کہ محمدٌ رسول اللہﷺ کو اِس واقعہ سے کتنی کوفت اور کتنی ذہنی و قلبی اذیت پہنچی ہو گی. تو جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نوع کی کچھ اذیتیں بھی یہود کے ہاتھوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہنچی ہوں تو یہ کوئی بعید از قیاس نہیں ہے‘ لیکن ’’اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا‘‘ کے اصول کے تحت تلاش کیجیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قوم کے ہاتھوں اصل اذیت کب پہنچی تھی‘ تو آپ کو سورۃ المائدۃ میں اس کی تفصیل ملے گی کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی کے پھندوں سے نجات دلا کر لائے اور صحرائے سینا میں پڑاؤ کیا جہاں انہیں ’’تورات‘‘ عطا کی گئی‘ تو بالآخر جہا دو قتال کا مرحلہ سامنے آیا. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو حکم دیا کہ اب اس ارضِ مقدس یعنی فلسطین میں داخل ہو جاؤ‘ قتال فی سبیل اللہ کے لیے کمر ہمت کس لو تو قوم نے صاف جواب دے دیا: فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ ’’(اے موسیٰ!) پس جاؤ تم اور تمہارا ربّ‘ تم دونوں قتال کرو‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں!‘‘ ہم اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار نہیں ہیں.
اس پر رنج و صدمے کی جو کیفیت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر طاری ہوئی اس کا نقشہ قرآن مجید نے کھینچا ہے. حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے حد درجہ مایوسی اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں: قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾ ’’اے میرے پروردگار! مجھے خود اپنی اوراپنے بھائی کی جان کے سوا کسی پر کوئی اختیار حاصل نہیں‘پس تو اب ہمارے اور فاسقوں کی اس قوم کے درمیان تفریق کر دے‘‘. (میں ان کے ساتھ مزید رہنے کے لیے تیار نہیں). یہ گویا وہ سب سے بڑی اذیت تھی جو اپنی اُمت کے ہاتھوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جھیلنی پڑی.