اگلی آیت میں بنی اسرائیل کی تاریخ کی ایک جھلک دکھائی جا رہی ہے. یہ قوم اپنی اس کج روی میں اس حد تک بڑھ گئی کہ جب سلسلۂ بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء اور آخر الرسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو آپؑ کے ساتھ بھی ان کا طرزِ عمل انتہائی معاندانہ رہا.فرمایا گیا:

وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۶﴾ 

’’اور جب کہا عیسیٰ ابن مریم نے کہ اے اولادِ یعقوب! میں تمہاری طرف اللہ کا فرستادہ ہوں‘ میں تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں اس کی جو میرے سامنے موجود ہے تورات میں سے اور بشارت دیتے ہوئے آیا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام ہے احمد(مجتبیٰ ). پھر جب وہ ان کے پاس صریح نشانیوں کے ساتھ آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے.‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے پاس ایسی کھلی کھلی نشانیاں اور معجزات لے کر آئے تھے جو پہلے کسی کو نہ دیے گئے تھے. حسی معجزات میں مردوں کو زندہ کر دینے اور مٹی سے پرندوں کی تخلیق سے بڑھ کر کسی معجزے کا تصور نہیں کیا جا سکتا‘لیکن علمائے یہوداوران کے بڑے بڑے اصحابِ علم و فضل کی گراوٹ‘ ان کی پستی اور حق سے ان کے بعد کاعالم یہ ہو گیا کہ ایسے صریح معجزے دیکھ کر بھی ان بدبختوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے‘ اور چونکہ جادو کفر ہے‘ لہذا یہ مرتد ہے‘ اور واجب القتل ہے. تو بنی اسرائیل نے اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے ساتھ یہ طرزِ عمل اختیار کیا. یہ گویا تاریخ ِ بنی اسرائیل کا دوسرادَور ہے.

اس آیۂ مبارکہ میں بھی ایک مضمون ‘جو اِس سورۃ کے سلسلۂ کلام کی نسبت سے تو اگرچہ ضمنی کہلائے گا لیکن اپنی جگہ پر بہت اہم ہے‘ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ایک عجیب شان کی حامل ہے. وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے‘ بلکہ شریعت موسوی ہی کی تجدید کے لیے آئے تھے. متی کی انجیل میں 
’’Sermon of the Mount‘‘ 
میں ان کا یہ جملہ موجود ہے: 

".Don't think I have come to destroy law"
یعنی ’’کبھی یہ نہ سمجھنا کہ میں شریعت کو ختم کرنے آیا ہوں‘‘. آپؑ شریعت کو ختم کرنے 
کے لیے نہیں‘ بلکہ شریعت کو قائم کرنے کے لیے آئے تھے. ان کی ایک حیثیت ہے شریعت موسوی کے مجدد کی اور ایک حیثیت ہے محمدرسول اللہ کے پیشرو اور آپؐ کے بارے میں بشارت و خوشخبری دینے والے کی. چنانچہ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ کے الفاظِ مبارکہ میں بعثت ِ عیسوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے دو پہلو بھی بیان ہو گئے.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل کی جو رَوش رہی اس کو واضح کرنے کے بعدفرمایا:

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُوَ یُدۡعٰۤی اِلَی الۡاِسۡلَامِ ؕ 
’’اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ تراشے‘ جبکہ اسے اسلام کی طرف پکارا جا رہا ہو.‘‘

یہ آیت کچھ برزخی مزاج کی ہے. اس کا تعلق آیۂ ماسبق سے بھی جڑ جاتا ہے اورآیۂ مابعد سے بھی. اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دَور میں یہود کے طرزِ عمل کی طرف اشارہ بھی موجود ہے اور بعثت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بعد محمد رسول اللہ کے ساتھ جو اُن کا سلوک رہا‘ وہ بھی اس کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے. فرمایا گیا کہ ان سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کریں‘ جبکہ انہیں اسلام کی طرف پکارا جا رہا ہو‘ اسلام کی دعوت دی جا رہی ہو ! حضرت مسیح علیہ السلام بھی دعوتِ اسلام‘لے کر آئے تھے اور محمدرسول اللہ بھی دعوتِ اسلام لے کر آئے. آیت کے آخر میں فرمایا: 

وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۷
’’اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

ربط کلام کو ذہن میں رکھ کر غور کیجیے کہ قول اور فعل کے تضاد سے کوئی اُمت مسلمہ پستی کی کس حد تک پہنچ سکتی ہے! اس کے لیے ایک نشانِ عبرت کے طور پر تاریخ 
بنی اسرائیل کے یہ اَدوار سامنے لا ئے جا رہے ہیں.