اس کے بعد اب وہ آیت آ رہی ہے جس کا اس درس کے آغاز میں حوالہ دیا گیا تھا. جب اللہ کا اٹل فیصلہ یہ ہے تو اب ا س کے لیے اہل ایمان کو جان اور مال کھپانا ہے. چنانچہ یہاں اہل ایمان کو اس کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے. کسی کو کسی کام پر آمادہ کرنے کے دو اندا ز ہوتے ہیں. ایک ترغیب و تشویق کا انداز ہے کہ یہ کرو گے تو یہ اجر ملے گا‘ یہ بدلہ ملے گا‘ یوں شاباش ملے گی‘ اس طرح تمہاری خدمات کا اعتراف کیا جائے گا‘ تمہیں ان خلعتوں سے نوازا جائے گا‘ اور دوسرا انداز یہ کہ اگر نہ کروگے تو یہ سزا ملے گی. ان میں سے پہلا تشویق کا انداز ہے اور دوسرے کے اندر دھمکی اور وعید کاپہلو ہے. اس لیے پہلے کو ’’ ترغیب‘‘ اور دوسرے کو ’’ ترہیب‘‘ کہا جاتا ہے. اس سورۂ مبارکہ کے عین مرکز میں بعثت محمدی ؐ کا مقصد معین ہوا ہے. اس کے لیے یہاں اہل ایمان کو جہاد کی دعوت دی جا رہی ہے اور اس کے لیے ترغیب اور ترہیب کے دونوں انداز اختیار کیے جا رہے ہیں. اس سورۂ مبارکہ کا پہلا رکوع بھی ترہیب پر مشتمل تھا کہ اگر دین کے تقاضوں پر عمل پیرا نہ ہو گے تو قول و عمل کے تضاد کے مرتکب گردانے جاؤ گے‘ اللہ تمہارے طرزِ عمل سے بیزار ہو گا اور تم اس کے غضب کے مستحق ٹھہرو گے‘ اور اس طرح تم گویا یہود کے نقش ِ قدم کی پیروی کرو گے جنہوں نے یہ طرزِ عمل اختیار کیا اور وہ اس مقام اور منصب سے معزول کر دیے گئے جہاں آج تمہارا تقرر عمل میں لایا گیا ہے.
دوسرے رکوع میں ترغیب کا انداز غالب ہے‘ اگرچہ اس کی ابتدا بھی ترہیب سے کی گئی ہے. ارشاد ہوتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾
’’اے اہل ایمان! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں (آخرت کے) دردناک عذاب سے چھٹکارا دے دے؟‘‘
گویا یہاں یہ بات خود بخود عیاں (implied) ہے کہ اگر تم یہ نہ کرو گے تو چھٹکارا پانے کی کوئی اُمید نہیں. اگر تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ محض یہ کہنے سے کہ ’’ہم ایمان لے آئے‘‘ چھٹکارا ہوجائے گا ‘تو یہ اُمید موہوم ہے‘ خیالِ خام ہے.جیسے سورۃ العنکبوت کے بالکل شروع میں الفاظ آئے ہیں:
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾
’’ا‘ ل‘ م. کیا لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے‘ اور انہیں آزمایا نہ جائے گا؟‘‘
انہیں پرکھا نہ جائے گا‘ ان کی آزمائش نہ کی جائے گی‘ انہیں جانچا نہ جائے گا‘ انہیں امتحانوں کی بھٹیوں میں ڈالا نہ جائے گا؟ وہی بات یہاں فرمائی جا رہی ہے کہ اگر کسی نے یہ سمجھا تھا کہ محض یہ کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے‘ چھٹکارا ہو جائے گا تو یہ خیالِ خام ہے. اگر عذابِ الیم سے چھٹکارا پانا چاہتے ہو تو ایک کاروبار کرنا پڑے گا‘ ایک مشقت جھیلنی پڑے گی‘ ایک محنت کرنی ہو گی.اور وہ یہ کہ :
تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ
’’ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر‘ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے.‘‘
ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾
’’یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو.‘‘
اگر تم واقعی علم رکھتے ہو ‘اگر ہوش مند ہو‘ باشعور ہو‘ نفع اور نقصان کا صحیح فہم تمہیں حاصل ہے توجان لو کہ یہی بہتر ہے. اپنی جان کا اللہ کی راہ میں دے دینا درحقیقت اس جان کو ہمیشہ کے لیے جاوداں بنا لینا ہے. جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا: وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾ ’’اور جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیے گئے ہیں انہیں مردہ مت کہو‘ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (اُن کی زندگی کا) شعور نہیں ہے‘‘. اسی طرح اگرچہ بظاہر مال سے محبت ہے‘ اور اس کو جمع کر کے سینت سینت کر رکھنے کی طرف طبیعت کا میلان ہے‘ لیکن اگر تم حقیقت شناس اور حقیقت بین ہو تو جان لو کہ اللہ کے راستے میں‘ اس کے دین کی سربلندی کے لیے اس کا کھپا دینا اور لگا دینا ہی بہتر ہے.